متفرق مضامین

قادیان دارالامان میں رمضان المبارک کی رونقیں مسیح پاک علیہ السلام سے لے کر آج تک(قسط اوّل)

(دلاور خان ، نظارت اصلاح و ارشاد مرکزیہ قادیان)

قادیان دارالامان اپنے تقدس کی وجہ سے ایک خاص اہمیت رکھتا ہے یہاں رمضان المبارک کے علاوہ بھی سارا سال ہی روحانی ماحول کی رونقیں دیکھنے کو ملتی ہیں

عرب میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت مبارکہ سے اسلام کا ظہور ہوا۔ پھر عالمی غلبہ کے لیے آپ کی بروزی رنگ میں بعثت ثانیہ ہوئی جو ازل سے مقدر تھی۔سو سنت اللہ کے مطابق امت محمدیہ کے حصہ’’وَاٰخَرِیۡنَ مِنۡہُمۡ‘‘ میں بدری صحابہ رضی اللہ عنہم کے خادم و مثیل ۳۱۳ صحابہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اور پھر درویشان کرام کا وجود میں آنا مقدر عمل تھا۔ ایک روایت میں بعثت کے مقام کا ذکر ہے کہ ’’یخرج المہدی من قریۃ یقال لھا کدعۃ (جواہر الاسلام صفحہ ۵۶)یعنی مہدی کا ظہور اس بستی سے ہوگا جسے کدعہ کہا جائے گا،کدعہ سے مراد قادیان ہے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ اپنے خطبہ جمعہ ۵؍دسمبر۱۹۷۵ء میں فرماتے ہیں:’’جس طرح مکہ کے گلی کوچوں سے ہمیں پیارہے، مدینہ کے ذرہ ذرہ پر ہماری جان فدا ہے اور پھر ان دو مقامات کی روح کو دنیا میں قائم کرنے کے لئے مہدی علیہ السلام کے ذریعے قادیان میں ایک بنیاد رکھی گئی۔ پس اس وجہ سے کہ قادیان میں مہدی علیہ السلام کے ذریعہ مکے اور مدینہ کی روح کو ساری دنیا میں قائم کرنے کی بنیاد رکھی گئی ہے۔ہمیں قادیان سے بھی پیار ہے ‘‘( خطبات ناصر جلد ۶ صفحہ ۲۳۶تا ۲۳۷)

مقامات اپنی ذات میں مقدس یا غیر مقدس نہیں ہوا کرتے۔ بلکہ ان میں رونما ہونے والے واقعات اُسے مقدس اور تاریخی اور یادگار بنا دیتے ہیں۔ صرف ایک مثال ہی دیکھیں جیسے عرب کے دو غاروں، غارحرا اورغار ثور میں ظاہر ہونے والے واقعات نے انہیں معزز بنا دیا اور وہ شعا ئر اللہ میں شمار ہونے لگے۔ ٹھیک اسی طرح اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا مرکز خدا کے رسول علیہ السلام کا تخت گاہ بنا اور روز روشن کی طرح یہ بات بھی سب پر عیاں ہو گئی کہ اس کے تربیت یافتہ اطراف عالم میں اسلام کے نام کو بلند کرنے والے ہیں۔ اس تمہید میں یہ بات بتانے کا مقصد ہے کہ ساری دنیا کے اسلامی معاشرے میں رمضان المبارک کی آمد پر روحانی ماحول کی رونقیں دیکھنے کو ملتی ہیں لیکن قادیان دارالامان اپنے تقدس کی وجہ سے ایک خاص مقام رکھتا ہے یہاںرمضان المبارک کے علاوہ بھی سارا سال ہی روحانی ماحول کی رونقیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔

حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ نے اپنے کلام میں کیا خوب فرمایا ہے:

