متفرق مضامین

ابتلاؤں کے مقابلہ میں دعا کا ہتھیار

(ذیشان محمود۔ مربی سلسلہ سیرالیون)

مبارک وہ قیدی جو دعا کرتے ہیں۔ تھکتے نہیں کیونکہ ایک دن رہائی پائیں گے۔ مبارک وہ اندھے جو دعاؤں میں سُست نہیں ہوتے کیونکہ ایک دن دیکھنے لگیں گے۔مبارک وہ جو قبروںمیں پڑے ہوئے دعاؤں کے ساتھ خدا کی مدد چاہتے ہیں کیونکہ ایک دن قبروں سے باہر نکالے جائیں گے۔ مبارک تم جب کہ دعا کرنے میں کبھی ماندہ نہیں ہوتے

اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنے کا ذریعہ اس کی عبادت ہے اور یہی انسان کی پیدائش کی غرض ہے۔ دنیا میں اختلافِ مذہب کے باوجود دعا ایک ایسی عبادت ہے جو ہر مذہب میں مشترک ہے۔ اسی لیے رسول اللہ ﷺ نے ایک واضح اصول بیان فرمادیا کہ الدعاء مخ العبادة(سنن الترمذي۔ أبواب الدعوات ۳۳۷۱ ) دعا عبادت کا مغز ہے۔ پھر چاہے وہ کیسی اور کسی بھی مذہب کی عبادت ہو۔ اسے دعا کہیں یا prayer، پرارتھنا کہیں یا کچھ اور۔ دنیا میں مبعوث ہونے والےایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کرام کی زندگی کا لمحہ لمحہ گواہ ہے کہ انہوں نے دعا کے ذریعہ خدا تعالیٰ سے استمداد چاہی۔ امن اور مشکلات میں انہیں صرف خدا تعالیٰ کی ذات بابرکات ہی نظر آئی۔ چاہے وہ مشکلات میں گھرے حضرت نوح ؑکی خدا کے حضور رَبِّ اِنِّی مَغلُوبٌ فَانتَصِر کی دعا ہو یا نمرودکے مقابل دعائے ابراہیمی۔ چاہے وہ حضرتِ یعقوبؑ کی انما اشکو بثی و حزنی الی اللّٰہ کی دعاہو یا حضرت یونسؑ کی مچھلی کے پیٹ سے لا الہ الا انت سبحانک انی کنت من الظالمین کی دعا ہو۔ چاہے وہ حضرت یوسفؑ کی رَبِّ السِّجۡنُ اَحَبُّ اِلَیَّ کی دعائے سجن ہو یا حضرت عیسیٰؑ کی صلیب پر ایلی ایلی لما سبقتنی کی دعا۔ یہ دعائیں اب بھی ہر انسان کو ہموم و غموم سے نجات دیتی ہیں۔

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ ’’دنیا میں کوئی نبی نہیں آیا جس نے دعا کی تعلیم نہیں دی۔ یہ دعا ایک ایسی شے ہے جو عبودیت اور ربوبیت میں ایک رشتہ پیدا کرتی ہے۔ اس راہ میں قدم رکھنا بھی مشکل ہے۔ لیکن جو قدم رکھتا ہے پھر دعا ایک ایسا ذریعہ ہے کہ ان مشکلات کو آسان اور سہل کر دیتا ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد اول صفحہ ۴٩٢ ایڈیشن ۱۹۸۸ء)

