متفرق مضامین

سنو! مَیں ہوں ایک خوش نصیب محراب!

(محمد فاروق سعید۔ لندن)

ایک سال کبھی باون کبھی ترپن ہفتوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ ایک ہفتے میں ایک سو اڑسٹھ گھنٹے، ہر گھنٹے میں ساٹھ منٹ اور ہر منٹ میں ساٹھ ہی سیکنڈ ہوتے ہیں۔ آپ بھی سوچ رہے ہوں گے کہ یہ کون سا حساب کتاب ہو رہا ہے۔ میں آپ کو یہ سب اس لیے بتا رہا ہوں تاکہ آپ میرا کرب اور دکھ سمجھ سکیں، میرے اس ہجر کے صحرا کی وسعت کو ماپ سکیں جس کی شدت کو مَیں نے تین سال ایک ماہ یعنی ۶؍ مارچ ۲۰۲۰ء سے ۷؍ اپریل ۲۰۲۳ء تک برداشت کیا ہے۔ میرے جذبات میرے دل کی وسعت سے بھی زیادہ ہیں اور میری یہ محبت جو آپ کو بتا رہا ہوں میرے جذبات سے بھی بڑھ کر ہے۔ آج جمعہ ہے اور عید کا دن ہے۔بقول بلھے شاہؔ

آؤ سَیّو رل دیو نی ودھائی

میں بر پایا رانجھا ماہی

اَج تاں روز مبارک چڑھیا

رانجھا ساڈے ویہڑے وڑیا

جمعرات کو بیت الفتوح میں صفائیوں کا انداز الگ سا تھا، میرا دل دھڑک رہا تھا کہ کہیں کوئی ایسی خبر تو نہیں جسے سننے کی مجھے ایک عرصے سے چاہ ہے۔ اور پھر کہیں سے یہ خبر میرے کانوں میں پڑی کہ میرا پیارا کل میرے پاس ہوگا، وہ جس کے سجدوں کو میرا سینہ ترس رہا ہے۔ وہ جس کی سانسوں سے معطر ہونے کو میرے در و دیوار پیاسے ہیں۔ وہ کل جمعہ یہاں ادا کرے گا۔ اللہ اللہ! یہ دھڑکنوں کا انداز کچھ بدل سارہا ہے۔ اور کیوں نا بدلے، محبوب کی آمد آمد جوہے۔

میری ہر سانس جمعے کے انتظار کی گھڑیاں گننے لگ گئی۔ ایسا نہیں کہ میرا محبوب تین سال بعد مل رہا ہے۔ ان تین سالوں میں دو مواقع پر محبوب نے دیدار بخشا، صحبت عطا کی مگر وہ وصال کی چند گھڑیاں ہی تو تھیں جن میں نہ جی بھر کے دیکھ سکے نہ کچھ کہہ سکے۔ ہر بار ایسا ہوا کہ ابھی دھڑکنیں سنبھل ہی نا پائیں کہ وقتِ رخصت آگیا۔مگر اب کی بار محبوب آئے گا تو کچھ دیر ٹھہرے گا، عرفان کے موتی بکھیرے گا، ہزاروں عشاق کے ساتھ مل کر اپنے خدا سے راز و نیاز کرے گا! میرے تخیل کے باغوں میں تو وہ ہر وقت چہکتا مہکتا رہتا ہے، اب کے دیدارِ عام کے لیے دربارِ عام سجے گا۔

اور پھر آج کا مبارک دن، جمعے کا دن، عید کا روشن دن چڑھ آیا۔ ۲۰۲۳ء کے رمضان المبارک کا سولہواں روزہ ہے۔ فجر کی نماز کے بعد مسجد خالی ہو گئی اور کچھ دیر بعد صفائی والے دوبارہ آئے اور مزید میری تزئین و آرائش کر گئے۔ کورونا سے حفاظتی اقدامات والے اسپرے کر گئے۔ اینٹی بائیوٹیک جیل سے دیواروں کو صاف کیا گیا۔ مجھ پہ بچھے قالین کو بھی اچھی طرح صاف کیا گیا۔

