متفرق مضامین

دعاؤں کا وسیع تر دائرہ

(سید احسان احمد۔مینیجنگ ایڈیٹر الفضل انٹرنیشنل)

دنیا اگر جنگوں کی تباہی اور بربادی سے بچ سکتی ہے تو صرف ایک ہی ذریعہ سے بچ سکتی ہے اور وہ ہے ہر احمدی کی ایک درد کے ساتھ ان تباہیوں سے انسانیت کو بچانے کے لئے دعا

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو یہ خوشخبری دی کہ میں تجھے لوگوں کےلیے امام بنانے والا ہوں تو یہ سنتے ہی انہوں نے عرض کی و من ذریتیکہ کیا میری ذریت بھی اس سےحصہ پائے گی؟

اس بظاہر چھوٹے سے لفظ میں ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے مقرب بندے جب انعامات الٰہیہ کے وارث بنتے ہیں تووہ انہیں اپنی ذات تک محدود نہیں رکھنا چاہتے بلکہ ان کی خواہش ہوتی ہے کہ یہ فیض زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پھیلے۔چنانچہ اس موقع پر بھی جہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے ایک خوشخبری عطا فرمائی تو ساتھ ہی آپ نے اپنی اولاد کے لیے بھی دعا کی۔

آنحضورﷺ جو سب انبیاء سے افضل و اعلیٰ تھے نے وہ نمونہ قائم فرمایا جو رہتی دنیا تک اسوۂ حسنہ ہے۔ جہاں آپ وَکَانَ بِالۡمُؤۡمِنِیۡنَ رَحِیۡمًا کے مصداق تھے وہاں لَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفۡسَکَ اَلَّا یَکُوۡنُوۡا مُؤۡمِنِیۡنَ کے الفاظ بھی آپ کے وسیع تر جذبہ رحم پر مہر تصدیق ثبت کرتے ہیں۔

ایک سچا مومن ہمیشہ اپنی دعاؤں کے دائرے کو وسیع سے وسیع تر کرتا چلا جاتا ہے۔ ایسا صرف اس لیے نہیں ہوتا کیونکہ اسے اس بات کا ادراک ہوتا ہے کہ ایسا کرنا قبولیت کے امکان کو بڑھاتا ہے مگر اس کے دل میں تمام مخلوق کی حقیقی خیرخواہی پائی جاتی ہے۔

دعا کے دائرے کو وسیع سے وسیع کرتے چلے جانا ایک ایسا مضمون ہے جس کی مثال ہمیں انبیاء کی سنت میں بھی ملتی ہے۔

اوّل طور پر تمام انبیاء جہاں تبلیغ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کے پیغام کو مخلوق تک پہنچاتے ہیں وہاں دعاؤں کے ذریعہ بھی اپنی قوم کے لیے ہدایت طلب کرتے ہیں۔

سورہٴ نوح میں حضرت نوحؑ کے متعلق آتا ہے کے جب انہوں نے اتمام حجت کر لی تو پھر اللہ تعالیٰ کے حضور دعاؤں میں مصروف ہو گئے اور یہ دعا کی کہ رَبِّ لَا تَذَرۡ عَلَی الۡاَرۡضِ مِنَ الۡکٰفِرِیۡنَ دَیَّارًا(نوح:۲۷) اے میرے ربّ! زمین پر کافروں کا کوئی گھر باقی نہ رہے۔بظاہر یہ بدعا معلوم ہوتی ہے لیکن جیسا کہ حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا کہ’’یہ بد دعا نہیں کہ سب کافر مارے جائیں، بلکہ دعا ہے کہ سب قوم ایمان لے آئے اور کافر کوئی نہ رہے۔‘‘(تفسیر صغیر، زیر آیت نوح:۲۷)

اسی طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام کا جذبہ رحم ہی تھا کہ آپ نے اپنے والد کے لیے دعائے مغرفت کی اور تب ہی ایسا کرنا چھوڑا جب اللہ تعالیٰ نے آپ پر ظاہر کر دیا کہ وہ اللہ کا دشمن تھا۔