الٰہی سلسلوں کو خدا تعالیٰ کی تائید حاصل ہوتی ہے۔ لیکن دنیا داروں کے مقابل خدا تعالیٰ کی طرف بڑھایا گیا قدمِ صدق ایک ابتلاکو چاہتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے اصحاب نے جب دنیا کو چھوڑا تو انہیں بھی مشکلات و مصائب نے آن گھیرا۔ انفرادی و قومی دکھ، اذیتیں، ظلم وجبر نے انہیں پیس کر رکھ دینا چاہا لیکن مکہ کی مقدس زمین پر ہونے والے اس ظلم کے مقابل خدا اور رسولؐ کی محبت میں فنا ان مظلوم مسلمانوں کی آہوں اور سسکیوں بھری دعاؤں نے کیسا انقلاب برپا کیا۔ وہ غلام جو تپتی ریت پر ننگے بدن لٹائے جاتے، ان کے سینوں پر بڑے بڑے پتھر رکھ دیے جاتے، چٹائیوں میں لپیٹ کر انہیں دھونی دی جاتی۔کفار نے یہ سمجھا کہ ان کے ۳۶۵؍ اصنام اسلام کے ایک خدا کو ہرا دیں گے۔ لیکن وہ فانی فی اللہ کی اندھیری راتوں کی دعائیں ہی تھیں کہ جس نےعرش کو جنبش دی۔ بالآخر وہ مظلوم فاتح بن کر مکہ میں داخل ہوئے۔

کفار مکہ کے ظلم و تعدی نے مسلمانوں کو مدینہ میں بھی امن سے نہ رہنے دیا۔ اور رمضان کے مہینہ میں مدینہ کی جانب حملہ آور ہوئے۔ بدر کے میدان میں ایک ہزارکفار کے مقابل مٹھی بھر ۳۱۳؍ مسلمان اپنے نبی اورایمان کی حفاظت کی خاطر صف آرا تھے۔ ان میں سے اکثر رموزِ جنگ سے ناواقف تھے۔ اس وقت رسول اللہ ﷺ خدا کے حضور سر بسجود اس دعا میں مصروف تھے کہ اَللّٰہُمَّ اِنَّکَ اِنْ تُھْلِکْ ھٰذِہِ الْعِصَابَۃَ مِنْ اَھْلِ الْاِسْلَامِ لَا تُعْبَدْ فِیْ الْاَرْضِ۔ (ترمذی کتاب التفسیر۔ تفسیر سورۃ الانفال) اے میرے اللہ! اگر یہ مسلمانوں کی جماعت ہلاک کر دی گئی تو پھر زمین میں تیری سچی عبادت کرنے والا کوئی نہیں رہے گا۔

پھر حضرت علی ؓبیان کرتے ہیں کہ بدر کے موقع پرحضرت رسول اللہﷺ ساری رات دعا کرتے رہے۔حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کہتے ہیں کہ ہم نے خدا کے سچے واسطے دے کر رسول اللہﷺ سے بڑھ کر دعا کرنے والا کوئی نہیں سنا۔آپﷺ نے بدر میں بڑے الحاح کے ساتھ دعا کر کے جب سراُٹھایا تو آپؐ کا چہرہ چاند کی طرح چمک رہا تھا۔آپﷺ نے فرمایا:آج شام دشمن قوم کے لوگ جس جگہ ہلاک ہوکر گریں گے ان کی جگہ میں دیکھ رہا ہوں۔ (ابوداؤد کتاب الادب باب مایقول اِذا أصبح)

دعا کی قبولیت کا یقین خدائے واحد کی ذات کے اقرار اور اس پر توکل کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ ہم اس زمانہ میں وہ خوش قسمت جماعت ہیں کہ جسے وقت کے امام حضرت مسیح موعود و مہدی معہودؑ پر ایمان لانے کی توفیق عطا ہوئی۔آپؑ نے اس زمانہ میں خدا تعالیٰ کے زندہ ہونے کا سب سے بڑا ثبوت اس کی صفتِ کلیم اور مستجیب الدعوات ہونے کو ٹھہرایا۔ اس زمانہ میں جہاں شرک سے آلودہ دیگر مذاہب خدا کےوجود سے انکاری تھے وہیں وحدانیت پر قائم دین اسلام کے پیروکار خداتعالیٰ کی صفات کے تعطل کے قائل ہوگئے تھے تب اس جری اللہ نے عَلم وحدانیت بلند کیا اور خدا تعالیٰ کا زندہ ہونا دوبارہ دنیا پر ظاہر کیا۔ع

