یادِ رفتگاں

مولانا منور احمد خورشید صاحب مربی سلسلہ

(داؤد احمد قمر۔ جرمنی)

خاکسار کے بڑے بھائی مولانا منور احمد خورشید صاحب ۱۵؍ مارچ ۲۰۲۳ءکو ربوہ پاکستان میں وفات پا گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ آپ کی پیدائش ۱۹۵۰ء میں فتح پور ضلع گجرات میں مکرم میاں بشارت احمد صاحب اور مکرمہ عنایت بیگم صاحبہ کے ہاں ہوئی۔ ہمارے خاندان میں احمدیت کا آغاز ہمارے دادا حضرت میاں عبدالکریم صاحبؓ کی بیعت سے ہوا۔ ۱۹۰۳ءمیں جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کرم دین والے مقدمہ کے سلسلہ میں جہلم تشریف لائے تو اس موقع پر آپ کو بیعت کی سعادت نصیب ہوئی۔

آپ کی پیدائش سے پہلےجتنی بھی اولاد ہوئی وہ بیمارہوکروفات پاگئی۔ اسی طرح آپ بھی پیدائش کے بعد بیمار ہوگئے اور آپ کے بچنے کا کوئی راستہ نظر نہیں آتا تھا۔ اس پرآپ کے دادا حضرت میاں عبدالکریم رضی اللہ عنہ صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ فیصلہ کیا کہ اس بچہ کو خدا کی راہ میں وقف کر دیا جائے۔آپ نے فرمایا کہ اگر خدا کو اس کی ضرورت ہوگی تو وہ خود ہی اسے بچالے گا۔اسی دوران ایک طبیب جو دوسرے گاؤں کا رہنے والا تھا اس کا گزر گلی سے ہوا۔اس کے علاج سے خدا تعالیٰ نےآپ کو شفاعطافرمادی۔

جب آپ نے میٹرک کرلیا تو رشتہ داروں نے والدین کو مشورہ دیا کہ منور احمد کو کسی کام پہ لگوادیں۔ والد صاحب اکیلے ہی زمینداری کرتے تھے۔ اگرچہ حالات اتنے اچھے نہ تھے لیکن والدین نے منع کردیا۔ پھر انہوں نے مشورہ دیا کہ آپ کے اَور بھی بیٹے ہیں کسی دوسرے کو وقف کردیں۔ والدہ محترمہ نے کہا کہ اگر منور احمد آج مر جائے تو پھر ہمیں کون کھلائے گا۔اس پر تمام عزیز خاموش ہوگئے۔ مکرم مرزا عبدالحق صاحب حال مقیم جرمنی نے بتایا کہ حضرت میاں عبدالکریم رضی اللہ عنہ تہجد کے لیے آتے تو اکثر ایک بچے کو اپنے ساتھ کمبل میں لپیٹا ہوتا۔ آپ بچے کو صف پر لٹا دیتے اور خود نوافل کی ادائیگی میں مصروف ہوجاتے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ بچہ منور احمد صاحب خورشید تھے۔

ابتدائی تعلیم گجرات میں حاصل کرنے کے بعد آپ ۱۹۶۷ءمیں جامعہ احمدیہ میں داخل ہوئے اور ۱۹۷۵ء میں شاہد کی ڈگری حاصل کی۔ پاکستان میں آپ کی پہلی تقرری سیالکوٹ قلعہ کالر والا میں ہوئی۔ اس کے بعد کھاریاں ضلع گجرات میں خدمت کا موقع ملا۔ گیمبیا میں آپ کا تقرر ۱۹۸۳ء میں ہوا جہاں آپ بطور ٹیچر ناصر ہائی سکول خدمت کرتے رہے۔ ۱۹۸۵ء میں آپ کا تقرر بطور نگران مشن سینیگال میں ہوا۔۱۹۹۴ء میں گیمبیا، سینیگال، گنی بساؤ، موریطانیہ اور کیپ ورڈے کے امیر مقرر ہوئے۔۱۹۹۷ء میں ان ممالک کو تین امارتوں میں تقسیم کردیا گیا۔ بعد ازاں آپ بطور امیرملک سینیگال، کیپ ورڈے اور موریطانیہ خدمت کی توفیق پاتے رہے۔

آپ کو جہاں بھی خدمت کا موقعہ ملا آپ نے بڑی لگن اور محنت سے کام کیا۔ آپ کے ذریعہ بے شمار سعید روحوں کو اسلام احمدیت میں داخل ہونے کی توفیق ملی جن میں چالیس پارلیمانی ممبر بھی شامل ہیں۔ اس کامیابی پر حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو جلسہ سالانہ برطانیہ کےموقع پر خطاب کے دوران ’’فاتح سینیگال‘‘ کے خطاب سے نوازا۔ ایک مرتبہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد پر آپ پندرہ ممبران اسمبلی کو جلسہ سالانہ جرمنی پر بھی لائے تھے۔ ۲۰۰۵ء میں بیماری کے باعث حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ارشاد پر لندن آگئے اور یہاں سے ۲۰۱۲ءتک بطور امیر جماعت سینیگال کام کرتے رہے۔ ۲۰۰۸ءسے ۲۰۱۲ءتک بطور استاد جامعہ احمدیہ خدمت کی سعادت پائی۔

