بنیادی مسائل کے جوابات

بنیادی مسائل کے جوابات (قسط۵۳)

(ظہیر احمد خان۔ مربی سلسلہ، انچارج شعبہ ریکارڈ دفتر پی ایس لندن)

(امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے پوچھےجانے والے بنیادی مسائل پر مبنی سوالات کے بصیرت افروز جوابات)

٭… خدا تعالیٰ کون ہے اور کیا ہے؟ Big Bang سے کائنات کا آغاز ہوا اور اس وقت سے کائنات خود بخود چل رہی ہے تو پوری کائنات ہی خدا ہے؟

٭… روح کی حقیقت اور اس کے جنت میں سفر کرنے کے بارے میںراہنمائی

٭… روزہ کے دوران ادویات کے استعمال کے بارے میں راہنمائی

٭… مسجد میں پلاسٹک کی ٹوپیاں رکھنے کے بارے میں راہنمائی

٭… کیا دوران درس سنتیں ادا کی جاسکتی ہیں؟

سوال: انڈیا سے ایک خاتون نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں تحریر کیا کہ خدا تعالیٰ کون ہے اور کیا ہے؟ Big Bang سے کائنات کا آغاز ہوا اور اس وقت سے کائنات خود بخود چل رہی ہے تو پوری کائنات ہی خدا ہے؟ کہا جاتا ہے کہ مرنے کے بعد ہم خدا تعالیٰ کے پاس چلے جاتے ہیں، یہ کس طرح ہوتا ہے؟ روح کی حقیقت کیا ہے اور جب جنت اور جہنم کائنات کے مختلف حصے ہیں تو کیا روح ان کے درمیان سفر کر سکتی ہے یعنی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہو سکتی ہے؟حضو انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ ۱۰؍مارچ ۲۰۲۲ء میں ان سوالات کے درج ذیل جوابات عطا فرمائے۔ حضور نے فرمایا:

جواب: اسلامی تعلیمات، جن پر ہمارا کامل ایمان ہے ان کے مطابق خدا تعالیٰ کی ذات وہ ہستی ہے جو اس کائنات کے سارے نظام کو چلا رہی ہے۔ چنانچہ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ ہر چیز کو کسی نہ کسی ذات یا ہستی نے بنایا ہے اور سائنس بھی اس بات کو مانتی ہے کہ کائنات کی ہر چیز خود بخود نہیں ہے بلکہ اس کا کوئی نہ کوئی بنانے والا ضرورہے۔ سائنس اسے نیچر کہتی ہے اور ہم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولوں کی بتائی ہوئی تعلیمات کے مطابق اس ہستی کو خدا تعالیٰ کی ذات مانتے ہیں۔

باقی خدا تعالیٰ کی لا محدود ہستی انسانی محدود علم سے بہت بالا اور برتر ہے۔ اس کے متعلق ہمارا ایمان وہی ہے جو قرآن کریم نے ہمیں عطا فرمایا ہے کہ قُلۡ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ۔ اَللّٰہُ الصَّمَدُ۔ لَمۡ یَلِدۡ وَ لَمۡ یُوۡلَدۡ۔ وَ لَمۡ یَکُنۡ لَّہٗ کُفُوًا اَحَدٌ۔(سورۃ الاخلاص)یعنی تو کہہ دے کہ اللہ اپنی ذات میں اکیلا ہے۔ اللہ وہ ہستی ہے جس کے سب محتاج ہیں( اور وہ کسی کا محتاج نہیں)۔نہ اس نے کسی کو جنا ہے اور نہ وہ جنا گیا ہے۔اور اس کا کبھی کوئی ہمسر نہیں ہوا۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام خدا تعالیٰ کی ہستی کے بارے میں فرماتے ہیں: ’’خدا اپنی ذات اور صفات اور جلال میں ایک ہے کوئی اس کا شریک نہیں۔ سب اس کے حاجت مند ہیں۔ ذرہ ذرہ اس سے زندگی پاتا ہے۔ وہ کُل چیزوں کے لئے مبدء فیض ہے اور آپ کسی سے فیضیاب نہیں۔ وہ نہ کسی کا بیٹا ہے اور نہ کسی کا باپ اور کیونکر ہو کہ اس کا کوئی ہم ذات نہیں۔‘‘ (اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحہ ۴۱۷) ’’تمہارا خدا وہ خدا ہے جو اپنی ذات اور صفات میں واحد ہے نہ کوئی ذات اس کی ذات جیسی ازلی اور ابدی یعنی انادی اور اکال ہے نہ کسی چیز کی صفات اس کی صفات کی مانند ہیں۔ انسان کا علم کسی معلم کا محتاج ہے اور پھر محدود ہے مگر اس کا علم کسی معلم کا محتاج نہیں اور باایں ہمہ غیر محدود ہے۔‘‘ (لیکچر لاہور،روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۱۵۵،۱۵۴)

