متفرق مضامین

ڈائری مکرم عابد خان صاحب سے ایک انتخاب

(مترجم:’ابوسلطان‘، معاونت: مظفرہ ثروت)

ایک بابرکت ہدایت

حضورِانور کا سارا دن ملاقاتوں اور میٹنگز کی مصروفیت میں گزرا۔ سینکڑوں احمدی احباب Dallasکی مسجد کے احاطہ میں محض حضورِانور کی قربت کی خواہش میں موجود رہے۔

ایسے ہی ایک دوست ڈاکٹر عامر ملک صاحب تھے جو حال ہی میں Houstonسے Dallas شفٹ ہوئے تھے۔ قبل ازیں خاکسار ڈاکٹر عامر ملک صاحب سے Houstonمیں مل چکا تھا جہاں آپ کا معیارِ زندگی بہت اچھا تھا اس لیے میں نے ان سے Dallas شفٹ ہونے کی وجہ پوچھی تو انہوں نے مجھے بتایا کہ ۲۰۲۱ء کی گرمیوں میں انہیں Dallasمیں ایک نوکری کی پیشکش ہوئی تھی مگر وہ یہاں شفٹ ہونے کے حوالے سے متذبذب تھے۔چنانچہ انہوں نے دفتر پرائیویٹ سیکرٹری میں رابطہ کیا اور حضورِانور سے بات کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تاکہ وہ حضورِانور سے راہنمائی حاصل کر سکیں۔

جواباً انہیں بتایا گیا کہ حضورِانور کی مصروفیات کے سبب جلسہ سالانہ یو کے کے دنوں میں فون پر بات کرنا ممکن نہ ہو سکے گا۔ اس پر ڈاکٹر عامر ملک صاحب نے ازخود فیصلہ کر کے Dallasمیں نوکری کی پیشکش قبول کر لی۔ جلسہ سالانہ یو کے، کے چند روز بعد انہیں غیر متوقع طور پر دفتر پرائیویٹ سیکرٹری سے منیر جاوید صاحب کی کال موصول ہوئی جنہوں نے بتایا کہ اس دن کسی بھی وقت حضورِانور ان سے فون پر بات کریں گے۔

حضورِانور سے بات کرنے کا موقع ملنے پر ڈاکٹر عامر ملک صاحب نے اپنے خیالات کا اظہار یوں کیا کہ ’’اگرچہ تب مَیں زبانی طور پر اس نوکری کی پیشکش قبول کر چکا تھا، لیکن میں نے خود سے کہا تھا کہ اگر حضورِانور نے فرمایا کہ میں یہ نوکری چھوڑ دوں تو میں چھوڑ دوں گا۔ مَیں نے ارادہ کیا کہ میں ایک غلطی کو دوسری مرتبہ نہیں دہراؤں گا۔ تاہم جب اگلے دن میری حضورِانور سے بات ہوئی تو آپ نے دعاؤں سے نوازا کہ یہ نئی نوکری میرے لیے اور میری فیملی کے لیے نہایت بابرکت ثابت ہو۔‘‘

تجسس کے باعث خاکسار نے ڈاکٹر عامر ملک صاحب سے پوچھا کہ ایک غلطی کو دوسری مرتبہ نہ دہرانے سے ان کا کیا مطلب تھا۔ انہوں نے بتایا کہ ۲۰۰۸ء میں انہیں Oklahomaمیں ایک شاندار اور مراعات سے پُر نوکری کی پیشکش ہوئی تھی جبکہ Houstonمیں نسبتاً کم آمدنی کی نوکری کی پیشکش تھی۔اس کی تفصیل بتاتے ہوئے ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ’’اس سال حضورِانور کے دورہ امریکہ کے دوران مجھے ملاقات کی سعادت نصیب ہوئی اور میں نے دونوں نوکریوں کی تفصیل حضورِانور کی خدمت میں پیش کی۔ میرا خیال تھا کہ میں Houstonوالی نوکری کا شروع میں مختصر ذکر کروں اور Oklahomaکی شاندار نوکری کی ساری تفصیلات بعد میں بتاؤں کیونکہ میری خواہش تھی کہ یہی نوکری قبول کر لوں۔

