حضرت مصلح موعود ؓ

رمضان سے سبق سیکھو

(خطبہ جمعہ سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی المصلح الموعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمودہ ۱۳؍جولائی ۱۹۱۷ء)

رمضان ایک سبق ہے کہ تا وہ سمجھیں کہ جن کو بھوک ہوتی ہے اور جو پیاسے ہوتے ہیں ان کی کیا حالت ہوتی ہے اِس لئے وہ ان کی بھوک اور پیاس کے دور کرنے کی کوشش کریں

۱۹۱۷ء کےاس خطبہ جمعہ میں حضرت مصلح موعودؓنے جماعت کو رمضان میں صدقہ و خیرات کرنے کی طرف توجہ دلائی نیز اس بات پر بھی روشنی ڈالی کہ ہمارا بھوکا پیاسا رہنے میں کیا حکمت ہے۔ قارئین کے استفادے کےلیے یہ خطبہ شائع کیا جارہا ہے۔(ادارہ)

حضورنےتشهد وتعوذ کے بعد مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت فرمائی:اِنَّ الۡاَبۡرَارَ یَشۡرَبُوۡنَ مِنۡ کَاۡسٍ کَانَ مِزَاجُہَا کَافُوۡرًا۔ عَیۡنًا یَّشۡرَبُ بِہَا عِبَادُ اللّٰہِ یُفَجِّرُوۡنَہَا تَفۡجِیۡرًا۔ یُوۡفُوۡنَ بِالنَّذۡرِ وَیَخَافُوۡنَ یَوۡمًا کَانَ شَرُّہٗ مُسۡتَطِیۡرًا۔ وَیُطۡعِمُوۡنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّہٖ مِسۡکِیۡنًا وَّیَتِیۡمًا وَّاَسِیۡرًا۔ اِنَّمَا نُطۡعِمُکُمۡ لِوَجۡہِ اللّٰہِ لَا نُرِیۡدُ مِنۡکُمۡ جَزَآءً وَّلَا شُکُوۡرًا۔ اِنَّا نَخَافُ مِنۡ رَّبِّنَا یَوۡمًا عَبُوۡسًا قَمۡطَرِیۡرًا۔ فَوَقٰہُمُ اللّٰہُ شَرَّ ذٰلِکَ الۡیَوۡمِ وَلَقّٰہُمۡ نَضۡرَۃً وَّسُرُوۡرًا۔ وَجَزٰٮہُمۡ بِمَا صَبَرُوۡا جَنَّۃً وَّحَرِیۡرًا۔ مُّتَّکِـِٕیۡنَ فِیۡہَا عَلَی الۡاَرَآئِکِ ۚ لَا یَرَوۡنَ فِیۡہَا شَمۡسًا وَّلَا زَمۡہَرِیۡرًا۔ وَدَانِیَۃً عَلَیۡہِمۡ ظِلٰلُہَا وَذُلِّلَتۡ قُطُوۡفُہَا تَذۡلِیۡلًاّ(الدہر:۶تا۱۵)

اور فرمایا:رمضان کو دوسرے مہینوں پر اللہ تعالیٰ نے فضیلت دی ہے حتٰی کہ رمضان کا ہی مہینہ تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جبرائیل علیہ السلام قرآن کے دَور کو آیا کرتے تھے۔ (بخاری کتاب الصوم باب اجود ماکان النبیﷺ یکون فی رمضان )

رمضان کے مہینہ میں بہت سی برکات اللہ تعالیٰ نے رکھی ہیں اور اِس میں بہت سے سبق دیئے ہیں۔

اِن اسباق میں ایک تو یہی ہے جس کی طرف آج میں آپ لوگوں کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں۔

اس میں شک نہیں کہ انسان دوسرے کی تکلیف اُسی وقت سمجھ سکتا ہے جب وہ خود مبتلا ہو۔ ایک آدمی جو کبھی بیمار نہ ہوا ہو اُس کو دوسرے کی بیماری سمجھنا بہت مشکل ہے۔ ایک آدمی جس نے کوئی موت نہ دیکھی ہو اُس کو اُس گھرانے کی مصیبت کو سمجھنا بہت مشکل ہے جس پر موت آگئی ہو۔ وہ شخص جس نے غم نہ دیکھا ہو اُس کے لئے دوسروں کے غم کا اندازہ کرنا آسان نہیں۔ بیماری کی تکلیف کو وہی شخص سمجھ سکتا ہے جس نے بیماری اُٹھائی ہو۔ غم کو وہی جان سکتا ہے جو غم میں مبتلا ہوا ہو۔ دوسرے کی موت سے وہی تکلیف محسوس کر سکتا ہے جس کے عزیزوں میں کبھی موت اس کے سامنے آئی ہو۔