’’یاد رکھو کہ انسان کی ہر گز یہ طاقت نہیں ہے کہ ان تمام دقیق در دقیق خدا کے کاموں کو دریافت کر سکے بلکہ خدا کے کام عقل اور فہم اور قیاس سے برتر ہیں۔ اور انسان کو صرف اپنے اس قدر علم پر مغرور نہیں ہونا چاہیے کہ اس کو کسی حد تک سلسلہ علل و معلولات کا معلوم ہو گیا ہے کیونکہ انسان کا وہ علم نہایت ہی محدود ہے جیسا کہ سمندر کے ایک قطرہ میں سے کروڑ م حصہ قطرہ کا۔ اور حق بات یہ ہے کہ جیسا کہ خدا تعالیٰ خود ناپیداکنار ہے ایسا ہی اس کے کام بھی ناپید اکنار ہیں اور اس کے ہر ایک کام کی اصلیت تک پہنچنا انسانی طاقت سے برتر اور بلند تر ہے…ہم ایسے خدا کو نہیں مانتے جس کی قدرتیں صرف ہماری عقل اور قیاس تک محدود ہیں اور آگے کچھ نہیں بلکہ ہم اس خدا کو مانتے ہیں جس کی قدرتیں اس کی ذات کی طرح غیر محدود اور ناپید اکنار اور غیر متناہی ہیں۔‘‘ (چشمہ معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحہ ۲۸۰ تا ۲۸۲)

’’فلاسفر جیسا کہ میں نے پہلے کہا ہے آسمان اور زمین کو دیکھ کر اور دوسرے مصنوعات کی ترتیب ابلغ و محکم پر نظر کر کے صرف اتنا بتاتا ہے کہ کوئی صانع ہونا چاہیے مگر میں اس سے بلند تر مقام پر لے جاتا ہوں اور اپنے ذاتی تجربوں کی بنا پر کہتا ہوں کہ خدا ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد دوم صفحہ ۳۵۷ مطبوعہ ۲۰۱۶ء)

۲۔آپ کا دوسرا سوال انسان کی موت کے بارے میں ہے۔ تو موت کی حقیقت یہ ہے کہ پیدائش کے وقت اللہ تعالیٰ انسانی جسم میں جو روح ڈالتا ہے، وفات کے وقت وہ روح اس فانی جسم کو چھوڑ دیتی ہے۔ اور جسم اسی دنیا میں ہی رہ جاتا ہے۔ چاہے وہ انسان پانی میں ڈوب کر مرے،چاہے وفات کے بعد اس جسم کو زمین میں دفنا دیا جائے یاجلا دیا جائے یا درندوں پرندوں کو کھلا دیا جائے۔ اورانسانی روح دوسرے عالم میں جسے عالم برزخ کہا جاتا ہے چلی جاتی ہے، جہاں اسے اپنے دنیوی اعمال کے مطابق نور یا تاریکی کا ایک نیا جسم ملتا ہے۔

سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام روح اور جسم کے اس تعلق کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’جب یہ ناپائیدار ترکیب انسانی تفرق پذیر ہو جاتی ہے اور روح الگ اور جسم الگ ہو جاتا ہے اور جیسا کہ دیکھا گیا ہے جسم کسی گڑھے میں ڈال دیا جاتاہے اور روح بھی ایک قسم کے گڑھے میں پڑ جاتی ہے…گو موت کے بعد یہ فانی جسم روح سے الگ ہو جاتا ہے مگر عالم برزخ میں مستعار طور پر ہر ایک روح کو کسی قدر اپنے اعمال کا مزہ چکھنے کے لئے جسم ملتا ہے۔ وہ جسم اس جسم کی قسم میں سے نہیں ہوتا بلکہ ایک نور سے یا ایک تاریکی سے جیسا کہ اعمال کی صورت ہو جسم طیار ہوتا ہے۔ گویا کہ اس عالم میں انسان کی عملی حالتیں جسم کا کام دیتی ہیں۔ ایسا ہی خدا کے کلام میں بار بار ذکر آیا ہے اور بعض جسم نورانی اور بعض ظلمانی قرار دئیے ہیں جو اعمال کی روشنی یا اعمال کی ظلمت سے طیار ہوتے ہیں۔ اگرچہ یہ راز ایک نہایت دقیق راز ہے مگر غیر معقول نہیں…لیکن جن کو عالم مکاشفات میں سے کچھ حصہ ہے وہ اس قسم کے جسم کو جو اعمال سے طیار ہوتا ہے تعجب اور استبعاد کی نگہ سے نہیں دیکھیں گے بلکہ اس مضمون سے لذت اٹھائیں گے۔غرض یہ جسم جو اعمال کی کیفیت سے ملتا ہے یہی عالم برزخ میں نیک و بد کی جزاء کا موجب ہو جاتا ہے۔‘‘ (اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحہ ۴۰۳ اور۴۰۵)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس اقتباس میں روح کے ایک قسم کے گڑھے میں پڑنے کا جوفرمایا ہے وہ دراصل سورت عبس کی اس آیت کی طرف اشارہ ہے کہ ثُمَّ اَمَاتَہٗ فَاَقۡبَرَہٗ۔(سورت عبس:۲۲) یعنی اللہ تعالیٰ ہر انسان پر موت وارد کرتا ہے اور پھر اسے قبر میں رکھتا ہے۔

اب ظاہر ہے کہ دنیا میں ہر انسان کو مٹی کے ڈھیر والی قبر میسر نہیں آتی کیونکہ کروڑوں مردے جلائے جاتے ہیں اور دفن نہیں کیے جاتے۔ لاکھوں انسان ڈوب کر مرتے ہیں۔ ہزاروں انسانوں کو جنگل کے درندے کھا کر ختم کر دیتے ہیں۔ تو پھر ہر انسان کے متعلق یہ کس طرح کہا جا سکتا ہے کہ اسے خدا قبر میں رکھتا ہے ؟ یہاں قبر سے مراد وہ روحانی قیام گاہ ہے جہاں مرنے کے بعد اور کامل حساب کتاب سے پہلے انسان کی روح رکھی جاتی ہے۔

۳۔ باقی کسی روح کا جنت اور جہنم میں ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کا جہاں تک سوال ہے تو اس بارے میں پہلی بات تو یہ یاد رکھنی چاہیے کہ روح بھی اللہ تعالیٰ ہی کے حکم کے تابع ہے، اپنی مرضی سے کچھ نہیں کر سکتی۔ چنانچہ یہود نے روح کے بارے میں جب حضور ﷺ سے سوال کیا تو اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کو فرمایا قُلِ الرُّوۡحُ مِنۡ اَمۡرِ رَبِّیۡ۔ (سورۃ بنی اسرائیل :۸۶) یعنی انہیں کہہ دو کہ روح میرے رب کے حکم سے ہے۔

دوسرا قرآن کریم میں اخروی زندگی میں مومنوں اور کافروں کے اعمال ناموں کے لیے دو الفاظ سِجِّیۡن اور عِلِّیِّین آئے ہیں۔ ان الفاظ کی تفسیر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:سِجِّین کا لفظ جو کفار کے لئے استعمال ہوا تھا مفرد تھا مگر عِلِّیِّین کا لفظ جو مومنوں کے لئے استعمال ہوا ہے وہ جمع کا لفظ ہے۔ اس فرق سے اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ کافر کی سزا کو اللہ تعالیٰ بڑھاتا نہیں مگر مومن کے انعام کو بڑھاتا چلا جاتا ہے جس کی وجہ سے کافر توایک ہی قید خانہ میں پڑا رہتا ہے لیکن مومن گھر بدلتا جاتا ہے۔ ایک گھر کے بعد اس سے اعلیٰ گھراسے ملتا ہے اور اس کے بعد اس سے اعلیٰ گھر۔ اسی طرح خدا تعالیٰ اسے کئی دنیاؤں کی سیر کرا دیتا ہے اس لئے مومن کے گھر کئی ہوں گے اور کافر کا گھر ایک۔ (تفسیر کبیر جلد ۱۰ صفحہ ۳۱۱، ۳۱۲)پھر قرآن کریم میں اہل جنت اور اہل جہنم کا جہاں ذکر کیا گیا ہے، وہاں ان دونوں کے درمیان ایک روک کے حائل ہونے کا بھی ذکر کیا گیا، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ جنتی اور جہنمی ایک دوسرے سے نہیں مل سکیں گے۔ (سورۃالاعراف:۴۷)

