دادی جان کا آنگن

حقیقی عید

(درثمین احمد۔جرمنی)

دادی جان !اس بار رمضان المبارک کچھ زیادہ ہی تیزی سے نہیں گزر گیا؟گڑیا نے دنوں کا حساب لگاتے ہوئے کہا۔

جی مجھے بھی بے تابی سے عید کا انتظار ہے۔اس بار میں نے بہت سی عیدی اکٹھی کرنی ہے۔احمد نے خوش ہوتے ہوئے اپنی آئندہ وصول ہونے والی عیدی کا حساب لگایا۔

اور میں بھی بہت سے کھلونے لوں گا۔ محمود بولا

دادی جان جو ابھی تلاوت سے فارغ ہوئی تھیں۔ان کی باتیں سننےلگیں۔

دادی جان : اچھا بچو! آپ کو پتا ہے کہ ہم عید کیوں مناتے ہیں ؟

گڑیا : جی دادی جان عید تو خوشی کے اظہار کا نام ہے۔ہم عید اس لیے مناتے ہیں کیونکہ پورا رمضان ہم نے اللہ میاں کی عبادت کی ہوتی ہے۔تمام برے کاموں سے بچے ہوتے ہیں اور اچھے اچھے کام کرکے اللہ میاں کو خوش کرتے ہیں تو ہمیں ہمارے اچھے کاموں کا بدلہ عید کی صورت میں انعام ملتا ہے اور یہ کہ عید پر اپنی خوشی میں دوسروں کو بھی شریک کرنا چاہیے۔

دادی جان :شاباش گڑیا۔آپ نے بہت اچھا بتایا۔

عید پر ہم سب مل کر نماز پڑھنے جائیں گے۔ کھانے کھائیں گے۔ گھومنے جائیںگے۔ مگر میں اپنی عیدی تو بالکل بھی کسی سے شیئر نہیں کروں گا۔احمد نے جلدی سے کہا۔

دادی جان : نہیں احمد بیٹا ایسے نہیں کہتے۔ بلکہ عید تو ہمیں سکھاتی ہی قربانی ہے۔جب انسان رمضان کے روزے رکھتا ہے تو اُس میں تبھی ایک بھوکے انسان کی بھوک کا اور جن کو ساری نعمتیں میسر نہیں ہیں ان کی محرومی کا احساس پیدا ہوتا ہے اور یہی عید کا مقصد بھی ہے کہ ایک انسان دوسرے انسان کی بھوک اور تکلیف کا احساس کرے اور وہ احساس تبھی پیدا ہوگا جب ہم خود اُس کیفیت سے گزریں گے۔ اِسی لیے پہلے اللہ تعالیٰ نے رمضان المبارک میں ہمارے اندر دوسروں کی تکلیفوں کو محسوس کرنے کا جذبہ پیدا کیا اور جب ہم تیار ہوگئے تو اللہ نے فرمایا کہ اب عید کی خوشی میں اپنے بھائیوں کو بھی شامل کرلو۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے صدقۂ فطر بھی رکھا ہے تاکہ ہم سب عید کی خوشیوں کو ایک دوسرے کے ساتھ بانٹیں۔تبھی ہمیں عید کی سچی خوشی مل سکتی ہے۔میں آپ کو ہمارےپیارے نبی ﷺ کا ا س حوالے سے ایک بہت ہی پیارا واقعہ سناتی ہوں۔

جی ضرور دادی جان!محمود بولا

دادی جان: ایک دفعہ ہمارے پیارے نبی ﷺ عید کی نماز پڑھنے جارہے تھے کہ انہوں نے دیکھا کہ انصار کے سارے بچے کھیل رہے تھے مگر ایک بچہ کونے میں بیٹھا ر ورہا تھا، آپ ﷺ اس کے پاس گئے اور فرمایا کہ بیٹا !تم کیوں رو ر ہے ہو او ران بچوں کے ساتھ کیوں نہیں کھیل رہے، وہ بچہ آپ ﷺ کو نہیں پہچانتا تھا کہنے لگا۔ اے شخص! مجھے میرے حال پر چھوڑ دو، میرے والد رسول الله ﷺ کے ساتھ ایک غزوہ میں شہید ہو گئے ہیں۔ جب میں نے ان بچوں کو کھیلتے ہوئے دیکھا جن کے باپ زندہ ہیں او رانہوں نے نئے کپڑے پہنے ہوئے ہیں تو میں دکھی ہوگیا اس لیے رو پڑا، آپ ﷺ نے اس کا ہاتھ پکڑا او رکہا: کیا تو اس چیز پر راضی نہیں کہ میں تیرا باپ ہوں، عائشہ تیری ماں ہو، فاطمہ تیری بہن ہو، علی تیرے چچا ہوں، حسن وحسین تیرے بھائی ہوں؟! اب بچے نے پہچان لیاکہ یہ رسول الله ﷺ ہیں، اس نے کہا: یا رسول الله میں کیسے اس پر راضی نہ ہوں، آپ ﷺ نے اسے اٹھایا اور گھر لے آئے، اسے اچھا لباس پہنایا، اسے کھانا کھلایا۔ یہ بچوں کے پاس ہنستا مسکراتا ہوا آیا۔ بچوں نے جب اسے اس حال میں دیکھا تو کہا: ابھی تو تم رورہے تھے، اب کیا ہوا کہ تم خوش ہو؟ اس نے کہا کہ میں بھوکا تھا،میرا پیٹ بھر گیا، میں بے لباس تھا،مجھے کپڑے مل گئے ہیں، میں یتیم تھا رسول اللهؐ میرے باپ، عائشہؓ میری ماں بن گئیں اورآخر تک تمام قصہ سنایا۔ بچوں نے کہا: کاش ہم سب کے والد بھی غزوہ میں شہید ہو جائیں جس طرح تیرے والد شہید ہوئے۔

یہ واقعہ سناتے ہوئے دادی جان کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ احمد نے دادی جان کو افسردہ دیکھا تو جلدی سے ان کے گلے سے لگ گیا اور کہنے لگا۔ دادی جان آپ اداس نہ ہوں۔ میں امی جان سے کہوں گا کہ وہ میری عیدی کسی ضرورت مند کو دے دیں۔دادی جان نے اس کو پیار کیا اور کہا۔شاباش میرا ہیرا بیٹا۔

گڑیا: احمدبھائی کل آپ نے بتایا تھا کہ ناظم صاحب اطفال نے عیدی میں سے وقفِ جدید کا چندہ بھی دینے کو کہا ہے۔

احمد: وہ تو میں بھول گیا تھا۔ اب سب سے پہلے میں اپنا دفتر اطفال کا چندہ دوں گا۔

اور میں بھی!۔ محمود بھی اپنی توتلی زبان میں بولا۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button