وہ خدا اب بھی بناتا ہے جسے چاہے کلیم

اب بھی اس سے بولتا ہے جس سے کرتا ہے وہ پیار

حضرت مسیح موعودؑ نے بھی اپنی جماعت کو ان ابتلاؤں سے آگاہ فرمایا تھا۔ آپؑ نے فرمایا تھا کہ ’’ مبارک وہ جو خدا کی بات پر ایمان رکھے اور درمیان میں آنے والے ابتلائوں سے نہ ڈرے کیونکہ ابتلائوں کا آنا بھی ضروری ہے تا خدا تمہاری آزمائش کرے کہ کون اپنے دعویٰ بیعت میں صادق اور کون کاذب ہے۔ وہ جو کسی ابتلا سے لغزش کھائے گا وہ کچھ بھی خدا کا نقصان نہیں کرے گا اور بدبختی اس کو جہنم تک پہنچائے گی اگر وہ پیدا نہ ہوتا تو اس کے لئے اچھا تھا ۔مگر وہ سب لوگ جو اخیر تک صبر کریں گے اور ان پر مصائب کے زلزلے آئیں گے اور حوادث کی آندھیاں چلیں گی اور قومیں ہنسی اور ٹھٹھا کریں گی اور دنیا ان سے سخت کراہت کے ساتھ پیش آئے گی وہ آخر فتح یاب ہوں گے اور برکتوں کے دروازے ان پر کھولے جائیں گے۔‘‘( الوصیت، روحانی خزائن جلد ٢٠ صفحہ ٣٠٩)

حضرت مسیح موعود ؑ کے خلاف دشمنوں نے سنگین مقدمات بنائے۔ حکومت کو آپ کے خلاف اُکسا اُکسا کر آپ پر عرصۂ حیات تنگ کرنے کی سکیمیں بنائیں۔ خلفائے احمدیت کے مختلف ادوار میں بھی یہ سلسلہ جاری رہا۔ الغرض آپ کو اپنے خداداد مشن میں ناکام کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔آپؑ کے ماننے والوں پر طرح طرح کے مظالم ڈھائے مگر ہر مصیبت کے وقت ہستی باری تعالیٰ پر ایمان اور دعاؤں کی بدولت جماعت کا قدم خدا کے فضل سے آگے ہی آگے بڑھتا چلا گیا۔

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ ’’میر صاحب کے بیٹے اسحاق کو تیز تپ چڑھ گیا اور سخت گھبراہٹ شروع ہو گئی اور دونوں طرف بُنِ ران میں گلٹیاں نکل آئیں اور یقین ہو گیا کہ طاعون ہے کیونکہ اِس ضلع کے بعض مواضع میں طاعون پھوٹ پڑی ہے … اور دل میں سخت غم پیدا ہوا اور میں نے میر صاحب کے گھر کے لوگوں کو کہہ دیا کہ میں تو دعا کرتا ہوں آپ توبہ و استغفار بہت کریں کیونکہ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ آپ نے دشمن کو اپنے گھر میں بلایا ہے اور یہ کسی لغزش کی طرف اشارہ ہے اور اگرچہ میں جانتا تھا کہ موت فوت قدیم سے ایک قانونِ قدرت ہے لیکن یہ خیال آیا کہ اگر خدانخواستہ ہمارے گھر میں کوئی طاعون سے مر گیا تو ہماری تکذیب میں ایک شور قیامت برپا ہو جائے گا اور پھر گو میں ہزار نشان بھی پیش کروں تب بھی اس اعتراض کے مقابل پر کچھ بھی اُن کا اثر نہیں ہوگا کیونکہ میں صدہا مرتبہ لکھ چکا ہوں اور شائع کر چکا ہوں اور ہزار ہا لوگوں میں بیان کر چکا ہوں کہ ہمارے گھر کے تمام لوگ طاعون کی موت سے بچے رہیں گے۔ غرض اُس وقت جو کچھ میرے دل کی حالت تھی میں بیان نہیں کر سکتا۔ میں فی الفور دعا میں مشغول ہو گیا اور بعد دعا کے عجیب نظارۂ قدرت دیکھا کہ دو تین گھنٹہ میں خارق عادت کے طور پر اسحاق کا تپ اُتر گیااور گلٹیوں کا نام و نشان نہ رہا اور وہ اُٹھ کر بیٹھ گیا اور نہ صرف اس قدر بلکہ پھرنا، چلنا ،کھیلنا ،دوڑنا شروع کر دیا گویا کبھی کوئی بیماری نہیں ہوئی تھی۔‘‘ (حقیقة الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۳۴۲)