پھر آنحضورﷺ کی مثال ہے۔ آپؐ تو تھے ہی رحمۃ للعالمین چنانچہ آپ کی دعاؤں کا فیض بھی تمام جہانوں کو پہنچا اور پہنچتا رہے گا۔کبھی آپ شدید ترین مخالف عمر کے مسلمان ہونے کی دعا کرتے ہیں تو کبھی میدان احد میں قوم کی طرح سے تکالیف پہنچنے کے باوجود ان کی ہدایت کے لیے اللّٰھُمَّ اِھْدِ قَوْمِیْ فَاِنَّھُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ کی دعا کرتے ہیں۔کبھی شدید ظلم کے باوجود اہل طائف کے لیے دعا کرتے ہیں تو کبھی مدینہ میں آباد یہودیوں کی ہدایت کے لیے دعا گو دکھائی دیتے ہیں۔

ایک مرتبہ ایک شخص آپؐ کے پاس آیااور دو مرتبہ کہا کہ اے اللہ کے رسول! حِمْیَر پر لعنت کریں۔ آپؐ نے اس سے اعراض کیااوراس کے برعکس ان کے لیے دعا کہ کہ اللہ حِمْیَر پر رحم کرے۔ ان کے منہ سلامتی ہیں اور ان کے ہاتھ لوگوں کے لئے کھانا مہیا کرنے والے ہیں اور وہ امن اور ایمان والے لوگ ہیں۔(ترمذی کتاب الدعوات باب فی فضل الیمن حدیث نمبر۳۹۳۹)

آپؐ فرمایا کرتے تھے کہ مجھے لعنت ملامت کرنے والا بنا کر مبعوث نہیں کیاگیا بلکہ مَیں خدا کی طرف دعوت دینے والا باعث رحمت بنا کر مبعوث کیاگیا ہوں۔چنانچہ آپؐ کی دعا سے ہی وہ انقلاب برپا ہوا جس کی وجہ سے صدیوں کے مردے الٰہی رنگ اختیار کرنے لگے۔

پھر آپؐ کے غلام صادق امام الزمان حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کا نمونہ ہے۔ آپؐ نے تو دعا کے مضمون کو کھول کھول کر اور بار بار بیان فرمایا۔اور ایسا کیوں نہ ہوتا؟ پیشگوئیوں کے مطابق اسی مسیح کی دعا نے ہی تو دجالی اثرات کو کافور کرنا تھا۔چنانچہ آپؑ فرماتے ہیں:’’خدا تعالیٰ نے مجھے باربار بذریعہ الہامات کے یہی فرمایا ہے کہ جو کچھ ہوگا دعا ہی کے ذریعہ ہوگا‘‘۔(ملفوظات جلد ۵ صفحہ ۳۶،ایڈیشن۱۹۸۸ء)

آپؑ کے تو دوسروں کے حق میں قبولیت دعا کے بےشمار نشانات ہیں جو آپ کی کتب اور روایات میں محفوظ کر دیے گئے ہیں۔کبھی آپؑ اپنے اوقات کو دعا کے لیے مخصوص کرکے اپنے مخلص دوستوں کے لیے دعا کرتے ہیں، تو کبھی قادیان میں مقیم ہندوؤں کے لیےدعا کرکے غیروں کو بھی دعا کا اثر دکھاتے ہیں۔ کبھی آپ کی دعا سے ’مصلح موعود‘ جیسا فرزند ارجمند پیدا ہوتا ہے تو کبھی کسی لا علاج قرار دیے جانے والے بیمار کے لیے اس قدر دعا کرتے ہیں کہ وہ شفایاب ہو جاتا ہے۔ الغرض حضورؑ کی دعاؤں کا دائرہ اس قدر وسیع تھا کہ کوئی بھی اس سے باہر نہ رہا۔

ایک غریب کے لیے جذبہ رحم اور ہمدردی کے تحت اللہ تعالیٰ کے حضوربخشش اور رحم کے لیے دعا کرنے کا واقعہ کا کچھ یوں ذکر ملتا ہے کہ ایک مرتبہ اٹھارہ بیس برس کا ایک نوجوان بیمار ہوا ۔چنانچہ اس کے رشتہ دار اسے قادیان لے آئے جہاں وہ چند روز بیمار رہ کر وفات پا گیا ۔حضرت اقدسؑ نے اس کی نماز جنازہ اس قدر طویل پڑھائی کہ بعض کو چکر آنے لگے اور گھبرا اٹھے۔ بعد سلام کے حضور نےفرمایا کہ وہ شخص جس کے جنازہ کی ہم نے اس وقت نماز پڑھی اس کے لئے ہم نے اتنی دعائیں کی ہیں اور ہم نے دعاؤں میں بس نہیں کی جب تک اس کو بہشت میں داخل کرا کے چلتا پھرتا نہ دیکھ لیا۔(ماخوذ از تذکرۃ المہدی حصہ اوّل صفحہ۸۰)

