حضرت مصلح موعود ؓ

خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کرو

(خطبہ جمعہ سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی المصلح الموعود رضی اللہ تعالیٰٰ عنہ فرمودہ ۲۶؍جنوری ۱۹۱۷ء)

یہ حقیقی بات ہے کہ جو اعلیٰ چیز سے تعلق رکھتا ہے وہ خود بھی اعلیٰ ہو جاتا ہے۔دیکھ لو ایک بڑے دربار میں بعض بڑے بڑے اہلکار نہیں جا سکتے مگر بادشاہ کا چپراسی جا سکتا ہے تو جب کوئی بڑی چیز سے وابستگی حاصل کرتا ہے تو ضرور ہے کہ اس کی بڑائی بھی ہو اور یہ ایک سچی بات ہے کہ خدا کا ذکر اور اُس کا نام مٹ نہیں سکتاا س لئے جو شخص خدا کے ساتھ تعلق پیدا کرے وہ بھی نہیں مٹ سکتا

۱۹۱۷ء کےاس خطبہ جمعہ میں حضورؓ نے لا الہ الا اللّٰہ کے حقیقی معنی بیان فرماتےہوئے اسے اسلام کا نچوڑ اور خلاصہ قرار دیا ۔نیز جماعت کو اس بات کی تلقین فرمائی ہے کہ خدا تعالیٰ سےپختہ تعلق پیدا کریں ۔قارئین کے استفادے کےلیے یہ خطبہ شائع کیا جارہا ہے۔(ادارہ)

حضورنےتشہدوتعوذ [سورۃ فاتحہ] اورسورۃ العصر کی تلاوت فرمانے کے بعد فرمایاکہ

اسلام کی تعلیم کا نچوڑ اور خلاصہ تو لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ ہیہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ مَنْقَالَ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ فَدَخَلَ الْجَنَّۃَ۔(ترمذی کتاب الایمان باب ماجاء فیمن یموت و ھو یشھد ان لا الہ الا اللّٰہ )لیکن اس کے یہ معنے نہیں ہیں کہ صرف لفظ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کہنے سے ہی کوئی شخص جنت میں داخل ہو جائے گا۔کیونکہ ان الفاظ کا مفہوم تو اسلام کے سوا غیر مذاہب میں بھی پایا جاتا ہے۔ اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہود و نصاریٰ کے متعلق یہی فرماتے ہیں کہ ان کے پاس بھی صداقتیں ہیں اور وہ بھی خدا کے نبیوں کے نوشتوں کے حامل ہیں۔ مگر باوجود اس کے اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ مانیں تو نجات نہیں پا سکتے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اِن دونوں قولوں میں بظاہر اختلاف معلوم ہوتا ہے۔ درحقیقت ان میں کوئی اختلاف نہیں۔ کیونکہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کہنے سے یہ مراد ہے کہ مَنْ عَمِلَ بِالْاِ سْلَامِ یعنی جو اسلام کے مطابق اپنی زندگی بنائے وہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کہتا ہے۔ اس لئے لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ سے یہ استنباط نہیں ہوتا کہ انسان بےعمل جنت میں داخل ہو جائے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم جانتے ہو کہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کے کیا معنے ہیں۔ پھر آپ ہی فرمایا کہ اس کے یہ معنے ہیں کہ اللہ کو ایک جانو۔اور مجھ کو اس کا رسول مانو۔ غرض اللہ کے ماننے میں اللہ تعالیٰ کی بھیجی ہوئی سب تعلیم اور قرآن و حدیث بھی داخل ہیں۔ یعنے اسلام میں جس قدر احکام ہیں وہ سب پھل ہیں اور لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ بیج ہے۔ جس کے پاس صحیح اور سالم بیج ہو گا اور وہ اس کو بوئے گا تو ضرور ہے وہ پھل لائے اور جس کو اچھے پھل حاصل ہوں وہ سمجھ لے کہ ان کا بیج اچھا تھا اور جس کو کوئی پھل نہ ہو وہ سمجھ لے کہ اس کا بیج ناقص تھا۔ تو جب دل صاف ہو تب ہی ایمان درست ہوتا ہے۔ لیکن اگر پھل اچھا نہیں پیدا ہوا تو معلوم ہوا کہ اس بیج نے دل سے تعلق نہیں پکڑا جیسے مثلاً زمین میں کوئی شخص بیج ڈالے مگر وہ ناقص اور خراب ہو تو ضرور ہے کہ اس بیج کو کوئی پھول پھل نہ آئے اور یہ کہ وہ زمین سے سر ہی نہ اُٹھائے۔

