متفرق مضامین

وَاٰخَرِیۡنَ مِنۡہُمۡ-چند پہلو

(انصر رضا۔واقفِ زندگی، کینیڈا)

مجلس میں سلمان فارسی رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر ہاتھ رکھ کر فرمایا اگر ایمان ثریا پر بھی ہوگا تب بھی ان لوگوں( یعنی فارس والوں ) میں سے اس تک پہنچ جائیں گے یا یوں فرمایا کہ ایک آدمی ان لوگوں میں سے اس تک پہنچ جائے گا

صداقتِ مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ضمن میں سورت جمعہ کی آیت۴ بہت معروف ہے۔ اس سلسلہ میں چند پہلو پیشِ خدمت ہیں۔

ایک رسول کی بعثت کی دعا

سب سے پہلے ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ سورت جمعہ کی آیت۳ اس دعا کی قبولیت کا اعلان ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مسجد الحرام یعنی کعبہ کی تعمیر کے وقت کی تھی: رَبَّنَا وَابۡعَثۡ فِیۡہِمۡ رَسُوۡلًا مِّنۡہُمۡ یَتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِکَ وَیُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ وَالۡحِکۡمَۃَ وَیُزَکِّیۡہِمۡ ؕ اِنَّکَ اَنۡتَ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ۔(البقرۃ:130)اور اے ہمارے ربّ! تو ان میں انہی میں سے ایک عظیم رسول مبعوث کر جو ان پر تیری آیات کی تلاوت کرے اور انہیں کتاب کی تعلیم دے اور (اس کی) حکمت بھی سکھائے اور اُن کا تزکیہ کر دے۔ یقیناً تُو ہی کامل غلبہ والا (اور) حکمت والا ہے۔

اس دعا میں غورطلب بات یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اہل مکہ پر تلاوتِ آیات کرنے، انہیں تعلیم کتاب و حکمت دینے اور ان کا تزکیہ نفس کرنے کے لیے کسی عام انسان کے نہیں بلکہ ایک رسول کی بعثت کے لیے دعا کررہے ہیں کیونکہ وہ جانتے تھے کہ یہ چاروں کام کسی عام انسان کے بس کی بات نہیں بلکہ ایک رسول ہی انسانوں میں ایک روحانی انقلاب برپا کرنے کا یہ مقدس فرض سرانجام دے سکتا ہے۔

محض کتاب کافی نہیں ہوتی

حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس دعا سے ہمیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ انسانوں کی ہدایت و نجات کے لیے محض کتاب کافی نہیں ہوتی بلکہ اس کے ساتھ ایک معلم اور مزکّی کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:الٓرٰ ۟ کِتٰبٌ اَنۡزَلۡنٰہُ اِلَیۡکَ لِتُخۡرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوۡرِ ۬ۙ بِاِذۡنِ رَبِّہِمۡ اِلٰی صِرَاطِ الۡعَزِیۡزِ الۡحَمِیۡدِ ۔(ابراہیم:۲)

اَنَا اللّٰہُ اَرٰی : میں اللہ ہوں۔ میں دیکھتا ہوں۔ یہ ایک کتاب ہے جو ہم نے تیری طرف اتاری ہے تاکہ تُو لوگوں کو ان کے ربّ کے حکم سے اندھیروں سے نور کی طرف نکالتے ہوئے اس راستہ پر ڈال دے جو کامل غلبہ والے (اور) صاحبِ حمد کا راستہ ہے۔

یعنی انسانوں کو اندھیروں سےنکال کر نور کی طرف لے کر آنا اس رسول کا کام ہے جس پر کتاب نازل کی جاتی ہے۔لیکن اس کے برعکس رسولوں کی بعثت کا انکار کرنے والے کہتے ہیں کہ ہمیں اب رسول کی ضرورت نہیں ہے۔ رسول نہ ہم پر تلاوت آیات کرے، نہ کتاب و حکمت کی تعلیم دے اور نہ ہی ہمارا تزکیہ نفس کرے۔ اس کا بس یہی کام ہے کہ وہ ہم تک کتاب پہنچادے ہم اسے خود ہی پڑھ لیں گے…اَوۡ تَرۡقٰی فِی السَّمَآءِ ؕ وَلَنۡ نُّؤۡمِنَ لِرُقِیِّکَ حَتّٰی تُنَزِّلَ عَلَیۡنَا کِتٰبًا نَّقۡرَؤُہٗ ؕ … (بنی اسرائیل:۹۴)یا تُو آسمان میں چڑھ جائے۔ مگر ہم تیرے چڑھنے پر بھی ہرگز ایمان نہیں لائیں گے یہاں تک کہ تُو ہم پر ایسی کتاب اتارے جسے ہم پڑھ سکیں۔

