بنیادی مسائل کے جوابات

بنیادی مسائل کے جوابات (قسط۵۲)

(ظہیر احمد خان۔ مربی سلسلہ، انچارج شعبہ ریکارڈ دفتر پی ایس لندن)

(امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے پوچھےجانے والے بنیادی مسائل پر مبنی سوالات کے بصیرت افروز جوابات)

٭…کیا پولوس نےحضرت عیسیٰؑ کی وفات کے بعد تثلیث کا آغاز کیا؟

٭…کیا نظروں سے اوجھل ہر چیز جنّ ہوتی ہے اور کیا ابلیس اور فرشتے بھی جنّ ہو سکتے ہیں؟

٭…کیا احمدی عفریت کے وجود پر یقین رکھتے ہیں؟

٭… مسیح و مہدی نے آخری زمانہ میں آنا تھا تو کیا یہ آخری زمانہ ہے؟

٭… کیا ہم اللہ تعالیٰ کی یا حضرت محمد ﷺ کی یا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی قسم کھا سکتے ہیں؟

سوال: کیرالہ انڈیا سے ایک مربی صاحب نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں تحریر کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ ’’حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کی وفات کے بعد پولوس نے تثلیث کا آغاز کیا۔‘‘جبکہ احمدیوں کے مطابق حضرت مسیح علیہ السلام نے ایک سو بیس سال کی عمر پائی۔ اور پولوس اس سے پہلے فوت ہو گیا تھا۔ اس بارے میں راہنمائی کی درخواست ہے۔ حضو انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ ۳۱؍جنوری ۲۰۲۲ء میں اس سوال کے بارے میں درج ذیل ہدایات فرمائیں۔ حضور انور نے فرمایا:

