متفرق مضامین

رمضان اور لَعَلَّکُمۡ تَشۡکُرُوۡنَ

(حنیف احمد محمود۔ نائب مدیر الفضل انٹرنیشنل)

رمضان کا تقویٰ کے ساتھ ساتھ شکر خداوندی سے بھی بہت گہرا تعلق ہے

قرآن کریم میں روزوں کی فرضیت اور اس کے متعلق احکام کے ذکر میں اللہ تعالیٰ نے روزہ رکھنے والوں کو مخاطب ہو کر لَعَلَّکُمۡ تَتَّقُوۡنَ اور لَعَلَّکُمۡ تَشۡکُرُوۡنَ (البقرہ:۱۸۴ و ۱۸۶) کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں۔

سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس حوالے سے ارشادات کی تلاش میں ایک ایسا ارشاد بھی نظروں سے گزرا جس میں حضورؑ نے تقویٰ اور شکر کے مضمون کو اکٹھا بیان فرمایا ہے اور اصل شکر کو تقویٰ پر قائم ہونے کو قرار دیا ہے۔

آپؑ فرماتے ہیں:’’تمہارا اصل شکر، تقویٰ اور طہارت ہی ہے۔ مسلمان کاپوچھنے پر الحمدللہ کہہ دینا سچا سپاس اور شکر نہیں ہے۔ اگر تم نے حقیقی سپاس گزاری یعنی طہارت اور تقویٰ کی راہیں اختیار کر لیں تو میں تمہیں بشارت دیتا ہوں کہ تم سرحد پر کھڑے ہو۔ کوئی تم پر غالب نہیں آسکتا۔ ‘‘( ملفوظات جلد اوّل صفحہ ۷۸،ایڈیشن۱۹۸۴ء)

اللہ تعالیٰ نے بھی رمضان کی مناسبت سےقرآن کریم میں تقویٰ اور شکرکو الگ الگ بیان فرمایا ہے۔ روزوں کی فرضیت کے ساتھ لَعَلَّکُمۡ تَتَّقُوۡنَ بیان فرمایا (البقرہ: ۱۸۴) جبکہ روزوں کےبارے احکام کے بیان کے ساتھ لَعَلَّکُمۡ تَشۡکُرُوۡنَ (البقرہ:۱۸۶)کے الفاظ بیان فرمائے۔

رمضان کا ’’تقویٰ اللہ ‘‘کے ساتھ بہت گہرا تعلق ہے۔ یہاں یہ بتانا مقصود ہے کہ رمضان کا تقویٰ کے ساتھ ساتھ شکر خداوندی سے بھی بہت گہرا تعلق ہے۔ اسلامی (Lunar) مہینوں کے ۱۲میں سے ۹مہینوں میں چاند دیکھنے کی دعا ایک ہی ہے۔ جبکہ تین مہینے جو رمضان کے ساتھ منسلک ہیں ان میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم ان الفاظ میں چاند دیکھ کر دعا کیا کرتے اللَّهمَّ بارِك لنا في رَجبٍ وشعبانَ وبلِّغنا رمضانَ۔(مشکوٰۃ)