تاہم جونہی میں نے Houston والی نوکری کا ذکر کیا توقبل اس کے کہ میں کچھ اَور کہتا حضورِانور نے فرمایا کہ اس نوکری کی پیشکش کو قبول کر لو۔ مجھے Oklahomaوالی نوکری کے بارے میں بتانے کا موقع ہی نہیں ملا تو جب میں ملاقات کر کےباہر آیا تو الجھن کا شکار تھا اور اگر دیانتداری سے بتاؤں تو کچھ مایوس بھی تھا۔‘‘

ڈاکٹر عامر ملک صاحب نے بتایا کہ ’’میں نے Houstonکی جاب کی پیشکش قبول کرلی اور اب کئی سالوں کے بعد مجھے اندازہ ہوا ہے کہ کس طرح وہ فیصلہ میری فیملی کے لیے بہترین فیصلہ تھا اور کیسے حضور انورکی ہدایات میں گہری حکمت تھی۔

اس وقت میرے بچے چھوٹے تھے اور دوسروں کا اثر بہت جلد قبول کرنے کی عمر میں تھے اور Houston میں جماعت سے ان کا اچھا تعلق بنا کیونکہ وہاں بہت سے احمدی رہائش پذیر تھے اور وہاں جماعت کی ایک مسجد بھی تھی۔Oklahomaمیں ان کی تربیت کرنا اور ان کو دین کے قریب رکھنا بہت مشکل ہو جاتا۔‘‘

مکرم ڈاکٹر عامر ملک صاحب نے مزید بتایا کہ ’’اس طرح اگرچہ ہمیں بہت فراخی نصیب ہوئی لیکن اتنی نہیں جو شاید Oklahoma شفٹ ہونے کی صورت میں میسر آجاتی۔میرے چند ڈاکٹر دوست جو وہاں فیملی کے ساتھ شفٹ ہوئے وہ بس دنیا داری میں ہی غرق ہو کر رہ گئے۔اس لیے اگرچہ ابتدا میں، مَیں کچھ فکر مند تھا مگر اب میں اپنی خوش قسمتی پر نازاں ہوں کہ کیسے خلافت کی بابرکت راہنمائی حاصل ہو ئی۔اس لیے جب مَیں نے کہا تھا کہ پہلے والی غلطی دوبارہ نہیں دہراؤں گا تو اس سے میری یہی مراد تھی کہ جو بھی حضورِانور ہدایت فرمائیں گے میں اس کو پورے شرح صدر سے قبول کروں گا۔‘‘

اس دن ڈاکٹر عامر ملک صاحب انتہائی خوش قسمت تھے کیونکہ مغرب اور عشاء کی نمازوں کے لیے مسجد میں داخل ہونے سے قبل حضورِانور نے کچھ دیر توقّف فرمایا اور چند احباب جماعت سے گفتگو فرمائی، جن میں ڈاکٹر عامر ملک صاحب بھی شامل تھے۔حضورِانور نے Dallasکے موسم کے بارے میں استفسار کرتے ہوئےفرمایا کہ کیا یہاں کا موسم کبھی شدید صورت بھی اختیار کر لیتا ہے؟

اس پر ڈاکٹر عامر ملک صاحب نے بتایا کہ بسا اوقات یہاں شدید طوفان (tornadoes)آتے ہیں جبکہ Houston، سمندری طوفانوں (hurricanes)کے لیے جانا جاتا ہے۔ اس پر حضورِانور نے تبسم فرماتے ہوئے فرمایا:’’تو آپ سمندری طوفانوں (hurricanes) کو پیچھے چھوڑ کر اب طوفانوں (tornadoes) کی طرف منتقل ہو گئے ہیں۔‘‘

یہ اس چیز کی ایک خوبصورت مثال تھی کہ حضورِانور میں یہ منفرد صلاحیت ہے کہ کئی احمدیوں کے ذاتی حالات آپ کو مستحضر رہتے ہیں اور احبابِ جماعت سے ایک ذاتی تعلق قائم رکھتے ہیں۔

