متفرق مضامین

روزے میں سیر اور ورزش

(صباحت کریم۔ مربی سلسلہ۔ یو کے)

آپؑ کی زیادہ ورزش پیدل چلنا تھا جو آخری عمر تک قائم رہی آپ کئی کئی میل تک سیر کے لیے جایا کرتے تھے اور خوب تیز چلا کرتے تھے

انسان اپنی ذات میں ایک چھوٹی سی کائنات سموئے ہوئے ہے۔ ہم جتنا اپنی ذات کے متعلق دریافت کرتے ہیں اتنا ہی ورطہ حیرت میں ڈوبتے چلے جاتے ہیں۔ انسان کی بقا کے لیے ہوا، پانی کے ساتھ اچھی خوراک بھی ضروری ہے۔ خوراک کس نوع کی ہواور کتنی مقدار میں ہو اس پر برسوں سے بحث چلی آتی ہے۔ قرآن مجید اس بارے میں مسلمانوں کونصیحت کرتا ہے۔ وکلوا واشربو ا ولا تسرفوا(الاعراف:۳۲)۔ اورکھاؤ اور پیو لیکن حد سے تجاوز نہ کرو۔ رسول کریم ﷺ کا فرمان ہے کہ آدمی نے پیٹ سے زیادہ برا کوئی برتن نہیں بھرا، آدمی کےلیےکافی ہے کہ وہ اتنے لقمے کھائے جو اس کی پیٹھ سیدھی رکھ سکیں۔ لیکن اگر آدمی پر اس کا نفس غالب آجائے، تو پھر ایک تہائی پیٹ کھانے کے لیے، ایک تہائی پینے کے لیے، اور ایک تہائی سانس لینے کے لیے رکھے۔(سنن ابن ماجہ۔ حدیث نمبر ۳۳۴۹)

ماہرین کے مطابق انسان پانی اور خوراک کے بغیر ایک ہفتہ گزار سکتا ہے۔ جبکہ پانی کے ساتھ اور خوراک کے بغیر دو سے تین ماہ تک زندہ رہ سکتا ہے۔ میڈیکل سائنس کا کہنا ہے کہ ۹۸ فی صد جسمانی بیماریاں خوراک کے باعث پنپتی ہیں جبکہ ان کا علاج خوراک بدلنے اور مقدار کم کرنے سے ہوجاتا ہے۔ جانوروں کے متعلق بھی مشہور ہے کہ بیماری میں فاقے کرکے اپنا علاج آپ کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ صوفیاء کم خوردن کے اصول پر زندگی گزارنے کی نصیحت کرتے۔ صحابۂ رسول ﷺ کے حالات بھی یہی بتاتے ہیں کہ کس مپرسی کے عالم میں فاقوں پر گزارہ کرتے۔ ایک دودھ کا پیالہ درجنوں پر کفایت کرتا۔ گھر میں خوراک نہ ہونے پر روزہ رکھ لیتے۔ جنگوں میں روزے رکھتے۔ اگر خوراک میسر ہوتی تو اتنی قلیل کہ چند کھجوروں پر پورا دن بسر ہوتا۔ خوراک کے فقدان پر پتھر شکم پر باندھ لیتے۔ ان سب حالات کے باوجود جسمانی مشقتوں سے نہ کتراتے۔ دن میں کام کاج کرتے اور راتوں کو عبادات بجالاتے۔روزی کمانے کی ذمہ داری کے ساتھ سنت رسولؐ پر بھی دل و جان سے عمل کرتے۔ اہل خانہ کا گھر کے کام کاج میں ہاتھ بٹاتے۔ خدا تعالیٰ سے یہ دعا مانگتے۔ اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوْذُ بِكَ مِنَ الْعَجْزِ، وَالْكَسَلِ۔ اے اللہ! میں عاجز رہ جانے اور سستی سے تیری پناہ کا طلب گار ہوں۔ روایات کے مطابق ماہ رمضان میں آپ ﷺکا یہ عالم تھا کہ اپنی کمر ہمت کس لیتے اورنیک اعمال میں ہوائے تُندکی طرح تیز رفتار ہو جاتے۔ البتہ ان مجاہدات کے باوجود صحابہؓ کہتے کہ انہوں نے نبی اکرمﷺ سے زیادہ مسکراتا اور ہشاش بشاش چہرہ کبھی نہیں دیکھا۔