جواب: آپ نے اپنے خط میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جس ارشاد کا ذکر کیا ہے یہ حضور علیہ السلام کی تصنیف چشمہ مسیحی کی عبارت ہے۔ یہ کتاب حضور علیہ السلام نے بریلی کے ایک مسلمان کے خط کے جواب میں تحریر فرمائی تھی۔ جس خط میں ایک عیسائی کی کتاب ینابیع الاسلام کے حوالہ سے اسلام پر ہونے والے بعض اعتراضات کا ذکر تھا۔ حضور علیہ السلام نے اپنی اس تصنیف میں عیسائیوں کے اپنے عقائد نیز یورپ اور امریکہ کے عیسائی محققین کی طرف سے عیسائیت کے بارے میں ہونے والی تحقیقات کی بنا پر اس خط میں اٹھائے گئے اسلام مخالف اعتراضات کا الزامی جواب دیتے ہوئے عیسائیت کی بگڑی ہوئی تعلیم کی حقیقت بیان فرمائی ہے۔ اسی ضمن میں حضور علیہ السلام نے عیسائی عقیدہ کے مطابق یہ بھی بیان فرمایا کہ’’پولوس حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زندگی میں آپ کا جانی دشمن تھا اور پھر آپ کی وفات کے بعد جیسا کہ یہودیوں کی تاریخ میں لکھا ہےاس کے عیسائی ہونے کا موجب اس کے اپنے بعض نفسانی اغراض تھے جو یہودیوں سے وہ پورے نہ ہو سکے۔ اس لئے وہ ان کو خرابی پہنچانے کے لئے عیسائی ہو گیا اور ظاہر کیا کہ مجھے کشف کے طور پر حضرت مسیحؑ ملے ہیں اور میں ان پر ایمان لایا ہوں اور اس نے پہلے پہل تثلیث کا خراب پودہ دمشق میں لگایا۔ اور یہ پولوسی تثلیث دمشق سے ہی شروع ہوئی۔‘‘ (چشمہ مسیحی، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 377،376)پس حضور علیہ السلام کے ان الفاظ کہ’’ جیسا کہ یہودیوں کی تاریخ میں لکھا ہے‘‘سے ثابت ہوتا ہے کہ یہاں پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات سے مراد عیسائی عقیدہ کے مطابق آپ کی وفات مراد ہے جس وقت آپ کو صلیب پر لٹکایا گیا۔ لیکن ہمارے عقیدہ کے مطابق اللہ تعالیٰ نے اپنے اس برگزیدہ نبی کو بائبل میں بیان لعنتی موت سے بچانے کے لیے صلیب سے نجات بخشی۔ جس کے بعد آپ اپنے باقی دس قبائل کی تلاش میں کشمیر کی طرف ہجرت فرما گئے۔ جہاں یوز آسف نبی کے نام سے آپ نے اپنے لوگوں کی تربیت کر کے ایک سو بیس سال کی عمر میں وفات پائی اور وہیں پر محلہ خان یار کشمیر ہندوستان میں دفن ہوئے جہاں آج بھی آپ کی قبر موجود ہے۔جہاں تک پولوس کا معاملہ ہے تو پولوس کے معاملہ کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی ایک اور تصنیف کشتی نوح میں تحریر فرماتے ہیں:’’جس وقت حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر کفر کا فتویٰ لکھا گیا اُس وقت وہ پولوس بھی مکفرین کی جماعت میں داخل تھا جس نے بعد میں اپنے تئیں رسول مسیح کے لفظ سے مشہور کیا یہ شخص حضرت مسیح کی زندگی میں آپ کا سخت دشمن تھا جس قدر حضرت مسیح کے نام پر انجیلیں لکھی گئیں ہیں ان میں سے ایک میں بھی یہ پیشگوئی نہیں ہے کہ میرے بعد پولوس توبہ کر کے رسول بن جائے گا اس شخص کے گزشتہ چال چلن کی نسبت لکھنا ہمیں کچھ ضرورت نہیں کہ عیسائی خوب جانتے ہیں افسوس ہے کہ یہ وہی شخص ہے جس نے حضرت مسیح کو جب تک وہ اس ملک میں رہے بہت دکھ دیا تھا اور جب وہ صلیب سے نجات پا کر کشمیر کی طرف چلے آئے تو اس نے ایک جھوٹی خواب کے ذریعہ سے حواریوں میں اپنے تئیں داخل کیا اور تثلیث کا مسئلہ گھڑا اور عیسائیوں پر سؤر کو جو توریت کے رو سے ابدی حرام تھا حلال کر دیا اور شراب کو بہت وسعت دے دی اور انجیلی عقیدہ میں تثلیث کو داخل کیا تا ان تمام بدعتوں سے یونانی بُت پرست خوش ہو جائیں۔ ‘‘(کشتی نوح، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحہ۶۵ حاشیہ)

پس چشمہ مسیحی میں بیان حضرت عیسیؑ کی وفات سے مراد عیسائی عقیدہ کے مطابق آپ کی وفات مراد ہے جس وقت آپ کو صلیب پر لٹکایا گیا تھا۔ نہ کہ ہمارے عقیدہ کے مطابق آپ کی وفات مراد ہے۔

سوال: اردن سے ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں یہ استفسار بھجوائے کہ کیا نظروں سے اوجھل ہر چیز جنّ ہوتی ہے اور کیا ابلیس اور فرشتے بھی جنّ ہو سکتے ہیں؟ کیا احمدی عفریت کے وجود پر یقین رکھتے ہیں؟ ہم نے پڑھا ہے کہ آنے والے مہدی آخری زمانہ میں ظاہر ہوں گے، کیا ہم واقعی آخری زمانہ میں رہ رہے ہیں؟ کیا ہم اللہ تعالیٰ کی یا حضرت محمد ﷺ کی یا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی قسم کھا سکتے ہیں؟حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مورخہ ۱۰؍فروری ۲۰۲۲ء میں ان سوالات کے درج ذیل جوابات عطا فرمائے۔ حضور انور نے فرمایا:

جواب: اکتوبر ۲۰۲۱ء میں مَیں نے آپ کے خط کے جواب میں جنّوں کے بارے میں جو جواب بھجوایا تھا، اس میں آپ کے ان پہلے دونوں سوالوں کا جواب بھی موجود ہے، وہاں سے پڑھ لیں۔ (حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کا یہ جواب اسی’’ بنیادی مسائل کے جوابات‘‘کی قسط نمبر ۴۶ کے تحت الفضل اور الحکم میں شائع ہو چکا ہے۔ ناقل)