ڈیوٹی والے خدام آنا شروع ہوئے۔ میں نے دیکھا کہ انہوں نے اچھی طرح مسجد کی تلاشی لی۔ پھر مسجد نمازیوں کے لیے کھول دی گئی۔ بسم اللہ! موسلا دھار بارش کی مانند نمازی آنا شروع ہو گئے۔ انہیں بھی ویسا ہی جوش تھا جیسا جوش مجھے تھا۔ انہیں بھی ویسی ہی محبت تھی جیسی مجھے تھی۔ میرے حضور کے انتظار میں ہر ایک کی خواہش تھی کہ جتنا قریب ہوسکے ہوا جائے۔

ہدایات کے مطابق ہر نمازی نے حفاظتی ماسک پہنا ہوا تھا اور کبھی اگر کسی کی بھول چوک سے وہ ناک کے نیچے ہوجاتا تو ڈیوٹی پر مامور مستعد احباب انہیں آرام سے توجہ دلاتے اور وہ اپنا ماسک درست کر لیتا۔ دیکھتے ہی دیکھتے میرے سامنے مسجد بھر گئی۔ نمازیوں کی خوشبوؤ ں سے تمام ہال مہک رہا تھا۔ میں گویا اپنی ہی خوش نصیبی پر رشک کر رہا تھا!

ساڑھے بارہ بجے مولانا فیروز عالم صاحب نے جمعہ کی پہلی اذان دی۔ یہ اس بات کا بھی اعلان تھا کہ اب کچھ دیر میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بھی آیا چاہتے ہیں۔ میں نے دیکھا کہ ہر نمازی کے چہرے پر ایک دبا دبا جوش ہے۔ بچے ہیں جو بار بار داخلی دروازے کی جانب اشارے کر کر کے اپنے بزرگوں سے کچھ پوچھ رہے ہیں اور وہ جواباً انہیں کچھ بتا رہے ہیں۔ ان بچوں پہ مجھے بے ساختہ پیار آیا کہ یہ باغِ احمد کی نرم و نازک کونپلیں ہیں جو آگے چل کر مضبوط و توانا شاخیں بنیں گی۔ ان شاءاللہ

میں نے بوڑھوں کو پُرنم آنکھوں سے ایک دوسرے کو مبارک دیتے دیکھا ،ڈیوٹی کرنے والے خدام و انصار کا جوش اور محبت بھرا انداز دیکھا۔ کچھ دیر بعد عملہ حفاظتِ خاص آگیا۔ انہوں نے دوبارہ میری تلاشی لی اور مجھے ایک مرتبہ پھر سینیٹائز کیاگیا۔ تمام نمازی اپنی سنتیں ادا کر چکے تھے اور ایک ٹک داخلی دروازے کی طرف دیکھ رہے تھے۔ میری ہر دھڑکن کان بن چکی تھی۔ سب نمازیوں کی طرح مَیں بھی اس لیے بار بار الحمدللہ کا ورد کر رہا تھا کہ آج تین سال کا ہجر ختم ہو رہا تھا۔ آج وصل کا دن تھا۔انتہائی مبارک۔

میں نے دیکھا کہ یک دم لوگ اچک اچک کر داخلی دروازے کی جانب دیکھنا شروع ہو گئے ہیں اور ان کے چہروں پر جذبات امڈ آئے ہیں۔ میں سمجھ گیا کہ میرا آقا تشریف لے آیا ہے۔ اتنے میں ’’السلام علیکم ورحمة اللہ‘‘کی مخصوص لہجے میں عنایت ہوئی اور جنت کی کھڑکی کھل گئی۔ ایک خوشبو میں لپٹا ہوا میرا مبارک آقا آگیا۔

یہ روز کر مبارک سبحان من یرانی

یہ روز کر مبارک سبحان من یرانی

میرا تین سال کا ہجر ختم ہوا۔نمازیں تو دو بار آقا نے ان تین سالوں میں یہاں پڑھائیں مگر جمعے کا ہجر برقرار تھا اور آج صرف میرا ہی نہیں،بہت سے نمازیوں کا بھی جمعے کا ہجر ختم ہوا۔ ان کا آقا آج ان کے سامنے بنفس نفیس موجود تھا۔ سب نے جذبۂ شوق سے ’’وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘‘کا تحفہ پیش کیا۔

