بچوں کا رمضان
السلام علیکم دادی جان۔ اَحمد اور گڑیا نے سکول سے آتے ہی سلام کیا۔دادی جان جو الفضل اخبار کے مطالعہ میں مصروف تھیں انہوں نے اخبار رکھ کر دونوں بچوں کو پیار سے گلے لگایا اور کہا۔وعلیکم السلام میرے پیارے بچو!!
گڑیا :دادی جان مجھے ایک ضروری بات کرنی ہے۔
دادی جان :کیوں نہیں! لیکن پہلے آپ دونوں نماز اور کھانے سے فارغ ہو جائیں۔سب کاموں سے فارغ ہوکر دونوں بچے دادی جان کے پاس بیٹھ گئے تو دادی جان نےگڑیا سے پوچھا کہ کیا بات ہے؟
گڑیا : دادی جان !آج سکول میں سب بچے ایک دوسرے سے پوچھ رہے تھے کہ کتنے روزے رکھے ہیں۔ مجھے امی جان روزہ رکھنے ہی نہیں دیتیں حالانکہ میں اب دس سال کی ہوں۔ سارے کلاس فیلوزروزہ رکھتے ہیں۔ اب میں بھی روزہ رکھا کروں گی۔ گڑیا نے قدرے روٹھے انداز میں اپنا کیس دادی جان کے سامنے پیش کیا۔
اورمیں بھی!۔ احمدنے بھی گڑیا کی تقلید کی۔
گڑیا : دادی جان سب مذاق اڑا رہے تھےکہ تم کیسی مسلمان ہو جو روزہ ہی نہیں رکھتی۔
دادی جان : دیکھو بچو! روزہ توبالغ مسلمان پرفرض ہے چھوٹے بچوں پر نہیں۔ کیونکہ انہیں جسمانی نشوونما کے لئے طاقت کی ضرورت ہوتی ہے۔اب اگر وہ کئی گھنٹے تک بھوکے پیاسے رہیں تو طاقت کیسے ملے گی ؟ اگر ایک دو روز تک برداشت بھی کرلیں تومسلسل روزوں سےصحت خراب ہوسکتی ہے۔یاد ہے کہ بچوں کے الفضل میں پڑھا تھا کہ حضرت مصلح موعودؓ نے پہلا روزہ کس عمر میں رکھا تھا؟ دادی جان نے مسکراتےہوئےپوچھا۔
گڑیا : جی۔ بارہ یاتیرہ سال کی عمر میں اور پہلے سال صرف ایک روزہ رکھا تھا۔دادی جان مجھے سمجھ آ گئی۔ لیکن میرا ایک اور سوا ل ہے کہ آنحضرت ﷺ کا روزہ کیسا ہوتا تھا؟
دادی جان: رسول اللہ ﷺ علی الصبح تہجد کی نماز ادا کرتے اور پھر سحری کرتے۔ سحرو افطار میں کھجور اور پانی تناول فرماتے تھے۔رمضان میں نوافل پڑھتے اور تلاوتِ قرآن کریم کرتے اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں خوب خرچ فرماتے۔ رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف بھی فرماتے۔ رسول اللہﷺ نے رمضان میں جنگیں بھی لڑیں۔
دادی جان نے سانس لیا اور بولیں: سب سےپہلی جنگ غزوۂ بدر رمضان میں ہوئی اور مکہ بھی رمضان میں ہی فتح ہوا۔ اسی طرح احد کی جنگ بھی رمضان کے فوری بعد ہوئی۔ آپ کو ایک دلچسپ بات بتاؤں کہ رمضان کے مہینہ میں خندق بھی کھودی گئی تھی۔ اس وقت مسلمانوں کے حالات بہت تنگ تھے۔ روزے میں جب محنت والا کام کریں تو بھوک بھی زیادہ لگتی ہے۔ وہ بھوک کی شدت سے بچنے کے لیے پیٹ پر پتھر باندھ کر کھدائی کرتے رہے اور رسول اللہﷺ نے بھی دو پتھر باندھے ہوئے تھے۔ ایک دن حضرت جابرؓ کے گھر پر تھوڑا سا آٹا اور گوشت تھا۔ انہوں نے رسول اللہﷺ کوخاموشی سے کھانے کی دعوت دی۔ رسول اللہﷺ نے کھانے کی مقدار پوچھی تو انہوں نے بتایا کہ دو لوگوں کے لیے کافی ہوگا۔ رسول اللہﷺ نے سب صحابہ کو فرمایا: آج تو جابرؓ کی طرف سے دعوت ہے۔ سب مہاجرین اور انصار چلیں۔ اور حضرت جابر ؓ کو پہلے بھجوا دیا کہ اپنی بیوی سے کہو کہ میرے آنے تک ہنڈیا چولہے سے نہ اتارے۔ تب رسول اللہﷺ نے وہاں پہنچ کر دعا کی اور خود سب کو اپنے ہاتھ سے کھانا تقسیم فرمایا۔ اس شام سب اصحاب نے کھانا سیر ہو کر کھا لیا اور کافی بچ بھی گیا۔ تو گڑیا بیٹا !آپ کو اپنے سوالوں کے جواب مل گئے ہوں گے؟ دادی جان نے گڑیا کی جانب دیکھتے ہوئے کہا۔
جی دادی جان! اب مجھے اچھی طرح سمجھ آگئی ہے کہ میں ابھی بہت چھوٹی ہوں اور کچھ سال انتظار کرنا پڑے گا۔گڑیا نے اداس ہوتےہوئے کہا۔
دادی جان : کوئی بات نہیں گڑیا بیٹا آپ تھوڑی بڑی ہوجائیں تو ایک آدھ روزہ رکھ لیا کرنا۔ ابھی ہم رمضان کی باقی باتیں پوری کرتے ہیں۔ سحری، تلاوت، نفل، تراویح، تہجد، نمازیں…
اورافطاری! دادی جان کی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی احمد زور سے بولا۔احمد کی بات سن کر ان کا قہقہہ نکل گیا۔
گڑیا بولی: دادی جان! جزاک اللہ آپ نے بہت اچھی طرح سے ہمیں سمجھا دیا ہے کہ ہم نے اپنا رمضان کیسے گزارنا ہے۔ اب میں اپنی سہیلیوں کو بھی سمجھاؤں گی۔اور دونوں بچے نماز عصر کے لیے وضو کرنے چلے گئے۔
(درثمین احمد: جرمنی)