متفرق مضامین

حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی جماعت کو قوم یونسؑ کی طرح خصوصی دعاؤں کی تحریک اور ہماری ذمہ داری

(’ایچ ایم طارق‘)

اگرساری جماعت تین دن یونس کی قوم کی طرح آہ و زاری کرنے لگ جائے،ہرایک بچہ،بڑا،بوڑھا،جوان اللہ تعالیٰ کے آگے چلائے گاتو تین دن میں مسئلہ حل ہوسکتا ہے

ارشادِ امام

ہمارے پیارے امام حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے احمدیوں کو پیش آمدہ مشکلات میں دعاؤں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے۱۷؍فروری۲۰۲۳ء کوفرمایا:’’ایک دفعہ میں نے دعا کی کب چھٹکارا ملے گا؟تو مجھے تو یہی بتایا اللہ میاں نے کہ اگرساری جماعت تین دن یونس کی قوم کی طرح آہ و زاری کرنے لگ جائے،ہرایک بچہ،بڑا،بوڑھا،جوان اللہ تعالیٰ کے آگے چِلّائے گاتو تین دن میں مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔‘‘(ورچوئل ملاقات مع خدام و اطفال فن لینڈ مورخہ ۱۷؍فروری ۲۰۲۳ء)

قبل ازیں بھی ۷؍ اکتوبر ۲۰۱۱ء کو پاکستان میں رہنے والےاحمدیوں کو دعاؤں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا:’’خلافت رابعہ میں جب میں ربوہ میں تھا توخلیفہ رابعؒ نے مجھے ناظراعلیٰ مقررکردیاتھا۔پاکستان کے حالات کے متعلق اس وقت دعا کی تو خواب میں مجھے یہ آواز آئی کہ اگر سو فیصد پاکستانی احمدی خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کے آگے جُھک جائیں تو ان حالات کا خاتمہ چند راتوں کی دعاؤں سے ہو سکتا ہے۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ ۷؍اکتوبر ۲۰۱۱ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۲۸؍اکتوبر۲۰۱۱ء)

پھر۱۵؍مارچ ۲۰۱۳ء کوفرمایا:’’پہلے بھی کچھ عرصہ ہوا جماعت کو اس طرف توجہ دلاچکا ہوں کہ اپنے عملوں کو خداتعالیٰ کی رضا کے مطابق ڈھالتے ہوئے اجتماعی رنگ میں اس کے آگے جھک جائیں تو تھوڑے عرصہ میں انشاء اللہ تعالیٰ انقلاب آسکتا ہے۔‘‘ (خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۵؍ مارچ ۲۰۱۳ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۵؍اپریل ۲۰۱۳ء)

آئیے قرآن و حدیث اور تاریخ کی روشنی میں یہ جائزہ لیں کہ حضرت یونسؑ اور ان کی قوم کی دعائیں اور ان کا طریق کار کیا تھا۔جس کی پیروی کرنے کی ہمیں ضرورت ہے۔

بائبل کے مطابق قوم یونسؑ نینوا میں آباد تھی جو دریائے دجلہ کے کنارے موصل کے قریب عراق کا علاقہ تھا۔قرآن شریف میں نینویٰ کی بستی کا نام تو مذکور نہیں مگر قوم یونسؑ ایک ایسی مثالی اور ممتاز قوم کے طور پر پیش کی گئی ہے جو بیک وقت اپنے نبی پر ایمان لائی۔نیزاللہ تعالیٰ نےاس قوم جیسا نمونہ پیش کرنے کی تحریک وتحریض بھی فرمائی ہے۔فرمایا:پس کىوں ىونس کى قوم کے سوا اىسى کوئى بستى والے نہىں ہوئے جو اىمان لائے ہوں اور جن کو اُن کے اىمان نے فائدہ پہنچاىا ہو جب وہ اىمان لائے تو ہم نے ان سے اس دنىوى زندگى مىں ذلّت کا عذاب دور کردىا اور انہىں اىک مدت تک سامانِ معىشت عطا کئے۔(سورة یونس:۹۹)

حضرت عبداللہ بن مسعودؓ بیان کرتے تھے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ جب قوم نے حضرت یونسؑ کا انکار کردیا اور ان کی بات نہ سنی توانہوں نے اللہ تعالیٰ سے علم پاکر قوم کو عذاب سے ڈرایا۔

حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت یونسؑ نے اپنی قوم سے کہاکہ فلاں دن تم پر عذاب آئے گا اور پھر اس علاقہ سے چلے گئے ۔انبیاء کا یہی دستور تھا کہ جب اپنی قوم کو عذاب سے ڈراتے تو اس جگہ سے ہجرت کرجاتے۔پھرجب اس قوم پر عذاب سایہ فگن ہواتو وہ باہر نکل آئے اور انہوں نے اپنےبچوں کو ماؤں سےجدا کردیا اور جانوروں کو بھی ان کے بچوں سے الگ کردیا اور خدا تعالیٰ کے دربار میں چلّانے اورزاری کرنےلگے۔

اللہ تعالیٰ نے ان کا اخلاص دیکھ کر ان کی توبہ قبول کی اور عذاب ان سے دورکردیا۔ادھرحضرت یونسؑ نینویٰ سےدورایک رہگذر میں بیٹھے اپنی قوم کے بارہ میں آنے جانےوالوں سے پوچھتے تھے،ایک راہگیر نے انہیں بتایا کہ قوم پران کے بعد کیا گزری۔اس پر حضرت یونسؑ نے کہا میں اپنی قوم کی طرف واپس نہیں جاؤں گاکہ وہ مجھے جھوٹا کہیں۔چنانچہ وہ غضبناک ہوکرہجرت کے ارادہ سے چل پڑے۔(درمنثور ازعلامہ سیوطی زیرآیت سورة یونس:۹۹جلد۱۱صفحہ۳۹۲)

یہ عذاب آسمان سے ہولناک بارشوں کا نتیجہ تھا۔قوم یونسؑ اور سیلاب کے درمیان دوتہائی میل کا فاصلہ رہ گیا تو ان کی دعاؤں کے نتیجہ میں عذاب ٹال دیا گیا۔

قوم یونسؑ کی تین روزہ دعائیں

قوم یونسؑ کو وعید عذاب کے بارہ میں تفاسیر میں مختلف روایات ہیں۔تفسیر بیضاوی کے مطابق اہل نینویٰ کی تکذیب اور انکار پراصرار کے بعد حضرت یونسؑ نے انہیں تین دن میں عذاب آنے کی خبر دی۔بعض کمزور روایات میں تیس اور بعض میں چالیس دن کا بھی ذکر ہے۔(انوارالتنزیل و اسرار التاویل جزء۳صفحہ۱۲۴،مطبوعہ دار إحياء التراث العربي، بيروت)

تین روز میں عذاب آنے کی خبر کی تائید علامہ ابن کثیر نے بھی کی ہے۔وہ فرماتے ہیں:’’اللہ تعالیٰ نے حضرت یونسؑ کو نینویٰ کی بستی کی طرف بھیجا جنہوں نے قوم کو اللہ تعالیٰ کی طرف بلایا مگر ان لوگوں نے انکار کیا اور کفر پر پختہ ہوگئے تو حضرت یونسؑ ناراض ہوکر وہاں سے چلے گئے اور انہیں تین روز میں عذاب آنے کا وعدہ دیا۔‘‘(تفسیر ابن کثیرجلد۵ صفحہ۳۶۶ مطبوعہ دار طيبة للنشر والتوزيع)

اسی مضمون کی تائید مصر کے علامہ احمد بن مصطفیٰ مراغی کی تفسیر المراغی سے بھی ہوتی ہے۔(تفسیر المراغی جلد۱۷صفحہ۶۳مطبوعہ شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابى الحلبي وأولاده بمصر )

حضرت مسیح موعودؑ نے ان جملہ تفسیری روایات کا محاکمہ کرتے ہوئے یہ حقیقت افروز تبصرہ فرمایا ہے۔آپؑ فرماتے ہیں:’’پس ان تفسیروں سے اصل حقیقت یہ معلوم ہوتی ہےکہ اول یونسؑ نے اس قوم کے ایمان کےلیے بہت کوشش کی اور جبکہ کوشش بے سود معلوم ہوئی اور یاس کلی نظر آئی تو انہوں نے خدا تعالیٰ کی وحی سے عذاب کا وعدہ دیا جو تین دن کے بعد نازل ہوگا۔‘‘(انوارالاسلام،روحانی خزائن جلد۹صفحہ۱۱۹)

