الفضل ڈائجسٹ

الفضل ڈائجسٹ

(محمود احمد ملک)

اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔

قبولیتِ دعا کا اعجاز

ماہنامہ’’تشحیذالاذہان‘‘ربوہ نومبر 2013ء میں حضرت مولوی رحمت علی صاحبؓ آف پھیروچیچی کی قبولیتِ دعا کا ایک حیرت انگیز واقعہ اُن کے بیٹے مکرم احسان الٰہی صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔

حضرت مولوی رحمت علی صاحبؓ 1867ء میں پیدا ہوئے۔ آپ کا بچپن پھیروچیچی گاؤں میں گزرا جو قادیان سے نو میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ اس گاؤں میں آپؓ پہلے شخص تھے جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان لانے کا شرف حاصل کیا۔ حضرت مصلح موعودؓ نے آپ کو سندھ میں اپنی زمینوں پر مقرر فرمایا تھا۔ آپؓ کی وفات 9؍جون 1957ء کو 90سال کی عمر میں ناصرآباد سٹیٹ سندھ میں ہوئی۔

حضرت مولوی صاحبؓ بیان فرمایا کرتے تھے کہ جب لُوپ لائن آف میرپورخاص بنائی گئی اور ٹرین چلنی شروع ہوئی تو بغیر ٹکٹ گاڑی پر چڑھنا بہت بڑا جرم تھا۔ مَیں ایک رات اس ٹرین پر سفر کررہا تھا کہ لیٹے ہوئے آنکھ لگ گئی اور اپنے سٹیشن سے دو سٹیشن آگے نکل آیا۔ اچانک ٹکٹ چیکر نے مجھے جگاکر ٹکٹ دیکھی تو کہا کہ تم دو سٹیشن آگے نکل آئے ہو، اگلا سٹیشن آتے ہی نیچے اُتر جانا وہاں تم سے جرمانہ وصول کیا جائے گا۔ اتفاق تھا کہ میرے پاس کوئی پیسہ نہیں تھا۔ اُتنی ہی رقم تھی جس کی مَیں ٹکٹ خرید چکا تھا۔ اس پر مَیں نے اپنے ربّ کریم کا دروازہ کھٹکھٹایا اور وہ پاک دعا پڑھنی شروع کی جو حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے آڑے وقت کے لیے تحریر کی ہوئی تھی: ’’اے میرے محسن اور اے میرے خدا! مَیں ایک تیرا ناکارہ بندہ پُرمعصیت اور پُرغفلت ہوں۔ تُو نے مجھ سے ظلم پر ظلم دیکھا اور انعام پر انعام کیا اور گناہ پر گناہ دیکھا اور احسان پر احسان کیا۔ تُو نے ہمیشہ میری پردہ پوشی کی اور اپنی بے شمار نعمتوں سے مجھے متمتع کیا۔ سو اَب بھی مجھ نالائق اور پُرگناہ پر رحم کر اور میری بے باکی اور ناسپاسی کو معاف فرما اور مجھ کو میرے اس غم سے نجات بخش کہ بجز تیرے چارہ گر کوئی نہیں۔ آمین ثم آمین۔‘‘ ابھی دعا ختم ہی کی تھی کہ سٹیشن آگیا اور مَیں گاڑی سے اُتر کر پلیٹ فارم سے باہر جانے کے راستے کی طرف بڑھا۔ وہاں وہی ٹکٹ کلکٹر ہاتھ میں بتّی لیے کھڑا تھا۔ اُسی نے میرا ٹکٹ دوبارہ چیک کیا اور مجھے باہر جانے کی اجازت دےدی۔