اس دعا میں دو مہینوں کے مبارک ہونے کے لیے دعا ئیہ کلمات ہیں جبکہ رمضان کے مبارک ہونے کے علاوہ رمضان کے مہینہ تک پہنچنے کی بھی دعا شامل ہے۔ جس میں اس بات کا عنصر موجود ہے کہ اے اللہ ! ہم تیرا شکر ادا کرتے ہیں کہ تونے ایک بار پھر ہماری زندگیوں میں رمضان سے ملایا ہے۔ روزے رکھنے کی توفیق دے رہا ہے۔ تہجد، نوافل، عبادات، تسبیح و تحمید اور استغفار کی توفیق مل رہی ہے۔ اے اللہ! تیرا شکر ہے کہ تُونے قرآن کریم کا دَور مکمل کرنے کی توفیق دی۔ حقوق العباد بالخصوص غرباء، مساکین اور مستحقین کے حقوق کی ادائیگی کی توفیق ملی۔ زکوٰۃ، فطرانہ اور فدیہ کی ادائیگی کے لیے تونے سامان مہیا فرمائے۔ سب سے بڑھ کر اس بات کا اظہار تشکر کہ تونے مجھے صحت عطا کی۔ پنجوقتہ نمازوں کی ادائیگی کے لیے مسجد میں جانے کے لیے تونے ٹانگیں اور پاؤں سلامت رکھے۔ قرآن کریم کی تلاوت کےلیے زبان اور آنکھوں کا نور سلامت رکھا۔ راتوں کو نیند کی قربانی کرنے کی توفیق بخشی۔ علیٰ ہذا القیاس بہت سے امور ذہن میں لا کر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا جا سکتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’میری تو یہ حالت ہے کہ مرنے کے قریب ہو جاؤں تب روزہ چھوڑتا ہوں۔ طبیعت روزہ چھوڑنے کو نہیں چاہتی۔ یہ مبارک دن ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل و رحمت کے نزول کے دن ہیں۔‘‘ ( ملفوظات جلد دوم صفحہ۲۰۳،ایڈیشن ۱۹۸۴ء)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے روزہ کی توفیق چاہنے کے لیے خود بھی دعا کی اور اپنے مریدوں کو بھی ان الفاظ میں ترغیب فرمائی:’’ہر شئے خدا تعالیٰ ہی سے طلب کرنی چاہئے۔ خداتعالیٰ تو قادرِ مطلق ہے وہ اگر چاہے تو ایک مدقُوق کو بھی روزہ کی طاقت عطاکرسکتا ہے…پس میرے نزدیک خوب ہے کہ (انسان) دعا کرےکہ الٰہی! یہ تیرا ایک مبارک مہینہ ہے اور میں اس سے محروم رہا جاتا ہوں اور کیا معلوم کہ آئندہ سال زندہ رہوں یا نہ۔یاان فوت شدہ روزوں کو اداکرسکوں یا نہ۔اور اس سے توفیق طلب کرے تو مجھے یقین ہے کہ ایسے دل کو خداتعالیٰ طاقت بخش دے گا۔‘‘(ملفوظات جلد دوم صفحہ۵۶۳،ایڈیشن۱۹۸۸ء)

جہاں تک عبادت کی توفیق پانےپر شکر الٰہی کا تعلق ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الاحقاف آیت ۱۶میں جہاں ۴۰سال کی عمر کو چھونے کا ذکر کیاہے وہاں یوں اظہار تشکر کا گُر سکھلایا۔

وَوَصَّیۡنَا الۡاِنۡسَانَ بِوَالِدَیۡہِ اِحۡسٰنًاؕ حَمَلَتۡہُ اُمُّہٗ کُرۡہًا وَّوَضَعَتۡہُ کُرۡہًا ؕ وَحَمۡلُہٗ وَفِصٰلُہٗ ثَلٰثُوۡنَ شَہۡرًاؕ حَتّٰۤی اِذَا بَلَغَ اَشُدَّہٗ وَبَلَغَ اَرۡبَعِیۡنَ سَنَۃً ۙ قَالَ رَبِّ اَوۡزِعۡنِیۡۤ اَنۡ اَشۡکُرَ نِعۡمَتَکَ الَّتِیۡۤ اَنۡعَمۡتَ عَلَیَّ وَعَلٰی وَالِدَیَّ وَاَنۡ اَعۡمَلَ صَالِحًا تَرۡضٰہُ وَاَصۡلِحۡ لِیۡ فِیۡ ذُرِّیَّتِیۡ ۚ اِنِّیۡ تُبۡتُ اِلَیۡکَ وَاِنِّیۡ مِنَ الۡمُسۡلِمِیۡنَ ۔(الاحقاف: ۱۶)اور ہم نے انسان کو تاکیدی نصیحت کی کہ اپنے والدین سے احسان کرے۔ اسے اس کی ماں نے تکلیف کے ساتھ اٹھائے رکھا اور تکلیف ہی کے ساتھ اُسے جنم دیا اور اُس کے حمل اور دودھ چھڑانے کا زمانہ تیس مہینے ہے۔ یہاں تک کہ جب وہ اپنی پختگی کی عمر کو پہنچا اور چالیس سال کا ہوگیا تو اس نے کہا۔ اے میرے ربّ! مجھے توفیق عطا کر کہ میں تیری اس نعمت کا شکر یہ ادا کر سکوں جو تُو نے مجھ پر اور میرے والدین پر کی اورایسے نیک اعمال بجا لاؤں جن سے تُو راضی ہو اور میرے لئے میری ذرّیّت کی بھی اصلاح کردے۔ یقیناً میں تیری ہی طرف رجوع کرتا ہوں اور بلاشبہ میں فرمانبرداروں میں سے ہوں۔(ترجمہ از حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ )

