یادِ رفتگاں

مکرم سلیمان ابراہیم اشولا آف بینن کی یاد میں

(ص۔ ن۔ گولیکی)

مکرم سلیمان ابراہیم ۳۱؍ مارچ ۲۰۲۲ء کو بقضائے الٰہی وفات پا گئے۔انا للہ و انا الیہ راجعون۔ اللہ تعالیٰ غریق رحمت فرمائے اور اعلیٰ علیین میں جگہ عطا فرمائے۔

ان کا فیملی نام سلیمان تھا اور کیتو(Keto) کے رہنے والے تھے۔ابتدائی عمر میں تو نابینا نہ تھے مگر رفتہ رفتہ بیماری کے باعث نابینا ہو گئے۔میں نے انہیں ۱۹۹۱ء۔۱۹۹۲ء میں نابینا ہی دیکھا تھا۔ان کی کچھ زمینیں IDOGOاورIGANAمیں تھیں جہاں یہ کاشت کاری کرتے تھے۔

قبولیت ِاحمدیت

ان کی قبولیت احمدیت کا واقعہ بہت ہی ایمان افروز ہے۔۱۹۸۴ء کی بات ہے کہ مانگری کےایک احمدی آفو یٰسین جو ان کے قریبی علاقے میں شفٹ ہو چکے تھے کے ہاں جڑواں بچے پیدا ہوئے چنانچہ تقریبِ عقیقہ میں احمدی احباب کے ساتھ ساتھ بعض غیر احمدی احباب بھی شامل تھے جن میں سے ایک ابراہیم اشولا صاحب بھی تھے۔ یہاں انہیں جماعت کے بارے میں علم ہوا۔عقیقہ کے پروگرام میں ہی طے پایا کہ کیتو (Keto) شہر میں بھی ایک تبلیغی پروگرام کا انعقاد کیا جائے چنانچہ مقررہ دن،جمعہ کے روز گھانا سے مکرم عبدالوہاب آدم صاحب امیر جماعت گھانا،پورتونوو سے سکیرو داؤدا اور دیگر احمدی احباب یہاں پہنچ گئے۔دوسری طرف کیتو شہر کے اماموں نے جماعت کے اس پروگرام کو ناکام بنانے کے لیے پیسہ دے کر بھی لوگوں کو آنے سے منع کیا ہوا تھا۔۲۵؍افراد نے وہاں آنے کا وعدہ کیا تھا لیکن ان میں سے بھی چند ایک اور بابا اشولا صاحب ہی آئے۔جماعت کا تعارف اور باتیں سن کر کہا کہ میں بیعت کرنے کے لیے تیار ہوں،امیر صاحب گھانانے حالات کے پیشِ نظر کہا کہ آپ آئندہ بیعت کرلیں جس پر بابا اشولا صاحب نے پُر جذبات الفاظ میں جواب دیا کہ اگر میں اسی دوران مر جاؤں تو خدا کو کیا جواب دوں گا۔حق کے واضح ہونے کے بعد کون مجھے خدا کی ناراضگی سے بچائے گا۔

بیعت کے بعد کے حالات

کیتو (Keto) کے علماء نے سخت مخالفت کی،گھر کو مسمار کر دیا،تین بیویاں اور بچے دور ہو گئے اور یہ کیتو سے نکل کر IDOGO اپنی زمینوں پر چلے گئے،آہستہ آہستہ بینائی بھی ضائع ہو گئی جس پر دشمن طعنہ زنی کرتے رہتے مگر اس مردِمجاہدکے پاؤں میں کوئی لغزش نہ آئی۔

خاکسار کی بابا اشولا سے ملاقات

خاکسار ۱۹۹۲،۱۹۹۱ء میں ان کے اس گاؤں گیا۔ پورتونوو سے تقریباً ۶۰ کلو میٹر کا راستہ ہے جس میں سے ۴۰ کلومیٹر کا راستہ بالکل کچا اور پُرپیچ جنگل پر مشتمل تھا۔ہم ۱۲ بجے ان کے گاؤں پہنچے،کھانا ہم نے اپنے ساتھ ہی رکھا ہوا تھا۔ بہت پُرتپاک طریق پر ملے اور خوش آمدید کہا۔ہم نے مل کر کھانا کھایا اور نمازیں ادا کیں۔

چندے کی ادائیگی کی طرف توجہ

دوران ملاقات میں نے نظامِ چندہ اور اس کی برکات کے متعلق بتایا تو کہنے لگے کہ تفصیل سے مجھے اس بارے میں سمجھائیں کہ چندہ کیا ہوتا ہے۔ جب میں نے بتایا تو مجھے ہاتھ سے پکڑ کر اپنے کنویں کی طرف لے گئے کہ پانی ناپید ہے تو کھیتی بالکل نہیں اور پھر اپنا ریوڑ دکھایاکہ بوجہ تنگدستی جانور بھی نہیں ہیں لیکن آپ کےتوجہ دلانے سے میں کوشش کرتا ہوں۔خاکسار ان کی مسجد میں بیٹھ گیا،تین،چار گھنٹے تک خاکسار وہیں بیٹھا رہا کہ بالآخر بابا اشولا ہاتھ میں دس فرانک کا ایک سکّہ لیے مسجد میں آگئے اور دکھایا کہ فی الحال تو یہی ملا ہے۔ میں نے سکّا لے کر زمین پر رگڑ کر صاف کیا،رسید کاٹی اور شکریہ کے ساتھ وہاں سے روانہ ہوا۔