………٭………٭………٭………

مکرم چودھری محمد عبدالوہاب صاحب

روزنامہ ’’الفضل‘‘ربوہ 21؍اکتوبر2013ء میں مکرم چودھری محمد عبدالوہاب صاحب (برادراصغر محترم ڈاکٹر عبدالسلام صاحب) کا ذکر خیر مکرم وسیم احمد شمس صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے جو اُس دَور میں مربی ضلع اسلام آباد متعیّن تھے جب 1988ء میں محترم چودھری صاحب ٹرانسفر ہوکر ایبٹ آباد سے اسلام آباد آگئے اور بطور سیکرٹری مال خدمت آپ کے سپرد ہوئی۔ اُس وقت آپ یونائیٹڈبنک لمیٹڈ کے وائس پریذیڈنٹ تھے۔

محترم چودھری صاحب کی ولادت اکتوبر 1939ء میں محترم چودھری محمد حسین صاحب آف جھنگ کے ہاں ہوئی جن کی تربیت کا گہرا اثر اُن کے سب بچوں پر نظر آتا ہے۔ نماز روزہ کی پابندی کے ساتھ جماعتی پروگراموں میں شمولیت کی بھی نگرانی کی جاتی تھی۔ جھنگ سے میٹرک پاس کرنے کے بعد آپ مزید تعلیم کے لیے لاہور آگئے اور فاروق آباد ضلع شیخوپورہ میں رہائش پذیر ہوگئے جہاں مجلس خدام الاحمدیہ کے قائد کےطور پر بھی خدمت کرتے رہے۔ 1964ء میں گریجوایشن کے بعد کراچی کے ایک بینک میں ملازم ہوگئے۔ وہاں قائد ضلع کے طور پر بھی خدمت کی توفیق پائی اور اس دوران دو بار عَلَمِ انعامی بھی حاصل کیا۔

1967ء میں آپ کی شادی مکرمہ امۃالباسط صاحبہ بنت مکرم چودھری نذیر احمد صاحب سے ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو تین بیٹوں سے نوازا۔ بچوں کی تربیت دوستانہ رنگ میں کی لیکن دینی معاملات میں کوتاہی برداشت نہ کرتے۔ آپ بہت مہمان نواز تھے۔ مرکز سے آنے والے مہمانوں کو خواہش کرکے اپنے ہاں لے جاتے۔ اس مقصد کے لیے گھر کا ایک کمرہ مخصوص کر رکھا تھا۔ ان کی خدمت کسی ملازم یا بچے کے سپرد کرنے کی بجائے خود کرنے میں خوشی محسوس کرتے۔

دینی کاموں میں محترم چودھری صاحب ہمیشہ مستعد رہے۔ آپ کے مرکز نماز میں خاکسار کو رمضان میں درس قرآن دینے کی توفیق ملتی رہی۔ آپ بارہا مجھے مربی ہاؤس سے لانے اور لے جانے کی خدمت کرتے۔ ہمیشہ میرے پہنچنے سے پہلے مرکز میں پہنچتے اور پورا درس انہماک سے صف پر بیٹھ کر سنتے۔ جب بھی کوئی آپ سے اپنی کوئی پریشانی بیان کرتا تو اُس کو حوصلہ دیتے، دعا کرتے اور ہرطرح سے عملی مدد کرتے۔

آپ یوبی ایل کے سینئر وائس پریذیڈنٹ کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے۔ بعدازاں ناظم انصاراللہ ضلع اسلام آباد کے طور پر خدمت کی توفیق پائی اور عَلَمِ انعامی کے حقدار ٹھہرے۔

………٭………٭………٭………

ذیابیطس اور اس کا علاج

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 15دسمبر 2014ء میںمکرم کلیم احمد صاحب کے قلم سے ذیابیطس کے بارے میں ایک معلوماتی مضمون شامل اشاعت ہے۔

ذیابیطس کی پہلی قسم میں انسولین سرے سے موجود ہی نہیں ہوتی۔ دوسری قسم کی ذیابیطس میں انسانی جسم میں انسولین بنانے کی صلاحیت کم ہوجاتی ہے۔ اس کا شکار عموماً عمررسیدہ لوگ ہوتے ہیں۔دوران حمل بھی دو سے پانچ فیصد خواتین ذیابیطس کا شکار ہوجاتی ہیں یہ اس کی تیسری قسم ہے۔