لیکن جہاں تک مختلف درجات والے جنتیوں کے آپس میں ملنے جلنے کا معاملہ ہے تو قرآن و حدیث میں جنت کے مختلف مقام اور مدارج کا تو ذکر ہوا ہے لیکن جنت کے ان مختلف مقام اور مدارج میں رہنے والوں کے آپس میں ملنے جلنے میں کسی روک ٹوک کا کوئی ذکر نہیں آیا۔ بلکہ ا س کے برعکس اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ جو لوگ ایمان لائے اور ان کی اولاد بھی ایمان کے معاملہ میں ان کے پیچھے چلی ہے ہم اعلیٰ جنتوں میں ان کی اولاد کو بھی ان کے ساتھ جمع کر دیں گے اور ان کے باپ دادوں کے عملوں میں بھی کوئی کمی نہیں کریں گے۔(سورۃ الطور:۲۲)

پس قرآن کریم کے ان مضامین سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ نیک روحیں اللہ تعالیٰ کے اذن سے ایک جگہ سے دوسری جگہ جا سکیں گی اور ایک دوسرے سے میل ملاقات کر سکیں گی۔ لیکن بد روحیں جو جہنم میں اپنی سزا بھگت رہی ہوں گی وہ اپنی سزا پوری ہونے تک اسی قید خانہ میں مقید رہیں گی اور جب ان کی سزا پوری ہو جائے گی تو اللہ تعالیٰ کی رحمت کی بدولت وہ بھی جنت میں چلی جائیں گے۔

سوال: یوکے سے ایک ڈاکٹر صاحبہ نے Hormone patches, Contraceptive implant, Hormone depot injection, Pain killer gel, Deep freeze, Deep heat جیسے طریق علاج کے روزہ کی حالت میں اختیار کرنے کے بارے میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے استفسار کیا۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مورخہ ۲۱؍مارچ ۲۰۲۲ء میں اس بارے میں درج ذیل ہدایات فرمائیں۔ حضور انور نے فرمایا:

جواب: روزہ کی حالت میں کسی بھی طریق علاج کےاستعمال کے سلسلہ میں چند اصولی باتیں یاد رکھنا بہت ضروری ہیں۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مریض اور مسافر کے متعلق حکم دیا ہے کہ وہ بیماری یا سفر کی حالت میں روزہ نہ رکھیں اور مرض دور ہونے اور سفر ختم ہونے پر ہی ان روزوں کی تکمیل کریں۔ اور جو شخص کسی دائمی مرض میں مبتلا ہو اور اسے کبھی بھی اپنے تندرست ہونے کی امید نہ ہو تو ایسی صورت میں اگر وہ طاقت رکھتا ہے تو فدیہ دےدے۔ (سورۃ البقرۃ:۱۸۵)

لیکن اگر کسی شخص کو کوئی ایسی تکلیف ہو جس میں ڈاکٹروں کے نزدیک روزہ رکھنا اس انسان کی صحت کے لیے نقصان دہ نہیں تو وہ شخص اس بیماری میں روزہ رکھ سکتا ہے۔

ایسی بیماری میں اگر کسی قسم کی دوائی کے استعمال کی ضرورت ہو تو وہ دوائی صرف روزہ رکھنے سے پہلے یا روزہ کھولنے کے بعد ہی استعمال کی جا سکتی ہے۔ روزہ کے دوران ایسی کوئی بھی دوائی استعمال نہیں کی جاسکتی جو جسم کے اندر جاتی ہو۔ البتہ اگر اس دوائی کا اثر صرف جلد پر ہو اور اس دوائی کا کوئی حصہ جسم کے اندر داخل نہ ہو تو روزہ کی حالت میں ایسی دوائی کے استعمال میں کوئی حرج کی بات نہیں۔ مثلاً کسی تیل، کریم، Gel یا سپرے وغیرہ کی جلد پر مالش یا سپرے کرنا۔