آپﷺ کے عاشق صادق حضرت مسیح موعودؑ کا بھی یہی حال تھا۔ ۱۸۷۵ءکے آخر یا ۱۸۷۶ءکے آغاز میں آپؑ نے آٹھ یا نو ماہ تک خفیہ طور پر مسلسل روزے رکھنے کا مجاہدہ کیا۔ آپؑ اپنے ان روزوں کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’میں نے کچھ مدت تک التزام صوم کو مناسب سمجھا مگر ساتھ ہی یہ خیال آیا کہ اس امر کو مخفی طور پر بجالانا بہتر ہے۔ پس میں نے یہ طریق اختیار کیا کہ گھر سے مردانہ نشست گاہ میں اپنا کھانا منگواتا اور پھر وہ کھانا پوشیدہ طور پر بعض یتیم بچوں کو جن کو میں نے پہلے سے تجویز کرکے وقت حاضری کے لیے تاکید کر دی تھی دے دیتا۔ اور اس طرح تمام دن روزہ میں گذارتا اور بجر خدا تعالیٰ کے ان روزوں کی کسی کو خبر نہ تھی۔ پھر دو تین ہفتہ کے بعد مجھے معلوم ہوا کہ ایسے روزوں سے جو ایک وقت میں پیٹ بھر کر روٹی کھا لیتا ہوں مجھے کچھ بھی تکلیف نہیں۔ بہتر ہے کہ کسی قدر کھانے کو کم کروں۔ سو میں اس روز سے کھانے کو کم کرتا گیا۔ یہاں تک کہ میں تمام دن رات میں صرف ایک روٹی پر کفایت کرتا تھا اور اسی طرح میں کھانے کو کم کرتا گیا۔ یہانتک کہ شاید صرف چند تولہ روٹی میں سے آٹھ پہر کے بعد میری غذا تھی۔ غالباً آٹھ یا نو ماہ تک میں نے ایسا ہی کیا اور باوجود اس قدر قلت غذا کے کہ دو تین ماہ کا بچہ بھی اس پر صبر نہیں کر سکتا۔ خدا تعالیٰ نے مجھے ہر ایک بلا اور آفت سے محفوظ رکھا اور اس قسم کے روزہ کے عجائبات میں سے جو میرے تجربہ میں آئے وہ لطیف مکاشفات ہیں جو اس زمانہ میں میرے پر کھلے۔ چنانچہ بعض گذشتہ نبیوں کی ملاقاتیں ہوئیں اور جو اعلیٰ طبقہ کے اولیاء اس امت میں گذرے ہیں ان سے ملاقات ہوئی۔ ایک دفعہ عین بیداری کی حالت میں جناب رسول اللہﷺ مع حسنینؓ و علی رضی اللہ عنہ و فاطمہ رضی اللہ عنھا کو دیکھا اور یہ خواب نہ تھی بلکہ بیداری کی ایک قسم تھی۔ غرض اسی طرح پر کئی مقدس لوگوں کی ملاقاتیں ہوئیں۔‘‘(حیات طیبہ صفحہ ۳۳-۳۴)حضرت خلیفة المسیح الاولؓ نے بعض روزے داروں کا نقشہ کچھ یو ں کھینچا۔ فرمایا: ’’سحرگی کے وقت اتنا پیٹ بھر کر کھاتے ہیں کہ دوپہر تک بد ہضمی کے ڈکار ہی آتے رہتے ہیں اور مشکل سے جو کھانا ہضم ہونے کے قریب جو پہنچا بھی تو پھر افطار کے وقت عمدہ عمدہ کھانے پکواکے وہ اندھیر مارا اور ایسی شکم پوری کہ وحشیوں کی طرح نیند پر نیند اور سستی پر سستی آنے لگی۔‘‘(حقائق الفرقان جلد اول صفحہ ۳۰۷)

حضرت عیسیٰؑ نے اپنےحواریوں کو تنبیہ کی تھی کہ’’جب تم روزہ رکھو تو ریاکاروں کی طرح اپنی صورت اداس نہ بناؤ کیونکہ وہ اپنا منہ بگاڑتے ہیں تاکہ لوگ ان کو روزہ دار جانیں۔ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ وہ اپنا اجر پاچکے۔ بلکہ جب تو روزہ رکھے تو اپنے سر پر تیل ڈال اور منہ دھو۔ تاکہ آدمی نہیں بلکہ تیرا باپ جو پوشیدگی میں ہے تجھے روزہ دار جانے…اور تجھے بدلہ دے۔‘‘(متی باب ۶آیات ۱۶-۱۸)