حضرت ابن عباسؓ سے مروی ہے کہ جب حضرت یونسؑ نے اپنی قوم کے خلاف دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے ان کو وحی فرمائی کہ فلاں صبح ان پر عذاب آئے گا۔وہ کہنے لگے: یونسؑ نے غلط نہیں کہا۔صبح ہم پر ضرور عذاب آئےگا۔پس آؤ ہم ہر جانور کا بچہ ساتھ لیں اور ان کو اپنے بچوں کے ساتھ لے کر باہر جائیں شاید کہ اللہ تعالیٰ ہم پر رحم فرمادے۔

چنانچہ وہ اپنی عورتوں اور بچوں کو باہر لائے اور اپنے اونٹوں اور گائیوں اور بھیڑ بکریوں کو ان کے بچوں سمیت باہر نکالا اورعذاب کو آتا دیکھ کر انہیں اپنے سامنے رکھ کر اللہ کی درگاہ میں آہ و پکار کرنے لگے اور دعائیں کیں۔ادھر عورتیں بچے رونے لگے ادھر اونٹ اور ان کے بچے بلبلانے لگے،گائیاں اور ان کے بچے بھی آوازیں نکالنے لگے اور بکریاں اور ان کے بچے ممیانے لگے تب اللہ تعالیٰ نے ان پر رحم فرمایا اور عذاب (سیلاب)ان کی بجائے جبالِ آمد کی طرف لوٹا دیا۔

حضرت ابولخلدؓ سے روایت ہے کہ جب قوم یونسؑ پر عذاب آیا تو وہ اپنے علماء میں سے ایک بزرگ کے پاس گئے اور اس سے پوچھا تمہاری رائے میں ہمیں اب کیا کرنا چاہیے؟اس نے کہا کہ اللہ کو اس کے نام کے واسطے اس طرح دوکہ اےزندہ خدا جب کہ اور کوئی زندہ نہیں اور اے زندہ جو موت کو زندگی عطا کرتا ہے اوراے زندہ جس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔وہ یہ واسطے دیتے رہےیہاں تک کہ اللہ نے ان سے عذاب دور کردیا۔(درمنثور جلد۱۱ صفحہ۳۹۲ دارالفکر،بیروت تفسیر سورة یونس زیرآیت۹۹)

بائبل میں قوم یونسؑ کی توبہ،آہ و زاری اور دعا کا ذکر یوں ہے:’’یوناہ شہر میں داخل ہوا…اس نے منادی کی اور کہا چالیس روز کے بعد نینوا برباد کیا جائےگا۔تب نینوا کے باشندوں نے خدا پر ایمان لاکر روزہ کی منادی کی اور ادنیٰ و اعلیٰ سب نے ٹاٹ اوڑھا… اور بادشاہ نے بھی شاہی لباس اتار ڈالا اور ٹاٹ اوڑھ کر راکھ پر بیٹھ گیا…اور شہر میں منادی کردی گئی کہ لوگ روزہ رکھیں اور ٹاٹ اوڑھ کر خدا کے حضور گریہ و زاری کریں اور ہرشخص اپنی بری روش اور اپنے ہاتھ کے ظلم سے باز آئے،شاید خدا رحم کرے…جب خدا نے یہ حالت دیکھی تو وہ اس عذاب سے جو اس نے ان پر نازل کرنے کو کہا تھا باز آیا اور اس نے نازل نہ کیا۔(یوناہ باب ۳آیت۵تا۱۰)

دعا سے تقدیر کا ٹل جانا

حضرت علیؓ بیان کرتے ہیں کہ کوئی حزم واحتیاط تقدیر کو نہیں ٹال سکتی مگر دعا تقدیر کو بدل دیتی ہے جیساکہ قرآن شریف میں قوم یونسؑ کے بارہ میں ہے کہ جب وہ ایمان لائے تو ہم نے ان سے رسو اکن عذاب ٹال دیا۔(یونس:۹۹)