موجودہ دور میں منکرین بعثت رسول اور محض کتاب کو کافی سمجھنے والوں کی تردید مذکورہ بالا آیت کررہی ہے اس کے ساتھ ساتھ یہ حدیث بھی تردیدکررہی ہے جس میں نبی اکرمﷺ ایک صحابی کے سوال کا جواب عطا فرمارہے ہیں کہ جب کتاب یعنی قرآن موجود ہے تو علم کیسے اُٹھایا جاسکتا ہے:

عَنْ زَیَادِ بْنِ لَبِیْدٍ قَالَ ذَکَرَ النَّبِیُّؐ شَیْئًا فَقَالَ ’’ذَاکَ عِنْدَ اَوَانِ ذَھَابِ الْعِلْمِ‘‘۔ قُلْتُ یَا رَسُولَ اللّٰہِ وَ کَیْفَ یَذْھَبُ الْعِلْمُ وَ نَحْنُ نَقْرَأُ الْقُرْآنَ وَ نُقْرِئُہُ أَبْنَاءَنَا وَ یُقْرِئُہُ أَبْنَاءُنَا أَبْنَاؤَھُمْ اِلیٰ یَوْمِ الْقَیَامَۃِ؟ قَالَ ثَکِلَتْکَ أُمُّکَ زَیَادُ اِنْ کُنْتُ لَأَرَاکَ مِنْ أَفْقَہِ رَجُلٍ بِالْمَدِیْنَۃِ۔ أَوَ لَیْسَ ھٰذِہِ الْیَھُوْدُ وَالنَّصَارٰی یَقْرَؤُنَ التَّوْرَاۃَ وَالْاِنْجِیْلَ لَا یَعْمَلُوْنَ بِشَیْءٍ مِمَّا فِیْھِمَا؟(سنن ابن ماجہ کتاب الفتن باب ذھابِ القرآنِ والعلمِ) زیاد بن لبیدؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے کسی چیز کا ذکر فرمایا اور کہا کہ یہ اس وقت ہوگا جب علم جاتا رہے گا۔ میں نے کہا یا رسول اللہ!علم کیسے جاتا رہے گا جبکہ ہم قرآن پڑھتے ہیں اور اپنے بیٹوں کو پڑھاتے ہیں اور وہ اپنے بیٹوں کو پڑھائیں گے اور تعلیم القرآن کا یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا۔ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ’’زیاد! تمہاری ماں تمہیں روئے! میں تو تمہیں مدینہ کے مردوں میں سب سے زیادہ سمجھ دار گردانتا تھا۔ کیا یہودونصاریٰ تورات اور انجیل نہیں پڑھتے لیکن وہ اس کی کسی چیز پر قائم نہیں ہیں۔

دعا قبول ہوگئی

سورت جمعہ کی اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ خوشخبری سنائی کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے امّیّین یعنی اہل مکہ میں جس رسول کے مبعوث ہونے کی دعا مانگی تھی وہ حضرت محمدﷺ کی ذات اقدس میں پوری ہوگئی۔

ھُوَ الَّذِیۡ بَعَثَ فِی الۡاُمِّیّٖنَ رَسُوۡلًا مِّنۡہُمۡ یَتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِہٖ وَیُزَکِّیۡہِمۡ وَیُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ وَالۡحِکۡمَۃَ وَاِنۡ کَانُوۡا مِنۡ قَبۡلُ لَفِیۡ ضَلٰلٍ مُّبِیۡنٍ(الجمعۃ:۳)وہی ہے جس نے اُمّی لوگوں میں انہی میں سے ایک عظیم رسول مبعوث کیا۔ وہ اُن پر اس کی آیات کی تلاوت کرتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب کی اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے جبکہ اس سے پہلے وہ یقیناً کھلی کھلی گمراہی میں تھے۔

ضرورتِ زمانہ

ضرورت زمانہ ایک سچے مدعی نبوت کی صداقت کے اہم ترین دلائل میں سے ایک دلیل ہے۔ چنانچہ اس مذکورہ بالا آیت میں بھی وَاِنۡ کَانُوۡا مِنۡ قَبۡلُ لَفِیۡ ضَلٰلٍ مُّبِیۡنٍکہہ کر اس کا ذکر کیا گیا ہے کہ اُمّیّٖین میں اس رسول کی بعثت اس وقت ہوئی ہے جب وہ کھلی کھلی گمراہی کا شکار ہوچکے تھے۔سورت آل عمران کی آیت۳ کا آخری حصہ بھی یہی ہے جس میں مومنین میں ایسے ہی ایک رسول کی بعثت کا ذکر کرتے ہوئے بتایا گیا کہ تب بھی ایسے ہی حالات پیدا ہوچکے ہوں گے یعنی امیین کی طرح مومنین بھی ضلال مبین کا شکار ہوچکے ہوں گے۔