چنانچہ پتا یہ چلا کہ روزہ کا مقصد انسان کو بیدار کرنا اور پھرتیلا بنانا ہے۔ روزہ انسان کے روزمرہ کے معمولات میں رکاوٹ کا باعث نہیں ہونا چاہیے۔ بلکہ روحانی اور جسمانی طور پر چست اور فعال کرنے کے لیے ہے۔ اس کے لیے جہاں طیب خوراک کا متوازن استعمال ضروری ہےوہاں سحری اور افطار کے بعد ہلکی پھلکی سیر و ورزش بھی صحت کو برقرار رکھنے کے لیے لازمی ہے۔ بچپن سے سنا ہے کہ کھانے کے بعد کچھ قدم چلنا بہت مفید ہے۔ اس سے معدہ، دل اور دماغ تینوں صحت مند رہتے ہیں۔ موٹاپا اور کاہلی پاس نہیں آتے۔ ماہرین کے مطابق۱۹ سے ۶۴سال کی عمر کے افراد چست اور فعال عمر گزانے کے لیے ہفتے میں کم سے کم ۱۵۰ منٹ ہلکی پھلکی ورزش کریں۔ جس میں چہل قدمی، دوڑ،تیرا کی،سائیکل چلانا وغیرہ کے ساتھ ہڈیوں اور گوشت کی مضبوطی کے لیے ٹانگوں، کولہے کی ہڈی، کمر، پیٹ، سینہ، کندھے اور بازووٴں کی ورزش ہفتے میں کم سے کم دو دن کرنا بہت مفید ہے۔

مشاہدہ بتاتا ہے کہ ماہ رمضان میں جسمانی ورزش نہ ہونے کے برابر رہ جاتی ہے نتیجةً وزن میں اضافہ اور جسم میں نقاہت پیدا ہوجاتی ہے۔جس کا منفی اثر صحت کے ساتھ روحانی مجاہدات کے تسلسل میں پڑتاہے۔ اسی لیے ماہ رمضان میں بھی ہلکی پھلکی سیر و ورزش جاری رکھنی چاہیے۔ نوجوان تو روزوں میں بھی کھیلتے اور ورزش کے مقابلے کرتے نظر آتے ہیں جبکہ کچھ بڑے اور عمر رسیدہ صبح و شام،سحری اور افطار کے بعد چہل قدمی کرتے دکھائی دیتےہیں۔ اولیاء اللہ و بزرگان امت کا یہی شیوہ رہا ہے کہ وہ صحت کو برقرار رکھنے اور فعال زندگی گزارنے کے لیے روزے رکھتے اور جسمانی مشقتیں کرتےتھے۔ کیونکہ تندرستی ہزار نعمت ہے۔حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:’’ایک دفعہ مجھے رؤیا میں بتایا گیا ایک شخص نے خواب میں ہی مجھے کہا کہ فلاں شخص ورزش کرکے وقت ضائع کردیتا ہے اور میں رؤیا میں ہی اسے جواب دیتا ہوں کہ یہ وقت کا ضیاع نہیں۔ جب کوئی اپنے قویٰ کا خیال نہیں رکھتا تو دینی خدمات میں پوری طرح حصہ نہیں لے سکتا۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے مجھے سبق دیا تھا کیونکہ مجھے ورزش کا خیال نہیں تھا۔تو ورزش بھی کام ہے۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مونگریاں اور مگدر پھیرا کرتے تھے بلکہ وفات سے سال دو سال قبل مجھے فرمایا کہ کہیں سے مونگریاں تلاش کرو۔ جسم میں کمزوری محسوس ہوتی ہے۔‘‘(مشعل راہ۔جلد اول صفحہ۱۰۹ – ۱۱۰) حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ؓ فرماتے ہیں: ’’آپؑ کی زیادہ ورزش پیدل چلنا تھا جو آخری عمر تک قائم رہی۔ آپ کئی کئی میل تک سیر کے لیے جایا کرتے تھے اور خوب تیز چلا کرتے تھے۔‘‘(سلسلہ احمدیہ جلد اول صفحہ ۹)

سچ ہے جان ہے تو جہان ہے۔ دنیا کی ہر نعمت کا مزہ صحت کے ساتھ ہے۔ ورنہ زندگی تو سب گزارتے ہیں لیکن عمدہ زندگی چند ہی لوگ بسر کرتے ہیں۔ حضرت مسیح موعودؑ نے اس بات کو اپنے ایک فقرے میں یوں سمجھایا۔ فرمایا: ’’اچھی زندگی وہ ہے جو عمدہ ہو، اگرچہ تھوڑی ہو‘‘۔ (ملفوظات جلد ۲ صفحہ ۳۳۴)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button