ایسی دوائی جسے آپریشن یا انجیکشن کے ذریعہ جسم کے اندر رکھا یا ڈالا جاتا ہے اور وہ دوائی جسم کے اندر آہستہ آہستہ Release ہوتی رہتی ہے تو ایسی دوائی بھی عام دوائیوں یا کھانے پینے کی اشیاء کی طرح روزہ رکھنے سے پہلے یا روزہ کھولنے کے بعد ہی جسم میں Injectکی جا سکتی ہے، روزہ کے دوران اسے جسم میں Injectکرنا جائز نہیں۔

سوال: نارووال پاکستان سے ایک معلم صاحب نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں تحریر کیا کہ پلاسٹک وغیرہ کی ٹوپیاں مساجد میں رکھنا اور انہیں پہن کر نماز پڑھنا بدعت اور ناپسندیدہ عمل ہے یا نہیں؟ نیز نماز فجر کے فوراً بعد جبکہ درس قرآن ہو رہا ہو فجر کی سنتیں پڑھنا درست ہے ؟حالانکہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ جب قرآن کریم پڑھا جا رہا ہو تو اسے توجہ اور خاموشی سے سننا چاہیے؟حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مورخہ ۲۸؍ مارچ ۲۰۲۲ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب عطا فرمایا: جواب:مساجد میں حسب توفیق مناسب اور صاف ستھرا لباس پہن کر جانا چاہیے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مسجدوں میں زینت کے سامان اختیار کرنے کا حکم دیا ہے۔(سورۃ الاعراف:۳۲) اس حکم میں دلوں کی روحانی صفائی کے ساتھ ساتھ کپڑوں اور بدن کی ظاہری صفائی بھی شامل ہے۔ اس لیے جہاں تک ممکن ہو مساجد میں جاتے وقت مناسب لباس زیب تن کرنا چاہیے اور مناسب لباس میں سر کو ڈھانپنا بھی شامل ہے۔اسلام کے ہر دور میں بزرگان امت کا عمامہ، پگڑی یا ٹوپی کے ساتھ سر ڈھانپنا ان کی عام عادت رہی ہے۔ احادیث میں بھی مختلف صحابہ سے مروی ہے کہ حضورﷺ عمامہ کا استعمال فرمایا کرتے تھے۔ چنانچہ حضرت جابر بن عبد اللہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ فتح مکہ کے دن مکہ میں داخل ہوئے توا ٓپ کے سر مبارک پر سیاہ عمامہ تھا۔ اسی طرح حضرت عمرو بن حریثؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے لوگوں سے خطاب فرمایا اور آپ کے سر مبارک پر سیاہ عمامہ تھا۔(صحیح مسلم کتاب الحج باب جَوَازِ دُخُولِ مَكَّةَ بِغَيْرِ إِحْرَامٍ)

پس مسجد میں پلاسٹک یا کپڑے وغیرہ کی کچھ صاف ستھری ٹوپیاں اس لیے رکھنا کہ اگر کوئی نمازی اپنی مرضی سے انہیں استعمال کرنا چاہے تو کر لے تو ایسا کرنے میں بظاہر کوئی حرج کی بات نہیں، بلکہ ایک اچھی بات کی طرف ترغیب کی کوشش ہے۔ بعض لوگوں کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ ننگے سر نماز نہ پڑھیں،انہیں اگر مسجد میں اس طرح ٹوپیوں کی سہولت مل جائے تو وہ خوشی سے اسے پہن کر نماز پڑھنا پسند کرتے ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ یہ بات بھی ضروری ہے کہ زبردستی کسی کو مجبور نہیں کیا جانا چاہیے کہ وہ ضرور یہ ٹوپی پہن کر نماز پڑھے۔

اس لیے اگر کوئی اپنی مرضی اور خوشی سے مسجد میں پڑی یہ ٹوپیاں پہننا چاہے تو اسے روکنا نہیں چاہیے اور اگر کوئی نہ پہننا چاہے تو اسے مجبور نہیں کرنا چاہیے۔

