از افاضاتِ خلفائے احمدیت

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اللہ تعالیٰ سے محبت، عبادت گزاری اور توحید خالص کے قیام کے لیے تڑپ

(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۴؍ فروری ۲۰۰۵ء)

حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے اپنی خالص توحید کے قیام کے لئے دنیا میں مبعوث فرمایا تھا۔ اور بچپن سے ہی اللہ تعالیٰ نے اپنی جناب سے ایسے انتظامات فرما دئیے کہ آپؐ کے دل کو صاف، پاک اور مصفّٰی بنا دیا۔ بچپن سے ہی اللہ تعالیٰ نے آپؐ کے اندر اپنی محبت اور شرک سے نفرت کا بیج بو دیا۔ بلکہ پیدائش سے پہلے ہی آپؐ کی والدہ کو اُس نور کی خبر دے دی جس نے تمام دنیا میں پھیلنا تھا۔ پھر دنیا نے دیکھا کہ یہ رؤیا جو حضرت آمنہ نے دیکھا تھا، کس طرح سچ ثابت ہوا۔ اللہ تعالیٰ کی مکمل شریعت آپؐ پراپنے وقت پر نازل ہوئی۔ اور وہ نور دنیامیں ہر طرف پھیلا۔ خدائے واحد کی محبت کا ایک جوش تھا جس نے آپؐ کی راتوں کی نیند اور دن کا چین و سکون چھین لیا تھا۔ اگر کوئی تڑپ تھی تو صرف ایک کہ کس طرح دنیا ایک خدا کی عبادت کرنے لگ جائے، اپنے پیدا کرنے والے خدا کو پہچاننے لگ جائے۔ اس پیغام کو پہنچانے کے لئے آپؐ کو تکلیفیں بھی برداشت کرنا پڑیں، سختیاں بھی جھیلنی پڑیں۔ لیکن یہ سختیاں، یہ تکلیفیں آپؐ کو ایک خدا کی عبادت اور خدائے واحد کا پیغام پہنچانے سے نہ روک سکیں۔ یہ خدائے واحد کے عبادت گزار بنانے کا کام جو آپؐ کے سپرد خداتعالیٰ نے کیا تھا وہ آپؐ پر اللہ تعالیٰ کے احکامات اترنے کے بعد تو آپؐ نے انجام دینا ہی تھا لیکن جیسا کہ مَیں نے کہا آپؐ کا دل بچپن سے ہی شرک سے پاک اور ایک خدا کے آگے جھکنے والا بن چکا تھا۔ خدا نے خود بچپن سے ہی اس دل کو اپنے لئے خالص کر لیا تھا۔ اگر کبھی بچپن میں اپنے بڑوں کے کسی دباؤ کے تحت، اس زمانہ کے کسی مشرکانہ تہوار میں جانا پڑا تو خداتعالیٰ نے خود ہی اس سے روکنے کے سامان پیدا فرما دئیے، خود ہی آپؐ کی حفاظت کے سامان پیدا فرما دئیے۔

اس بارہ میں ایک سیرت کی کتاب میں ایک واقعہ بھی درج ہے۔ حضرت اُمِّ اَیْمَنْ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ’’بُوَانہ‘‘، وہ بت خانہ ہے جہاں قریش حاضری دیتے تھے اور اس کی بہت تعظیم کرتے تھے اس پر قربانیاں چڑھاتے تھے، وہاں سر منڈواتے تھے اور ہر سال ایک دن کا رات تک اعتکاف کرتے تھے۔ حضرت ابو طالب بھی اپنی قوم کے ساتھ وہاں حاضری دیتے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی حاضری کے لئے ساتھ جانے کو کہتے(جب آپ بچے تھے) مگر آپ انکار کر دیتے۔ حضرت اُمِّ اَیْمَن کہتی ہیں کہ میں نے دیکھا ابو طالب اور آپؐ کی پھوپھیاں ایک دفعہ آپ پر سخت ناراض ہوئیں اور کہنے لگیں آپ ہمارے معبودوں سے اجتناب کرتے ہیں اس کی وجہ سے آپؐ کے بارے میں ہمیں ڈر رہتا ہے۔ اور کہنے لگیں اے محمد!(صلی اللہ علیہ وسلم) تو کیا چاہتا ہے؟ تو کیوں اپنی قوم کے ساتھ حاضری کے لئے نہیں جاتا، اور ان کے لئے کیوں اکٹھا نہیں ہوتا۔ ان کے بار بار کہنے کے نتیجہ میں آپؐ ایک بار چلے گئے لیکن جیسا کہ اللہ نے چاہا آپؐ وہاں سے سخت گھبراہٹ اور خوف کے عالم میں لوٹ آئے۔ تو ان عزیزوں رشتہ داروں نے پوچھا کہ کیا ہوا۔ آپؐ نے فرمایا کہ میں ڈرتا ہوں کہ شیطان مجھے چھوئے۔ اس پر انہوں نے کہا کہ اللہ عزّوجلّ تجھے ہرگز شیطانی خیالات میں مبتلا نہیں کرے گا اس حال میں کہ تجھ میں نیک عادات پائی جاتی ہیں۔ تو نے کیا دیکھا ہے، خوف کی کیا وجہ ہوئی ہے؟ آپؐ نے فرمایا جونہی میں کسی بت کے قریب جانے لگتا تو ایک سفید رنگ کا طویل القامت شخص میرے لئے متماثل ہوتا اور کہتا کہ اے محمد! پیچھے رہ، اس کو مت چھو۔ ام ایمنؓ کہتی ہیں پھر انہوں نے بھی کبھی حاضری کے لئے نہیں کہا۔ یہاں تک کہ آپؐ کو نبوت سے سرفراز فرمایا گیا۔ (السیرۃ الحلبیۃ باب ما حفظہ اللہ تعالیٰ بہ فی صغرہﷺ من امر الجاھلیۃ)تو یہ تھے وہ انتظامات جن کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ اس پاک اور خالص دل کی حفاظت کرتا تھا۔