خوشا نصیب کہ تم قادیاں میں رہتے ہو

دیار مہدی آخر زماں میں رہتے ہو

قدم مسیح ؑکے جس کو بنا چکے ہیں حرم

تم اس زمین کرامت نشاں میں رہتےہو

الغرض قادیان دارالامان برکتوں کی بستی ہے اس کی برکتیں قیامت تک ختم نہیں ہوںگی۔ ہمارا پیارا خدا زندہ خدا ہے وہ جس شان کے ساتھ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ پر ظاہر ہوا آج بھی ٹھیک اسی طرح قادیان کی مقدس سرزمین پر ظاہر ہے۔

رمضان المبارک

خوش قسمت ہیں وہ لوگ جن کی زندگیوں میں ماہ صیام آتا ہے اور وہ روزہ رکھ کر اپنی زندگی میں ایک انقلاب پیدا کر لیتے ہیں۔ روزہ اسلام کے ارکان میں سے ایک اہم رکن ہے۔ رمضان المبارک سے اسلامی معاشرے میں روحانی و جسمانی دونوں لحاظ سے ایک پاک تبدیلی پیدا ہو جاتی ہےکیونکہ یہ نیکیوں کا موسم بہار ہے۔

ماہ رمضان برکتوں والا مہینہ ہے اور اس ماہ کی عظمت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ قرآن کریم کا نزول اسی پاک مہینے میں شروع ہوا۔رمضان کا پہلا عشرہ رحمت،دوسرا مغفرت اور تیسرا جہنم کی آگ سے نجات کا مہینہ ہے۔ جب رمضان المبارک کا چاند نظر آتا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے کہ یہ چاند خیروبرکت کا ہے یہ چاند خیروبرکت کا ہے۔ میں اس ذات پر ایمان رکھتا ہوں جس نے مجھے پیدا کیا۔

رؤیت ہلال

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے رؤیت ہلال یا چاند دیکھنے کا طریقہ بیان کرتے ہوئے ہدایت فرمائی ہے کہ جب تم چاند دیکھو تو روزہ رکھنا شروع کرو اور جب اگلا چاند دیکھو تو روزہ رکھنا چھوڑ دو اور اگر تمہارے یہاں مطلع ابر آلود ہو تو پھر اندازہ کر لیا کرو ۔حدیث کے الفاظ اس طرح ہیں:قال رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم:إِذَا رَاَيْتُمُ الهِلَالَ فَصُوْمُوْا، وَإِذَا رَاَيْتُمُوْهُ فَاَفْطِرُوْا، فَإِنْ غُمَّ عَلَيْكُم۔ فَاقْدُرُوْا لَهُ( بخاری كتاب الصيام)

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ کے دور میں رئویت ہلال کا پہلو کسی نہ کسی صورت میں مسلمانوں کی تہذیب و ثقافت کا حصہ بنا چلا آ رہا ہے۔ عیدین اور رمضان کے چاند کو دیکھنے کے لیے غیر معمولی ذوق و شوق کا اظہار مذہبی مسئلہ سے زیادہ اسلامی معاشرہ کے تہذیبی پہلو کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ ’’کچھ سال پہلے تک ہمارے برصغیر میں رمضان اور عیدین کے چاند کو دیکھنے کے لیے لوگ اپنی چھتوں پر چڑھ جاتے تھے۔یا کھلے میدانوں میں نکل کر دور افق کی طرف نظریں جمائے بڑی بے تابی سے رئویت ہلال کا اہتمام کرتے تھے۔اور جب چاند نظر آ جاتا تو خوشی و مسرت دیدنی ہوتی تھی۔ اوررسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ کی پیروی میں دعاؤں کے ساتھ نئے چاند کو خوش آمدید کہنے کا رواج عام تھا۔‘‘( الفضل انٹرنیشنل ۱۳؍اپریل ۲۰۲۱ء، صفحہ ۸کالم۲)