حضورانور نے منبر پرآکر اذان کا فرمایا اورمولانا فیروز عالم صاحب نے ایک مرتبہ پھر کھڑے ہوکر اپنے مخصوص انداز میں اذان شرو ع کی۔ جب ’’اللہ اکبر‘‘ کی اٹھان ہوئی تو رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ آنکھیں نم ہونا شروع ہو گئیں۔اذان میں جب ’’محمد رسول اللہ‘‘ کہا تو تمام حاضرین نے درود و سلام پڑھا۔ یہ منظر ایسا انوکھا تھاکہ الفاظ میں بیان کی قوّت نہیں! یہ تو بس وہاں کے حاضرین جان سکتے ہیں کہ اس درود نے کیسے جسموں کی تھکاوٹ دور کر کے چہروں پرتازگی بکھیر دی۔ جتنی دیر اذان جاری رہی میرے پیارے حضور مجھ پہ بچھے جائے نماز پر تشریف فرما رہے۔ اور میں اپنے رب کے شکر کے ترانے گاتا رہا کہ یہ مبارک وجود ہے جس کو قبولیت عطا ہے۔ جس کے گرد مہکتا حصار دراصل ’’حصنِ حصین‘‘ہے۔

اگر فردوس بر رُوئے زمیں است

ہمیں است و ہمیں است و ہمیں است

پھر اذان کے بعد حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے موضوع پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیمات کی روشنی میں ایمان افروز خطبہ ارشاد فرمایا۔ خطبے کے بعد نماز شروع ہوئی اور امام تھے میرے پیارے حضور۔ دل کو چھو دینے والے انداز میں مسنون تلاوت ہوئی، رکوع میں حضور کی اپنے رب کے حضور سرگوشیاں میرے کانوں میں پڑیں اور پھر سجدے میں میرے آقا نے اپنے آقا کی تسبیح جو کی تو گویا ایک نور سے میرے درودیوار مہکنے لگے۔ ہر نمازی کی پیشانی جذبہ تشکر سے پُر تھی۔ نمازختم ہوئی، کچھ تسبیحات اور پھر دو زانوں بیٹھا میرا معشوق اٹھا اور اپنی منزل کی طرف روانہ ہوا۔ شالا تیری خیر ہوئے! میں ہر آن زبانِ حال سے اپنے رب کے حضور یہ التجا کرتا رہا

احباب سارے آئے تو نے یہ دن دکھائے

تیرے کرم نے پیارے یہ مہرباں بلائے

یہ دن چڑھا مبارک مقصود جس میں پائے

یہ روز کر مبارک سبحان من یرانی

مسجدوں کی رونق ان کے نمازیوں سے ہوتی ہے اور میرے ان نمازیوں کی خوشیاں اس پیارے وجود میرے آقا و مولا حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ کے بابرکت وجود سے جڑی ہوئی ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں سلامت رکھے۔ ان نمازیوں کی اپنے آقا کے وجود سے خوشیاں سلامت رہیں۔ آمین

آپ جان ہی گئے ہوں گے کہ مَیں کون ہوں! میں ہوں وہ بھاگوں بھرا جہاں آج ایک عظیم الشان وجود نے کھڑے ہو کر غلامِ احمدؑ کے الفاظ میں قرآن کی عظمت بیان کی، میں ہوں مسجد بیت الفتوح کا خوش نصیب محراب! ہر سچا عاشق اپنی محبت کے راز چھپانا چاہتا ہے لیکن میرا آقا میری وہ محبت، میرا وہ راز ہے جسے میں چھپائے نہیں چھپا پاتا کہ اس کا نصیب ہے شش جہات ہونا! میری تمام رونق میرے آقا سے ہے۔ میری دعا ہے کہ میں یوں ہی آباد رہوں، میرا آقا شادباد رہے اور مجھے یہ مبارک گھڑیاں بار بار نصیب ہوں۔ اے میرے اللہ! ایسا ہی ہو۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button