بعثت ثانیہ کی پیشگوئی

وَاٰخَرِیۡنَ مِنۡہُمۡ لَمَّا یَلۡحَقُوۡا بِہِمۡ ؕ وَھُوَ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ۔ اور انہی میں سے دوسروں کی طرف بھی (اسے مبعوث کیا ہے) جو ابھی اُن سے نہیں ملے۔ وہ کامل غلبہ والا (اور) صاحبِ حکمت ہے۔

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا صرف ایک مرتبہ ہی قبول نہیں ہوئی بلکہ آخرین میں بھی جب خود مومنین ضلال مبین کا شکار ہوجائیں گے تب ان میں بھی تلاوت آیات، تعلیم کتاب و حکمت اور تزکیہ نفس کے لیے ایک رسول مبعوث کیا جائے گا۔ لَقَدْ مَنَّ اللّٰہُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِھِمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِہِ وَ یُزَکِّیْھِمْ وَ یُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَ الْحِکْمَۃَ وَ اِنْ کَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلَالٍ مُّبِیْنٍ۔(آل عمران:۱۶۵) یقیناً اللہ نے مومنوں پر احسان کیا جب اس نے ان کے اندر انہی میں سے ایک رسول مبعوث کیا۔ وہ ان پر اس کی آیات تلاوت کرتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب اور حکمت سکھاتا ہے۔ جبکہ اس سے پہلے وہ یقیناً کھلی کھلی گمراہی میں تھے۔

اس کی مزید وضاحت خود نبی اکرمﷺ نے اس حدیث کے ذریعہ بیان فرمادی:عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُ، قَالَ:’’كُنَّا جُلُوسًا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأُنْزِلَتْ عَلَيْهِ سُوْرَةُ الْجُمُعَةِ{وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ} قَالَ: قُلْتُ: مَنْ هُمْ يَا رَسُولَ اللّٰهِ، فَلَمْ يُرَاجِعْهُ حَتَّى سَأَلَ ثَلَاثًا، وَفِيْنَا سَلْمَانُ الْفَارِسِيُّ، وَضَعَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَهُ عَلَى سَلْمَانَ، ثُمَّ قَالَ:لَوْ كَانَ الْإِيمَانُ عِنْدَ الثُّرَيَّا لَنَالَهُ رِجَالٌ۔ أَوْ رَجُلٌ۔ مِنْ هَؤُلَاءِ۔ (بخاری کتاب التفسیر)

حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ سورۃ الجمعۃ کی یہ آیات نازل ہوئیں وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ( اور دوسروں کے لیے بھی جو ابھی ان میں شامل نہیں ہوئے ہیں) میں نے عرض کی یا رسول اللہ! یہ دوسرے کون لوگ ہیں؟ نبی کریمﷺنے کوئی جواب نہیں دیا۔ آخر یہی سوال تین مرتبہ کیا۔ مجلس میں سلمان فارسی رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر ہاتھ رکھ کر فرمایا اگر ایمان ثریا پر بھی ہوگا تب بھی ان لوگوں ( یعنی فارس والوں ) میں سے اس تک پہنچ جائیں گے یا یوں فرمایا کہ ایک آدمی ان لوگوں میں سے اس تک پہنچ جائے گا۔

ثریا سے ایمان لانے کا مطلب

ثریا سے ایمان لا نے کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ اس زمانہ میں ایمان بالکل مفقود ہوچکا ہوگا لیکن اس کا یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ نجات و ہدایت علماء کی علمی و تحقیقی کاوشوں سے نہیں بلکہ آسمان سے نازل ہونے والی وحی سے ملے گی۔

دور اول بہتر یا آخر

آخرین میں ایک رسول کی بعثت کا ایک اور ثبوت اس حدیث سے بھی ملتا ہے جس میں نبی اکرمﷺ فرماتے ہیں:عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:مَثَلُ أُمَّتِي مَثَلُ الْمَطَرِ لَا يُدْرَى أَوَّلُهُ خَيْرٌ أَمْ آخِرُهُ۔ (ترمذی۔ کتاب الامثال) حضرت انس ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: میری امت کی مثال بارش کی ہے، نہیں کہا جا سکتا کہ اس کا اول بہتر ہے یا اس کا آخر۔ صاف ظاہر ہے کہ غیر نبی کا زمانہ نبی کے زمانہ سے بہتر نہیں ہوسکتا۔ جب نبی اکرمﷺ خود دونوں زمانوں کو یکساں قرار دے رہے ہیں تو ثابت ہوتا ہے کہ آخری زمانہ میں بھی ایک رسول ہی مبعوث ہوگا جو دور اول کی طرح تلاوت آیات، تعلیم کتاب و حکمت اور تزکیہ نفس کے کام کرے گا ۔