قریباً ۶؍ماہ بعد ایک دن اپنے بچے لے کر میرے پاس پورتونوو مشن ہاؤس آئے۔مجھے مہمان نوازی کا موقع ملا۔جانے سے قبل ایک ہزار فرانک چندہ ادا کیا اور بتایا کہ میری ہر چیز میں خدا نے برکت ڈالی ہے۔ وہ باتیں جو آپ نے کہی تھیں میں حقیقت میں مشاہدہ کرتا ہوں۔میری آمدن میں ترقی ہوئی ہے۔بینن کے احباب جانتے ہیں کہ کیسے ان دس فرانک نے اپنا رنگ دکھانا شروع کیا اور ان کے افلاس کو امارت سے بدلا۔اس کے بعد دوبارہ ہماری ملاقات چھ ماہ بعد بینن کے جلسہ کے موقع پر ہوئی تو بہت زیادہ خوشی اور پُر تپاک انداز میں ملے اور دس ہزار فرانک چندہ ادا کرتے ہوئے خوشی سے پھولے نہ سماتے تھے۔میرے پاس وہ الفاظ نہیں جن سے ان کی خوشی اور مسرت بیان کرسکوں۔

۲۰۱۷ء میں ملاقات

۱۹۹۶ء میں خاکسار کا تقرر واپس پاکستان کے لیے ہوا۔ خاکسار کے قیام کے دوران موصوف ہر سال دس ہزار سیفا تک چندہ ادا کرتے رہے۔۲۰۱۷ء میں بینن کی پچاس سالہ تقریبات میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے خاکسارکو مع فیملی شامل ہونے کے لیے اجازت عطا فرمائی۔ جلسہ سالانہ کے موقع پر بابا اشولا سے آخری ملاقات ہوئی۔

ملاقات کا حال

خاکسار کو جلسہ کے موقع پر ایک سیشن کی صدارت کرنے کا اعزاز نصیب ہوا۔ مکرم بابا اشولا صاحب کو یہ معلوم ہوا تو اس خوشی میں کہ میں جلسہ پر آیا ہوںاُٹھ کر میری طرف دوڑ پڑے۔دوستوں نے سہارا دے کر مجھ سے ملوایا،بغل گیر ہوئے اور فرطِ جذبات میں زار زار رونے لگے۔جب کچھ سنبھلے تو حال احوال کے بارے میں استفسار کرنے لگے۔ باتوں باتوں میں کہنے لگے کہ امیر صاحب آپ نے مجھے کیا نسخہ دیا تھا۔ہر سال چندہ ادا کرتا ہوں اور خدا کے ان گنت فضلوں کا مشاہدہ کرتا ہوں۔کیتو(Keto) شہر جہاں سے ایک وقت نکلنا پڑا تھا وہاں اپنا مکان تعمیر کر چکا ہوں۔اللہ نے بہت نوازا ہے۔الحمدللہ

یہ ایمان افروز ملاقات میرے ذہن میں نقش ہے۔اس کی لذت اس دس فرانک کے ایک زنگ آلود سکے سے شروع ہوئی تھی جو ہزاروں اور پھر لاکھوں میں بدلتی گئی اور کبھی کم نہیں ہوئی۔اب جبکہ بابا اشولا صاحب اس دنیا میں نہیں رہے تو اس واقعہ کی لذت ان کی یاد کو تازہ رکھتی ہے۔

مرحوم اپنے نام اشولا یعنی برکتوں کا سر چشمہ (Source of Fountain of bounties) کے موافق جماعت کے لیے بہت سی برکتوں کا پیش خیمہ ثابت ہوئے۔نہایت عاجزی،انکساری اور بہادری سے زندگی گزاری۔بینن میں اب جماعتیں پھیل گئی ہیں۔بینن میں ۳۰۰ سے زائد پُختہ خوبصورت مساجد تعمیر ہوچکی ہیں سینکڑوں کی تعداد میں جماعتیں ہیں۔اللہ تعالیٰ نے جماعت کو ایسے ایسے فدائی وجود عطا فرمائے ہیں جن کی قربانیاں رہتی دنیا تک یاد رکھی جائیں گی۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ میرا بھی انجام بخیر ہو اور آخری سانس تک خدماتِ دینیہ بجا لانے کی توفیق ملے۔ آمین

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button