باقی عفریت کے بارے میں جماعت احمدیہ کا وہی عقیدہ ہے جو قرآن و حدیث نے ہمیں بتایا ہے۔ چنانچہ سورۃ النمل میں حضرت سلیمان علیہ السلام کے واقعہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ قَالَ عِفۡرِیۡتٌ مِّنَ الۡجِنِّ اَنَا اٰتِیۡکَ بِہٖ قَبۡلَ اَنۡ تَقُوۡمَ مِنۡ مَّقَامِکَ ۚ وَ اِنِّیۡ عَلَیۡہِ لَقَوِیٌّ اَمِیۡنٌ۔(سورۃ النمل:۴۰) یعنی(پہاڑی قوموں میں سے) ایک سرکش سردارنے کہا۔ آپ کے (اس) مقام سے جانے سے پہلے میں وہ (عرش) لے آؤں گا اور میں اس بات پر بڑی قدرت رکھنے والا (اور) امانت دار ہوں۔

جنّ کا لفظ جیسا کہ میں نے اپنے پہلے خط میں وضاحت کی تھی کہ بہت سے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ اس انسان کو بھی جنّ کہہ دیا جاتا ہے جس میں ناری صفات اور بغاوت کی روح پائی جاتی ہو۔ جو آتشیں مزاج رکھتا ہو، جسے جلدی غصہ آتا ہو۔پس لڑاکے،فسادی، بغاوت کرنے والے اورسرکش قسم کے لوگوں کو بھی جن ّکہا جاتا ہے۔ حضرت داؤد اور حضرت سلیمان علیہما السلام نے جن اقوام پر فتح پائی تھی ان میں سے بعض نہایت محنتی اور جفاکش اقوام تھیں لیکن اس کے ساتھ ان میں اسی قسم کی ناری صفات اوربغاوت و سرکشی کا مادہ بھی پایا جاتا تھا۔ اور حضرت داؤد اور حضرت سلیمان علیہما السلام نے اپنی خداداد حکمت اور دانائی کے ساتھ ان اقوام کو اپنا مطیع و فرمانبردار بنا لیا تھا۔

اسی طرح حضرت سلیمان علیہ السلام کی مملکت کے مختلف کاموں کو سر انجام دینے کے لیے اللہ تعالیٰ نے کئی اقوام کو آپ کے تابع فرمان کر دیا تھاجن کے لیے قرآن کریم نے مختلف الفاظ استعمال کیے ہیں۔ چنانچہ سورت سبا کی آیت ۱۳ تا ۱۵ میں ایسے لوگوں کے لیے جنّ کا لفظ آیا ہے۔ جبکہ سورت ص آیات ۳۹،۳۸ اور سورۃ الانبیاء آیت۸۳ میں ان کے لیے شیاطین کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ اور اصل میں ان سے مراد وہ شریر اور مفسد اقوام تھیں جنہیں حضرت سلیمان علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کی بدولت مغلوب کر کے اپنی سلطنت کے مختلف کاموں کو سرانجام دینے کے لیے مامور کر دیا تھا۔ عفریت بھی اسی قسم کی ایک قوم کے سرداروں میں سے تھا، جسے حضرت سلیمان علیہ السلام کی حکومت میں بھی اعلیٰ رتبہ حاصل تھا۔

حدیث میں بھی عفریت کا لفظ آیا ہے۔چنانچہ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ گذشتہ رات جنّوں میں سے ایک عفریت(یعنی گھناؤنی شکل کا جنگلی وحشی آدمی) مجھ پر ٹوٹ پڑا تاکہ میری نماز کو توڑ دے۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے اس پر قابو دےدیا اور میں نے اسے پکڑ لیا اور میں نے ارادہ کیا کہ میں اسے مسجد کے ستونوں میں سے ایک ستون سے باندھ دوں تا کہ تم سب اسے دیکھو۔ پھر مجھے میرے بھائی سلیمان کا قول یاد آیا کہ اے میرے رب مجھے بخش دے اور مجھے ایسی بادشاہت عطا کر جو میرے بعد کسی کو بھی میسر نہ ہو۔ پس میں نے اسے دھتکار کر بھگا دیا۔امام بخاری کہتے ہیں کہ عفریت کے معنی سرکش کے ہیں خواہ انسان ہو یا جنّ۔(صحیح بخاری کتاب احادیث الانبیاء بَاب قَوْلِ اللّٰهِ تَعَالَى وَوَهَبْنَا لِدَاوٗدَ سُلَيْمَانَ…)