قادیان میں رؤیت ہلال کا اہتمام

مسلم معاشرہ میں رئویت ہلال کے لیے جو ذوق و شوق پایا جاتا تھا اس کی جھلک قادیان میں دیکھی جا سکتی ہے۔ چاند دیکھنے کے بارے میں امام الزمان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے معمول کے بارے میں یوں ذکر ملتا ہے کہ’’یکم دسمبر ۱۹۰۲ءدربار شام: آج رمضان المبارک کا چاند دیکھا گیا بعد نماز مغرب خود حجت اللہ ( حضرت مسیح موعود علیہ السلام )سقف مسجد پر رویت ہلال کےلئے تشریف لے گئے اور چاند دیکھا اور مسجد میں آکر فرمایا کہ رمضان گزشتہ ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے کل گیا ہے۔‘‘(الحکم نمبر۴۴ جلد ۶،۱۰؍دسمبر ۱۹۰۲ء صفحہ ۸)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے زمانے میں قادیان میں عید کا چاند دیکھنے کے اشتیاق کے بارے میں ایک موقع کا ذکر کرتے ہوئے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:’’ جب لوگ چھتوں پر چاند کو دیکھنے کے لئے چڑھے تو میں بھی چھت پر چڑھا اور دور بین سے چاند کو دیکھنا چاہا کیوںکہ میری نظر کمزور ہے۔ لیکن میں چاند نہ دیکھ سکا اور بیٹھ گیا۔اچانک میرے کان میں بچے کی جو میرا ہی بچہ ہے آواز آئی جو یہ تھی کہ چاند دیکھ لیا چاند دیکھ لیا میں نے بھی چاند دیکھ لیا۔‘‘( الفضل ۳؍جون۱۹۲۴ء)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے دور میں رویت ہلال کے بارے میں شہادتوںکے ذریعے عید کے اعلان کا بھی ذکر ملتا ہے۔ آپ عید کے موقع کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’لاہور فون سے دریافت کیا گیا تو معلوم ہوا کہ وہاں جالندھر سے رپورٹ آئی ہے کہ شملہ میں لوگوں نے چاند دیکھ لیا ہے اسی طرح معلوم ہوا کہ سولن پہاڑ پر بھی اور بمبئی میں بھی چاند دیکھا گیا ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ چاند بہت کم اونچا تھا۔قادیان کے احمدی دوست چونکہ اس وقت دعا میں مشغول تھے اس لئے وہ چاند دیکھ نہ سکے اور باہر بھی تھوڑے تھوڑےغبار کی وجہ سے نظر نہ آیا۔مگر پہاڑوں پر چونکہ اتفاقاً مطلع صاف تھا اس لئے وہاں کے رہنے والوں نے چاند کو دیکھ لیا چنانچہ اس بارے میں جتنی رپورٹیں آئیں ان میں سے اکثر پہاڑی مقامات کی ہیں سوائے کپورتھلہ کے بعض نے وہاں بھی چاند دیکھ لیا تھا۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ یکم اکتوبر۱۹۴۳ء، الفضل انٹرنیشنل ۱۳؍اپریل ۲۰۲۱ء صفحہ ۸)

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ابتدائی روزوں میں سیر نہ کرتے

یکم دسمبر۱۹۰۲ءبروز دوشنبہ(بوقت سیر) حضرت مسیح موعود ؑحسب معمول سیر کے لیے تشریف لائے تو آتےہی فرمایا: ’’آج ہی کے دن سیر ہے کل سے انشاءاللہ روزہ شروع ہوگاتو چار پانچ دن تک سیر بند رہے گی تا کہ طبیعت روزے کی عادی ہو جائے اور تکلیف محسوس نہ ہو۔‘‘( ملفوظات جلد ۲ صفحہ ۵۵۵ایڈیشن۱۹۸۸ء)

