یادِ رفتگاں

سید حلمی الشافعی مرحوم و مغفور

(محمد احمد منیر بہاولپوری)

اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کی اس دنیا میں پیدائش کا مقصد اورمدعا اللہ تعالیٰ کی عبادت قائم کرنا فرمایا ہے۔ جب کبھی اللہ تعالیٰ کوئی مامور یا نبی مبعوث فرماتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کو قائم کرنے کے لیے جدوجہد شروع کر دیتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحم کے ساتھ سعید فطرت لوگ مامور من اللہ کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے قبول کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ خاکسار یہاں پر ایک مخلص اور متقی بزرگ احمدی محترم حلمی الشافعی صاحب کے ذکرِ خیر کے لیے کچھ تحریر کرتا ہے۔ خاکسار کو موصوف سے ۱۹۷۵ءمیں تعارف ہوا جبکہ میں ابو ظہبی میں مقیم تھا۔ یہ اُس وقت کی بات ہے جب ابوظہبی میں بھی عدالت نے احباب جماعت احمدیہ پر ایک نام نہاد مقدمہ کی وجہ سے یہ پابندی لگا دی کہ نماز گھر کی بجائے مسجد میں اداکیا کریں۔ کسی غیر احمدی امام کی اقتدا میں کسی مسجد میں نماز پڑھنا مناسب نہیں تھالہٰذا احباب جماعت مختلف گھروں میں سنٹرز بنا کر نماز جمعہ خاص طور پر سنٹرز میں ہی ادا کرتے تھے۔ بعض اوقات پولیس کےچھاپہ مارنے کی اطلاع بھی ملتی جس پر احباب محتاط ہو جاتے۔

کیونکہ گھر میں نماز ادا کرنا خلاف قانون تھا۔ بڑی احتیاط بھی کرنی پڑتی تھی۔ ایسے حالات میں ایک احمدی دوست کا عربی لباس میں نماز سنٹر میں آنا بڑی جرأت اور بہادری کی بات تھی۔ چنانچہ مکرم حلمی الشافعی صاحب آزادانہ طور پر نماز سنٹر میں نماز جمعہ کے لیے تشریف لاتے۔ کبھی کسی خطرہ کی پروا نہ کرتے۔ چونکہ آپ ایک انجینئر کی حیثیت سے باعزت طور پر ملازم تھے، ایک عربی اخبار میں جماعت کے خلاف ایک مضمون شائع ہوا۔ آپ نے جب اخبار میں مخالفانہ مضمون پڑھا تو ایڈیٹر کو فون کیا کہ جماعت احمدیہ کے بارے میں جو مضمون شائع ہوا ہے جماعت احمدیہ کا اس سے دور دور کا بھی تعلق نہیں۔ ایڈیٹر نے دریافت کیا کہ آپ کون ہیں؟ تو موصوف نے بتایا کہ میں تمہاری اخبار باقاعدہ پڑھتا ہوںیہ مضمون پڑھ کر افسوس ہوا کہ آپ نے بلا تحقیق ایسا غلط مضمون جماعت احمدیہ مسلمہ کے بارے میں شائع کیا ہے۔ ایڈیٹر نے پھر دریافت کیا کہ آپ کون ہیں؟ موصوف نے کہا میں جماعت کے بارے میں تمہیں ایک کتاب بھیج رہا ہوں اس کو پڑھو تاکہ تمہیں جماعت احمدیہ کے بارے صداقت کا علم ہو۔ پھر کچھ دنوں بعد موصوف نے ایڈیٹر کو فون کیا کہ کتاب مل گئی ہے؟ ایڈیٹر نے کہا کہ مل گئی ہے۔ مگر آپ اپنا تعارف کرائیں۔ موصوف نے کہا کہ اگر آپ تعارف چاہتے ہیں تو مصر چلیں وہاں میں آپ کو اپنا تعارف کرواؤں گا۔

اس طرح آپ نے دلیرانہ رنگ میں جماعت احمدیہ مسلمہ کی صداقت کو ظاہر کیا۔ آپ اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحم کے ساتھ ایک متقی اور بہادر، مخلص احمدی تھے۔

آپ احباب کی اطلاع کے لیے یہ عرض کرتا چلوں کہ موصوف کس طرح احمدی ہوئے۔موصوف نے بتایا کہ خاکسار اور مکرم مصطفیٰ ثابت صاحب ایک ہی کمپنی میں بحیثیت انجینئر ملازمت کرتے تھے۔ہم سب انجینئرز فارغ اوقات میں اکٹھے بیٹھ کر خوب گپ شپ کرتے تھے مگر مصطفیٰ ثابت صاحب کبھی ہمارے ساتھ نہیں بیٹھتے تھے۔ ایک دن خاکسار نے دوسرے انجینئرز سے پوچھا کہ ہم سب اکٹھے ہو جاتے ہیں لیکن ثابت صاحب کبھی ہمارے ساتھ شامل نہیں ہوتے۔ دوسرے انجینئرز نے بتایا کہ وہ قادیانی ہے اس لیے وہ ہمارے ساتھ نہیں بیٹھتا۔ خاکسار نے ایک دن مصطفیٰ ثابت سے براہ راست بات کی کہ آپ فارغ اوقات میں ہمارے ساتھ کیوں نہیں بیٹھتے۔ تو مصطفیٰ ثابت نے کہا کہ آپ سب دنیاوی گپ شپ کرتے ہیں چونکہ میں احمدی ہوں اس واسطے اس مجلس میں شامل ہونا مناسب نہیں سمجھتا۔

اس پر خاکسار نے دریافت کیا کہ احمدی کیا ہے؟ اس پر بات چل پڑی اور تین سال تک ہم دونوں آپس میں مذہبی مباحثہ کرتے رہے آخر تین سال کے بعد مصطفیٰ ثابت جیت گیا اور خاکسار نے بیعت کر لی اور اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحم کے ساتھ احمدی ہوگیا۔

اس طرح اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحم کے ساتھ حلمی الشافعی صاحب نے گھر اور دفتر تمام زندگی خدمتِ دین میں گزار دی۔ اللہ تعالیٰ آپ کی مغفرت فرمائے اور اپنی جنتوں میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ آمین

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button