ایسی ہی روایت حضرت ابن عباسؓ سےبھی مروی ہے کہ د عا لازماً قضاوقدر کو ٹال دیتی ہے خواہ وہ(بلا) آسمان سے نازل ہوچکی ہو۔اورفرماتے تھے:چاہو تو قرآن کی یہ آیت پڑھ لو کہ قوم یونس ایمان لائی اور انہوں نے دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے عذاب ان سے دور کردیا۔(درمنثور جلد۱۱صفحہ۳۹۲ دارالفکر،بیروت تفسیر سورة یونس)

اسی طرح حضرت عائشہؓ سے بھی روایت ہے کہ محض احتیاط تقدیرِشر سے نجات نہیں دیتی مگر دعا یقیناً مصیبتیں ٹال دیتی ہے جیساکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں قوم یونسؑ کے بارہ میں فرمایا ہے کہ جب وہ ایمان لائے تو ہم نے ان سے دنیا کا رسوا کن عذاب دور کردیا اور انہیں ایک مدت تک فائدہ پہنچایا۔(یونس:۹۹)

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:’’یونس علیہ السلام کی قوم کے معاملہ میں قطعی الہام دے کر جب لوگوں نے چیخنا چلّانا شروع کیا تو عذاب ٹال دیا اور رحمت کے ساتھ ان پر نگاہ کی۔‘‘ (ملفوظات جلداول صفحہ۱۵۵)

نیز فرمایا: ’’دعا بہت بڑی سپر کامیابی کےلیےہے۔یونسؑ کی قوم گریہ و زاری اور دعا کے سبب آنیوالے عذاب سے بچ گئی۔‘‘ (ملفوظات جلداول صفحہ۱۵۵)

واقعہ حضرت یونسؑ اورتین روزہ دعا سےنجات

حضرت یونسؑ کا زمانہ ۸۶۰ق م سے۷۸۴ ق م تھا۔قرآن شریف سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت یونسؑ کی قوم کی آبادی ایک لاکھ سے زائد تھی۔وہ ان کے انکار سے بیزار وہاں سے ہجرت کی خاطر ایک مسافر کشتی میں روانہ ہوئے جس کے طوفان میں گھر جانے پر قرعہ ڈالا گیا۔(الصافات:۱۴۱-۱۴۲)

بائبل کے مطابق قرعہ اس لیے ڈالا گیا کہ یہ آفت کس کے سبب آئی۔(یوناہ۱:۷)

جب قرعہ حضرت یونسؑ کے نام نکلاتو انہیں سمندر میں پھینک دیاگیا۔(الصافات:۱۴۲)جہاں ایک مچھلی نے آپ کو نگل لیا۔بائبل کے مطابق حضرت یونسؑ تین دن رات مچھلی کے پیٹ میں رہے جہاں انہوں نے دعائیں کیں۔ بائبل میں بھی حضرت یونسؑ کی دعائیں مذکور ہیں کہ ’’میں نے اپنی مصیبت میں خداوند سے دعا کی اور اس نے میری سنی۔میں نے پاتال کی تہ سے دہائی دی تو نے میری فریاد سنی…اے خداوند میرے خدا تو نے میری جان پاتال سے بچائی۔‘‘(یوناہ باب۲آیت ۲تا۷)

قرآن شریف نے کمال فصاحت سےان دعاؤں کاخلاصہ ان الفاظ میں بیان کردیا ہےجو مچھلی کے پیٹ اورسمندر کی اتھاہ ظلمتوں میں حضرت یونسؑ اپنے مولیٰ کو پکارکر پڑھتے رہے تھے: لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنْتُ مِنَ الظَّالِمِينَ۔(الانبياء:۸۸)کوئى معبود نہىں تىرے سوا تُو پاک ہے ىقىناً مىں ہى ظالموں مىں سے تھا ۔

اگرچہ قرآن شریف میں حضرت یونسؑ کے تین دن مچھلی کے پیٹ میں رہنے کاذکر نہیں ہے۔تاہم ان کا واقعہ ایک ایسی تقدیر معلّق تھی جس کے مطابق دعاؤں سے ہی ان کی نجات مقدر تھی۔چنانچہ دوسری جگہ فرمایا کہ اگرحضرت یونسؑ تسبیح اور دعائیں نہ کرتے تو وہ قیامت تک مچھلی کے پیٹ میں ہی پڑےرہتے یعنی ہلاک ہوجاتے۔مگر ان دعاؤں کی برکت سےآخر مچھلی نے انہیں خشکی پر اگل دیا جبکہ وہ علیل تھےاور اس کے پہلوکدّو کی ایک بیل اگادی ۔(الصافات:۱۴۷)(جوان کے دھوپ سے بچاؤ اور جلد کےلیے بطورعلاج تھی۔)

