از افاضاتِ خلفائے احمدیت

روحانی ترقی اور مغفرت الٰہی حاصل کرنے کے لیےایک دعا

(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۶؍ اکتوبر ۲۰۰۶ء)

روحانی ترقی اور مغفرت الٰہی حاصل کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے ایک دعا سکھائی ہے کہ رَبَّنَاۤ اَتۡمِمۡ لَنَا نُوۡرَنَا وَاغۡفِرۡ لَنَا ۚ اِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ(التحریم:9) اے ہمارے رب ہمارے لئے ہمارے نور کو مکمل کر دے اور ہمیں بخش دے یقیناً ہر چیز پر جسے تو چاہے دائمی قدرت رکھتا ہے۔

اس دعا سے پہلے ان لوگوں کا نقشہ کھینچا ہے جن لوگوں کے حق میں یہ دعا قبول ہوگی۔ یہ وہ لوگ ہیں جو خالص توبہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے آگے جھکتے ہیں۔ فرمایا یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا تُوۡبُوۡۤا اِلَی اللّٰہِ تَوۡبَۃً نَّصُوۡحًا ؕ عَسٰی رَبُّکُمۡ اَنۡ یُّکَفِّرَ عَنۡکُمۡ سَیِّاٰتِکُمۡ وَیُدۡخِلَکُمۡ جَنّٰتٍ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ ۙ یَوۡمَ لَا یُخۡزِی اللّٰہُ النَّبِیَّ وَالَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مَعَہٗ ۚ نُوۡرُہُمۡ یَسۡعٰی بَیۡنَ اَیۡدِیۡہِمۡ وَبِاَیۡمَانِہِمْ(التحریم:9) کہ اے لوگو! جو ایمان لائے ہو اللہ کی طرف خالص توجہ کرتے ہوئے جھکو۔ بعید نہیں کہ تمہارا رب تم سے تمہاری برائیاں دور کر دے اور تمہیں ایسی جنتوں میں داخل کر ے جن کے دامن میں نہریں بہتی ہیں۔ جس دن اللہ نبی کو اور اُن کو رسوا نہیں کرے گا جو اس کے ساتھ ایمان لائے۔ ان کا نور ان کے آگے بھی تیزی سے چلے گا اور ان کے دائیں بھی۔

پھر آگے وہ وہی کہیں گے جو دعا مَیں نے پڑھی ہے۔ تو اپنی برائیوں کے دور کرنے کے لئے دعا کرتے رہنا چاہئے۔ اور برائیوں کو دور کرنے کی کوشش بھی ہو رہی ہو اور دعا بھی ہو رہی ہو تو پھر اللہ تعالیٰ ایسے خالص توبہ کرنے والوں کی دعا کو بھی سنتا ہے اور ان کی برائیاں دور کرتے ہوئے جیسا کہ اس نے فرمایا انہیں جنتوں میں داخل کرتا ہے اور انہیں ایسا نور دیتاہے جو ان کے دائیں بھی چلتا ہے اور ان کے آگے بھی چلتا ہے۔ پس خوش قسمت ہوں گے ہم اگر اللہ تعالیٰ کے اس وعدے سے فائدہ اٹھائیں۔ خوش قسمتی سے ہمیں رمضان میں سے گزرنے کا موقع مل رہا ہے اس رمضان کے مہینے میں روزوں سے گزرنے کا موقع مل رہا ہے، جب مغفرت کے دروازے مکمل طور پر کھول دئیے جاتے ہیں، بخشش کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں۔ اس لئے کوشش کرنی چاہئے کہ خالص ہو کر اللہ تعا لیٰ کے حضور جھکیں اور اپنی برائیوں پر نظر کرتے ہوئے انہیں چھوڑنے کی کوشش کریں۔ سچی توبہ کریں کہ آئندہ بھی ان برائیوں میں نہیں پڑیں گے۔ اگر ہر ایک اپنا جائزہ لے تو خود ہی ہر ایک کے سامنے آجا ئے گا کہ کون کون کن کن برائیوں میں مبتلا ہے اور کون کون سی برائیاں چھوڑی ہیں اور چھوڑنی ہیں تو پھریقینا ًاس دنیا میں بھی اور اگلے جہان میں بھی جنت کے نظارے دیکھیں گے۔ سچی تو بہ کے بعد پھر قدم پہلے سے آگے بڑھیں گے۔ مزید نیکیوں کی توفیق ملے گی اور یہی نیکیاں اگلے جہان میں بھی کام آنے والی ہیں اور وہاں بھی درجے بڑھتے چلے جائیں گے۔

