متفرق مضامین

روزہ اور خواتین کے مسائل (قسط اول)

(صباحت ۔ جرمنی)

رمضان کے روزے ہر بالغ، عاقل، تندرست، مقیم (یعنی جو حالت سفر میں نہ ہو) مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہیں۔ مسافر اور بیمار کے لیے یہ رعایت ہے کہ وہ دوسرے ایام میں روزوں کو پورا کر لے جو اس ماہ میں ان سے رہ گئے ہیں۔

مستقل بیماری سے صحت یاب ہونے کی کبھی امید نہ ہو یا ایسے کمزور ناتواں ضعیف جنہیں بعد میں بھی روزہ رکھنے کی طاقت نہ ملے، اسی طرح ایسی مرضعہ(دودھ پلانے والی) اورحاملہ جو تسلسل کے ساتھ ان عوارض سے دوچار رہتی ہیں توایسے معذورحسب توفیق روزوں کے بدلے میں فدیہ ادا کریں۔

اس مضمون میں ہم بات کریں گے رمضان المبارک میں حاملہ یا دودھ پلانے والی خواتین کے حوالے سے اللہ تعالیٰ نے ہر اس کام سے منع فرمایا ہے جو کہ صحت کے لحاظ سے ٹھیک نہیں۔

خاکسار کی ناقص معلومات کے مطابق بعض خواتین کا خیال ہے کہ اگر حاملہ یا دودھ پلانے والی عورت روزہ رکھے تو اس کو دوگنا ثواب ملتا ہے۔اپنے روزے کا الگ اور بچے کا الگ۔ ایسا سوچنا محض اسلامی تعلیمات سے دوری کا نتیجہ ہے۔کیونکہ اسلام میں نہ مشکل ہے نہ جبر ہے۔ حائضہ اور حاملہ کے روزہ رکھنے کی نفی قرآن کریم اور بعض احادیث نے خود کی ہے۔

اسلامی احکامات

مرضعہ اور حاملہ کے متعلق حدیث میں آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مسافر سے آدھی نماز معاف کر دی ہے اور حاملہ اور دودھ پلانے والی عورت کو روزہ سے رخصت دی ہے۔ (ترمذی ابواب الصیام) یعنی یہ دونوں اپنے عذر کے ختم ہونے کے بعد چھوڑے ہوئے روزے پورے کرلیں اگر طاقت ہو تو فدیہ بھی دینا چاہیے جو اس بات کا کفارہ ہوگا کہ رمضان کی برکتوں والے مہینے میں روزہ کی عبادت بجا لانے سے محروم رہی ہے۔

اگر فدیہ ادا کرنے کی طاقت نہیں تو روزے کافی ہیں

اگر کسی عورت کو ایسی حالت پیش آتی رہتی ہے کہ ایک وقت میں مرضعہ ہے اور دوسرے وقت میں حاملہ تو اسے روزہ معاف ہے اور صرف فدیہ کافی ہے۔

خواتین پر ہر ماہ ایک حالت حیض کی بھی آتی ہے حائضہ کے روزہ نہ رکھنے کے حوالہ سے حضرت عائشہؓ کی روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہم حیض کے باعث روزے چھوڑتی تھیں تو ہمیں بعد میں وہ روزے پورے کرنے کا ارشاد ہوتا تھا۔ (سنن ابن ماجہ کتاب الصیام )

نفاس والی عورت کے لیے بھی یہی حکم ہے کہ وہ روزہ نہیں رکھ سکتی لیکن جب بعد میں یہ عذر دور ہو جائے یعنی حائضہ حیض سے پاک ہو جائیں تو چھوڑے ہوئے روزوں کی قضا واجب ہوگی اور یہ روزے انہیں رکھنے ہوں گے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button