’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں ایک دفعہ کپور تھلہ کے احمدیوں اور غیر احمدیوں کا وہاں کی ایک مسجد کے متعلق مقدمہ ہو گیا جس جج کے پاس یہ مقدمہ تھا اُس نے مخالفانہ روّیہ اختیار کرنا شروع کردیا۔اس پر کپور تھلہ کی جماعت نے گھبرا کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو دعا کے لیے خط لکھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اِس کےجواب میں انہیں تحریر فرمایا کہ اگر میں سچا ہوں تو مسجدتم کو مل جائے گی۔ مگر دو سری طرف جج نے اپنی مخالفت بد ستور جاری رکھی اور آخر اس نے احمدیوں کے خلاف فیصلہ لکھ دیا۔ مگر دوسرے دن جب وہ فیصلہ سنانے کے لیے عدالت میں جانے کی تیاری کرنے لگا تو اُس نے نوکر سے کہا۔ مجھے بوٹ پہنادو۔ نوکر نے ایک بوٹ پہنایا اور دوسرا ا بھی پہنا ہی رہا تھا کہ کھٹ کی آواز آئی۔ اُس نے اوپر دیکھا تو جج کا ہارٹ فیل ہو چکا تھا۔ اُس کے مرنے کے بعد دوسرے جج کو مقرر کیا گیا اور اُس نے پہلے فیصلہ کو بدل کر ہماری جماعت کے حق میں فیصلہ کر دیا جو دوستوں کے لیے ایک بہت بڑا نشان ثابت ہوا۔ اور اُن کے ایمان آسمان تک جا پہنچے‘‘۔ (تفسیر کبیر جلد ہفتم صفحہ۲۷ تا ۲۸)