غرض لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ اسلام کا ایک بیج ہے جو ایسی زمین میں پڑ کر پھل پھول نہیں لا سکتا جو اس کی اہل نہ ہو۔ اگر ہم خدا کے فعل یعنی کائنات دنیا کو دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہر ایک چیز خدا کی ہستی کی محتاج ہے۔ کوئی ایسی چیز نہیں جو قائم بِالذات ہو۔ حضرت خلیفہ اوّلؓ کو ایک دفعہ رئویا میں لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کے معنے سمجھائے گئے کہ دنیا میں کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو اپنے وجود کے قیام کے لئے کسی دوسری چیز کی محتاج نہ ہو۔مگر خدا ایک ایسی ہستی ہے جو قائم بِالذات ہی نہیں بلکہ قیوم بھی ہے۔ یعنے دوسروں کو بھی قائم رکھنے والی ہے۔ پس جو اشیاء اپنے وجود کے قیام کے لئے کسی دوسری چیز کی محتاج ہیں وہ اس بات کی اہل نہیں کہ ان کو خدا یا معبود کہا جائے۔ اس سورۃ میں مسلمانوں کو یہی مضمون بتایا گیا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی چیز قائم بِالذات نہیں۔ مثلاً چھت ہی ہے جو قائم نہیں رہ سکتی جب تک کہ دیواریں نہ ہوں۔ چھت خواہ لو ہے کی ہو مگر دیواریں کمزور ہوں تو چھت کی مضبوطی کچھ کام نہیں دے سکتی کیونکہ چھت کا قیام اپنی مضبوطی کی بناء پر نہیں بلکہ اس کا قیام ہے دیواروں پر اور جب دیواریں کمزور ہیں تو چھت بھی گویا کمزور ہی ہے۔ اس کی جہاں دیواریں گریں وہاں چھت بھی ضرور زمین پر آرہے گی۔ لیکن اگر دیواریں ایسی ہیں جوایک دو ماہ یا سال دو سال یا سو سال یا ہزار سال تک رہ سکتی ہوں تو چھت بھی اِس مدت تک رہ سکتی ہے توجو چیز کسی دوسری چیز کے سہارے پر قائم ہو وہ اُس وقت تک قائم رہ سکتی ہے جب تک سہارا دینے والی چیزقائم رہے۔