اِسی طرح جس نے کبھی نہ دیکھا ہو کہ بھوک کیا ہے وہ نہیں سمجھ سکتا کہ بھوکے انسان کی کیا حالت ہوتی ہے۔

اللہ تعالیٰ کی یہ سنت ہے کہ چونکہ وہ اپنے بندوں کے دلوں میں احساس پیدا کرنا چاہتا ہے کہ اس کی مخلوق کن ابتلاؤں سے گزر رہی ہے اس لئے اللہ تعالیٰ اپنی پیاری جماعتوں کو آزماتا ہے۔ چنانچہ پہلے ہی پارہ میں آزمائشیں بیان فرماتا ہے کہ مالی آزمائشیں بھی آتی ہیں،جانی بھی، بھوک بھی اپنا کام کرتی ہے اور اور قسم کی آزمائشیں بھی آتی ہیں۔ لوگ پوچھا کرتے ہیں کہ آزمائش کی غرض کیا ہوتی ہے؟ وہ سمجھ لیں کہ آزمائشوں کی غرض یہ ہوتی ہے کہ ان لوگوں میں ہمدردی پیدا ہو۔ اللہ کے بندے بھوک سے گزارے جاتے ہیں۔ موت اور قلت مال سے گزارے جاتے ہیں، بیماریوں کے دروازوں سے گزارے جاتے ہیں۔ خدا کے بندے اِن تنگ دروازوں سے اِس لئے نہیں گزارے جاتے کہ وہ ہلاک کئے جائیں بلکہ اس لئے کہ

مخلوقِ خدا کی حالت سے اُنہیں ہمدردی پیدا ہو

یہی بات ہے جس کے نہ سمجھنے کے سبب سے مسیح کو کفّارہ بنایا گیا۔ گناہ کے دور کرنے کا اَور ذریعہ تھا۔ مسیح کو مصلوب کرنا اس کا ذریعہ نہیں تھا۔ یہ سچ ہے کہ خدا اپنے نبیوں کو تکالیف میں ڈالتا ہے تا ان کو معلوم ہو جائے کہ مخلوقِ خدا کن مشکلات میں سے گزر رہی ہے۔ کوئی دکھ نہ ہو جس کے ازالہ کے لئے ان میں جوش پیدا نہ ہو۔ پس یہ ٹھیک ہے کہ مسیح صلیب دیئے گئے۔ کفّارہ کے لئے نہیں بلکہ اس لئے تا ان کو معلوم ہو کہ دنیا کس طرح گندی زندگی میں سے گزر رہی ہے اور وہ اس کا علاج کریں۔

رمضان بھی ابتلاؤں میں سے ایک ابتلاء ہے۔ بڑے بڑے امیر آدمی جن کے پاس ہزاروں ہی نعمتیں ہوتی ہیں جب رمضان کا مہینہ آتا ہے باوجود تمام قسم کی نعمتیں اور عمدہ سے عمدہ کھانے اور اعلیٰ درجہ کے مسالے بھی ہوتے ہیں، بھوک بھی سخت ہوتی ہے۔ مگر خدا کے حکم کے ماتحت سب کچھ چھوڑ دیتے ہیں۔ پھر ان کو معلوم ہوتا ہے کہ خدا کی مخلوق کی کیا حالت ہے۔

رمضان ایک سبق ہے کہ تا وہ سمجھیں کہ جن کو بھوک ہوتی ہے اور جو پیاسے ہوتے ہیں ان کی کیا حالت ہوتی ہے ۔اِس لئے وہ ان کی بھوک اور پیاس کے دور کرنے کی کوشش کریں۔ ان کے دلوں میں ہمدردی کا جوش پیدا ہو

نبی ٔکریم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے مہینہ میں بہت خیرات کرتے تھے حتی کہ حدیث میں آتا ہے کہ آپؐ رمضان میں صدقہ اس کثرت سے کرتے تھے جیسا کہ تیز ہوا چلتی ہے۔(بخاری کتاب الصوم باب اجود ماکان النبیﷺ یکون فی رمضان )آپؐ دوسرے ایام میں بھی صدقہ کرتے تھے ۔مگر رمضان کے مہینہ میں بالخصوص حضورؐ بہت صدقہ و خیرات سے کام لیتے تھے۔

