متفرق مضامین

بات سے بات یاد آتی ہے

(عطاء المجیب راشد۔ امام مسجد فضل لندن)

جس جذبہ اور زور دار آواز میں اس نوجوان نے اپنے امیر کے حوالہ سے ہماری مدد کی آج بھی میرے ذہن پر نقش ہے

گذشتہ دنوں ہفت روزہ اخبار ’’الحکم ‘‘لندن کے ایک شمارہ میں حضرت مولانا عبد الرحیم نیّر صاحبؓ مبلغ افریقہ کی ایک رپورٹ شائع ہوئی جس میں آپ نے بڑی تفصیل سے مغربی افریقہ کے عمائدین کے ساتھ اپنی تبلیغی ملاقاتوں کا ذکر فرمایا ہے۔ اس تفصیلی رپورٹ میں حضرت مولانا نیّر صاحبؓ نے نائیجیریا کے امیر آف کانو سے اپنی ملاقات کا بھی ذکر کیا ہے۔ میں نے یہ دلچسپ رپورٹ پڑھی تو مجھے بھی امیر آف کانو (نائیجیریا) سے لندن میں اپنی ایک ملاقات یاد آئی اور اس دلچسپ یاد نے تحریک کی کہ میں بھی اپنی اس ملاقات کا کچھ ذکر کروں۔

حضرت نیّر صاحب ؓ کی امیر آف کانو سے ملاقات اگست ۱۹۲۲ءکی بات ہے۔ اور میں اپنی جس ملاقات کا ذکر کرنے لگا ہوں وہ ۱۹۷۱ءکی بات ہے۔ امیر آف کانوکو سیاسی لحاظ سے نائیجیریا میں بڑی اعلیٰ حیثیت اور مقام حاصل تھا اور جماعت احمدیہ سے بھی ان کا قریبی تعلق تھا۔ وہ اپنے وفد کے ہمراہ مختصر دورہ پر لندن آئے۔ نائیجیریا کے سفارت خانہ نے ان کا اور ان کے ساتھ آنے والے اراکین وفد کے قیام کا انتظام وسطی لندن کے ایک بلند پایہ ہوٹل میں کیا تھا۔

فروری ۱۹۷۱ء کے شروع میں مسجد فضل لندن میں مکرم محترم چودھری شریف احمد باجوہ صاحب بطور امام مسجد فضل لندن تشریف لا چکے تھے اور میں ستمبر ۱۹۷۰ءسے بطور نائب امام مسجد فضل لندن میں خدمت پر مامور تھا۔ ایک روز وکالت تبشیر نے بذریعہ خط ہدایت بھجوائی کہ امیر آف کانو چند دنوں میں لندن آرہے ہیں۔ ان سے رابطہ کیا جائے۔ بتایا گیا کہ امیر آف کانو کا نائیجیریا میں جماعت سے قریبی تعلق ہے اس حوالہ سے لندن میں ان سے ملاقات کر کے ان تعلقات کو آگے بڑھایا جائے۔

یہ اطلاع ملتے ہی محترم شریف احمد باجوہ صاحب اور میں نے فوری طور پر لندن میں نائیجیرین سفارت خانہ سے رابطہ کیا۔سفارت خانہ کےمتعلقہ اعلیٰ افسران سے تفصیلی بات چیت ہوئی اور ہم نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ امیر موصوف ہماری مسجد (جو برطانیہ میں جماعت احمدیہ کی طرف سے بنائی جانے والی پہلی مسجد ہے) تشریف لائیں اور استقبالیہ تقریب میں شرکت کریں۔ محترم امیر صاحب کانو کا پروگرام بہت بھرپور تھا اور سب پروگرام پہلے سے طے ہو چکے تھے اس لیے وہ باوجود خواہش کے مسجد نہ آسکے تاہم انہوں نے بڑی خوشی سے ہمیں اپنےہوٹل میں ملاقات کی دعو ت دی۔ چنانچہ اس ملاقات کے لیے ایک جمعہ کے دن صبح کا وقت طے ہو گیا۔ محترم امیر صاحب کانو کے لیے ہم نے جماعت کا شائع کردہ اسلامی لٹریچر اور چند تحائف خوبصورتی سے پیک کر لیے اور ایک کا ر میں ملاقات کے وقت ِمقررہ سے کافی پہلے ہوٹل کے کار پارک میں پہنچ گئے۔