انسولین ایک ہارمون ہے جو لبلبے میں پیدا ہوتا ہے اور گلوکوز کو خلیوں کے اندر داخل ہونے میں مدد دیتا ہے یعنی تندرست شخص میں انسولین خون میں موجود گلوکوز، سٹارچ اور دوسری غذاؤں کو توا نائی میں تبدیل کرتا ہے۔ لیکن شوگر کے مریض میں لبلبہ چونکہ کافی مقدار میں انسولین پیدا نہیں کرتا اس لیے شوگر بدن میں داخل نہیں ہوپاتی بلکہ خون میں ٹھہر جاتی ہے اور خون میں شوگر کی مقدار بڑھ جاتی ہے۔

یہ خاندانی مرض بھی ہوسکتا ہے لیکن وزن میں زیادتی اور عمر رسیدہ ہونا بھی اس مرض میں نسبتاً زیادہ مبتلا کرسکتا ہے۔ اس کی علامات میں کثرتِ بول، پیاس کی زیادتی، وزن میں کمی، عام جسمانی اور اعصابی کمزوری، پنڈلیوں میں درد، سر چکرانا، پسینہ آنا، چال میں ڈگمگاہٹ، نظر کی کمزوری، جلد کی خرابی اور خارش، چھوت دار امراض اور جنسی کمزوری شامل ہیں۔

ذیابیطس کا علاج صرف دوائی اور پرہیز سے ہی ممکن ہے۔ مریض کے لیے روزانہ تیس منٹ چہل قدمی بھی بہت ضروری ہے۔ نیز میدے، میٹھے اور چکنائی سے ہر ممکن پرہیز کریں۔ اجناس اور تازہ سبزیوں کا استعمال زیادہ سے زیادہ کریں۔اس کے ساتھ پانی کا استعمال بہت زیادہ کریں۔

دن میں تین بار کھانا کھائیں۔ ناغہ نہ کریں اور اس طرح آپ اپنی بھوک کو بھی کنٹرول کر سکتے ہیں۔ کھانے میں زیتون کا تیل استعمال کریں لیکن زیادہ پکا کر کھانے سے آپ کو کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ اگر زیتون کے تیل سے آپ فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں تو کچا تیل استعمال کریں۔

وزن کم کرنے کے لیے گھی، تیل اور مکھن کھانا چھوڑ دیں، پنیر کا استعمال زیادہ کردیں۔ سرخ گوشت کی بجائے کم چربی والا گوشت جیسے مرغی، پرندے اور مچھلی کھائیں۔ کم چکنائی والا دودھ استعمال کریں۔ تلے ہوئے کھانوں کی بجائے اوون یا سٹیم کے ساتھ کھانا پکائیں۔ سبزیوں اور پھلوں کا استعمال بڑھا دیں تاکہ جسم کو درکار توانائی مل سکے۔

ذیابیطس کو ختم تو نہیں کیا جا سکتا لیکن متوازن خوراک، باقاعدہ ورزش، تمباکو نوشی سے پرہیز، کھانے میں لمبا وقفہ نہ کرنا، نمک کا کم استعمال…ان چیزوں کا دھیان رکھا جائے تو معمولاتِ زندگی متاثر نہیں ہوتے۔

یاد رکھیں کہ ورزش ذیابیطس کے علاج کا اہم حصہ ہے۔ یہ انسولین کی بے اثری کو کم کرتی ہے جو کہ ذیابیطس ٹائپ ٹُو کی بنیادی وجہ ہے۔ نیز دل کے امراض کے اضافی خطرات کو بھی کم کرنے میں مدد دیتی ہے۔