احمدیوں کے جذبات

وہ خوش قسمت احمدی جنہیں مسجد بیت الاکرام میں فیملی ملاقات کرنے کی سعادت حاصل ہوئی ان میں سے ایک Hakeem Onabanjoصاحب(عمر ۳۶؍سال ) اور ان کی اہلیہ Alima Abdul Aziz صاحبہ( عمر ۲۵؍سال )تھیں۔ یہ دونوں نائیجیرین میاں بیوی چند سال قبل امریکہ شفٹ ہوئے تھے اور اب Floridaمیں رہائش پذیرتھے۔

ملاقات کے بارے میں Alimaصاحبہ نے بتایا کہ ’’سنہ ۲۰۰۸ء میں جب حضورِانور نائیجیریا تشریف لائے تو آپ ہمارے پاس سے پیدل چلتے ہوئےگزرےمگر ہمیں اس موقع پر ملاقات کرنے کی سعادت نصیب نہیں ہوئی۔ اس لیے اگرچہ Florida، Dallasسے بہت دُور ہے پھر بھی ہم اس موقع سے محروم نہیں ہونا چاہتے تھے۔ حضورِانور سے ملاقات کے بعد میرے جو جذبات تھے وہ الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں ہے۔ جونہی ہم کمرے میں داخل ہوئے میں نے بےساختہ’’ماشاءاللہ‘‘کہا اور جذبات سے مغلوب ہو گئی۔ ہم بے حد خوش ہیں کہ حضورِانور نے ہمارے لیے دعا کی ہے کہ ’’اللہ تعالیٰ آپ پر فضل فرمائے ‘‘اور ہمیں آپ کی دعاؤں پر آمین کہنے کی توفیق ملی۔

موصوفہ نے مزید بتایا کہ’’میں حضورِانور کو خط لکھتی رہتی ہوں اور ایم ٹی اے پربھی آپ کودیکھتی ہوں لیکن اب ملاقات کے بعد میرا خلافت سے مزید مضبوط تعلق ہو گیا ہے۔میرے دل میں خلافت سے محبت بہت بڑھ گئی ہے اور مجھے یقین ہے کہ ہم اس ملاقات کی برکات کے باعث اپنی زندگیوں میں بہت سی مثبت تبدیلیاں اور افضال مشاہدہ کریں گے۔‘‘

اپنی اہلیہ کے جذبات سننے کے بعد Hakeem صاحب نے کہا کہ’’حضورِانور سے پہلی مرتبہ ملاقات ایک حقیقی سعادت تھی۔ ہم بے حد خوش ہیں کہ حضورِانور امریکہ تشریف لائے ہیں اور ہمیں آپ سے ملاقات کی سعادت نصیب ہوئی ہے۔ مجھے حضورِانور کی موجودگی سے پہلے ہی سے یہ احساس ہوا ہے کہ میرا دماغ اور روح نہایت پاکیزہ ہو گئے ہیں اور آپ سے ملاقات سے مجھے مزید جماعتی کاموں کی ترغیب ہوئی ہے اور یہ کہ میں اپنے بچوں کی اچھی تربیت کو یقینی بناؤں گا۔‘‘

ایک دوسرے خوش قسمت دوست جنہیں Dallasمیں حضورِانور سے ملاقات کرنے کی سعادت ملی محمد رضوان جاوید صاحب تھے۔ حضورِانور سے ملاقات کے بعد وہ جذبات سے مغلوب تھے اور گذشتہ سالوں میں خود پر گزرنےوالی مشکلات اور تکالیف کا ذکر یوں کیا کہ’’میں نے ایک بہت مشکل زندگی گزاری ہے۔ احمدی ہونے کی وجہ سے میں پاکستان میں مظالم کا شکار رہا۔ اس لیے اپنی فیملی کے لیے ایک بہتر زندگی کا انتظام کرنے کے لیے مجھے امریکہ آنا پڑا۔ میں یہاں اکیلا آیا تھا اور پیچھے اپنی اہلیہ، تین بچے اور والدین چھوڑ کر آیا تھا۔ پھر امریکہ آنے کے صرف ایک ہفتے کے بعد میرے والد صاحب کا انتقال ہو گیا اور فوراً بعد میرے دو بہن بھائی بھی جوانی میں فوت ہو گئے۔بوقت وفات میری بہن کی عمر پینتیس سال اور چھوٹے بھائی کی عمر اٹھارہ سال تھی۔‘‘