مگر جونہی اس کا خاتمہ ہؤا وہ بھی جاتی رہے گی۔ چونکہ دنیا کی اشیاء میں انسان بھی داخل ہے اور وہ بھی دوسری چیزوں کے سہارے قائم رہتا ہے اس لئے اس پر بھی یہ بات عاید ہوتی ہے۔لیکن ادھر ہم دیکھتے ہیں کہ انسان کی خواہش ہے کہ وہ ہمیشہ قائم رہے۔ اور ہر ایک انسان کے دل میں خواہش ہے اور اس خواہش سے کوئی دل خالی نہیں اور کوئی انسان نہیں جس کے دل میں یہ آرزو نہ ہو کہ وہ ہمیشہ زندہ رہے۔ اور فنا نہ ہو۔ خواہ کوئی جاہل سے جاہل ہی کیوں نہ ہو۔ مگر اس کی بھی یہ خواہش ضرور ہوتی ہے کہ وہ ہمیشہ زندہ رہے اور اُس کو موت نہ آئے۔ جب ہم حج پر گئے تو میر ناصر نواب صاحب سے ایک شخص ملا جو نہایت ضعیف تھا اور حج کو جار ہا تھا۔ ایک دن میں نے اس کو منیٰ کے مقام پر پوچھا کہ میاں عبدالوہاب یہ اُس کا نام تھا۔ تمہارا مذہب کیا ہے۔ اس نے کہا کہ ٹھہر جائو سوچ کر بتاتا ہوں۔ میں نے کہا مذہب کے متعلق سوچنے کی کونسی بات ہے۔ جو تمہارا مذہب ہو بتا دو۔ کہنے لگا جلدی نہ کرو بتاتا ہوں۔ پھر کہنے لگا اچھا جب میں حج سے واپس جائوں گا تو اپنے وطن سے مولوی صاحب سے پوچھ کر اپنا مذہب لکھوا بھیجوں گا۔ میں نے کہا تم خود بتائو کہنے لگا اچھا ٹھہرو بتاتا ہوں۔ میرا مذہب اعظم ہے۔ میں نے کہاں میاں اعظم تو کوئی مذہب نہیں۔ کہنے لگا ٹھہر جائو جلدی نہ کر و سوچنے دو۔ میرا مذہب علیہ علیہ ہے۔میں نے کہا کہ میاں یہ بھی کوئی مذہب نہیں۔ آخر کہنے لگا کہ میرا مذہب ہے اعظم علیہ۔ میں سمجھ تو گیا کہ امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کہنا چاہتا ہے۔ مگر پھر میں نے کہا کہ اعظم علیہ تو کوئی مذہب نہیں۔ اس نے کہا ٹھہر جائو تم توجلدی کرتے ہو۔میرا مذہب حنیفہ اعظم علیہ اور پھر بڑی مشکل سے کہا اعظم رحمۃ اللہ علیہ اور آخر میں کہا کہ تم جلدی کرتے ہو۔ میں اپنے گھر سے تمہیں لکھوا بھیجوں گا۔

اب اس شخص کو دیکھو نہ اس میں طاقت اور نہ خرچ مگر مدینہ کی تیاری کر رہا تھا۔ میں نے اُس کو کہا۔ میاں عبدالوہاب مدینہ جانا فرض نہیں تم مت جائو۔ اس نے کہا کہ نہیں میرے بیٹوں نے کہا تھا کہ مدینہ ضرور جانا۔ تو اس قسم کے لوگ بہت ہیں جن کو معلوم نہیں کہ ان کا مذہب کیا ہے۔ مگر اپنا نام قائم رکھنے کی ان میں خواہش ہو گی۔

ایسے لوگ نہ خدا کو جانتے ہیں نہ خدا کے رسول کومگر انہیں یہ خواہش ضرور ہے کہ ان کا نام قائم رہے۔ پھر لوگ اولاد کی خواہش کرتے ہیں صرف اس لئے کہ ان کا نام نہ مٹ جائے۔ مگر باوجود اس بات کے ان کویقین نہیں کہ اگر ہمارے اولاد ہوئی بھی تو یہ کیا یقینی بات ہے کہ اس اولاد کے اولاد ہوگی۔ اور اگر پوتے ہوئے بھی تو یہ کوئی یقین نہیں کہ آگے بھی اولاد ہو گی۔ لیکن ان کی یہ خواہش کیوں ہے؟ اس لئے کہ نام قائم رہے اس لئے کئی کئی شادیاں کراتے ہیں۔ پھر اپنا اور بیوی کا علاج کراتے ہیں کہ کسی طرح اولاد ہو تو ہر ایک کے دل میں یہ جذبہ پایا جاتا ہے۔ خواہ وہ بادشاہ ہو یا گدڑی پوش فقیر۔ فلاسفر اور حکیم ہو یا جاہل مطلق کہ ہمارا نام قائم رہے۔ دوسری طرف ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ کوئی چیز قائم بِالذات نہیں کیونکہ ہر چیز دوسرے کے سہارے قائم ہے اور ہر ایک کو فنا لگی ہوئی ہے۔اب سوال ہوتا ہے کہ ایک طرف تو فطرت میں رکھا گیا کہ ہم قائم رہیں اور دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ فنا اپنا کام کر رہی ہے۔ اور زندگیوں کا خاتمہ کر رہی ہے۔ اور یہ دونوں باتیں خدا ہی کی طرف سے ہیں۔