اور یوں اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص فضل و احسان سے معجزانہ طورپرحضرت یونسؑ کی دعا قبول کرتے ہوئے انہیں مچھلی کے پیٹ میں رہنے کے بعدزندہ نکال کرازسرنو زندگی عطا فرمائی اور ان کے استغفاراورتسبیح سے وہ تقدیر ٹل گئی۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:’’اگر اس کے رب کی نعمت اس کی تکلیف کا تدارک نہ کرتی تو اسے ایک بے آب و گیاہ جنگل میں پھینک دیاجاتا اور وہ ہدف ملامت بن جاتا۔مگر اس کے رب نے اس کو چُن لیا اور اس کو نیکوکار بندوں میں شامل کرلیا۔(القلم:۵۰-۵۱)

پس حضرت یونسؑ اور ان کی قوم کے واقعہ میں قبولیت دعا کےدو عظیم نشان بلاشبہ ہمارےلیےلائق عبرت و نصیحت ہیں۔ایک قوم یونسؑ کےمکذبین و منکرین کی سچی توبہ کے بعدتین روزہ آہ و زاری سے کی گئی دعائیں قبول ہوئیں تودوسری طرف خداکے پیارے بندے حضرت یونسؑ کوبھی اللہ تعالیٰ نے ان کی مخلصانہ دعاؤں سے ہی مچھلی کے پیٹ سےنجات عطا فرمائی۔اللہ تعالیٰ حضرت یونسؑ کی دعا کی قبولیت کا یہ نشان بیان کرکےفرماتاہے:وَكَذَلِكَ نُنْجِي الْمُؤْمِنِينَ۔ (الانبياء:۸۹) کہ ہم مومنوں کو اسی طرح نجات دیاکرتے ہیں۔

یعنی مومنوں کی دعائیں جلدخدا کے فضل کھینچ لاتی اور مصیبتوں سے ان کی نجات کا ذریعہ بن جاتی ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ ہمارے پیارے امام نے بھی اللہ تعالیٰ سے علم پاکر اپنی جماعت مومنین کوقوم یونسؑ کی اس تین روزہ میعاد کی روشنی میں اپنی دعائیں انتہا تک پہنچانے کی نصیحت اور تحریک فرمائی ہے۔قوم یونسؑ کی طرح آہ وزاری کرنے میں یہ پیغام ہے کہ ہماری دعاؤں کووہ اس تضرع و ابتہال اورخشوع وخضوع جیسی ہوناچاہیے جوعذاب دیکھ کر اس قوم پر طاری تھا۔

دعاؤں سے بھرپور رمضان کی تمنا!

یہ حسن اتفاق ہے کہ آج کل ہم رمضان میں سے گزرتے ہوئےروزوں اور عبادات کی توفیق پارہے ہیں جس کے آخری تین دن خاص دعاؤں کےلیے مختص کرنے کی مجلس شوریٰ کی سفارش ہمارے پیارے امام نے منظور فرمائی ہے۔حال ہی میں مکرم ناظرصاحب اعلیٰ کے نام اپنے مکتوب گرامی میں اس رمضان میں خاص دعاؤں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا ہے:’’اللہ تعالیٰ رمضان سے آپ سب کو بھرپور فائدہ اٹھانے کی توفیق دے۔ان دنوں کو خاص طور پر اللہ تعالیٰ کی بڑائی بیان کرنے اور ذکرالٰہی اور عبادت میں گزاریں۔اللہ تعالیٰ آپ کو اپنے فضل سے اس کی توفیق عطا فرمائے اور اس مہینے کی برکتوں سے آپ اپنی جھولیاں بھرنے والے ہوں۔ان دنوں میں جماعت کےلیے بھی خاص دعا کریں۔‘‘ (خط بنام مکرم ناظر صاحب اعلیٰ مورخہ ۴؍اپریل۲۰۲۳ء)