یہ واقعہ بخاری میں بعض اور جگہوں پر بھی بیان ہوا ہے۔ کتاب الصلاۃ کی روایت میں حضور ﷺ کی نماز میں خلل پیدا کرنے والے اس شخص کے لیے عفریت ہی کا لفظ آیا لیکن کتاب الجمعہ بَاب مَا يَجُوزُ مِنْ الْعَمَلِ فِي الصَّلَاةِ میں بیان روایت میں حضورﷺ نے اس کے لیے شیطان کا لفظ استعمال فرمایا ہے۔

یہ واقعہ ایک کشفی نظارہ بھی ہو سکتا ہے جس کا تعلق مستقبل میں پیش آنے والے واقعات سے تھا کہ ناری صفات،باغیانہ سوچ کے شریر اور مفسد شیطان خصلت انسان حضورﷺ کو آپ کے فرض منصبی سے روکنے کے لیے جنگ کی صورت میں عداوت کی آگ بھڑکانے کی کوشش کریں گے اورسرکش اور اجڈ قبائل کو آپ کے خلاف اکسائیں گے۔ لیکن اللہ تعالیٰ ان شریروں کو آپ کے قابو میں دیدے گا اور وہ اپنے اس حملہ سے ذلیل و خوار ہو کر نامراد لوٹیں گے۔ چنانچہ تاریخ سے ثابت ہے کہ پھر ایسا ہی ہوا اور اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کی زندگی میں ہی آپ کو فتح و نصرت سے سرفراز فرماتے ہوئے ان عفریت خصلت دشمنوں پر آپ کو پورا پورا تسلط عطا فرمایا۔حضرت سلیمان علیہ السلام نے الٰہی مشیت کے تحت مغلوب اقوام کو غلام بنایا جو آخر دم تک حضرت سلیمان کی غلامی میں رہیں۔ لیکن حضور ﷺ کی ذات با برکات جو بنی نوع انسان کے لیے سراپا رحمت و شفقت تھی اور جیسا کہ اس واقعہ کے آخری حصہ سے بھی ظاہر ہوتا ہے، آپ نے غلاموں کے آزاد کرنے کی تعلیم دی اور پھر آپ اور آپ کے صحابہ نے لاکھوں غلاموں کو آزاد کیا۔

اگر اس واقعہ کو ظاہر پر محمول کیا جائے تو اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ایک گھناؤنی اور مکروہ شکل کے خبیث، جنگلی اور وحشی خصلت شخص یا جانور نے رات کے وقت حضور ﷺ پر حملہ کیا جبکہ آپ نماز ادا کر رہے تھے، جس سے آپ کی نماز میں خلل پیدا ہوا۔ چنانچہ آپ نے اس انسان یا جانور کو قابو کر لیا اور اسے مسجد کے ستون کے ساتھ باندھنے کا ارادہ کیا لیکن پھر آپ نے اپنی فطری اور جبلی رحمت و شفقت کے تحت اسے آزاد کر دیا۔