یہ دعا حضرت سلیمانؑ کے حوالے سے چند الفاظ کی تبدیلی کے ساتھ سورۃ النمل آیت۲۰میں یوں ملتی ہے: فَتَبَسَّمَ ضَاحِکًا مِّنۡ قَوۡلِہَا وَقَالَ رَبِّ اَوۡزِعۡنِیۡۤ اَنۡ اَشۡکُرَ نِعۡمَتَکَ الَّتِیۡۤ اَنۡعَمۡتَ عَلَیَّ وَعَلٰی وَالِدَیَّ وَاَنۡ اَعۡمَلَ صَالِحًا تَرۡضٰٮہُ وَاَدۡخِلۡنِیۡ بِرَحۡمَتِکَ فِیۡ عِبَادِکَ الصّٰلِحِیۡنَ۔ (النمل:۲۰) وہ (یعنی سلیمان) اس کی اس بات پر مسکرایا اور کہا اے میرے ربّ! مجھے توفیق بخش کہ میں تیری نعمت کا شکر ادا کروں جو تو نے مجھ پر کی اور میرے ماں باپ پر کی اور ایسے نیک اعمال بجالاؤں جو تجھے پسند ہوں اور تُو مجھے اپنی رحمت سے اپنے نیکو کار بندوں میں داخل کر۔(ترجمہ از حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ )

آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اظہار تشکر کی جو دعائیں ہمیں سکھلائی ہیں ان میں ایک وہ دعا ہے جس کے متعلق حضرت ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ جب سے میں نے یہ دعا آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سیکھی ہے میں کبھی بھی اس کو پڑھنا بھولا نہیں۔ دعا یہ ہے: اَللّٰھُمَّ اجْعَلنِیْ اُعْظِمُ شُکْرَکَ، وَ اُکثِرُ ذِکرَکَ وَ اَتَّبِعُ نُصْحَکَ،وَاَحْفِظُ وَصِیَّتَکَ۔ (مسند احمد جلد ۲صفحہ۳۱۱)اے اللہ!مجھے ایسا بنا دے کہ تیرا بہت زیادہ شکر کر سکوں اور بہت زیادہ تجھے یاد کروں اور تیری خیر خواہی کی باتوں کی پیروی کروں اور تیرے تاکیدی حکموں کی حفاظت(اپنے عمل سے)کر سکوں۔(مناجات رسولؐ از خزینۃ الدعا مرتبہ ایچ ایم طارق،ایڈیشن۲۰۱۴ءصفحہ۱۳۷)

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے شکر نعمت کا ایک طریق یہ بیان فرمایا کہ جس پر اگر کوئی احسان کیا گیا ہو اور وہ احسان کرنے والے کو جزاک اللہ خیراً کہے تو اس نے ثناء کا حق ادا کر دیا۔ (حدیقۃ الصالحین از حضرت ملک سیف الرحمٰن مرحوم صفحہ۷۱۴)