یہاں تک تو سب کام ٹھیک چل رہے تھے لیکن اس کے بعد جو صورتِ حال سامنے آئی اس نے ہمیں بہت فکر مند کر دیا۔ ہوا یہ کہ کار تو ہم نے کار پارک میں پارک کر دی اور ٹکٹ حاصل کر لیا۔ لیکن یہ صورتِ حال سامنے آئی کہ ہم نے کار تو کار پارک میں کھڑی کر دی ہے۔ نکلنے سے پہلے اس کی پارکنگ فیس کا کیا بنے گا ؟ ہم دونوں نے اپنی جیبیں ٹٹولیں تو ان میں کوئی رقم نہ تھی۔ جمعہ کا دن تھا اور ہم صبح جلدی جلدی کپڑے تبدیل کر کے مسجد سے روانہ ہو کرآئے تھے۔ اس صورتِ حال میں زیادہ متفکر ہونےکی بجائے یہی سوچا کہ ملاقات کا وقت ہونے والاہے اس لیے اپنی توجہ امیر صاحب آف کانو، نائیجیریا سے ملاقات پر رکھیں اور باقی بعد میں دیکھیں گے کہ کیا صورت بنتی ہے۔

ہم اپنے ساتھ قرآن مجید مترجم کا ایک نسخہ اور چند جماعتی کتب کے علاوہ چند تحائف بھی امیر آف کانو کی خدمت میں پیش کرنے کے لیے لے کر آئے تھے۔ یہ چیزیں لے کر ہم دونوں ہوٹل کے اندر گئے اور چند لمحوں میں امیر صاحب کانو کی خدمت میں جا پہنچے۔ امیر صاحب نے بڑے تپاک سے ہمارا استقبال کیا۔ چائے اور کافی کا انتظام تھا۔ رسمی تعارف کے بعد ہم نے ان کا شکریہ ادا کیا کہ دیگر مصروفیات کے باوجود انہوں نے ملاقات کے لیے وقت دیا۔ امیر صاحب جماعت احمدیہ سے ا ور کانو میں جماعت کی تبلیغی، تعلیمی اور طبی خدمات سےوہ بخوبی واقف تھے۔ انہوں نے اس حوالہ سے بہت ممنونیت سے جماعتی خدمات کا ذکر کیا۔

ہم نے لندن مشن کے قیام کی مختصر تاریخ بیان کی اور انگلستان میں تبلیغ اسلام کی مساعی کا ایک خاکہ پیش کیا جس کو انہوں نے بہت توجہ سے سنا اور سراہا۔ ہم نے انہیں مسجد فضل کی مختصر تاریخ سے بھی آگاہ کیا اور انگلستان میں جماعت کی طرف سے بنائی جانے والی پہلی مسجد میں تشریف لانے کی دعوت دی۔ آپ نے اس دعوت کا شکریہ ادا کیا اور معذرت کی کہ اس بار پروگرام اتنا مصروف ہے کہ اس کا موقع نہیں مل سکے گا۔ یہ ساری ملاقات اور بات چیت قریباً پون گھنٹہ جاری رہی۔ اور اس کے بعد بہت پرتپاک انداز میں انہوں نے ہمیں رخصت کیا اور ہم نے ایک بار پھر ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے ان سے اجازت لی۔ الحمد للہ یہ ملاقات بہت اچھے ماحول میں منعقد ہوئی۔

ملاقات سے فارغ ہونے کے بعد جونہی ہم باہر آئے اور کار پارک کی طرف روانہ ہوئے تو یکدفعہ پارکنگ فیس کے مسئلہ نے ہمیں پریشان کر دیا۔ مسئلہ جوں کا توں قائم تھا۔ کارپارکنگ کی مطلوبہ رقم کے بغیر ہم کارکو پارکنگ سے نکال نہیں سکتے تھے۔