حضرت مسیح موعود ؑکے زمانے میں رمضان کے روزے سردی کے موسم میں آتے رہے

حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم اےؓ تحریر کرتے ہیں کہ مولوی شیر علی صاحب نے ان سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے تھے کہ یہ بھی خدا تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس نے ہمیں ایسے زمانہ میں مبعوث فرمایا کہ رمضان کا مہینہ سردیوں میں آتا ہے اور روزےزیادہ جسمانی تکلیف کا موجب نہیں ہوتے اور ہم آسانی کے ساتھ رمضان میں بھی کام کر سکتے ہیں۔ مولوی صاحب کہتے ہیں کہ ان دنوں میں رمضان المبارک دسمبرمیں آیا تھا۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ میں نےاس زمانے کی جنتری کو دیکھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مسیحیت کا دعویٰ ۱۸۹۱ء میں فرمایا تھا اور ۱۸۹۱ءمیں رمضان کا مہینہ ۱۱؍اپریل کو شروع ہوا تھا۔گویا یہ رمضان کے مہینے کے لئے موسم سرما میں داخل ہونے کی ابتداء تھی۔چنانچہ ۱۸۹۲ء میں رمضان کے مہینے کی ابتدا ۳۱؍ مارچ کو ہوئی۔ اور ۱۸۹۳ء میں ۲۰؍ مارچ کو ہوئی اور اس کے بعد رمضان کا مہینہ ہرسال زیادہ سردیوں کےدنوں میں آتا گیا۔ اور جب۱۹۰۸ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا وصال ہوا تو اس سال رمضان کے مہینے کی ابتدا یکم اکتوبر کو ہوئی تھی۔اس طرح گویا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کا زمانہ تمام ایسی حالت میں گذرا کہ رمضان کے روزے سردی کے موسم میں آتے رہے۔ خدا تعالیٰ کا ایک فضل تھا جو اس کی تقدیر عام کےماتحت وقوع میں آیا اور جسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نکتہ شناس طبیعت نے خدا کا ایک احسان سمجھ کر اپنے اندر شکرگذاری کے جذبات پیدا کئے۔‘‘(سیرت المہدی جلداول حصہ دوم صفحہ ۳۷۲-۳۷۳ روایت ۴۱۹)

