از مرکز

حقیقی عید منانی ہے تو حقوق العباد کی ادائیگی کریں۔ رپورٹ عیدالفطر۲۲؍ اپریل ۲۰۲۳ء

(ادارہ الفضل انٹرنیشنل)

امیر المومنین سیدنا حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے آج مورخہ یکم شوال ۱۴۴۴ھ بمطابق ۲۲؍اپریل ۲۰۲۳ء بروز ہفتہ مسجد مبارک اسلام آباد (ٹلفورڈ) میں نمازِعید پڑھائی اور معرکہ آرا خطبۂ عید الفطر ارشاد فرمایا۔ یاد رہے کہ اس مرتبہ اسلام آباد میں نماز عید پڑھنے کے لیے اجازتِ عام تھی اسی لیے برطانیہ بھر کے مختلف شہروں نیز بعض دیگر ممالک سے بھی احمدی احباب اپنے پیارے امام کی اقتدا میں نمازِ عید ادا کرنے کے لیے حاضر ہوئے۔ اسی طرح محکمہ موسمیات کی جانب سے کی جانے والی پیشگوئی کے مطابق آج عید کے وقت بارش ہونا تھی لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنا خاص فضل فرمایا اور اسلام آباد میں موسم خوشگواررہا۔

آج یومِ عید کی خوشیاں اس طرح بھی دوبالا ہوئیں کیونکہ آج ہی کے دن ٹھیک بیس سال قبل یعنی ۲۲؍اپریل ۲۰۰۳ء کو الٰہی نوشتوں کے موافق اللہ تعالیٰ نے مومنین کے خوف کو امن میں بدلا اور جماعتِ احمدیہ مسلمہ ایک پُر از فتوحات اور بابرکت دورِخلافتِ خامسہ میں داخل ہوئی۔ فالحمدللہ علیٰ ذالک۔ اللہ ہمارے پیارے امام کی عمر اور صحت اور فیض میں بے انتہا برکت عطا فرمائے۔ آمین

حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ گیارہ بج کر ایک منٹ پر مسجد مبارک میں تشریف لائے اور نماز عید کی امامت کروائی۔ حضورِ انور نے سنت نبیﷺ کی پیروی میں پہلی رکعت میں سورۃ الاعلیٰ جبکہ دوسری رکعت میں سورۃ الغاشیہ کی تلاوت فرمائی۔

گیارہ بج کر ۱۴ منٹ پر حضور انور منبر پر رونق افروز ہوئے اور ’’السلام علیکم ورحمۃ اللہ‘‘ کا تحفہ عنایت فرما کر خطبہ عید کا آغاز فرمایا۔

خلاصہ خطبہ عید

تشہد، تعوذ، تسمیہ ، سورۃ الفاتحہ اور سورۃ النساء کی آیت ۳۷ کی تلاوت کے بعد حضورِانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےفرمایا:

اللہ تعالیٰ کا شکر و احسان ہے کہ اس نے ہمیں ایک اور رمضان سے گزرنے کی توفیق دی۔ بہت سے ایسے ہوں گے جنہیں اللہ تعالیٰ نے بہتر رنگ میں عبادت کی توفیق دی ہوگی اور جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے افضال کے نظّارے دیکھے ہوں گے۔ پس اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ ہم میں سے بہتوں کو ان تیس دنوں میں اللہ تعالیٰ اور اس کے بندوں کے حقوق ادا کرنے کی توفیق ملی۔ اللہ کرے کہ جب آج کے دن ہم اللہ تعالیٰ کے حکم پرعید منارہے ہیں تو سال کے باقی دنوں میں بھی اپنی اس حالت اور عبادات کے ان معیاروں کو قائم رکھنے والے ہوں جو اللہ تعالیٰ ہم سے چاہتا ہے اور جس کی تعلیم سیّدنا حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے ہمیں دی ہے اور جس کا ذکر مَیں نے کل کے خطبے میں بھی کیا تھا۔