کار پارک کا جو کارکن بیرونی گیٹ پر متعین تھا اس سے بات کرنے کی کوشش کی مگر وہ اپنی بات پر مصرّ تھا اور وہ ایک ہی بات کہتا تھا کہ مجھے پارکنگ کی مطلوبہ رقم چاہیے اس کے علاوہ میں کچھ نہیں سننا چاہتا۔ بڑی بے چارگی کا عالم تھا۔ کسی کو باہر سے مدد کے لیے بلانے کی صورت بھی نہیں تھی۔ فون بھی کسے کرتے جبکہ فون کرنے کے لیے کوئی رقم ہماری جیبوں میں نہ تھی۔ مزید یہ کہ مسجد میں بھی اطلاع نہ دے سکتے تھے جبکہ جمعہ کی نماز کا وقت بھی ہونے والا تھا۔ بے چارگی کے عالم میں محترم میجر شریف احمد باجوہ صاحب نے اپنا کوٹ اتار کر کاؤنٹر پر رکھ دیا اور کہا کہ یہ ضمانت کے طور پر رکھ لو۔ ہم رقم ادا کر کے لے جائیں گے۔ کارکن اپنی بات پر مصرّ رہا۔ اس پر محترم باجوہ صاحب نے اپنے ہاتھ کی قیمتی گھڑی اتار کر اس کے سامنے رکھ دی لیکن وہ اپنی بات پر مصرّ رہا کہ مجھے کوئی اور چیز منظور نہیں۔

اس وقت عجیب بے بسی کا عالم تھا۔ مسجد میں جمعہ کا وقت قریب تر آتا جا رہا تھا۔ دعائیں تو شروع سے ہی جاری تھیں کہ اللہ تعالیٰ ہی ہے جو ہماری اس مشکل کو حل کر سکتا ہے۔ مستجاب الدعوات خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے ہماری دعائیں سن لیں اور اپنے فضل سے غیب سے ایک صورت پیدا کردی۔ ہُوا یوں کہ جس جگہ کاؤنٹر پر کھڑے ہم کار پارکنگ کے کارکن سے لمبی گفتگو کر رہے تھے وہاں بیرونی گیٹ کے قریب ہی ایک افریقن نوجوان ڈیوٹی پر مامور تھا۔ وہ ہماری ساری گفتگو سن رہا تھا۔ ہم نے کئی دفعہ کاؤنٹرپر کام کرنے والےکارکن سے ذکر کیا تھا کہ ہم اس ہوٹل میں مقیم ایک معزز مہمان سے ملاقات کے لیے آئے تھے۔ یہ امیر آف کانو ہیں جو نائیجیریا سے آئے ہوئے ہیں اور ہم ابھی ان سے ملاقات کر کے آئے ہیں۔ گیٹ پر ڈیوٹی دینے والا نوجوان ہماری باتیں سن رہا تھا۔ وہ یکدفعہ آگے آیا اور کہا کہ میں کانو کا رہنے والا ہوں۔ آج آپ میرے سردار امیر آف کانو کو ملنے آئے ہیں۔ فکر نہ کریں میں پارکنگ کی رقم ادا کرتا ہوں۔

’’ Don’t worry I will pay for my Ameer ‘‘

یہ کہتے ہوئے اس نے پارکنگ کی مطلوبہ رقم کاؤنٹرپر رکھ دی اور بیرونی گیٹ کھل گیا!

اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے جس نے اپنے فضل سے ہمیں اس مشکل سے نکالا ہم خیریت سے پارکنگ ایریا سے باہر آئے اور کار سے اتر کر اس نوجوان کے پاس گئے جس کو اللہ تعالیٰ نے ہماری مشکل کشائی کا ذریعہ بنایا تھا۔ اس سے نام و پتا دریافت کیا اور بخیرت مسجد واپس آگئے۔ اگلے روز ہم نے ڈاک میں اس نوجوان کو شکریہ کا خط بھی لکھا اور اس کے ساتھ تحفہ بھی ارسال کیا۔

جس جذبہ اور زور دار آواز میں اس نوجوان نے اپنے امیر کے حوالہ سے ہماری مدد کی آج بھی میرے ذہن پر نقش ہے۔ اللہ تعالیٰ اسے خوش رکھے۔آمین

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button