امت کے آخر کی اصلاح اول کی اصلاح کی طرح ہی ہوگی

امام ابن تیمیہؒ اپنی کتاب ’’اقتضاء الصراط المستقیم لمخالفۃ اصحاب الجحیم‘‘المجلد الثانی فصل النوع الثانی من الامکنۃ میں اور قاضی عیاض اپنی کتاب ’’الشفاء بتعریف حقوق المصطفیٰ فصل’’فی حکم زیارۃِ قبرہِؐ و فضیلۃِ مَن زارہ و سلم علیہ و کیف یسلِّمُ و یدعُو لہ‘‘میں کتاب المبسوط سے حضرت امام مالکؒ کا یہ قول نقل کرتے ہیں:’’وَ لَا یُصْلِحُ آخر ھذہ الامۃ إلا ما أَصلح أَوَّلھا‘‘یعنی اس امت کے آخر کی اصلاح اسی طرح ہوگی جس طرح اس کے دورِ اوّل کی ہوئی تھی۔

نبوت اللہ تعالیٰ کا فضل ہے

سورت جمعہ میں ہی اللہ تعالیٰ نے وضاحت فرمادی کہ نبوت کسی ایک قوم یا خاندان تک محدود نہیں بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے وہ جسے چاہے عطا فرمادے۔

ذٰلِکَ فَضۡلُ اللّٰہِ یُؤۡتِیۡہِ مَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَاللّٰہُ ذُو الۡفَضۡلِ الۡعَظِیۡمِ۔ (الجمعۃ:۵)یہ اللہ کا فضل ہے وہ اُس کو جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے اور اللہ بہت بڑے فضل والا ہے۔یہی بات دیگر آیات میں بھی بیان کی گئی۔

مَا یَوَدُّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا مِنۡ اَھۡلِ الۡکِتٰبِ وَلَا الۡمُشۡرِکِیۡنَ اَنۡ یُّنَزَّلَ عَلَیۡکُمۡ مِّنۡ خَیۡرٍ مِّنۡ ربِّکُمۡ ؕ وَاللّٰہُ یَخۡتَصُّ بِرَحۡمَتِہٖ مَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَاللّٰہُ ذُو الۡفَضۡلِ الۡعَظِیۡمِ۔ (البقرۃ:۱۰۶) اہل کتاب اور مشرکین میں سے جن لوگوں نے کفر کیا وہ ہرگز پسند نہیں کرتے کہ تم پر تمہارے ربّ کی طرف سے کوئی خیر اُتاری جائے حالانکہ اللہ جس کو چاہتا ہے اپنی رحمت کے لیے خاص کر لیتا ہے اور اللہ بہت بڑے فضل والا ہے۔

وَمَنۡ یُّطِعِ اللّٰہَ وَالرَّسُوۡلَ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمَ اللّٰہُ عَلَیۡہِمۡ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَالصِّدِّیۡقِیۡنَ وَالشُّہَدَآءِ وَالصّٰلِحِیۡنَ ۚ وَحَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِیۡقًا۔ ذٰلِکَ الۡفَضۡلُ مِنَ اللّٰہِ ؕ وَکَفٰی بِاللّٰہِ عَلِیۡمًا۔ (النساء:۷۰۔۷۱)اور جو بھی اللہ کی اور اِس رسول کی اطاعت کرے تو یہی وہ لوگ ہیں جو اُن لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام کیا ہے (یعنی) نبیوں میں سے، صدیقوں میں سے، شہیدوں میں سے اور صالحین میں سے۔ اور یہ بہت ہی اچھے ساتھی ہیں۔یہ اللہ کا خاص فضل ہے۔ اور اللہ صاحبِ علم ہونے کے لحاظ سے بہت کافی ہے۔

قرآن و حدیث اور علماء متقدمین کی ان مذکورہ بالا تصریحات سے بخوبی واضح ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ انسانوں کو ضلالت و گمراہی کے اندھیروں میں بھٹکنے کے لیے نہیں چھوڑ دیتا بلکہ جب بھی وہ ظلمات کا شکار ہوتے ہیں تب انہیں نور کی طرف لانے کے لیے اپنا رسول مبعوث کرتا ہے۔ فَالْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی ذٰلِکَ!

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button