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ سورۃ النمل کی تفسیر میں لفظ عفریت کی لغوی بحث میں لکھتے ہیں۔ عفریت کے معنے ہیں کسی کام کو کر گزرنے والا۔ بُرا اور ناپسندیدہ (اقرب)۔پھر اس آیت کی تفسیر میں حضرت سلیمان علیہ السلام اور ملکہ سبا کا واقعہ بیان کرتے ہوئے عفریت کے بارے میں لکھتے ہیں:حضرت سلیمان علیہ السلام نے سوچاکہ ہدہد کے اس لائے ہوئے تحفہ سے توکچھ نہیں بنتا۔کوئی اور چیز منگواؤ۔ اور فرمایا۔ اے میرے سردارو پیشتراس کے کہ وہ لوگ میرے پاس فرمانبردار ہوکر آئیں ملکہ کاتخت کون میرے پاس لائے گا۔وہ لوگ جو خاص باڈی گارڈ تھے ان کا ایک سردار بولاکہ آپ کے چڑھائی کرنے سے پہلے میں وہ تخت لے آؤں گا۔چونکہ وہ سردارِ لشکر تھا۔اس کوپتہ تھا کہ اس لشکر کایہاں کتنے عر صہ تک پڑاؤ ہوگا۔اس لئے اس نے اندازہ کرلیا کہ اتنے دنوں میں ملکہ کومرعوب کرکے وہ تخت لایاجاسکتاہے اورساتھ ہی یہ دعویٰ کیا کہ میں ایک طاقتور سردار ہوں اوراس چھوٹے سے ملک کی فوج میرامقابلہ نہیں کرسکتی۔اورمیں آپ کا مطیع بھی ہوں۔اس مال کے لانے میں کسی قسم کی خیانت مجھ سے نہیں ہوگی۔(تفسیر کبیر جلد ہفتم صفحہ 394)

۳۔ ہمارے زمانہ کے آخری ہونے اور مسیح موعود اور مہدی معہود علیہ السلام کے اس زمانہ میں ظاہر ہونے کی جہاں تک بات ہے تو قرآن کریم، احادیث نبویہ ﷺ اور بزرگان امت کے اقوال سے ثابت ہوتا ہے کہ آنحضور ﷺ نے اپنی امت میں جس مسیح اور مہدی کی آمد کی خبر دی تھی اس نے تیرھویں صدی ہجری کے آخر یا چودھویں صدی ہجری کے آغاز میں ظاہر ہونا تھا۔چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:یُدَ بِّرُ الْاَمْرَ مِنَ السَّمَآءِ اِلَی الْاَرْضِ ثُمَّ یَعْرُجُ اِلَیْہِ فِی یَوْمٍ کَانَ مِقْدَارُہٗٓ اَلْفَ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَ (السجدہ: 6)یعنی اللہ تعالیٰ آسمان سے زمین پر اپنے حکم کو اپنی تدبیر کے مطابق قائم کرے گا۔ پھر وہ اس کی طرف ایک ایسے وقت میں جس کی مقدار ایسے ہزار سال کی ہے جس کے مطابق تم دنیا میں گنتی کرتے ہو چڑھنا شروع کرے گا۔

اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ ایک ہزار سال تک مسلمان دنیا میں کمزور ہوتے جائیں گے۔ اس کےبعدمحمدرسول اللہؐ کی پیشگوئیوں کے عین مطابق اسلام کی شوکت کو دوبارے دنیا میں قائم کرنے والا مامور آجائے گا۔ اور اسلام پھر مضبو طی سے قائم ہو جائے گا۔

آنحضورﷺ نے اسلام کی پہلی تین صدیوں کو خیرالقرون یعنی بہترین صدیاں قرار دیا ہے اور یہ ہزار سال جس میں دین کا آسمان کی طرف چڑھنا مقدر تھا وہ یقیناًان تین صدیوں کے بعد شروع ہونا تھا۔ پس تیرہ سو سال بعد دین اسلام کا از سر نو قیام مقدر تھا جو مہدی اور مسیح کے ظہور کے ذریعہ ہی ہو سکتا تھا۔ کیونکہ سورت جمعہ کی آیت وَآخَرِیْنَ مِنْھُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْابِھِمْ (آیت:4)یعنی اللہ تعالیٰ ان کے سوا ایک دوسری قوم میں بھی اسے بھیجے گا جو ابھی تک ان (صحابہ) سے نہیں ملی، میں اس مسیح و مہدی کے آنے کو اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کا آنا قرار دیا تھا۔ اور حضورﷺ نے اس آیت کے نزول کے وقت صحابہ کے دریافت کرنے پر حضرت سلمان فارسیؓ کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر فرمایا کہ جب ایمان ثریا ستارے پر اٹھ جائے گا تو اہل فارس میں سے ایک شخص یا بہت سے اشخاص ایمان کو دوبارہ دنیا میں قائم کریں گے۔ (بخاری کتاب التفسیر سورۃ الجمعہ)گویا رسول اللہﷺ نے اہل فارس کے اس مرد کے آنے کو اپنا آنا قرار دیا جس کے ذریعہ آخری زمانہ میں ایمان کا دنیا میں قیام اور اسلام کی دوبارہ شان مقدر تھی۔