حیدرآباد دکن سے آیا ایک طالب علم عبدالکریم ولد عبدالرحمن مدرسہ احمدیہ قادیان میں زیرتعلیم تھا۔ اسے ایک دیوانہ کتے نے کاٹ لیا۔ علاج کے لیے کسولی بھجوایا گیاجہاں کتے کے کاٹنے کا علاج ہوتا تھا۔ ٹھیک ہوکر وہ قادیان واپس آگیا۔ لیکن کچھ روز میں اس بچے میں دیوانگی کے آثار ظاہرہونے لگے۔ حضرت مسیح موعود ؑفرماتے ہیں: ’’تب اس غریب الوطن عاجز کے لئے میرا دل سخت بیقرار ہوا اور دعا کے لئے ایک خاص توجہ ہوئی… اس غریب اور بے وطن لڑکے کے لئے میرے دل میں بہت توجہ پیدا ہو گئی اور میرے دوستوں نے بھی اس کے لئے دعا کرنے کے لئے بہت ہی اصراؔ ر کیا کیونکہ اس غربت کی حالت میں وہ لڑکا قابل رحم تھا اور نیز دل میں یہ خوف پیدا ہوا کہ اگر وہ مر گیاتو ایک بُرے رنگ میں اُس کی موت شماتتِ اعداء کا موجب ہوگی تب میرا دل اُس کے لئے سخت درد اور بیقراری میں مبتلا ہوا اور خارق عادت توجہ پیدا ہوئی جو اپنے اختیار سے پیدا نہیں ہوتی بلکہ محض خداتعالیٰ کی طرف سے پیدا ہوتی ہے اور اگر پیدا ہو جائے تو خدا تعالیٰ کے اذن سے وہ اثر دکھاتی ہے کہ قریب ہے کہ اُس سے مُردہ زندہ ہو جائے غرض اس کے لئے اقبال علی اللہ کی حالت میسر آگئی اور جب وہ توجہ انتہا تک پہنچ گئی اور درد نے اپنا پورا تسلّط میرے دل پر کر لیا تب اس بیمار پر جو درحقیقت مُردہ تھا اس توجہ کے آثار ظاہر ہونے شروع ہو گئے اور یا تو وہ پانی سے ڈرتا اور روشنی سے بھاگتا تھا اور یا یکدفعہ طبیعت نے صحت کی طرف رُخ کیا اور اس نے کہا کہ اب مجھے پانی سے ڈر نہیں آتا۔ تب اس کو پانی دیا گیا تو اُس نے بغیر کسی خوف کے پی لیا بلکہ پانی سے وضو کرکے نماز بھی پڑھ لی اور تمام رات سوتا رہااور خوفناک اور وحشیانہ حالت جاتی رہی یہاں تک کہ چند روز تک بکلی صحت یاب ہو گیا۔‘‘ (حقیقةالوحی، روحانی خزائن جلد۲۲صفحہ۴۸۰ – ۴۸۱)

حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا کہ ’’اگرتم لوگ چاہتے ہو کہ خیریت سے رہو اور تمہارے گھروں میں امن رہے۔ تو مناسب ہے کہ دعائیں بہت کرو اور اپنے گھروں کو دعاؤں سے پر کرو۔ جس گھرمیں ہمیشہ دعا ہوتی ہے خدا تعالیٰ اسے برباد نہیں کیا کرتا۔ لیکن جو سستی میں زندگی بسرکرتا ہے اسے آخر فرشتے بیدارکرتے ہیں۔ اگر تم ہر وقت اﷲ تعالیٰ کو یاد رکھوتو یقین رکھوکہ اﷲ تعالیٰ کا وعدہ بہت پکا ہے۔ وہ کبھی تم سے ایسا سلوک نہ کرے گاجیسا کہ فاسق فاجر سے کرتا ہے۔‘‘(ملفوظات جلد سوم صفحہ ٢٣٢ ایڈیشن ۱۹۸۸ء)

خلافت احمدیہ کے بابرکت ادوار میں مصائب کی آندھیاں چلیں۔ شریر و ں نے طوفانِ بدتمیزی برپا کیے رکھا۔ معصوم احمدیوں پر عرصۂ حیات تنگ کیے رکھا۔ حضرت خلیفة المسیح الاول ؓ کے زمانہ میں آپ نے خلافتِ احمدیہ کے استحکام کے لیے شبانہ روز دعاؤں کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کو طلب کیا اور احمدیوں کو ایک لڑی میں پروئے رکھا۔ حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ کے زمانہ خلافت کا ابتدا ہی ایک بڑا ابتلا لیے ہوئے آیا۔ شدھی و ملکانہ کی تحریک، احرار کی ریشہ دوانیاں، تقسیم ہند، ۱۹۵۳ءکی شرارتیں اس زمانہ میں پیش آئیں۔ خلافتِ ثالثہ میں ۱۹۷۴ء کا پر آشوب دور، خلافت رابعہ میں پاکستان میں خصوصاً طوفانِ بدتمیزی اور قانونی قدغنیں لگائی گئیں اور خلافتِ خامسہ میں مال و جان کی قربانی کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوا۔ پر الٰہی تائید و نصرت سے تمام خلفائے کرام احباب جماعت کو ان ابتلاوٴں کے طوفان سے دعا کی کشتی میں سوار کرا کے بحفاظت نکال لائے۔ خلفا ئےکرام کی دعاؤں کی تحاریک ایک کتاب کی متقاضی ہیں۔ اور ہم سب اس زمانہ میں بھی چشم دید گواہ ہیں کہ کس طرح احبابِ جماعت ان تحاریک پر لبیک کہتے ہوئے انہیں اپنی زندگیوں کا حصہ بنا لیتے ہیں۔ ان ابتلاؤں کے باوجود جو پیش خبری حضرت مسیح موعودؑ نے اپنی جماعت کو دی تھی کہ ’’وہ آخر فتح یاب ہوں گے اور برکتوں کے دروازے ان پر کھولے جائیں گے‘‘۔ اس کا نظارہ ہم آئے روز دیکھتےہیں۔

حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا ہے کہ ’’آخری حربہ دعا ہے‘‘ (خطبہ جمعہ فرمودہ۲۰؍مارچ۲۰۲۰ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۱۰؍ اپریل ۲۰۲۰ء)

اور فرمایا: ’’آج کل دعاؤں دعاؤں اور دعاؤں پر بہت زور دیں‘‘ (خطبہ جمعہ فرمودہ۱۰؍اپریل۲۰۲۰ء مطبوعہ یکم مئی ۲۰۲۰ء)

حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا:جب بھی کوئی مشکل درپیش ہو تو آپ خدا کے حضور دعا میں لگ جائیں۔ اگر آپ دعا کرنے کو اپنی عادت بنالیں تو ہر مشکل کے وقت آپ کو حیران کن طور پر خدا کی مدد ملے گی اور یہ وہ بات ہے جو میری ساری عمر کا تجربہ ہے۔ اب جبکہ میں بڑھاپے کی عمر کو پہنچ گیا ہوں تو میں یہ بتاتا ہوں کہ جب بھی ضرورت پڑی اور میں نے خدا کے حضور دعا کی تو میں کبھی ناکام نہیں ہوا۔ ہمیشہ اﷲ نے میری دعا قبول کی۔ ( بحوالہ خالد سیدنا طاہر نمبر صفحہ ۱۴۰۔مارچ – اپریل ۲۰۰۴ء)

حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا تھا کہ ابتلاؤں کا آنا بھی ضروری ہے تو ہمارا کام ہے کہ دعا کے ذریعہ ان ابتلاوٴں کا مقابلہ کریں۔ رسول اللہ ﷺ کے اس فرمان کو اپنی فطرتِ ثانیہ بنا لیں۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص یہ چاہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ تکالیف اور مصائب کے وقت اس کی دعاؤں کو قبول کرے تو اسے چاہئے کہ وہ خوشحالی کے اوقات میں کثرت سے دعائیں کرتا رہے۔ (مشکاۃ المصابیح کتاب الدعوات الفصل الثانی حدیث نمبر ۲۲۴۰)

پس حضرت مسیح موعودؑ کے ان الفاظ پر گزارشات ختم کرتا ہوں ’’ مبارک وہ قیدی جو دعا کرتے ہیں۔ تھکتے نہیں کیونکہ ایک دن رہائی پائیں گے۔ مبارک وہ اندھے جو دعاؤں میں سُست نہیں ہوتے کیونکہ ایک دن دیکھنے لگیں گے۔مبارک وہ جو قبروںمیں پڑے ہوئے دعاؤں کے ساتھ خدا کی مدد چاہتے ہیں کیونکہ ایک دن قبروں سے باہر نکالے جائیں گے۔ مبارک تم جب کہ دعا کرنے میں کبھی ماندہ نہیں ہوتے‘‘۔ (لیکچر سیالکوٹ،روحانی خزائن جلد ۲۰صفحہ۲۲۳،۲۲۲)

اللہ تعالیٰ ہمیں ہر قسم کے ابتلاؤں سے محفوظ رکھے۔ اور ہماری دعاؤں کو بپایۂ قبولیت کا مرتبہ عطا فرمائے۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button