سحری کھا کر روزہ رکھنے میں برکت

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں :’’ حدیث میں آتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ روزہ کے دنوں میں سحری کھایا کرو کیونکہ سحری کھا کر روزہ رکھنے میں برکت ہے۔‘‘( صحیح بخاری کتاب الصوم باب بركة السحور من غير إيجاب)حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی اس کی پابندی فرمایا کرتے تھے خود بھی اور جو آپ کی جماعت کے افراد تھے ان کو بھی کہا کرتے تھے کہ سحری ضروری ہے۔ اسی طرح جو مہمان قادیان میں آیا کرتے تھے ان کے لیے بھی سحری کا باقاعدہ انتظام ہوا کرتا تھا بلکہ بڑا اہتمام ہوا کرتا تھا۔اس بارہ میں صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ تحریر کرتے ہیں کہ منشی ظفراحمد صاحب کپورتھلوی نے تحریر میں بیان کیا کہ میں قادیان میں مسجد مبارک سے ملحق کمرہ میں ٹھہرا کرتا تھا۔ میں ایک دفعہ سحری کھا رہا تھا کہ حضرت مسیح علیہ السلام تشریف لائے۔ آپ علیہ السلام نے سحری کھاتے دیکھ کر فرمایا آپ دال سے روٹی کھاتے ہیں ؟(سحری کے وقت دال روٹی کھا رہے تھے)منتظم کو بلایا اور فرمانے لگے کہ سحری کے وقت دوستوں کو ایسا کھانا دیتے ہیں! آپ نے فرمایا کہ یہاں ہمارے جس قدر احباب ٹھہرے ہوئے ہیںوہ سفر میں نہیں ہیں بلکہ روزہ رکھتے ہیں۔ہر ایک سے معلوم کرو کہ ان کو کیا کیا کھانے کی عادت ہے اور وہ سحری کو کیا کیا چیز پسند کرتے ہیں۔ویسا ہی کھانا سحری میں ان کے لیے تیار کیا جائے پھر منتظم میرے لئے اور کھانا لایا مگر میں کھا چکا تھا اور اذان بھی ہو گئی تھی۔حضور ؑنے فرمایا کھالو اذان جلدی دی گئی ہے اس کا خیال نہ کرو۔‘‘(سیرت المہدی جلد ۲حصہ چہارم صفحہ ۱۲۷ روایت نمبر ۱۱۶۳)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ نماز تہجد پڑھنے اور سحری کھانے کے بارے میں ایک اور روایت بیان فرماتے ہوئے حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ فرماتے ہیں کہ’’ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب رضی اللہ عنہ نے مجھ سے بیان کیا کہ ۱۸۹۵ءمیں مجھے تمام ماہ رمضان کا قادیان میں گزارنے کااتفاق اور میں نے تمام مہینے حضرت صاحب کے پیچھے نماز تہجد یعنی تراویح ادا کی۔ آپ کی یہ عادت تھی کہ وتر اول شب میں پڑھ لیتے تھے اور نماز تہجد 8 رکعت 2-2رکعت کرکے آخری شب میں ادا فرماتے تھے۔ اس میں آپ ہمیشہ پہلی رکعت میںآیۃ الکرسی یعنی اَللّٰہُ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ ۚ اَلۡحَیُّ الۡقَیُّوۡمُ سے ۡعَلِیُّ الۡعَظِیۡمُ تک اور دوسری رکعت میں سورۃ الاخلاص کی تلاوت فرماتے تھے اور رکوع و سجود میں يَا حَیُّ یآ قَیّومُ بِرَحْمَتِکَ نَسْتَغِيْثُپڑھتے تھے اور اور اسی آواز سے پڑھتے تھے کہ آپ کی آواز میں سن سکتا تھا۔نیز آپ ہمیشہ سحری نماز تہجد کے بعد کھاتے تھے اور اس میں اتنی تاخیر فرماتے تھے کہ بعض دفعہ کھاتے کھاتے اذان ہو جاتی تھی اور آپ بعض اوقات اذان ختم ہونے تک کھانا کھاتے رہتے تھے۔

حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ خاکسار عرض کرتا ہے در اصل مسئلہ تو یہ ہے کہ جب تک صبح صادق افق مشرق سے نمودارنہ ہوجائے سحری کھانا جائز ہے۔ اذان کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں ہے کیونکہ صبح کی اذان کا وقت بھی صبح صادق ظاہر ہونے پر مقرر ہے۔ اس لیے لوگ عموماً بعض جگہوں پر سحری کی حد اذان ہونے کو سمجھ لیتے ہیں۔قادیان میں چونکہ صبح کی اذان صبح صادق کے پھوٹتے ہی ہو جاتی ہے بلکہ ممکن ہے کہ بعض اوقات غلطی اور بے احتیاطی سے اس سے قبل بھی ہو جاتی ہو۔اس لئے ایسے موقعوں پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اذان کا چنداںخیال نہ فرماتے تھے اور صبح صادق کے تبیّنتک سحری کھاتے رہتے تھے اور دراصل شریعت کا منشاء بھی اس معاملے میں یہ نہیں ہے کہ جب علمی اورحسابی طور پر صبح صادق کا آغاز کے ساتھ ہی کھانا ترک کردیا جائے بلکہ منشا یہ ہے کہ جب عام لوگوں کی نظر میں صبح صادق کی سفیدی ظاہر ہو جائے۔ اس وقت کھانا چھوڑ دیا جائے چنانچہ تبیّنکا لفظ اسی بات کو ظاہر کر رہا ہے۔حدیث میں بھی آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بلال کی اذان پر سحری نہ چھوڑا کرو بلکہ ابن مکتوم کی اذان تک بے شک کھاتے پیتے رہا کرو کیونکہ ابن مکتوم نابینا تھے اور جب تک لوگوں میں شور نہ پڑ جاتا تھا کہ صبح ہو گئی ہے صبح ہو گئی ہے اس وقت تک اذان نہ دیتے تھے۔‘‘(سیرت المہدی جلد اول حصہ دوم روایت نمبر ۳۲۰ صفحہ ۲۹۵.- -۲۹۶ خطبہ جمعہ فرمودہ ۳؍جون ۲۰۱۶ء،مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل ۲۴؍جون ۲۰۱۶ءصفحہ ۶-۷)