………٭………٭………٭………

روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ 23؍اکتوبر2013ءمیں ذیابیطس کے آنکھوں پر اثرات کے حوالے سے مکرمہ ڈاکٹر امۃالمصوّر سمیع صاحبہ کا ایک مضمون شامل اشاعت ہے۔

ذیابیطس کے نتیجے میں جب نظر متأثر ہوتی ہے تو وہ دوبارہ بحال نہیں ہوسکتی۔ اسی طرح گردوں اور اعصابی نظام کی خرابی بھی ذیابیطس کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے۔

ذیابیطس موروثی بھی ہوسکتی ہے لیکن اس کی وجوہات میں بےوقت کھانا، فرائیڈ چیزوں کا زیادہ استعمال، ورزش نہ کرنا، بہت آرام کرنا یا آرام بالکل نہ کرنا، نیز فاسٹ فوڈز کا بہت زیادہ استعمال اور علاج معالجے میں غفلت شامل ہے۔

جسمانی پیچیدگیوں سے بچنے کے لیے تلی ہوئی غذا کا استعمال کم سے کم کریں۔ آنکھوں کے لیے رنگدار سبزیوں کا استعمال بہت ضروری ہے مثلاً چقندر، ٹماٹر، گاجر، پالک، پھول گوبھی اور بند گوبھی، شملہ مرچ میں موجود اجزا نظر میں بہتری پیدا کرسکتے ہیں۔ کچی سبزیوں کا سلاد ضرور استعمال کریں۔ روزانہ سیر اور پانی کا وافر استعمال کریں۔ پانی آنکھوں کی خشکی کو بھی دُور کرتا ہے جو سکرین کے استعمال سے بڑھ جاتی ہے۔ اس کے علاوہ بےوقت کھانے سے پرہیز کریں۔ فاسٹ فوڈ کھانے سے دماغ کے خلیے متأثر ہوتے ہیں اور خون کی نالیاں تنگ ہوتی ہیں چنانچہ بچے بھی بلڈپریشر میں مبتلا ہوتے دیکھے گئے ہیں۔ دودھ کا استعمال بھی اہم ہے خواہ یہ دودھ کی صورت میں ہو یا دہی وغیرہ کی صورت میں۔

اگر آپ شوگر پر کنٹرول کریں گے اور بلڈپریشر اور کولیسٹرول کی مقدار قابو میں رکھیں گے، نیز خون کی کمی کی شکایت ہے تو اُسے دُور کریں گے تو آپ کی آنکھوں میں ذیابیطس کے بداثرات بہت کم ہوں گے۔ حضرت چودھری محمد ظفراللہ خان صاحبؓ کو یہ مرض قریباً 45 سال تک رہا، اسی طرح حضرت مسیح موعودؑ کو بھی ذیابیطس کا مرض تھا مگر اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس کے بداثرات آنکھوں پر ظاہر نہیں ہوئے۔

………٭………٭………٭………

روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ 4؍مارچ 2014ء میں مکرمہ امۃالباری ناصر صاحبہ کی ایک نظم شامل اشاعت ہے۔ اس نظم میں سے انتخاب پیش ہے:

جو بےقراری ہو یہ نسخہ آزما لینا

خدا کے ذکر سے دل اور زباں سجا لینا

غرور و کبر سے بچنے کا گر خیال آئے

کسی غریب کو بڑھ کر گلے لگا لینا

بہت کٹھن ہے گزارا محبتوں کے بغیر

انا کو چھوڑ کر روٹھے ہوئے منا لینا

جو مال کم ہو تمنّا ہو اَور مل جائے

تو کارِ خیر میں وہ بھی کہیں لگا لینا

طریق اچھا ہے یہ رزق میں کشائش کا

میسر آتا ہے جو ، شکر کر کے کھا لینا

اگر ہو فکر ضعیفی میں تنہا رہنے کا

تو کر کے خدمتیں ماں باپ کی دعا لینا

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button