ایک صاحب کشف بزرگ حضرت نعمت اللہ ولی صاحبؒ اپنے مشہور فارسی قصیدہ میں آخری زمانہ کے حالات بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ جب غین رے( یعنی 1200 سال) گزر جائیں گے اس وقت مجھے عجیب و غریب واقعات ظاہر ہوتے نظر آتے ہیں۔ مہدی وقت اور عیسیٰ دوراں ہر دو کو میں شاہسوار ہوتے دیکھتا ہوں۔ (الاربعین فی احوال المہدیین مرتبہ محمد اسماعیل شہید صفحہ2و 4،مطبوعہ 1268ہجری)

حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ المتوفیٰ 1176ہجری لکھتے ہیں۔ عَلَّمَنِیْ رَبّیِ جَلَّ جَلَالُہٗ اَنَّ القَیَامَةَ قَدِ اقْتَرَبَتْ وَالْمَھْدِیُّ تَھَیَّا لِلْخُرُوْجِ۔یعنی خدا تعالیٰ نے مجھے بتایا ہے کہ قیامت قریب آ چکی ہے اور مہدی کا ظہور ہوا چاہتا ہے۔(التفہیمات الالہٰیہ، جلد2 صفحہ 133 تفہیم نمبر 147، مطبوعہ1936ء مدینہ برقی پریس بجنور یو پی)