رمضان المبارک میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مصروفیات

حضرت مرزا بشیر احمد رضی اللہ تعالیٰ عنہ تحریر کرتے ہیں کہ حضرت نواب محمد علی خان صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جب سورج گرہن اور چاند گرہن رمضان میں واقع ہوئے تو غالباً ۱۸۹۴ء تھا۔میں قادیان میں سورج گرہن کے دن نماز میں موجود تھا۔ مولوی محمد احسن صاحب امروہی نے نماز پڑھائی تھی اور نماز میں شریک ہونے والے بے حد رورہے تھے۔ اس رمضان میں یہ حالت تھی کہ صبح دو بجے سے چوک احمدیہ میں چہل پہل ہو جاتی تھی اور اکثر گھروں اوربعض مسجدمبارک میں آ موجود ہوتے جہاں تہجد کی نماز ہوتی۔سحری کھائی جاتی اور اول وقت صبح کی نماز ہوتی۔اس کے بعد کچھ عرصہ تلاوت قرآن شریف ہوتی اور کوئی آٹھ بجے کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام سیر کو تشریف لے جاتے۔سب خدام ساتھ ہوتے۔ یہ سلسلہ کوئی ۱۱ ۱۲-بجے ختم ہوتا۔ اس کے بعد ظہر کی اذان ہوتی اور ایک بجے سے پہلے نمازظہر ختم ہو جاتی اور پھر نماز عصر بھی اپنے اول وقت میں پڑھی جاتی۔ بس عصر اور مغرب کے درمیان فرصت کا وقت ملتا تھا۔مغرب کے بعد کھانے وغیرہ سے فارغ ہو کر آٹھ ساڑھے آٹھ بجےنماز عشاء ختم ہوجاتی اور ایساہوکا عالم ہوتا ہے گویا کوئی آباد نہیں۔مگر دو بجے صبح سب بیدار ہوتے اور چہل پہل ہو جاتی۔‘‘( سیرت المہدی حصہ چہارم صفحہ ۴۰-۴۱ روایت نمبر ۱۰۴۲)

قادیان میں رمضان کی یادیں

قادیان میں رمضان کی بعض یادوں کا تذکرہ کرتے ہوئےحضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒفرماتے ہیں کہ ’’ہم نے اپنے قادیان کے ماحول میں یہی دیکھا کہ چھوٹے بچے بھی جو ۹،۸سال کی عمر کو پہنچ جاتے ہیں جوشوق سے روزہ رکھنا چاہتے ہیں ان کو کبھی روکا نہیں گیا تھا۔ کبھی کسی نے یہ نہیں کہا کہ تمہاری صحت کمزور ہوجائے گی تم رک جائو۔ ہاں اگر کوئی زیادہ ہی جوش دکھائےاور کہے کہ میں نے سارے مہینے کے رکھنے ہیں تو اسے پیارسے سمجھایا جاتا تھا کہ نہ کرو۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ بعض دفعہ کچی عمر میں زیادہ نیکی کرنے سے نیکی سے ہی متنفر ہو جاتا ہے۔ وہاں بھی صحت کی خرابی کا خطرہ نہیں تھا۔غالباً وجہ یہ ہوتی تھی کہ بچہ کہیں زیادہ جوش میں نیکی کرکے، نیکیوں سے نہ جائے کہیں اور نیکیوں کے خلاف ایک قسم کی بے رغبتی نہ پیدا ہوجائے۔ بہرحال ہم نے بچپن میں رکھے ہوئے ہیں۔ ۷-۸سال کی عمر سے شروع میں دو تین پھر ۸،۷بلوغت سے پہلے پندرہ بیس تک پہنچ جایا کرتے تھے اور بلوغت کے بعد خدا تعالیٰ کے فضل سے جہاں تک مجھے یاد ہے روزے رکھنے کی توفیق ملی۔ سختیوں میں بھی، نرمیوں میں بھی،چھوٹے دنوں میں بھی، زیادہ دنوں میں بھی لیکن کوئی ایسا نقصان مجھے یاد نہیں جس نے ہمیشہ کے لئے صحت پر بُرا اثر چھوڑا ہو۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ ۵؍مارچ ۱۹۹۳ء،مطبوعہ خطبات طاہر جلد ۱۲صفحہ ۱۹۱)