حضورانور کے ارشادات کی تعمیل میں درج ذیل لائحہ عمل کی روشنی میں حسب حالات وتوفیق آخری عشرہ رمضان(۱۲ تا۲۱؍اپریل)کو بطورخاص عشرہ تربیت مناکرعمل کیاجاسکتا ہے۔

رسول کریمﷺ آخری عشرہ میں کمرہمت کس لیتے تھے۔گھروالوں کوبھی نوافل کےلیے بیدار کرتے اور اپنی راتیں (عبادت اور ذکرالٰہی سے) زندہ کرتے تھے۔(بخاری کتاب الصوم)

۱۔اس رمضان المبارک کو دعاؤں سے بھرپور بنانے کےلیےپنجگانہ نمازوں کے قیام،روزوں کی ادائیگی اورتلاوت قرآن کریم کے علاوہ نوافل، تہجدمیں متضرعانہ دعاؤں کے علاوہ صدقات پر خصوصی توجہ دینے کی سعی کرنی چاہیے۔

تہجداوردیگرنوافل کے علاوہ نمازاشراق یا چاشت کے دورکعت سے آٹھ رکعت تک نوافل بھی طلوع آفتاب کے بعد سورج ذرابلند ہونے سے ڈھلنے تک کے درمیانی وقت میں ادا کیے جاسکتے ہیں۔

نیزحسب سفارشات شوریٰ نماز مغرب سے قبل یابعد دو نفل بغرض دعا جماعت کی ترقی اور مشکلات سے نجات کےلیے ادا کرنےچاہئیں۔

۲۔جن احباب یا خواتین کومسجدکی بجائے گھروں میں اعتکاف کی توفیق وسہولت ہووہ یکسوئی سےدعاؤں کرنے کےلیےایساکرسکتےہیں۔اورجن کےلیے پورا عشرہ اعتکاف ممکن نہ ہو وہ آخری تین دن نفلی اعتکاف کرسکتے ہیں جیسےحضرت عمرؓنے ایک رات بیت اللہ میں اعتکاف کی نذرمانی اور رسول اللہﷺ کی ہدایت سے اسے پوراکرنے کی توفیق پائی تھی۔

دوران اعتکاف زیادہ سےزیادہ وقت عبادت،تلاوت قرآن،دعاؤں،ذکرالٰہی اوراللہ تعالیٰ کی بڑائی بیان کرنے میں گزارناچاہیے۔

۳۔آخری ایام رمضان خصوصاً ۲۷ تا ۳۰ ؍ مساجد یا گھرجہاں ممکن ہو بوقت تہجد کم ازکم دونفل باجماعت بھی ادا کرکے قرآنی اور مسنون دعائیں بطرزقنوت پڑھی جاسکتی ہیں۔خصوصاًحضرت مسیح موعودؑوخلفائے وقت کی تحریک فرمودہ قرآنی و مسنون دعائیں کثرت سے پڑھنی چاہئیں۔

اسی طرح نمازفجرکی دوسری رکعت میں بھی رکوع کے بعدقیام میں بھی حسب حالات و توفیق دعائیں پڑھی جاسکتی ہیں۔رسول کریمﷺ بعض قومی مصائب پرمسلسل ایک ماہ تک نمازفجر کی دوسری رکعت میں رکوع کے بعددعائیں پڑھتے رہے۔(بخاری)

۴۔ارشادنبویؐ کے مطابق افطاری کاوقت خاص قبولیت دعاکاہے۔ گھروں میں افطاری سے نصف گھنٹہ قبل جملہ اہلخانہ اجتماعی دعا میں شامل ہوں۔اگرکہیں افطاری کاانتظام ہوتو وہاں بھی محض کھانے پینے میں وقت ضائع کرنے کی بجائے دعا کاخصوصی اہتمام کرناچاہیے۔

۵۔صدقات ردّ بلا اور قبولیت دعا کا موجب ہوتے ہیں۔ ان ایام میں کثرت سےصدقہ و خیرات بھی کرناچاہیے۔رسول کریمﷺ رمضان میں تیزآندھی کی طرح صدقہ و خیرات فرماتے تھے۔(بخاری کتاب الصوم)