علاوہ ازیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی متعدد جگہوں پر اس مضمون کو بڑی وضاحت کے ساتھ مدلل طور پر بیان فرمایا ہے کہ یہی وہ آخری زمانہ ہے جس میں امت محمدیہ کی اصلاح کے لیے مسیح موعود اور مہدی معہود کی بعثت مقدر تھی۔چنانچہ حضور علیہ السلام فرماتے ہیں:ہمارا عقیدہ جو قرآن شریف نے ہمیں سکھلایا ہے یہ ہے کہ خدا ہمیشہ سے خالق ہے اگر چاہے تو کروڑوں مرتبہ زمین و آسمان کو فنا کر کے پھر ایسے ہی بنادے اور اُس نے ہمیں خبر دی ہے کہ وہ آدم جو پہلی اُمّتوں کے بعد آیا جو ہم سب کا باپ تھا اس کے دنیا میں آنے کے وقت سے یہ سلسلہ انسانی شروع ہوا ہے۔ اور اس سلسلہ کی عمر کا پورا دور سات ہزار برس تک ہے۔ یہ سات ہزار خدا کے نزدیک ایسے ہیں جیسے انسانوں کے سات دن۔ یاد رہے کہ قانون الٰہی نے مقرر کیا ہے کہ ہر ایک امت کے لئے سات ہزار برس کا دور ہوتا ہے۔ اسی دَور کی طرف اشارہ کرنے کے لئے انسانوں میں سات دن مقرر کیے گئے ہیں۔ غرض بنی آدم کی عمر کا دَور سات ہزار برس مقرر ہے۔ اور اِس میں سے ہمارے نبی ﷺ کے عہد میں پانچ ہزار برس کے قریب گزر چکا تھا۔ یا بہ تبدیل الفاظ یوں کہو کہ خدا کے دنوں میں سے پانچ دن کے قریب گزر چکے تھے جیسا کہ سورۃ والعصر میں یعنی اس کے حروف میں ابجد کے لحاظ سے قرآن شریف میں اشارہ فرما دیا ہے کہ آنحضرت ﷺ کے وقت میں جب وہ سورۃ نازل ہوئی تب آدم کے زمانہ پر اسی قدر مدت گزر چکی تھی جو سورہ موصوفہ کے عددوں سے ظاہر ہے۔ اِس حساب سے انسانی نوع کی عمر میں سے اب اس زمانہ میں چھ ہزار برس گزر چکے ہیں اور ایک ہزار برس باقی ہیں۔ قرآن شریف میں بلکہ اکثر پہلی کتابوں میں بھی یہ نوشتہ موجود ہے کہ وہ آخری مرسل جوآدم کی صورت پر آئے گا اور مسیح کے نام سے پکارا جائے گا ضرور ہے کہ وہ چھٹے ہزار کے آخر میں پیدا ہو جیسا کہ آدم چھٹے دن کےآخر میں پیدا ہوا۔ یہ تمام نشان ایسے ہیں کہ تدبّر کرنے والے کے لئے کافی ہیں۔ اور اِن سات ہزار برس کی قرآن شریف اور دوسری خدا کی کتابوں کے رو سے تقسیم یہ ہے کہ پہلا ہزار نیکی اور ہدایت کے پھیلنے کا زمانہ ہے اور دوسرا ہزار شیطان کے تسلّط کا زمانہ ہے اور پھر تیسرا ہزار نیکی اور ہدایت کے پھیلنے کا اور چوتھا ہزار شیطان کے تسلّط کا اور پھر پانچواں ہزار نیکی اور ہدایت کے پھیلنے کا(یہی وہ ہزار ہے جس میں ہمارے سیّد و مولیٰ ختمی پناہ حضرت محمد ﷺ دنیا کی اصلاح کے لئے مبعوث ہوئے اور شیطان قید کیا گیاہے) اور پھر چھٹا ہزار شیطان کے کھلنے اور مسلّط ہونے کا زمانہ ہے جو قرونِ ثلاثہ کے بعد شروع ہوتا اور چودھویں صدی کے سر پر ختم ہو جاتا ہے۔ اور پھر ساتواں ہزار خدا اور اس کے مسیح کا اور ہر ایک خیر وبرکت اور ایمان اور صلاح اور تقویٰ اور توحید اور خدا پرستی اور ہر ایک قسم کی نیکی اور ہدایت کا زمانہ ہے۔ اب ہم ساتویں ہزار کے سر پر ہیں۔ اِس کے بعد کسی دوسرے مسیح کو قدم رکھنے کی جگہ نہیں کیونکہ زمانے سات ہی ہیں جو نیکی اور بدی میں تقسیم کیے گئے ہیں۔ اس تقسیم کو تمام انبیاء نے بیان کیا ہے۔ کسی نے اجمال کے طور پر اور کسی نے مفصّل طور پر اور یہ تفصیل قرآن شریف میں موجود ہے جس سے مسیح موعود کی نسبت قرآن شریف میں سے صاف طور پر پیشگوئی نکلتی ہے۔ اور یہ عجیب بات ہے کہ تمام انبیاء اپنی کتابوں میں مسیح کے زمانہ کی کسی نہ کسی پیرایہ میں خبر دیتے ہیں اور نیز دجّالی فتنہ کو بھی بیان کرتے ہیں۔ اور دنیا میں کوئی پیشگوئی اس قوت اور تواتر کی نہیں ہوگی جیسا کہ تمام نبیوں نے آخری مسیح کے بارے میں کی ہے۔(لیکچر لاہور، روحانی خزائن جلد20 صفحہ 184 تا 186)ایک اور جگہ آپؑ فرماتے ہیں:تمام نبیوں کی کتابوں سے اور ایسا ہی قرآن شریف سے بھی یہ معلوم ہوتا ہے کہ خدا نے آدم سے لے کر اخیر تک دنیا کی عمر سات ہزار برس رکھی ہے اور ہدایت اور گمراہی کے لئے ہزار ہزار سال کے دَور مقرر کیے ہیں۔ یعنی ایک وہ دَور ہے جس میں ہدایت کا غلبہ ہوتا ہے اور دوسرا وہ دَور ہے جس میں ضلالت اور گمراہی کا غلبہ ہوتا ہے اور جیسا کہ میں نے بیان کیا خدا تعالیٰ کی کتابوں میں یہ دونوں دَور ہزار ہزار برس پر تقسیم کیے گئے ہیں…… پھر ہزار پنجم کا دَور آیا جو ہدایت کا دَور تھا۔ یہ وہ ہزار ہے جس میں ہمارے نبیﷺ مبعوث ہوئے اور خدا تعالیٰ نے آنحضرتﷺ کے ہاتھ پر توحید کو دوبارہ دنیا میں قائم کیا۔ پس آپؐ کے منجانب اللہ ہونے پر یہی ایک نہایت زبردست دلیل ہے کہ آپؐ کا ظہور اُس سال کے اندر ہوا جو روزِ ازل سے ہدایت کے لئے مقرر تھا اور یہ میں اپنی طرف سے نہیں کہتا بلکہ خدا تعالیٰ کی تمام کتابوں سے یہی نکلتا ہے اور اِسی دلیل سے میرا دعویٰ مسیح موعود ہونے کا بھی ثابت ہوتا ہے۔ کیونکہ اس تقسیم کی رُو سے ہزار ششم ضلالت کا ہزار ہے اور وہ ہزار ہجرت کی تیسری صدی کے بعد شروع ہوتا ہے اور چودہویں صدی کے سر تک ختم ہوتا ہے۔ اس ششم ہزار کے لوگوں کا نام آنحضرت ﷺ نے فیج اعوج رکھا ہے اور ساتواں ہزار ہدایت کا ہے جس میں ہم موجود ہیں۔ چونکہ یہ آخری ہزار ہے اس لئے ضرور تھا کہ امام آخر الزمان اس کے سرپر پیدا ہو اور اس کے بعد کوئی امام نہیں اور نہ کوئی مسیح۔ مگر وہ جو اس کے لئے بطور ِظل کے ہو۔ کیونکہ اس ہزار میں اب دنیا کی عمر کا خاتمہ ہے جس پر تمام نبیوں نے شہادت دی ہے اور یہ امام جو خدا تعالیٰ کی طرف سے مسیح موعود کہلاتا ہے وہ مجدّد صدی بھی ہے اور مجدّد الف آخر بھی۔ اِس بات میں نصاریٰ اور یہود کو بھی اختلاف نہیں کہ آدم سے یہ زمانہ ساتواں ہزار ہے۔ اور خدا نے جو سورہ والعصر کے اعداد سے تاریخ آدم میرے پر ظاہر کی اس سے بھی یہ زمانہ جس میں ہم ہیں ساتواں ہزار ہی ثابت ہوتا ہے۔ اور نبیوں کا اِس پر اتفاق تھا کہ مسیح موعود ساتویں ہزار کے سر پر ظاہر ہوگا اور چھٹے ہزار کے اخیر میں پیدا ہوگا کیونکہ وہ سب سے آخر ہے جیسا کہ آدم سب سے اوّل تھا۔(لیکچر سیالکوٹ، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ207تا 208)