اس کے ساتھ ہی ہمیں حقوق العباد کے اُن معیاروں کو بھی حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے جن کی طرف قرآن کریم نے ہمیں توجہ دلائی ہے۔ نمازوں اورعبادات کے متعلق کل مَیں نے کافی تفصیل سے بتایا تھا، آج اللہ تعالیٰ کے دوسرے حکم یعنی حقوق العباد کے متعلق بعض باتیں کروں گا۔ لیکن اس سے پہلے عبادت کے متعلق ایک بات بیان کرنا چاہتا ہوں اور وہ عید کی رات سے تعلق رکھتی ہے۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ جو شخص دونوں عیدوں کی راتوں میں عبادت کرے گا تو اس کا دل ہمیشہ کےلیے زندہ کردیا جائے گااور اس کا دل اس وقت بھی نہیں مرے گا جب دنیا کے سارے دل مر جائیں گے۔

حقوق العباد کی ادائیگی کے متعلق جو آیت مَیں نے تلاوت کی ہے اس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اللہ کی عبادت کرو اور کسی چیز کو اس کا شریک نہ ٹھہراؤ اور والدین کے ساتھ اور قریبی رشتے داروں، اور یتیموں اور مسکینوں اور رشتے دار ہمسایوں اور غیر رشتےدار ہمسایوں اور اپنے ہم جلیسوں اور مسافروں اور جن کے تمہارے داہنے ہاتھ مالک ہوئے احسان کرو ۔ یقیناً اللہ متکبر اور شیخی بگھارنے والے کو پسند نہیں کرتا۔

گویا شرک سے بچنے اور اللہ کی عبادت کا حق ادا کرنے کے بعد جو سب سے پہلے تم نے حق ادا کرنا ہے وہ والدین کا حق ہے اور اس کےبعد درجہ بہ درجہ دوسرے حقوق ہیں۔ والدین سے احسان کے حکم سے کوئی یہ نہ سمجھ لے کہ والدین کی خدمت ان پر احسان ہے، نہیں! بلکہ احسان کا ایک مطلب بہترین طریق سے حق ادا کرنا بھی ہے۔ والدین کے حقوق کے متعلق اللہ تعالیٰ نے یہ دعا سکھائی ہے کہ اے میرے ربّ! اُن پر مہربانی فرما کیونکہ انہوں نے بچپن میں میری پرورش کی تھی۔ بعض مرد اپنی بیویوں کو ان کے والدین کی خدمت سے روکتے ہیں، یاعورتوں کو خود یہ خیال آجاتا ہے، انہیں یاد رکھنا چاہیےکہ جس طرح مردوں کو والدین سے حسنِ سلوک کا حکم ہے ویسے ہی عورتوں کو بھی حکم ہے۔

پھر حقوق العباد کے سلسلے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اپنے قریبی رشتےداروں سے احسان کا سُلوک کرو۔ آنحضرتﷺ نے ایک موقعے پر فرمایا کہ جو شخص رزق کی فراخی چاہتا ہے یا خواہش رکھتا ہے کہ اس کی عمر زیادہ ہو، اس کا ذکرِ خیر زیادہ ہو، تو اسے صلہ رحمی کا خُلق اختیار کرنا چاہیے۔

حضور انور نے فرمایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنے رشتے داروں سے حسن سلوک کرو اور اچھے الفاظ میں ان کا ذکر کرو۔ ایک صحابی نے پوچھا کہ میں اچھے الفاظ سے ذکر کروں اور حسن سلوک کروں تب بھی وہ ناراض رہتے ہیں تو آپؐ نے فرمایا کہ تم پھر بھی اُن سے حسن سلوک کرو۔ اللہ تعالیٰ تمہاری مدد فرمائے گا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ تمہارے حسن سلوک کی وجہ سے کسی وقت اُن کی اصلاح ہوجائے۔ پھر فرمایا کہ یتیموں سے بھی حسن سلوک کرو۔ فرمایا کہ مَیں اور یتیم کی پرورش کرنے والے جنت میں ایک ساتھ ہوں گے۔ قرآن کریم میں بھی یتیم کا خیال رکھنے کی بہت تلقین کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت میں اس کا انتظام یتامیٰ فنڈ کی صورت میں باقاعدہ قائم ہے۔ عید کی خوشی کے موقع پر بھی اس مدّ میں خرچ کرکے یتیموں کو اپنی خوشی میں شامل کرنا چاہیے۔ بعض لوگ بڑی باقاعدگی سے اس فنڈ میں چندہ دیتے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اگر تُو چاہتا ہے کہ تیرا دل نرم ہو جائے تو مساکین کو کھانا کھلا اور یتیم کے سر پر ہاتھ رکھ۔ پس اپنی اصلاح کے لیے بھی ضروری ہے کہ انسان یتیموں کا خیال رکھے۔ اس کے لیے قربانیاں بھی کرنی پڑتی ہیں۔ اپنا خرچ کم کر کے دوسروں کا خیال رکھنا یقیناً اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرتا ہے ۔ پس یتیموں اور مسکینوں کو کھانا کھلانا اور اُن کا خیال رکھنا بہت بڑی نیکی ہے۔