جنت میں استغفار کی جو دعا ہے اس کا کیا مطلب ہے یا کیا حکمت ہے؟ اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ایک اقتباس پیش کرتا ہوں۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’اس آیت میں ہمیں بتایا گیا ہے کہ بہشتی لوگ بھی استغفار کیا کریں گے۔ ان کا استغفار گناہوں کے لئے نہیں ہو سکتا کیونکہ بہشت میں کوئی گناہ نہیں ہو گا اور نہ وہ اپنی دنیاوی زندگی کے گناہوں کے لئے استغفار کیا کریں گے کیونکہ ہمیں اس سے پہلی آیت میں بتایا گیا ہے کہ بہشت میں داخل ہونے سے پہلے ان کے گناہ معاف کئے جائیں گے۔ آیت اس طرح ہے عَسٰی رَبُّکُمۡ اَنۡ یُّکَفِّرَ عَنۡکُمۡ سَیِّاٰتِکُمۡ وَیُدۡخِلَکُمۡ جَنّٰتٍ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ ان کا استغفار گزشتہ گناہوں کے لئے نہیں۔ خود اس آیت میں ہمیں پتہ ملتا ہے، اس لئے جو نور اہل جنت کو ملے گا وہ ان کو اس نور کے مقابل میں ناقص نظر آئے گا جو ابھی ان کو نہیں ملا۔ اس نقص کو محسوس کرکے وہ خدا سے دعا کریں گے کہ ہمارا نور پورا کر اور ہماری اس ناقص حالت کو ڈھانپ دے مگر وہ کبھی نور سے سیر نہیں ہوں گے کیونکہ خدا کے نور کی کوئی حد نہیں۔ اس لئے وہ ہمیشہ اور زیادہ نو ر مانگتے رہیں گے۔ اس سے معلوم ہوا کہ وہ استغفار روحانی ترقی کے لئے ایک دعا ہے۔ چونکہ روحانی ترقی کی کوئی حد نہیں اس لئے انبیاء علیہم السلام ہمیشہ دعا میں لگے رہتے ہیں اور ہمیشہ زیادہ نور مانگتے رہتے ہیں۔ وہ کبھی اپنی روحانی ترقی پر سیر نہیں ہوتے اس لئے ہمیشہ دعا میں لگے رہتے ہیں کہ خدا ان کی ناقص حالت کو ڈھانپے اور پورا روشنی کا پیمانہ دے۔ اسی وجہ سے خدا ئے تعالیٰ اپنے نبی کو فرماتا ہے قُلْ رَّبِّ زِدْنِیْ عِلْمًا یعنی ہمیشہ علم کے لئے دعا کرتا رہ کیونکہ جیسا خدا بے حد ہے ایسا ہی اس کا علم بھی بے حد ہے۔ القصہ جنت کا استغفار صاف طور پر ثابت کرتا ہے کہ استغفار اور گناہ لازم ملزوم نہیں ہیں اور یہ کہ ہمارا استغفار اس لئے بھی ہو سکتا ہے کہ خدا ہماری کمزوریوں کو ڈھانپے اور روحانی ترقی کے لئے طاقت دے۔ عیسائی بڑے ظالم ٹھہریں گے اگر وہ اب بھی اصرار کریں گے کہ استغفار ہمیشہ گزشتہ گناہوں کی معافی کے لئے ایک دعاہوتی ہے۔ ‘‘(ریویو آف ریلیجنز جلد 2صفحہ243-244، تفسیر حضرت مسیح موعود ؑ جلد نمبر 8صفحہ174تا175تفسیر سورۃ تحریم)

پھر سورۃ بقرہ کی آخری آیت ہے جس میں ہمیں مختلف دعائیں سکھائی گئی ہیں کہرَبَّنَا لَا تُؤَاخِذۡنَاۤ اِنۡ نَّسِیۡنَاۤ اَوۡ اَخۡطَاۡنَاۚ رَبَّنَا وَلَا تَحۡمِلۡ عَلَیۡنَاۤ اِصۡرًا کَمَا حَمَلۡتَہٗ عَلَی الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِنَا ۚ رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلۡنَا مَا لَا طَاقَۃَ لَنَا بِہٖ ۚ وَاعۡفُ عَنَّاٝ وَاغۡفِرۡ لَنَا ٝ وَارۡحَمۡنَا ٝ اَنۡتَ مَوۡلٰٮنَا فَانۡصُرۡنَا عَلَی الۡقَوۡمِ الۡکٰفِرِیۡنَ (البقرۃ:287)کہ اے ہمارے رب ہمارا مؤاخذہ نہ کر اگر ہم بھول جائیں یا ہم سے کوئی خطا ہو جائے۔ اور اے ہمارے رب ہم پر ایسا بوجھ نہ ڈال جیسا ہم سے پہلے لوگوں پر ان کے گناہوں کے نتیجہ میں تُونے ڈالا ہے۔ اور اے ہمارے رب ہم پر کوئی ایسا بوجھ نہ ڈال جو ہماری طاقت سے بڑھ کر ہو۔ اور ہم سے درگزر کر اور ہمیں بخش دے اور ہم پر رحم کر۔ تُو ہی ہمارا والی ہے، پس ہمیں کافر قوم کے مقابل پر نصرت عطا کر۔

یعنی جیسا کہ ترجمے سے سب واضح ہو گیا کہ اے اللہ جو کام تُو نے ہمیں کرنے کے لئے دئیے ہیں اگر ہم وہ کرنے بھول جائیں یا پوری طرح نہ کر سکیں تو ہماری کمزوری سمجھ کر معاف کر دینا اور اس بات پر ہمیں نہ پکڑنا۔ یہ نہ ہو کہ ہمارے اس بھولنے سے ہماری ترقی رک جائے او ر ترقی میں کمی آ جائے یا ہمارے میں سے چند لوگوں کی بھول چوک سے ہماری ترقی رک جائے یا کمی آ جائے۔ یہ دعا واقفین زندگی کو، عہدیداران کو جو جماعتی خدمات کر رہے ہوتے ہیں خاص طور پر کرنی چاہئے۔ پھر یہ ہے کہ اَوْ اَخْطَاْنَا کہ یا اللہ ایسا بھی نہ ہو کہ ہماری کوئی خطا جو ہمارے کسی کام کے غلط طریق پر کرنے کی وجہ سے ہوئی ہے اس کے بداثرات ظاہر ہوں۔ تُوہمیشہ ہمیں ہماری خطاؤں کے بداثرات سے محفوظ رکھنا اور ہمارا مؤاخذہ نہ کرنا۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button