آپ کی خدمات کے پیش نظر آپ کو عبدالرحیم نیر ایوارڈ سے نوازا گیا۔ آپ نے یہ ایوارڈ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے دست مبارک سے وصول کیا۔ آپ حضور انور کے ارشاد اور راہ نمائی میں چند سال سپین بھی جاتے رہے تاکہ وہاں بسنے والے افریقی احباب سے رابطہ قائم کرسکیں۔ گذشتہ کچھ عرصہ سے آپ مجلس انصاراللہ برطانیہ کے تحت منعقد ہونے والی قرآن کریم کی آن لائن کلاس لے رہے تھے۔ یہ سلسلہ آپ کی وفات تک جاری رہا۔

اللہ تعالیٰ کے ساتھ آپ کا گہرا تعلق تھا۔جو بھی خواہش کی اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص فضل سے پوری فرمادی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد پر ایک وفد ممبران پارلیمنٹ سینیگال سے انگلینڈ لائےجس پر حضور رحمہ اللہ نے بہت خوشنودی کا اظہار فرمایا اور ارشاد فرمایا کہ اب واپس جائیں اور جلسہ سالانہ جرمنی کے لیے ایک وفد لے کر آئیں۔ آپ واپس سینیگال گئے اور ایک وفد تیار کیا اور براستہ پرتگال جرمنی کے لیے روانہ ہوئے۔ جب پرتگال ایئر پورٹ پر جرمنی کے بورڈنگ کے لیے گئے تو انہوں نے کہا کہ آپ کے پاس جرمنی کا ویزا نہیں ہے اس لیے آپ نہیں جاسکتے۔آپ نے بہت کوشش کی مگر کوئی حل نہ نکلا۔ کہتے تھے کہ میں بہت افسردہ ہوا اور ایک طرف ہوکر دعا کی اور اللہ تعالیٰ کے حضور بہت رویا کہ حضرت خلیفۃ المسیح کا ارشاد ہے اور حضور انتظار فرمارہے ہیں۔میرے اللہ ! تو ہی ہے جو کوئی راستہ نکال سکتا ہے۔ کہتے تھے کہ دعا کے بعد میں نے اپنے آپ کو بہت ہلکا محسوس کیا۔ اللہ تعالیٰ نے میری راہنمائی فرمائی میں دوبارہ کاؤنٹر پر گیا اور اُن سے کہا کہ جب آپ کی ایئر لائن کو معلوم تھا کہ یہ لوگ جرمنی جارہے ہیں اور ان کو ویزے کی ضرورت ہے تو پھر ہمیں ٹکٹ کیوں ایشو کیے گئے۔ آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ یہ سب لوگ سینیگال کے ممبران پارلیمنٹ ہیں اس سے آپ کی ایئر لائن کی بہت بدنامی ہوگی کیونکہ غلطی آپ کی ہے۔ اس پر وہ پریشان ہوگئے اور ہمیں کہا کہ اپنے پاسپورٹ دو ہم کچھ کرتے ہیں۔ تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ سب کے ویزے لگ گئے۔ الحمدللہ

اسی طرح حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی وفات ہوئی تو آپ سیدھے ایئر پورٹ چلے گئے۔ ایک ٹکٹ ایجنٹ کے پاس گئے تو اُس نے ٹکٹ کی قیمت بہت زیادہ بتائی۔ آپ نے کہا کہ اتنی زیادہ رقم تو میں ادا نہیں کرسکتا۔ دوسرے ایجنٹ کے پاس گئے تو اُس نے بھی زیادہ قیمت بتائی۔اسی اثنامیں جہاں کھڑے تھے اُن کے پاس جو ایک ٹکٹ تھی وہ بھی کسی نے خرید لی۔جو دوست ساتھ گئے تھے انہوں نے کہا کہ پہلے والے ایجنٹ سے مہنگی ٹکٹ خرید لیں کہیں وہ بھی نہ جاتی رہے۔ چنانچہ جب آپ پہلے ایجنٹ کے پاس گئے تو اُس نے بھی انکار کردیا۔پھر اُس سے پہلے والے کے پاس گئے اُس نے بھی کہا اب کوئی ٹکٹ نہیں ہے۔ کہتے تھے کہ دل میں ایک خاص تڑپ پیدا ہوئی اوررو رو کر اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کی لیکن بظاہر کوئی راستہ دکھائی نہیں دے رہاتھا۔ ہم ایئر پورٹ سے باہر نکل رہے تھے کہ پیچھے سے کسی نے آواز دی کہ ایک مسافر نہیں پہنچا،اگر آپ چاہیں تو آپ کو سیٹ مل سکتی ہے اور وہ بھی بہت کم قیمت پر۔ کہتے تھے کہ میرا دل اللہ تعالیٰ کی حمد سے بھر گیا اور دوبارہ آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے۔ الحمدللہ۔

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے از راہ شفقت مورخہ ۳۱؍مارچ ۲۰۲۳ءکے خطبہ جمعہ میں آپ کا مفصل ذکر خیر فرمایا ہے جو ہمارے خاندان کے لیے ایک بہت بڑا اعزاز ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں بھی آپ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے خلافت کی محبت و شفقت حاصل کرنے والا بنادے اور ہماری نسلوں کو بھی اسی طرح خدمت دین کی توفیق عطا فرماتا رہے۔ آمین ثم آمین

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button