جماعت میں دوسری مدّات بھی ہیں جیسے شادی فنڈ جس کےذریعہ کوشش کی جاتی ہے کہ غریب خاندانوں کی شادی کی ضرورت پوری کی جائے۔ صاحب حیثیت افراد کو اس طرف بھی توجہ دینی چاہیے۔ حقیقی خوشی یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر اللہ کے دیےہوئے میں سے خرچ کیا جائے۔ اچھے کپڑے پہن کر اور اچھے کھانے کھا کر عید کرلینا صرف عارضی خوشی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ تم جو میرے ساتھ تعلق رکھتے ہو یاد رکھو کہ ہر شخص خواہ کسی مذہب سے ہو اُس سے حسن سلوک کرو کیونکہ یہی قرآن کریم کی تعلیم ہے۔ یہ نیکیاں کسی قسم کی بڑائی اور تکبر کا خیال دل میں نہ لائیں۔ حقیقی نیکی کرنے والے محض خدا کی رضا کی خاطر کرتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہمسایوں سے نیک سلوک کرو چاہے تم انہیں جانتے ہو یا نہیں جانتے۔ پس عید کے دن ہمسایوں کو تحفے تحائف دینے سے مثالی معاشرہ بنتا ہے اور اسلام کی خوبصورت تعلیم کا بھی دوسروں کو پتا چلے گا۔ بعض شدت پسندوں نے اسلام کا جو غلط تصور پیش کیا ہے وہ بھی دُور ہوگا۔ ہماری نیکیاں جماعتی نیکی کے بجائے معاشرے کی نیکیاں بن جائیں گی اور ایک حسین معاشرے کو جنم دینے والی بن جائیں گی۔ فرمایا کہ سو کوس تک ہمسائے ہوتے ہیں۔ اس رُو سے کوئی احمدی کسی احمدی سے دُور نہیں رہ سکتا اور اس طرح ہم آپس میں بھی پیار محبت کو قائم کریں گے اور دوسروں کو بھی پیار محبت کی تعلیم دیں گے۔ کسی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا کہ مجھے کس طرح پتا چلے گا کہ میں ایک اچھا ہمسایہ ہوں تو فرمایا کہ اگر وہ تمہاری تعریف کرے تو تم اچھے پڑوسی ہو اور اگر وہ تمہاری برائی کرے تو تم اچھے پڑوسی نہیں ہو۔ پس اگر ہم اس تعلیم پر عمل کریں گے تو ہم ایک اچھے احمدی ہونے کا بھی ثبوت دے رہے ہوں گے۔

خطبہ کے آخر پر حضورِ انور نے فرمایا کہ اللہ کرے کہ ہم حضرت مسیح موعودؑ کی بیعت کا حق ادا کر کے حقیقی عید منانے والے ہوں اللہ تعالیٰ ہم سب کے لیے یہ عید مبارک فرمائے۔