باقی جہاں تک آپ کے دوسرے سوال کا تعلق ہے تو درس کے دوران سنتیں پڑھنے میں کوئی ممانعت نہیں ہے۔ احادیث میں آتا ہے کہ مساجد اللہ تعالیٰ کے ذکر، نماز پڑھنے اور قرآن کریم کی تلاوت کرنے کے لیے ہیں۔(صحیح مسلم کتاب الطہارۃبَاب وُجُوبِ غَسْلِ الْبَوْلِ وَغَيْرِهِ مِنْ النَّجَاسَاتِ إِذَا حَصَلَتْ فِي الْمَسْجِدِ)

پس مساجد میں یہ تمام کام ایک وقت میں بھی ہو سکتے ہیں اس طرح کہ کوئی شخص نوافل ادا کر رہا ہو، کچھ لوگ تلاوت کر رہے ہوں اور کچھ لوگ ذکر الٰہی کر رہے ہوں۔ لیکن ایسی صورت میں حضور ﷺ نے نصیحت فرمائی کہ مسجد میں موجود لوگ ایک دوسرے کا خیال رکھیں اور ایک دوسرے سے بڑھ کر اونچی آواز میں تلاوت نہ کریں۔(موطا امام مالک کتاب النداء للصلاۃ بَاب الْعَمَلِ فِي الْقِرَاءَةِ)

علاوہ ازیں احادیث میں حضور ﷺ کی یہ سنت بھی بیان ہوئی ہے کہ نماز کا سلام پھیرنے کے بعد حضور ﷺ عموماً اپنا چہرہ مبارک صحابہ کی طرف کر لیا کرتے تھے۔اس موقع پر بعض اوقات آپؐ صحابہ کو کوئی نصیحت بھی فرماتے۔ نماز فجر کے بعد آپؐ لوگوں سے یہ بھی فرماتے کہ اگر کسی نے گذشتہ رات کوئی خواب دیکھا ہو تو وہ اسے بیان کرے۔ (صحیح بخاری کتاب الاذان بَاب يَسْتَقْبِلُ الْإِمَامُ النَّاسَ إِذَا سَلَّمَ، کتاب الجنائز بَاب مَا قِيلَ فِي أَوْلَادِ الْمُشْرِكِينَ۔ سنن ابن ماجہ المقدمہ بَاب اتِّبَاعِ سُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ)

پھر حدیث میں حضور ﷺ کا یہ ارشاد بھی موجود ہے کہ تم میں سے جمعہ کے دن جو کوئی ایسے وقت میں مسجد آئے جبکہ امام خطبہ دے رہا ہو تو اسے چاہیے کہ پہلے دو رکعات اختصار کے ساتھ ادا کرے اور پھر خطبہ سننے کے لیے بیٹھے۔ (مسلم کتاب الجمعۃ باب التحیۃ والامام یخطب)

ان تمام احادیث سے پتا چلتا ہے کہ کسی شخص کےسنتیں پڑھنے کے وقت اگر امام درس شروع کر دے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ کیونکہ اگر یہ درست نہ ہوتا تو آنحضرت ﷺ جمعہ کے لیے دیر سے آنے والے شخص کو یہ حکم نہ دیتے کہ تم خطبہ کے دوران دو رکعات نماز پڑھ لو۔ اسی طرح درس کے دوران اگر کوئی شخص سنتیں ادا کرتا ہے تو یہ بھی قابل اعتراض بات نہیں کیونکہ نماز کے فوراً بعد سنتیں پڑھنا ضروری ہے، درس سننا ضروری نہیں۔ خصوصاً نماز فجر کے بعد جبکہ وقت کم ہو اور سورج نکلنے کا اندیشہ ہو تو فوری طور پر سنتیں ادا کرنی چاہئیں۔

باقی جہاں تک اس معاملہ کا انتظامی پہلو ہے تو میرے نزدیک اگر درس ایسی نماز کے ساتھ ہو جس کے بعد بھی سنتوں کی ادائیگی مسنون ہو جیسے نماز ظہر، مغرب یا عشاء تو پھر سنتوں کی ادائیگی کے بعد درس دینا چاہیے لیکن اگر نماز کے بعد سنتیں نہ ہوں تو پھر نماز کے معاً بعد درس شروع کیا جا سکتا ہے۔ اس صورت میں اگر کوئی شخص نماز فجر کی پہلے کی دو سنتیں فرض نماز کے بعد ادا کرتا ہے تو وہ درس کے دوران بھی ان سنتوں کی ادائیگی کر سکتا ہے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button