پس یہی وہ آخری زمانہ ہے جس میں خدا تعالیٰ نےآنحضورﷺ کی پیشگوئیوں کے عین مطابق آپ کے روحانی فرزند اور غلام صادق حضرت مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام کو خاتم الخلفاء کے طور پر دین اسلام کی تجدید کے لیے مبعوث فرمایاہے۔

۴۔ باقی جہاں تک قسم کھانے کا معاملہ ہے تو ایک تو بلاوجہ قسمیں نہیں کھانی چاہئیں۔ اور اگر ضرورت ہو اور قسم کھانے والا حق پر ہو تو وہ صرف خدا تعالیٰ کی قسم کھا سکتاہے۔ کسی انسان کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ کسی دوسرے انسان کی قسم کھائے۔ حضرت ابوہریرہؓ کی روایت ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا لَا تَحْلِفُوا بِآبَائِكُمْ وَلَا بِأُمَّهَاتِكُمْ وَلَا بِالْأَنْدَادِ وَلَا تَحْلِفُوا إِلَّا بِاللّٰهِ وَلَا تَحْلِفُوا بِاللّٰهِ إِلَّا وَأَنْتُمْ صَادِقُونَ۔(سنن ابی داؤد کتاب الایمان والنذور)یعنی اپنے باپوں اوراپنی ماؤں اور بتوں کی قسم مت کھاؤ۔ بلکہ اللہ کے سوا کسی کی بھی قسم مت کھاؤ اور اللہ کی قسم بھی صرف اس صورت میں کھاؤ جب تم سچے ہو۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button