اب ہم دعا کریں گے اپنی دعاؤں میں تمام انسانیت کے لیے دعا کریں ان بھوکوں بلکہ پانی کی بوند کو ترستے لوگوں کو اپنی دعا میں یاد رکھیں وہ جو کہ فاقوں میں زندگی گزار رہے ہیں، وہ مسلمان جو کہ سوڈان میں فاقوں میں گرفتار مسلمانوں کے ہاتھوں عید کی خوشیوں سے محروم ہیں اور اپنے سامنے اپنے پیاروں کو سسکتا اور مرتا دیکھ رہے ہیں ان کے لیے دعا کریں۔ ہمارے پاس مادی وسائل تو نہیں کہ وہاں جا کر ان کی مدد کریں لیکن دعا کرکے ان کی مدد کر سکتے ہیں۔

ایوانِ مسرور میں عید کی ادائیگی

عالمگیرجماعت احمدیہ کے لیے دعا کریں اور خاص طور پر ان احمدیوں کے لیے جو کسی بھی طرح ظلم میں گرفتار ہیں۔ اللہ ظالموں کو پکڑنے کے سامان پیدا کرے اور مظلوموں کی مدد فرمائے۔

احمدیوں پرجو ظلم بھی ہو رہے ہیں وہ بھی اللہ کے نام پرہی ہو رہے ہیں اس لیے دعا ہی کے ذریعہ ان سے نجات ممکن ہے۔اسیران راہ مولیٰ کی رہائی کے لیے بھی دعا کریں۔شہدائے احمدیت کے خاندانوں کے لیے بھی دعا کریں کہ خدا ان کو اپنی حفظ وامان میں رکھے اور ان کا خود حامی وناصر اور متکفل ہو۔ بیماروں کی کامل اورجلد شفایابی کے لیے بھی دعا کریں۔ دعا کریں کہ دنیا سے بے حیائی اور شرک کا خاتمہ ہو جائے۔

دنیا میں مسلمانوں کے آپس کے اختلافات سے دنیا کوجو اسلام پراعتراضات کا موقع ملتاہے اس کے خاتمہ کےلیے دعا کریں کہ یہ مسیح موعود کو مان کر ایک ہاتھ پر جمع ہوں کہ اسی میں ان کی نجات اور کامیابی ہے اگر یہ ایک ہو گئے تو تب ہی ہماری حقیقی عیدہو گی۔ خطبہ ثانیہ کے بعد گیارہ بج کر پچاس منٹ پر حضور انور نے دعا کروائی۔