یہ آیات جو میں نے پڑھی ہیں ان میں بھی اللہ تعالیٰ نے مومن کا ایک کام یہ بھی بتایا ہے وَیُطۡعِمُوۡنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّہٖ مِسۡکِیۡنًا وَّیَتِیۡمًا وَّاَسِیۡرًا۔ وہ اللہ کی محبت کے سبب سے نہ ریاء کے طور پر کھانا کھلاتے ہیں مسکینوں، یتیموں اور اسیروں کو۔ چنانچہ وہ کہتے ہیں اِنَّمَا نُطۡعِمُکُمۡ لِوَجۡہِ اللّٰہِ لَا نُرِیۡدُ مِنۡکُمۡ جَزَآءً وَّلَا شُکُوۡرًا۔ کہ ہم جو تمہیں کھانا کھلاتے ہیں یہ محض اللہ کی خاطر ہے، ہم تم سے اس کا کوئی بدلہ نہیں چاہتے نہ یہ چاہتے ہیں کہ آپ لوگ شکریہ کے طور پر جَزَاکَ اللّٰہُ ہی کہیں۔ مگر یہ کھانا کھانے والوں کا فعل ہے کہ جب اُن پر کوئی احسان ہو تو اِس احسان کا شکریہ ادا کریں۔ پس وہ مومن کہتے ہیں کہ ہم تو صرف اِس لئے

آپ لوگوں کی کچھ خدمت کرتے ہیں کہ صرف اللہ راضی ہو جائے

اِن سبقوں میں سے ایک سبق خیرات بھی ہے مگر اس کا اب طریق بدل گیا ہے۔ انجمنوں میں دیتے ہیں کہ نام و نمود ہو۔ مگر جو طریق قرآن کریم نے بتایا ہے اس کی طرف سے توجہ ہٹ گئی ہے۔ فقراء بھی بڑھ گئے ہیں۔ چیزیں بھی مہنگی ہوگئی ہیں۔ چاہیے تو یہ تھا کہ توجہ زیادہ اِدھر ہوتی مگر اِس کی طرف سے توجہ ہٹ گئی ہے۔ لوگ اُدھر دیتے ہیں جہاں نام و نمود ہو۔

لیکن ابرار میں شامل ہونے کے لئے ضروری ہے کہ ایسے لوگوں کو کھانا کھلایا جائے کیونکہ ان کی صفات میں ایک صفت کھانا کھلانا بھی ہے۔ جو کہ یہ کہتے ہیں کہ ہم کسی بدلہ کے لئے تمہیں کھانا نہیں کھلاتے بلکہ محض اللہ کے لئے کھانا کھلاتے ہیں۔ کیونکہ ایک دن آنے والا ہے انا نخاف مِن ربنا یوماًعبوساً قمطر یراً۔ کہ جب ہمارے پاس کچھ نہیں ہوگا ۔پس ہم جو تمہیں دیتے ہیں تم سے کچھ لینے کے لئے نہیں دیتے بلکہ اس لئے دیتے ہیں کہ وہ دن جس دن ہمارے پاس کچھ نہیں ہوگا ہم اللہ تعالیٰ سے لیں گے۔

پس یہ دن مبارک ہیں۔ میں جماعت کو بتانا چاہتا ہوں کہ اب بھوک کے سبق کو ہر ایک شخص جانتا ہے۔ قادیان میں بہت سے لوگ ہیں اور میں اُن کو جانتا ہوں۔ کئی کئی فاقے اُن پر گزر جاتے ہیں اور ایسے لوگ ہر جگہ موجود ہیں ان کے پاس کچھ نہیں۔ ان کے بچے فاقہ کر کے راتیں گزارتے ہیں۔ اب یہ اچھا موقع ہے کہ پھر بھول نہ جاؤ اللہ تعالیٰ نے بھی ہر سال رمضان لگا دیا ہے۔ دیکھا جاتا ہے جب بیماری ختم ہو جائے تو انسان کو پرواہ نہیںرہتی۔ مثلاً کسی کے پیٹ میں درد ہو اُس وقت وہ عہد کر ے گا کہ آئندہ کبھی ایسی چیز نہیں کھاؤں گا جس سے پیٹ میں درد ہو۔لیکن جونہی کہ افاقہ شروع ہوا وہ عہد بھولنا شروع ہو گیا اور مزیدار شوربے کا خیال آنے لگا۔

پس جہاں تک ہو سکے رمضان سے عملی سبق لینا چاہیے۔ یہاں کے لوگ یہاں صدقہ کر سکتے ہیں۔ اور باہر کے باہر۔ یہ شرط نہیں ہے کہ اپنے ہی ہاں دیا جائے۔ غیروں کو بھی دینا چاہیے۔ غیروں کو بلکہ ضرور ہی دینا چاہیے تا خدا کی مخلوق سے ہمدردی عام ہو۔

