حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

احمدی خواتین کو زکوٰۃ ادا کرنے کی طرف توجہ دینی چاہئے

ایک چندہ جس کی طرف میں توجہ دلانی چاہتا ہوں وہ زکوٰۃ ہے۔ زکوٰۃ کا بھی ایک نصاب ہے اور معین شرح ہے عموماً اس طرف توجہ کم ہوتی ہے۔ زمینداروں کے لئے بھی جو کسی قسم کا ٹیکس نہیں دے رہے ہوتے ان پر زکوٰۃ واجب ہے۔ اسی طرح جنہوں نے جانور وغیرہ بھیڑ، بکریاں، گائے وغیرہ پالی ہوتی ہیں ان پر بھی ایک معین تعداد سے زائد ہونے پر یا ایک معین تعداد ہونے تک پر زکوٰۃ ہے۔ پھر بینک میں یا کہیں بھی جو ایک معین رقم سال بھر پڑی رہے اس پر بھی زکوٰۃ ہوتی ہے۔ پھر عورتوں کے زیوروں پر زکوٰۃ ہے۔ اب ہر عورت کے پاس کچھ نہ کچھ زیور ضرور ہوتا ہے۔ اور بعض عورتیں بلکہ اکثر عورتیں جو خانہ دار خاتون ہیں، جن کی کوئی کمائی نہیں ہوتی وہ لازمی چندہ جات تو نہیں دیتیں، دوسری تحریکات میں حصہ لے لیتی ہیں۔ لیکن اگر ان کے پاس زیور ہے، اس کی بھی شرح کے لحاظ سے مختلف فقہاء نے بحث کی ہوئی ہے۔ باون تولے چاندی تک کا زیور ہے یا اس کی قیمت کے برابر اگر سونے کا زیور ہے تو اس پر زکوٰۃ فرض ہے، اور اڑھائی فی صد اس کے حساب سے زکوٰۃ دینی چاہئے اس کی قیمت کے لحاظ سے۔ اس لئے اس طرف بھی عورتوں کو خاص طور پر توجہ دینی چاہئے اور زکوٰۃ ادا کیا کریں۔ بعض جگہ یہ بھی ہے کہ کسی غریب کو پہننے کے لئے زیور دے دیا جائے تو اس پر زکوٰۃ نہیں ہوتی لیکن آج کل اتنی ہمت کم لوگ کرتے ہیں کسی کو دیں کہ پتہ نہیں اس کا کیا حشر ہو۔ اس لئے چاہئے کہ جو بھی زیور ہے، چاہے خود مستقل پہنتے ہیں یا عارضی طور پر کسی غریب کو پہننے کے لئے دیتے ہیں احتیاط کا تقاضا یہی ہے کہ اس پر زکوٰۃ ادا کر دیا کریں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے تو حضرت اماں جانؓ کے بارے میں فرمایا کہ وہ باوجود اس کے کہ غرباء کو بھی زیور پہننے کے لئے دیتی تھیں لیکن پھر بھی زکوٰۃ ادا کیا کرتی تھیں۔ تو احمدی خواتین کو زکوٰۃ ادا کرنے کی طرف خاص طور پر توجہ دینی چاہئے۔ اور جب عورتوں کی کوئی آمد نہیں ہوتی اور اکثر عورتوں کی آمد نہیں ہے تو ظاہر ہے پھر اس زکوٰۃ کی ادائیگی میں مردوں کو مدد کرنی ہو گی۔

(خطبہ جمعہ فرمودہ۲۸؍مئی ۲۰۰۴ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۱۱؍جون۲۰۰۴ء)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button