۶۔مربیان کرام کوان ایام میں خصوصاًدعا کےطریق وآداب و برکات کے بارہ میں بھی احباب جماعت کی راہنمائی کرتےرہناچاہیے۔(اس حوالے سے مضمون ملاحظہ کرنے کےلیے دیکھیں الفضل انٹرنیشنل۱۳؍اپریل۲۰۲۳صفحہ۶)

حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ نے احباب جماعت کو اس رمضان میں دعا کی خصوصی تحریک کرتے ہوئے مزیدفرمایا:’رمضان میں جماعت کےمخالفین کے شر سے بچنے کےلیے بھی خاص طور پر دعائیں کریں۔اللہ تعالیٰ ہر شریر کے ہاتھ کوروکے اوران کی پکڑ کے سامان فرمائے …اللہ تعالیٰ اس رمضان میں ہمارے لیے رحمتوں اوربرکتوں کے دروازے پہلے سے بڑھ کر کھولے۔آمین‘(خطبہ جمعہ ۷؍اپریل ۲۰۲۳ء)

امید ہے رمضان کے باقی ماندہ ایام اور خصوصاً آخری تین ایام (۲۷تا۳۰؍رمضان) جن میں امکانی طور پر دو طاق راتیں لیلة القدر کی قبولیت دعا کی بشارت والی بھی موجود ہیں میں احباب جماعت دعاؤں کا ایسا شوربرپا کردیں گے جوعرش کے کنگرے ہلادے اور تقدیر کے تاروں کو جنبش دے تاکہ ہماری آہ و فغاں سن کر فرشتے بھی آمین کہیں اوربالآخر ہماری تقدیر شر بھی تقدیر خیر سے بدل جائے۔اے خدا! تو ایسا ہی کر۔

اورخدا کرے کہ ہم اس رمضان کو حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ کےدر ج ذیل ارشاد کے مطابق دعاؤں سے بھرپور رمضان بنانے والے ہوں۔

’’اے احمدی ! اِس رمضان کو فیصلہ کُن رمضان بنا دو۔اس الٰہی جہاد کے لئے تیار ہو جاؤ مگر تمہارے لئے کوئی دنیا کا ہتھیار نہیں ہے۔دنیا کے تیروں کا مقابلہ تم نے دعاؤں کے تیروں سے کرناہے۔یہ لڑائی فیصلہ کُن ہو گی لیکن گلیوں اور بازاروں میں نہیں،صحنوں اور میدانوں میں نہیں، بلکہ مسجدوں میں اس کا فیصلہ ہونے والا ہے۔ راتوں کو اُٹھ کر اپنی عبادت کے مَیدانوں کو گرم کرو اَور اِس زور سے اپنے خدا کے حضور آہ وبکا کرو کہ آسمان پر عرش کے کنگرے بھی ہلنے لگیں۔ مَتٰی نَصْرُاللّٰہ کا شور بلند کردو۔خدا کے حضور گریہ وزاری کرتے ہوئے اپنے سینے کے زخم پیش کرو، اپنے چاک گریبان اپنے رَبّ کو دکھاؤ اور کہو کہ اَے خدا! قوم کے ظلم سے تنگ آکے مرے پیارے آج شورِ محشر ترے کوچہ میں مچایا ہم نے پس اِس زور کا شور مچاؤ اور اس قُوّت کے ساتھ مَتیٰ نَصْرُ اللّٰہِ کی آواز بلند کرو کہ آسمان سے فضل اور رحمت کے دروازے کھلنے لگیں اور ہَر دروازے سے یہ آواز آئے۔ اَلَاۤ اِنَّ نَصۡرَ اللّٰہِ قَرِیۡبٌ اَلَاۤ اِنَّ نَصۡرَ اللّٰہِ قَرِیۡبٌ،اَلَاۤ اِنَّ نَصۡرَ اللّٰہِ قَرِیۡبٌ اَلَاۤ اِنَّ نَصۡرَ اللّٰہِ قَرِیۡبٌ سنو سنو ! کہ اللہ کی مدد قریب ہے۔اے سننے والوسنو !کہ خدا کی مدد قریب ہے۔اے مجھے پکارنے والوسنو! کہ خدا کی مدد قریب ہے اور وہ پہنچنے والی ہے۔‘‘ (خطبات طاہر جلد۲ صفحہ۳۴۹)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button