میرے نزدیک تو کتے بلیاں اور چوہے بھی مستحق ہیں کہ اُن کو بھی کھلانا پلانا چاہیے۔

یہ تو صدقہ کے متعلق تھا ۔مگر ایک بات اَور بھی یاد رکھو ایک جماعت ہے جو صدقہ نہیں کھا سکتی، غریب ہے نادار ہے اس کی بھی مدد کی صورت نکالنی چاہیے وہ سیّدوں کی جماعت ہے۔ رسول کریم ﷺنے اپنی نسل کو صدقہ سے منع فرمایا ہے۔ (بخاری کتاب الزکوٰۃ باب اخذ صدقۃ التمر عند صرام النخل (الخ) )بعض نے کہا ہے کہ اب سیّدوں کے لئے صدقہ لینے میں کوئی حرج نہیں کیونکہ وہ نادار ہیں۔ مگر میرے نزدیک درست نہیں ، جس بات سے رسول کریم ﷺنے منع فرمایا ہے اُس کو جائز کیا جائے۔ صدقہ کے علاوہ اَور بھی طریق ہو سکتے ہیں جن سے ان کی مدد ہو سکتی ہے اور اِس طرح محبت بھی بڑھ سکتی ہے۔ وہ ہدایا کا طریق ہے۔ اگر ایک دوست کا بچہ آتا ہے تو آدمی اُسے کچھ دیتا ہے مگر وہ صدقہ نہیں ہوتا۔ اور اس طرح ان میں محبت بڑھتی ہے۔ اِسی طرح سید آنحضرتؐ کی بیٹی کی اولاد ہیں اب اِن کو بھی ہدایا دیئے جائیں اُس احسان کے بدلہ میں جو آنحضرتؐ کا ہم پر ہے۔ آنحضرتؐ نے ہمیں کفر سے نکالا، ظلمتوں سے باہر لائے، پس اِس فضل کی وجہ سے ہمارا فرض ہے کہ ہم آپؐ کی لڑکی کی اولاد کے ساتھ ویسا ہی دوستانہ سلوک کریں۔ بلکہ اِس سے بڑھ کر کریں جیسا کہ آپ دوسرے دوستوں سے کرتے ہیں۔ وہ صدقہ نہیں کھا سکتے۔ اس لئے ہم ان کو بطور ہدایا دیں۔

ہم ان کو خداتعالیٰ کی محبت کے طور پر دے سکتے ہیں۔ ان کو آنحضرتؐ سے نسبت ہے۔ ایک شاعر نے کہا ہے بات تو گندی ہے لیکن ہے درست کیونکہ پتہ لگتا ہے کہ نسبتوں کا بھی کہاں تک خیال ہوتا ہے۔

؎ گو واں نہیں پے واں کے نکالے ہوئے تو ہیں

کعبہ سے ان بتوں کو بھی نسبت ہے دُور کی

حضرت صاحب نے قصیدہ الہامیہ میں فرمایا ہے:

اے دل تو نیز خاطر ایناں نگاہ دار

کاخر کنند دعویٰ حبّ پیمبرم

خواہ غیر احمدی ایک نبی کے انکار کی وجہ سے کافر ہی ہوگئے ہیں۔ مگر وہ کہتے تو ہیں کہ ہماراآنحضرتؐ سے تعلق ہے۔ جہاں وہ ایک نبی کے منکر ہیں وہ ایک سے پیار کا بھی دعویٰ کرتے ہیں۔

پس سیّدوں کو آنحضرتؐ سے تعلق نسبی ہے۔ اِس لئے جہاں میں آپ لوگوں کو صدقات کی طرف متوجہ کرتا ہوں وہاں یہ بھی بتاتا ہوں کہ میں نہیں چاہتا کہ صدقہ کسی فتویٰ سے سیّدوں کے لئے جائز کر دیا جائے۔ رسول کریمؐ کے ہم پر احسانات ہیں اِس کے بدلہ میں سیّدوں کو ہدیہ دیئے جائیں۔ رسول کریمؐ خود بھی ہدیہ کھاتے تھے۔ پس رمضان ایک سبق ہے بعد میں کسی کو یاد رہے یا نہ رہے اب اِس کام کو کرو کہ خدا کے فضلوں کے وارث بنو۔

(الفضل ۲۴؍۲۱ جولائی ۱۹۱۷ء)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button