بچوں کو سحری کے وقت اُٹھاکر نوافل پڑھنے کی عادت ڈالی جائے

’’دوسری بات رمضان کے روزوں کے سلسلہ میں جو قادیان میں رائج دیکھی اور وہ بہت ہی ضروری اور مفیدتھی جس کو میں نے دیکھا ہے کہ بعد میں بہت گھروں میں ترک کردیا گیا۔ وہ یہ تھی کہ روزہ شروع ہونے سے پہلے بچوں کو اس وقت نہیں اُٹھاتے تھے کہ صرف کھانے کا وقت رہ جائے بلکہ لازماً اتنی دیر پہلے اُٹھاتے تھے کہ کم سے کم دوچار نوافل بچہ پڑھ لے اور مائیں کھانا نہیں دیتی تھیں بچوں کو جب تک پہلے وہ نفل سے فارغ نہ ہوجائیں۔ سب سے پہلے اُٹھ کر وضو کرواتی تھیں اور پھر وہ نوافل پڑھاتی تھیں تاکہ ان کو پتہ لگے کہ اصل روزہ کا مقصد روحانیت حاصل کرنا ہے۔ تہجد پڑھیں، قرآن کریم کی تلاوت کریں پھر وہ کھانے پہ بھی آئیں اور اکثر اوقات الاماشاء اللہ تہجد کا وقت کھانے کے وقت سے بہت زیادہ ہوتاتھا۔کھانا تو آخری دس پندہ منٹ میں بڑی تیزی سے بچے کھاکر فارغ ہوجاتے تھے اور تہجد کے لئے ان کو آدھا گھنٹہ پون گھنٹہ اتنا ضرور مہیا کردیا جاتا تھا۔

اب جن گھروں میں بچوں کو روزہ رکھنے کی ترغیب بھی دی جاتی ہے ان کو اس سلیقے کے ساتھ نہیں روزہ رکھایا جاتا کہ جو زیادہ اہم چیزہے اس کی طرف متوجہ ہوں بلکہ آخری منٹوں میں جب کھانے کا وقت ہے ان کو کہہ دیا جاتا ہے آئو روزہ رکھ لو اور اسی کو کافی سمجھاجاتا ہے۔ اس لئے درست ہے کہ اسلام تو ازن کا مذہب ہے، میانہ روی کا مذہب ہے لیکن میانہ روی کا مذہب ہے کم روی کا مذہب تو نہیں۔ میانہ روی اختیار کرو۔ جہاں خدا نے فرض قراردیا ہے وہاں اس کو فرض سمجھو۔ جہاں فرض نہیں قرار دیا وہاں اس رخصت سے خدا کی خاطر استفادہ کرو۔ یہ نیکی ہے، اس کا نام میانہ روی ہے۔

اس لئے جماعت کو اپنے روزہ کے معیار کی طرف بھی توجہ کرنی چاہئے اور روزے رکھو انے کی طرف بھی توجہ کرنی چاہئے اور روزہ کا معیار بڑھانے کی طرف بھی توجہ کرنی چاہئے۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ ۳۰؍مئی ۱۹۸۶ء خطبات طاہر جلد ۵صفحہ۳۹۲تا۳۹۳)٭…٭ (جاری ہے)٭……٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button