منظوم کلام

دوستو ہرگز نہیں یہ ناچ اور گانے کے دن

دوستو ہرگز نہیں یہ ناچ اور گانے کے دن
مشرق و مغرب میں ہیں یہ دیں کے پھیلانے کے دن

اس چمن پر جبکہ تھا دورِ خزاں وہ دن گئے
اب تو ہیں اسلام پر یارو بہار آنے کے دن

ظلمت و تاریکی و ضد و تعصب مٹ چکے
آگئے ہیں اب خدا کے چہرہ دکھلانے کے دن

جاہ و حشمت کا زمانہ آنے کو ہے عنقریب
رہ گئے تھوڑے سے ہیں اب گالیاں کھانے کے دن

ہے بہت افسوس اب بھی گر نہ ایماں لائیں لوگ
جب کہ ہر ملک و وطن پر ہیں عذاب آنے کے دن

پیش گوئی ہو گئی پوری مسیحِ وقت کی
’’پھر بہار آئی تو آئے ثلج کے آنے کے دن‘‘

ان دنوں کیا ایسی ہی بارش ہوا کرتی تھی یاں
سچ کہو کیا تھے یہ سردی سے ٹھٹھر جانے کے دن

دوستو اب بھی کرو توبہ اگر کچھ عقل ہے
ورنہ خود سمجھائے گا وہ یار سمجھانے کے دن

دَرْد و دُکھ سے آ گئی تھی تنگ اے محمودؔ قوم
اب مگر جاتے رہے ہیں رنج و غم کھانے کے دن

(اخبار بدر جلد۶۔ ۲۸؍ فروری ۱۹۰۷ء بحوالہ کلامِ محمود)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button