دشمنوں کے لیے دعا کرنے کے متعلق ایک موقع پر فرمایا:’’میرا یہ مذہب ہے کہ جب تک دشمن کے لئے دعا نہ کی جاوے پورے طور پر سینہ صاف نہیں ہوتا…ہمیں اپنا کوئی دشمن نظر نہیں آتا جس کے واسطے دو تین مرتبہ دعا نہ کی ہو ایک بھی ایسا نہیں‘‘(ملفوظات جلد ۳ صفحہ ۹۷،۹۶،ایڈیشن۱۹۸۴ء)

روزانہ کی دعاؤں کا معمول بیان فرماتے ہوئے حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:’’میں التزاماً چند دعائیں ہر روزمانگا کرتاہوں:

اول: اپنے نفس کے لئے دعا مانگتاہوں کہ خداوند کریم مجھ سے وہ کام لے جس سے اس کی عزت وجلال ظاہر ہو اور اپنی رضا کی پوری توفیق عطا کرے۔

دوم: پھر اپنے گھرکے لوگوں کے لئے دعا مانگتاہوں کہ ان سے قرۃعین عطاہو اور اللہ تعالیٰ کی مرضیات کی راہ پرچلیں۔

سوم: پھراپنے بچوں کے لئے دعا مانگتاہوں کہ یہ سب دین کے خدام بنیں۔

چہارم: پھر اپنے مخلص دوستوں کے لئے نام بنام۔

پنجم: اور پھران سب کے لئے جو اس سلسلہ سے وابستہ ہیں خواہ ہم انہیں جانتے ہیں یا نہیں جانتے۔‘‘(ملفوظات جلداوّل صفحہ۳۰۹)

حضرت مسیح موعودؑ کے ایک جلیل القدر صحابی حضرت مولوی عبدالکریم صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک مرتبہ بیان کیا کہ بیت الدعا کے اوپر ان کا حجرہ تھاجہاں سے وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی حالت دعا میں گریہ وزاری کو سن سکتے تھے۔بیان کرتے ہیں کہ آپؑ کی آواز میں اس قدر درد اور سوزش تھی کہ سننے والے کا پتہ پانی ہوتا تھا اور آپ اس طرح آستانہ الٰہی پر گریہ و زاری کرتے تھے جیسے کوئی عورت دردِ زہ سے بےقرار ہو۔ وہ فرماتے تھے کہ مَیں نے غور سے سنا تو آپ مخلوق الٰہی کے لیے طاعون کے عذاب سے بچنے کے لیے دعا کرتے تھےکہ الٰہی اگر یہ لوگ طاعون کے عذاب سے ہلاک ہو جائیں گے تو پھر تیری عبادت کون کرے گا۔(ماخوذ از سیرت حضرت مسیح موعودؑ از حضرت یعقوب علی صاحب عرفانیؓ صفحہ۴۲۸تا۴۲۹)

آج خلافت حقہ اسلامیہ احمدیہ کی صورت میں جاری فیض بھی دعاؤں کا ایک خزانہ ہے جو ہمیں بار باردعاؤں کا دائرہ وسیع کرنے کی طرف توجہ دلاتا ہے۔ حال ہی میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے پاکستان، برکینا فاسو، بنگلہ دیش اور الجزائر کے احمدیوں کے لیے دعا کرنے کے لیے توجہ دلائی ہے۔