یہ خواہش جو ہر ایک انسان کے دل میں رکھی ہوئی ہے جھوٹی تو ہے نہیں کیونکہ ہر ایک انسان خواہ وہ کسی طبقہ میں سے ہو اس میں پائی جاتی ہے۔ا گر یہ خواہش جھوٹی ہوتی تو اس کا وجود سب انسانوں میں نہ پایا جاتا۔ لیکن اس کا سب انسانوں میں پایا جانا بتلاتا ہے کہ یہ فطرتی بات ہے اور جو فطرت کے تقاضہ سے بات ہووہ خدا کی ہی طرف سے ہؤا کرتی ہے۔اب ہر ایک چیز فناہو رہی ہے اور کسی کو بقا حاصل نہیں۔ اور دوسری طرف انسان کی خواہش ہے کہ وہ زندہ رہے۔ لیکن یہ کیسے پوری ہو۔ اس لئے اللہ تعالیٰ حکم فرماتا ہے: وَالۡعَصۡرِ اِنَّ الۡاِنۡسَانَ لَفِیۡ خُسۡرٍ۔ زمانہ کی قسم بیشک انسان کے ساتھ ہلاکت لگی ہوئی ہے۔ انسان کہہ دینے سے سب چیزیں اس میں آگئیں۔ کیونکہ انسان سب اشیاء پر حاکم اور متصرف ہے۔ تو جب انسان حاکم ہے اور اس کے لئے خسرہے تو سب چیزیں ہی گھاٹے میں ہیں۔ فرمایا کہ انسان کے گھاٹے کی طرف زمانہ شہادت دیتا ہے اور اس سے پتہ لگتا ہے کہ ہر ایک چیز گھاٹے کی طرف جار ہی ہے۔ اور انسان کی خواہش یہ ہے کہ وہ ہمیشہ رہے۔ پھر اس کے لئے کیا ہو۔ یہی کہ انسان کوئی ایسا سہارا تلاش کرے جو ہمیشہ قائم رہنے والا ہو اور وہ سہارا اللہ تعالیٰ ہے۔ پس وہ انسان جو اللہ پر بھروسہ کرے گا اور ا س سے اپنا تعلق جوڑے گا۔ وہ ہلاک نہ ہو گا۔اس لئے جو لوگ اللہ پر ایمان لاتے اور ایک ایسی ہستی پر سہارا کرتے ہیں جس کو ہلاکت نہیں۔ جو ہر قسم کی ہلاکتوں اور مصائب سے پاک ہے تو وہ بھی ہلاک نہیں ہو سکتے اور ان کے نام نہیں مٹ سکتے۔