پھر آپؐ کی جوانی کا زمانہ دیکھیں کس طرح ایک غار میں جا کر ایک خدا کی عبادت کیا کرتے تھے۔ آپؐ غار حرا میں کئی دن گزارتے۔ علیحدگی میں اپنے رب سے راز و نیاز کی باتیں کرتے، اس کی عبادت کرتے۔ یہ دیکھ کر آپؐ کے ہم قوم بھی کہنے لگ گئے کہ محمد(ﷺ )تو اپنے رب کا عاشق ہو گیا ہے۔

اس بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ذات کے عاشق زار اور دیوانہ ہوئے او رپھروہ پایا جو دنیا میں کبھی کسی کو نہیں ملا۔ آپؐ کو اللہ تعالیٰ سے اس قدر محبت تھی کہ عام لوگ بھی کہا کرتے تھے کہ عَشِقَ مُحَمَّدٌ عَلٰی رَبِّہ یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رب پر عاشق ہو گیا ‘‘۔ (ملفوظات جلد سوم صفحہ 524 ایڈیشن1988ء)

پھر جوانی میں ہی بتوں سے نفرت کی ایک اور مثال دیکھیں۔ جب حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوطالب کے ساتھ سفر شام کے دوران بحیرہ راہب سے ملے تو اس نے کہا کہ اے صاحبزادے! میں تم سے لات و عُزّٰی کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں کہ تم مجھے اس بات کاجواب دو۔ بحیرہ نے ان بتوں کا واسطہ دے کر اس وجہ سے پوچھا کیونکہ قریش سے بات پوچھنے کا یہی طریق تھا۔ (لات و عزٰی ان کے بڑے بت تھے) اس پر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھ سے ان بتوں کا واسطہ دے کر سوال نہ کرو کیونکہ مجھے ان دونوں سے شدید نفرت ہے۔ اس کے بعد بحیرہ نے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مزید گفتگو خدا کا واسطہ دے کر کی۔ (السیرۃ النبویۃ لابن ھشام قِصۃ بحیرٰی)

پھر ایک اور روایت جس سے آپؐ کی بتوں سے نفرت اور صرف اور صرف خداتعالیٰ کا بندہ رہنے کا اظہار ہوتا ہے یوں ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کے نزول سے قبل آپؐ کی زید بن عمرو سے ملاقات ہوئی، نبی کریمؐ کے سامنے کھانا پیش کیا گیا، آپؐ نے اس میں سے کھانے سے انکار کر دیا۔ پھر زید نے کہا کہ مَیں اس میں سے کھانے والا نہیں جو تم بتوں کے نام پر ذبح کرتے ہو اور میں نہیں کھاتا سوائے اس کے جس پر اللہ تعالیٰ کا نام پڑھا گیا ہو۔ (بخاری کتاب المناقب باب حدیث زید بن عمرو بن نفیل)آپؐ نے کھانے سے انکار کر دیا تھا اور یہ فرمایا کہ مَیں اس میں سے کھانے والا نہیں جو تم بتوں کے نام پر کرتے ہو۔ تو یہ تھا وہ دل جس میں سوائے اللہ تعالیٰ کی محبت کے اور کوئی دوسری محبت نہیں تھی۔….آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خداتعالیٰ کی ذات سے جو عشق تھا اور اس کی وحدانیت دنیا میں قائم کرنے کی جو تڑپ تھی اور جو آپؐ نے اس کے لئے کوشش کی اس کا تو کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا۔ لیکن اگر کبھی کسی سے بھی اس ذات کے بارے میں، اللہ تعالیٰ کی ذات کے بارے میں اعلیٰ اور اچھے کلمات آپؐ نے سنے تو ہمیشہ اس کی تعریف کی۔

ایک روایت میں آتا ہے، حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سب سے سچی بات جو کسی شاعر نے کی ہے وہ لبید کا یہ مصرعہ ہے کہ سنو اللہ کے سوا یقینا ًہر چیز باطل اور مٹ جانے والی ہے۔ (بخاری کتاب مناقب الانصار باب ایام الجاھلیۃ۔ حدیث نمبر 3841)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button