متفرق مضامین

روزہ اور خواتین کے مسائل(قسط دوم)

(صباحت ۔ جرمنی)

سائنسی تحقیقات کے مطابق

اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔ چودہ سو سال پہلے جو احکامات جاری ہوئے آج سائنس بھی ان کو صحیح ثابت کرتی ہے۔ اگر سائنس کی روشنی میں دیکھیں تو حاملہ اور مرضعہ عورت کا روزہ رکھنا ماں اور بچے دونوں کی صحت کے لیے خطرہ سے خالی نہیں ہے۔

حمل کے دوران ماں کو عام حالت کی نسبت روزانہ تقریباً ۳۰۰ سے ۴۵۰ مزید حراروں کی ضرورت ہوتی ہے اس لیے ماں کو عام روٹین سے ہٹ کر زیادہ خوراک درکار ہوتی ہے۔

تحقیقات کے مطابق زیادہ دیر خالی پیٹ رہنے کی صورت میں ماں کا جگر کیٹون جو کہ نشاستہ کی ایک قسم ہے وافر مقدار میں بنانا شروع کر دیتا ہے جو کہ بچے کے لیے نقصان دہ ہے۔

دوسرا یہ کہ حمل میں پانی زیادہ پینا چاہیے۔ روزے میں انسانی جسم میں پانی کی کمی ہونا شروع ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے پیشاب کی نالی میں انفیکشن ہو سکتا ہے جسے یو ٹی آئی کہتے ہیں۔ اس انفیکشن کی شکایت انسانی جسم میں پانی کی کمی کا باعث بن سکتی ہے اور اس انفیکشن کا خطرہ حمل میں کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔

حمل میں زیادہ تر خواتین کو متلی اور چکر آنے کی شکایت رہتی ہے جو اس بات کا اشارہ ہوسکتا ہے کہ آپ کو پانی کی کمی ہوئی ہے اور جتنی مقدار پانی کی آپ کے جسم کو چاہیے تھی اتنی مقدار آپ کے جسم تک نہیں پہنچی ہے۔ رمضان میں کم پانی پینے کی وجہ سے گردے میں پتھری بن سکتی ہے اس لیے ماہ رمضان میں ہی نہیں عورتوں کو نو مہینے تک پانی کی مقدار کو زیادہ کرنا چاہیے اس سے بچے کی صحت پر اچھا اثر پڑے گا۔

جسم میں پانی کی مقدار کے کم ہونے کی صورت میں بچے کی نشوونما بھی بہت متاثر ہوتی ہے۔ ماں کے پیٹ میں بچے کے ارد گرد ایک مائع ہوتا ہے جس میں پانی، آکسیجن اور دیگر خوراک کے اجزاء موجود ہوتے ہیں جس سے بچہ اپنی نشوونما لیتا ہے۔اس مائع میں پانی کی کمی بچے کی صحت کے لیے بہت نقصان دہ ہے۔ اس سے بچے کو آکسیجن اور غذائی اجزاء ٹھیک سے نہیں پہنچ پاتے جو کہ بچے کے لیے جان لیوا بھی ثابت ہو سکتا ہے اس لیے ماں کے لیے ضروری ہے کہ وہ پانی کی کمی نہ ہونے دے نیز یہ کہ خوراک کی کمی قبل از وقت وضع حمل اور دیگر پیچیدگیوں کا باعث بنتی ہے۔

اگر دودھ پلانے کی بات کی جائے تو اس عمل میں حمل سے بھی زیادہ طاقت چاہیے ہوتی ہے۔ دودھ پلانے والی ماں کو عام روٹین سے ہٹ کر ۴۵۰-۵۰۰ حرارے روزانہ چاہیے ہوتے ہیں روزہ سے ہونے والی پانی کی کمی دودھ کی مقدار کو کم کرتی ہے جو کہ بچے کی صحت کو متاثر کرے گی۔ اس کے ساتھ روزے کے دوران خوراک کا کم استعمال ماں کے دودھ کی غذائیت کو بھی کم کرتا ہے جو کہ بچے کے تندرست و توانا ہونے میں رکاوٹ کا باعث ہوگا۔

لہٰذا مذہبی تعلیمات کی بنا پر اس بات کا خیال رکھا جائے کہ جو سہولت ہمارے دین نے ہمیں دی ہے اسے بروئے کار لاتے ہوئے انسانی جان کو خطرے میں نہ ڈالا جائے۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو اسلامی تعلیمات جو کہ سراسر ہماری بھلائی اور خیر کے لیے ہیں پرعمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

(جاری ہے)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button