چونکہ اللہ تعالیٰ سب سے بڑا محسن ہے۔ اس کے اپنے بندوں پر احسانات کا لامتناہی سلسلہ جاری رہتا ہے۔ جس میں صحت و تندرستی اور تمام شرائط کے ساتھ روزے رکھنا ایک بہت بڑا احسان ہے۔ اسے جزاک اللہ کہنے کا احسن طریقہ الحمدللہ کہنا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے آغاز پر الحمدللہ رب العالمین کے الفاظ میں اللہ کی حمد کرنے اور اس کا شکر ادا کرنے کا طریق سکھلایا ہے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:’’اللہ تعالیٰ کے جتنے ہم پر احسان ہیں اس کا حق بنتا ہے کہ اس کی شکر گزاری کی جائے۔ یہ شکر گزاری کا حق ہم ادا نہیں کرتے اور نہ کر سکتے ہیں اور اس کے بغیر ہی اکثر لوگ تو اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے فائدہ اٹھاتے چلے جاتے ہیں جیسے کہ یہ ہمارا حق ہے حالانکہ یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے جو ہماری حالتوں اور ناشکرگزاری کے باوجود ہمیں نوازتا چلا جاتا ہے۔ ہمارے عہد ہیں جو ہم نے خدا تعالیٰ سے کیے ہیں ان کو ہم پورا نہیں کرتے۔ مخلوق کے حقوق ہیں، والدین کے حقوق ہیں، ہمسائے کے حقوق ہیں، مسافروں کے حقوق ہیں، معاشرے کے عمومی حقوق ہیں جنہیں ہم ادا نہیں کرتے۔ جنہیں ہمیں ادا کرنے کا حکم ہے اور ہم اس کا حق ادا نہیں کرتے۔ پس اگر ہم باریکی سے جائزہ لیں تو نہ ہم اللہ تعالیٰ کے حق ادا کر رہے ہیں اور نہ بندوں کے۔ میں نے ایک عمومی فہرست بنوائی تھی جس میں بعض موٹے موٹے حقوق ہی رکھے تھے تو جو بندوں کے حقوق ہیں، اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے حقوق ہیں وہ بھی تقریباً اٹھائیس انتیس بن گئے تھے۔ بہرحال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ اصل ایمان تو یہ ہے اور تقویٰ کا تقاضا تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کیے گئے عہد بھی پورے کرو اور باریکی میں جا کر پورے کرو اور اسی طرح اس کی امانتوں کے حق بھی ادا کرو اور باریکی میں جا کر ادا کرو۔ اسی طرح مخلوق کے عہد بھی باریکی سے ادا کرو اور اس کی امانتوں کی بھی ایک فکر کے ساتھ ادائیگی کروتب کہا جا سکتا ہے کہ تقویٰ ہے اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ رمضان کا مہینہ اس لیے آیا ہے، روزے رکھنے کی طرف اس لیے تمہیں توجہ دلائی گئی ہے کہ سال کے گیارہ مہینے میں جو کوتاہیاں کمیاں ان حقوق کے ادا کرنے میں ہو گئی ہیں اس مہینے میں خالصۃً اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ کرتے ہوئے، اللہ تعالیٰ کی خاطر جائز چیزوں کو بھی چھوڑتے ہوئے، اللہ تعالیٰ کی خاطر بھوک پیاس برداشت کرتے ہوئے، اللہ تعالیٰ کی عبادت میں پہلے سے بڑھ کر توجہ دیتے ہوئے، بندوں کے حقوق کی ادائیگی کی طرف خاص طور پر توجہ دیتے ہوئے پورا کرو اور جب یہ کرو گے تو اس کا نام تقویٰ ہے۔ اور یہی رمضان کا اور روزوں کا مقصد ہے اور جب انسان اس نیت اور اس مقصد کے حصول کے لیے روزے رکھے گا اور رمضان میں سے گزرے گا اور نیک نیت ہو کر گزرے گا تو پھر یہ تبدیلی عارضی نہیں ہو گی بلکہ ایک مستقل تبدیلی ہو گی۔

پھر حقوق اللہ کی ادائیگیوں کی طرف بھی مستقل توجہ رہے گی۔ عبادتوں کے حق ادا کرنے کی طرف بھی مستقل توجہ رہے گی۔ دنیا کی مصروفیات اور لغویات غلبہ نہیں کریں گی اور انسانوں کے حقوق ادا کرنے کی طرف بھی عمومی توجہ رہے گی۔ اپنے ذاتی مفادات کے لیے ہم لوگوں کے حق مارنے والے نہیں ہوں گے۔ اگر ہم اس نیت سے اور اس ارادے سے روزوں کے مہینے میں داخل نہیں ہو رہے تو ہمارا رمضان میں داخل ہونا بے فائدہ ہے۔ ‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ۲۴؍اپریل۲۰۲۰ء مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل ۱۵؍مئی ۲۰۲۰ء)

پس اس رمضان کو اس ناطے شکر الٰہی کا رمضان بنانے کے لیے سعی کرنے کی ضرورت ہے تا لَعَلَّکُمۡ تَشۡکُرُوْنَ کے ہم اوّلین مخاطب سمجھے جائیں۔ اللہ تعالیٰ اس کی ہمیں توفیق عطا فرمائے۔ آمین

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button