اس کے علاوہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ۲۰۱۰ءمیں خاص طور پر مظلوم احمدیوں کے لیے دعائیں کرنے کے لیے دو نوافل ادا کرنے کی تحریک فرمائی تھی۔ فرمایا:’’حقیقی ہدایت یافتہ تو وہی ہے جو حقیقی مومن ہے اور حقیقی مومن وہ ہے جو اپنے مومن بھائی کے درد کو بھی، اُس کی تکلیف کو بھی اپنے درد اور اپنی تکلیف کی طرح محسوس کرتا ہے۔ جس طرح جسم کا ایک عضو تکلیف میں ہو تو سارا جسم تکلیف میں ہوتا ہے اس طرح ایک مومن دوسرے مومن کی تکلیف کو محسوس کرتا ہے۔ پس ان حالات میں دنیا بھر کی جماعتوں کے تمام افراد کو میں خاص طور پر اپنے مظلوم اور تکلیف اور مشکلات میں گرفتار بھائیوں کے لئے دعاؤں کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں۔ ہر احمدی کم از کم دو نفل روزانہ صرف ان لوگوں کے لئے ادا کرے جو احمدیت کی وجہ سے کسی بھی قسم کی تکلیف میں مبتلا ہیں۔ جو ظالمانہ قوانین کی وجہ سے اپنی شہری اور مذہبی آزادیوں سے محروم کر دئیے گئے ہیں۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ ۳؍دسمبر۲۰۱۰ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۲۴؍دسمبر۲۰۱۰ءصفحہ۶)

یہ تو احمدیوں کے لیے دعا کی تحریک ہوئی۔ خلیفۃ المسیح تو پوری انسانیت کے لیے ہمیں دعاؤں کی طرف توجہ دلاتے ہیں۔ اس رمضان میں ہی فلسطین کے مسلمان، امت مسلمہ کے لیے، دنیا کے عمومی حالات کے لیے دعا کی طرف توجہ دلائی۔ ان تحریکات پر عمل کیا جائے تو ہماری دعاؤں کا دائرہ کتنی وسعت اختیار کر جائے گا!

دعاؤں کا دائرہ وسیع کرنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ جیسا کہ امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں توجہ دلائی کہ’’دنیا اگر جنگوں کی تباہی اور بربادی سے بچ سکتی ہے تو صرف ایک ہی ذریعہ سے بچ سکتی ہے اور وہ ہے ہر احمدی کی ایک درد کے ساتھ ان تباہیوں سے انسانیت کو بچانے کے لئے دعا۔

آج غلامان مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ہی یہ فرض ہے کہ … ایک درد کے ساتھ انسانیت کو تباہی سے بچانے کے لئے بھی دعا کریں۔ جنگوں کے ٹلنے کے لئے دعا کریں۔دعاؤں اور صدقات سے بلائیں ٹل جاتی ہیں۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ۳۰؍جون۲۰۱۷ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۲۱؍جولائی ۲۰۱۷ء صفحہ۸)

پس اس حوالے سے ہماری یہ ذمہ داری اور مذہبی فرض بنتا ہے کہ اپنی دعاؤں کے دائرے کووسیع سے وسیع تر کرتے چلے جائیں تا کہ خدا تعالیٰ کا رحم اور اس کا فضل جذب کرنے والے ہوں۔

ایک دوسرے کے لیے دعا کرنے کا ایک عظیم الشان فائدہ بیان کرتے ہوئےحضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیںکہ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ آپس میں محبت کرو اور ایک دوسرے کے لئے غائبانہ دعا کرو۔ اگر ایک شخص غائبانہ دعا کرے تو فرشتہ کہتا ہے کہ تیرے لئے بھی ایسا ہو۔ کیسی اعلیٰ درجہ کی بات ہے۔ اگر انسان کی دعا منظور نہ ہو تو فرشتہ کی تو منظور ہی ہوتی ہے۔‘‘(ملفوظات جلد اوّل صفحہ ۳۳۶،ایڈیشن ۱۹۸۸ء)

اسی مضمون کو رمضان کے ساتھ جوڑتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:’’دوسروں کے لیے دعائیں کرنے سے بھی اپنی دعائیں قبول ہوتی ہیں۔ یہ نسخہ ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے بلکہ دوسروں کے لیے دعائیں کرنے والے کے لیے فرشتے دعائیں کرتے ہیں اور فرشتوں کی دعائیں جب ہو رہی ہوں تو یہ کس قدر فائدہ مند سودا ہے۔پس ہمیں خاص طور پہ صرف اپنے لیے نہیں دوسروں کے لیے بھی بہت زیادہ دعائیں کرنی چاہئیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی بھی اس رمضان میں خاص طور پر توفیق عطا فرمائے۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ۱۶؍اپریل۲۰۲۱ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۷؍مئی۲۰۲۱ء)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button