محمد رضوان جاوید صاحب نے مزید بتایا کہ’’یقین جانیے کہ گذشتہ تیرہ سال کی مشکلات اور پریشانیاں آج حضورِانور سے مل کر محو ہو گئی ہیں۔ الحمدللہ۔ آپ سے ملنے کے بعد میری روح کو کس قدر راحت ہے کہ گذشتہ تیرہ سال کے بوجھ اور تکالیف دور ہو گئی ہیں۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ جو مشکلات،مصائب اور پریشانیاں میں نے برداشت کی ہیں اللہ تعالیٰ نےان کا بہترین اجر عطا فرما یا ہے۔آج کے دن حضورِانور سے ملاقات کے بعد میرے دل کو جو سکون حاصل ہوا ہے اور خاص طور پر جب آپ نے فرمایا کہ میری فیملی ان شاءاللہ جلد یہاں امریکہ میں میرے پاس آجائے گی۔ اب مجھے یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ جلد میری فیملی کے میرے پاس آنے کے سامان پیدا فرما دے گا۔(ان شاء اللہ)

ایک اَور دوست جنہوں نے زندگی میں پہلی مرتبہ حضورِانور سے ملاقات کی سعادت پائی ان کا نام احد احمد خان( عمر ۲۶؍سال)تھا۔حضورِانور سے ملاقات کے بارے میں موصوف نے بتایا کہ ’’حضورِانور سے ملاقات کا یہ میرا پہلا موقع تھا۔حضورنے میری تعلیم کے بارے میں دریافت فرمایا جس پر میں نے عرض کی کہ میں نے کالج میں پولیٹیکل سائنسز پڑھی ہیں۔ کمال کی بات یہ ہے کہ حضورِانور کو پہلے ہی علم تھا کہ میں اگلی بات کیا کرنے لگا ہوں،اس لیے قبل اس کے کہ میں کچھ اَور کہوں حضورِانور نے فرمایا کہ کیا آپ مستقبل میں قانون پڑھنا چاہتے ہیں؟ جواب میں خاکسارنے عرض کی کہ جی حضور ! اور یہ بھی عرض کی کہ میں حضورِانور سے یہی پوچھنے والا تھا کہ میں قانون کی کس شاخ کو چنوں۔ حضورِانور نے تبسم کرتے ہوئے فرمایا کہ مجھے سپیشلائزیشن سے قبل پہلے لا سکول میں داخلہ لینا پڑے گا! تاہم بعدازاں حضورِانور نے ازراہِ شفقت فرمایا کہ مجھے انسانی حقوق کے متعلق قانون (Human Rights law)پڑھنا چاہیے۔ میں جذبات سے مغلوب ہوں کیونکہ یہ میری زندگی کی سب سے عظیم سعادت ہے۔

احد صاحب نے مزید بتایا کہ اس ملاقات اور حضورِانور کی راہنمائی نے میرے پر ایک غیر معمولی اثر چھوڑاہے۔ حصولِ علم میں میری دلچسپی اور جماعتی خدمات کے حوالے سے بھی میرے اندر ایک نئی روح پھونک دی گئی ہے۔ حضورِانور کی پُر حکمت ہدایات نے مجھ پر واضح کیا کہ آپ بطور فرد کس قدر میرا خیال رکھنے والے ہیں۔ اس ساری ملاقات کے دوران حضور تبسم فرماتے رہے اور سوالات پوچھتے رہے۔اس ملاقات نے مجھے یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ میرے پاس زندگی کے کسی معاملہ میں بھی سستی دکھانے کا کوئی بہانہ نہیں ہے۔ اسی طرح آپ نے مجھ پر مسکراتے رہنے اور اپنے ماحول میں رہنے والے ہر شخص سے محبت کے ساتھ پیش آنے کی اہمیت بھی خوب اجاگر فرمائی۔حضورِانور کے دورہ کے دوران جو روحانی ترقی میں نے محسوس کی ہے وہ اس سے پہلے کبھی محسوس نہیں کی۔‘‘ (حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا دورہ امریکہ ستمبر۔اکتوبر ۲۰۲۲ءحصہ دوم)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button