یہ حقیقی بات ہے کہ جو اعلیٰ چیز سے تعلق رکھتا ہے وہ خود بھی اعلیٰ ہو جاتا ہے۔دیکھ لو ایک بڑے دربار میں بعض بڑے بڑے اہلکار نہیں جا سکتے مگر بادشاہ کا چپراسی جا سکتا ہے۔تو جب کوئی بڑی چیز سے وابستگی حاصل کرتا ہے تو ضرور ہے کہ اس کی بڑائی بھی ہو۔ اور یہ ایک سچی بات ہے کہ خدا کا ذکر اور اُس کا نام مٹ نہیں سکتا۔ا س لئے جو شخص خدا کے ساتھ تعلق پیدا کرے وہ بھی نہیں مٹ سکتا۔ یہ ایک علاج ہے اس بات کا کہ ہر ایک چیز کے لئے فنا ہے۔ مگر انسان اس سے بچ سکتا ہے کیونکہ اس کا تعلق خدا سے ہو جاتا ہے۔ جو ہمیشہ قائم رہنے والا ہے۔ پس اگر تم ہلاکت سے بچنا چاہتے ہو تو اس سے تعلق پیدا کرو جس کے لئے ہلاکت نہیں۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے وہ لوگ جو خود ایمان لائے اور جنہوں نے اچھے عمل کئے اور دوسروں کو نیک عمل کرنے کی تعلیم دی وہ اس قابل ہو گئے کہ خدا تعالیٰ ان کو بچائے اور قائم رکھے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں۔ جس کے ذریعہ کسی کو ہدایت ہو اس کے نام بھی اس شخص کی ہر ایک نیکی کے بدلہ میں نیکی لکھی جائے گی۔ اور یہ سلسلہ قیامت تک چلا جاتا ہے کیونکہ پھر اس شخص کے ذریعہ جس شخص کو ہدایت ملے گی اس کی نیکی کے بدلہ میں بھی اس کو نیکی کا بدلہ ملے گا۔ چنانچہ حضرت صاحب نے کہا کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اب جو شان ہے وہ پہلے کی نسبت بڑی ہے کیونکہ نبی کریم صلعم کے ذریعہ جن لوگوں نے ہدایت پائی اور پھر ان لوگوں کے ذریعہ جن لوگوں نے ہدایت پائی ضرورہے کہ ان سب کی نیکیوں کے بدلہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی نیکی ملے اور حضور کے درجات و مراتب میں ترقی ہو۔ تو اس وقت سے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے تھے اور اس کے بعد لوگوں نے نیکیاں کیں ان کا اجر آنحضرتؐ کوبھی ملا۔ تو جو آج آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مظہر ہو گا وہ ضرور ہے کہ ایک بڑی شان کا ہو۔ بعض نادان اس کے کچھ کے کچھ معنے لے اُڑے اور کہہ دیا کہ مرزا صاحب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے تئیں بڑھاتے ہیں۔ لیکن یہ غلط ہے۔آپ کا مطلب یہی تھا کہ آنحضرتؐ کے ذریعہ جو ہدایت پھیلی ضرور ہے کہ آنحضرتؐ کو اس کے بدلہ اور ثواب میں بہت سی نیکیاں ملیں اور جو آج آنحضرتؐ کا مظہر ہو گا اس کا جلال بھی بڑا ہوگا۔ غرض جس کا سہارا خدا پر ہو وہ بڑھے گا اور جس کا سہارا ان چیزوں پر ہو جو ہلاک ہونے والی ہیں وہ بھی ہلاک ہو جائے گا۔ پس ہلاکت سے بچنے کا ایک ہی ذریعہ ہے کہ خدا پر سہارا ہو۔ جو شخص اللہ کے دین اور اس کے ذکر کو پھیلائے وہ ضرور بڑھے گا۔

چونکہ انسان کی خواہش ہے کہ وہ قائم رہے۔ اور اس کے نام کو قیام ہو اور یہ اس صورت میں ہو سکتا ہے کہ خدا پر سہارا ہو ۔کیونکہ اللہ کی ذات ہی ایک ایسی ذات ہے جس کے لئے ہلاکت نہیں اور جو دوسروں کے سہارے پر قائم نہیں وہ قائم بِالذات ہی نہیں بلکہ قیوم بھی ہے کہ جس کے سہارے تمام چیزیں قائم ہیں۔ اس لئے اس سے تعلق پیدا کرو۔ خدا تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم مادی چیزوں کے سہاروں کو چھوڑ دیں اور صرف خداوند تعالیٰ کی ذات پر ہمارا بھروسہ ہو۔ آمین

(الفضل ۱۷؍فروری ۱۹۱۷ء)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button