اسلام آباد کا راؤنڈ

خطبہ عیدالفطر اور دعا کے بعد حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مسجد سے باہر تشریف لائے اورسنّت نبویﷺ کے مطابق حضورانور اپنی رہائش گاہ سے جس راستے سے مسجد تشریف لائے تھے، واپس تشریف لے جاتے ہوئے دوسرے راستے کو اختیار فرماتے ہوئے اپنی رہائش گاہ پر تشریف لے گئے۔ سب سے پہلے حضور ایوانِ مسرور میں خواتین کے لیے مخصوص کیے جانے والے حصے میں تشریف لے گئے۔ ہال سے باہر تشریف لائے تو بائیں جانب احاطہ مسجد مبارک سے باہر لے جانے والی راہداری پر ہو لیے۔ ایوانِ مسرور کے عقب میں لگی مارکی کے ساتھ ساتھ احباب اور بچے کھڑے حضورِ انور کے دیدار سے فیضیاب ہوتے ہوئے ہاتھ ہلا ہلا کر اپنے آقا کو ’’عید مبارک‘‘ کا تحفہ پیش کر رہے تھے۔ جیسا کہ ذکر کیا جا چکا ہے اگرچہ آج بارش کی پیشگوئی تھی لیکن نہ صرف یہ کہ موسم خوشگوار رہا بلکہ اس وقت دھوپ بھی نکلی ہوئی تھی۔ حضور پُرنور اس راہداری پر چلتے ہوئے عید کے لیے خصوصی طور پر بنائے گئے دروازے سے گزر کر احاطے سے باہر تشریف لے گئے جہاں پہلے مردانہ اور پھر زنانہ مارکیاں نصب کی گئی تھیں۔ سڑک کے بائیں جانب احباب اور بچے کھڑے ہو کر حضورِانور کو ’’السلام علیکم پیارے آقا‘‘ اور ’’عید مبارک‘‘ کا تحفہ پیش کررہے تھے۔ جب حضور خواتین کی مارکی کے سامنے پہنچے تو وہ بھی خواتین اور بچیوں سے پُر تھی۔ حضور سب سلام کرنے والوں اور عید مبارک کہنے والوں کو ہاتھ اٹھا کر جواب دے رہے تھے۔ اس موقع پر حضورِ انور نے کچھ دیر رک کر یہاں موجود انتظامیہ سے بعض امور کی بابت استفسار بھی فرمایا۔ زنانہ مارکی سے آگے نکلے تو دو بچے اپنی والدہ کے ساتھ کچھ دور کھڑے تھے۔ انہوں نے دور سے ہاتھ ہلا کر حضورِ انور کی خدمت میں سلام عرض کیا۔ حضورِ انور نے ازراہِ شفقت انہیں بھی ہاتھ کے اشارے سے جواب دیا۔ یہاں سے حضور پُرنور دوبارہ احاطہ مسجد مبارک میں داخل ہوئے اور سڑک پر چلتے چلتے مسجد مبارک کے محراب کے سامنے سے ہوتے ہوئے ایوانِ مسرور کی جانب کھلنے والے دروازے سے ایوانِ مسرور کے سامنے تشریف لائے۔ ایک مرتبہ مسجد مبارک کے داخلی دروازے کے سامنے پہنچے اور پھر واپس لوٹتے ہوئے ایوانِ مسرور کے اندر تشریف لے گئے۔ یہاں سے باہر تشریف لائے تو کچن میں رونق افروز ہوئے جہاں ضیافت ٹیم دوپہر کا کھانا پکانے میں مصروف تھی۔ حضورِ انور نے بشیر احمد بابر صاحب سے کھانے سے متعلق کچھ امور کی بابت استفسار فرمایا۔ اس موقع پر حضورِانور نے کمال شفقت فرماتے ہوئے نمائندہ روزنامہ الفضل انٹرنیشنل سے استفسار فرمایا کہ ’’آپ اپنی رپورٹ تیار کر رہےہیں؟‘‘ جس کے جواب میں عرض کیا گیا ’’جی حضور!‘‘ فالحمدللہ علیٰ ذالک

مسجد مبارک اسلام آباد، ٹلفورڈ

چونکہ جگہ جگہ عید کے لیے سامان رکھا تھا، نمازیوں کے لیے صفیں وغیرہ بچھی ہوئی تھیں، حضورِ انور ایوانِ مسرور کے سامنے جہاں جانے کے لیے رخِ انور فرماتے خدام راستہ صاف کرتے چلے جاتے۔ گویا ؎ وہ جدھر جائے فرشتے ساتھ ہوں خدمت گزار کا عملی نمونہ نظر آتا تھا۔ حضورِ انور بارہ بج کر ۹ منٹ پر اپنی رہائش گاہ میں تشریف لے گئے۔

اللہ تعالیٰ پیارے حضور کی عمر، صحت اور فیض میں برکت عطا فرمائے اور ہمیں حضورِ انور کے تمام ارشادات پر عمل کرنے کی توفیق بخشے۔ آمین

٭…٭…٭

عید الفطر کے لیے خصوصی طور پر بنایا جانے والا گیٹ

متعلقہ مضمون

ایک تبصرہ

  1. اسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

    "حقیقی عید منانی ہے تو حقوق العباد کی ادائیگی کریں۔ رپورٹ عیدالفطر۲۲؍ اپریل ۲۰۲۳ء”
    اس مضمون کو پڑھنے کے بعد جس چیز نے یہ میسج لکھنے پر مجبور کیا وہ یہ ہے۔ کہ خلیفہ وقت کی طرف سے کی گئی ہر تحریک بہت اہمیت رکھتی ہے۔ آپ کو یہ الفاظ بھی شامل کرنے چاہیے تھے
    "پھر غریب مریضوں کے علاج کے اخراجات ہیں اس کی بھی مد ہے۔ اس کی طرف بھی توجہ دینی چاہیے ”
    جزاکم اللہ احسن الجزاء

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button