تعارف کتاب

تاریخ احمدیہ سرحد(قسط30)

(اواب سعد حیات)

(مصنفہ حضرت قاضی محمد یوسف پشاوری رضی اللہ عنہ )

سرحد کے ہر ضلع میں احمدیت کب اور کن ذرائع سے داخل ہوئی اور وسعت اختیار کی

حضرت قاضی محمد یوسف صاحبؓ سابق امیر صوبہ سرحد (موجودہ صوبہ خیبر پختونخواہ۔ پاکستان) بمقام ہوتی (ضلع مردان) میں ۱۸۸۳ء کو پیدا ہوئے۔ جنوری ۱۹۰۱ء کو بذریعہ خط اور غالباً اسی سال دسمبر میں حضرت مسیح موعودؑ کی دستی بیعت کی توفیق پائی۔

آپؓ کسب معاش کے لیے لمبا عرصہ پشاور میں مقیم رہے۔ یہاں آپ گورنر سرحد کے سٹاف میں منشی اور پھر میر منشی کے عہدوں پر فائز تھے۔آپ کی پشتو، فارسی او راردو زبان میں یک صد سے زائد تصنیفات میں سے زیر نظر کتاب سرورق کے مطابق ۱۹۵۹ء کی ہے اور کاتب کی لکھائی میں تیار ہونے والی یہ کتاب قریباً سوا تین سو صفحات پر مشتمل ہے اور قاضی صاحب نے تمہید میں درج کیا ہے کہ ’’ہماری دیرینہ آرزو تھی اور مرکز کے احباب بھی تحریک کرتے تھے کہ خاکسار ایک کتابچہ تحریر کرے۔ جس میں یہ ذکر ہو کہ سرحد کے ہر ضلع میں احمدیت کب اور کن ذرائع سے داخل ہوئی اور وسعت اختیار کی۔ پھر خاکسار نے ایک کتابچہ تیار کیا۔ مگر صرف اپنی یادداشت او رمعلومات پر۔ بعدازاں خیال پیدا ہوا کہ خود ہر ضلع کے احباب سے دریافت کیا جائے تاکہ اگر کوئی غلطی ہو تو اس کی اصلاح ہوسکے۔ اس غرض سے اخبار الفضل ربوہ میں اعلان تحریر کرکے بغرض طباعت ارسال کردیاہے۔ امید ہے کہ احباب غفلت سے کام نہ لیں گے۔ فوت شدگان کے حالات خودخاکسار نے مختصر لکھے ہیں اور جن کی تاریخ بیعت اور وجوہات معلوم ہوسکیں ساتھ تحریر کردی ہے۔‘‘

ماہ ستمبر ۱۹۵۹ءمیں مکمل ہونے والی اس کتاب کے باب اول کے فصل اول میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلافت احمدیہ کا مختصر تعارف کروایا گیا ہے، اس کے بعد اگلے قریباً اڑھائی صد صفحات پر درج ذیل احمدیوں کا نہایت اختصارکے ساتھ ضروری تعارف کروایا گیا ہے:حضرت مرزا محمد اسماعیل قندھاری(جن کو ایک کشف میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت پر اطلاع دی گئی تھی )۔ حضرت مولانا غلام حسن پشاوری (ان کی صاحبزادی حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ کے عقد میں آئیں) کے قدرے تفصیلی حالات زندگی درج کرنے کے بعد کتاب کے صفحہ ۴۶پر ایک فہرست کو جگہ دی ہے :’’فہرست مبائعین حضرات احمد علیہ السلام۔ بذریعہ حضرت مولانا غلام حسن خان رضی اللہ عنہ یا ان کے اثر سے جو احمدی ہوئے۔ اسمائے مبائعین بمعہ پتہ ‘‘یہ فہرست ۴۳ اصحاب پر مشتمل ہے۔

کتاب کے صفحہ ۵۲ پر حضرت حافظ میاں محمد رضی اللہ عنہ کا تعارف ہے۔ حضرت میاں احمد جان رضی اللہ عنہ (صفحہ ۵۷)۔ اور اسی طرح اگلے صفحات پر درج ذیل افراد کا ذکر ہے:حضرت حافظ احمد اللہؓ۔ شیخ ہدایت اللہ۔ جناب میاں احمد جان ثانی۔ جناب میاں عبدالرحیم صاحب۔ مولوی عبدالحنان دفتری۔ حضرت قاضی فضل الٰہی صاحب گجراتی رضی اللہ عنہ۔ حضرت مرزا محمد رمضان علی صاحب ؓ۔ حضرت محترم میاں فقیر اللہ صاحب۔ میر مدثر شاہ صاحب۔ مرزا محمد سلطان صاحب دہلوی۔ عبدالاکبر خانصاحب ساکن خزانہ تحصیل پشاور۔ حضرت میاں محمد اسماعیل صاحب صوفیؓ۔کتاب کے صفحہ ۸۷ پر مصنف (قاضی محمد یوسف فاروقی) کا اپنا خاندانی تعارف ہے جوصفحہ ۱۱۶ تک ممتد ہے۔ اس میں ان احباب کی فہرست بھی شامل ہے جو مصنف کی تبلیغ یا ذریعہ سے احمدیت میں داخل ہوئے۔

کتاب کے صفحہ ۱۱۷ پر محمد دلاور خانصاحب اسماعیلوی کا تعارف ہے۔ اور ان کے بعد حضرت حافظ مظفر احمد کلانوری۔حضرت میاں محمد صاحب مکی۔ حضرت مرزا نذر علی صاحبؓ۔ مرزا یوسف علی صاحب۔ مرزا شیر علی صاحب۔ مرزا امیر خسرو صاحب۔ مرزا حیدر علیؓ۔ مرزا شربت علی صاحب۔ خانبہادر شیخ رحمة اللہ۔ مرزا محمد شریف خان صاحب۔ مرزا احمدی شاہ صاحب۔ حافظ محمد علی صاحب۔ قاضی عبدالخالق صاحب۔ میاں فیض احمدصاحب۔ حضرت منشی خادم حسین صاحب بھیرویؓ۔ میاں سلطان محمد صاحب۔ ان احباب کے تعارف سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ صرف صوبہ سرحد اور پشاور کی مقامی تاریخ ہی نہیں بلکہ پنجاب اور دیگر صوبوں سے پشاور اوران علاقوں میں بسلسلہ ملازمت اور کاروبار رہائش اختیار کرنے والوں کاذاتی اوران کی آل اولاد کا بھی جامع احوال لیے ہوئے ہیں۔ نیز یہ کتاب نومبائعین کے حوالہ سے بھی خاطرخواہ معلومات کی حامل ہے۔ ان احمدیوں کے حالات زندگی لکھتے ہوئے مصنف نے اُس زمانہ کے عدالتی، سرکاری اور سیاسی ماحول اور انگریز افسران کا بھی کچھ متعلقہ ضروری تعارف کروایا ہے۔

کتا ب کے صفحہ ۲۱۵ پر شروع ہونے والے فصل دوم میں پشاور شہر اور صوبہ سرحد کی جماعتی تاریخ کے حوالہ سے درج ذیل عناوین پر مواد دیا گیا ہے، اوران اداروں سے منسلک احمدیوں کے اسماء بھی درج کیے گئے ہیں۔

سکول و کالج وغیرہ۔ مشن ہائی سکول پشاور۔ مشن کالج ہوسٹل پشاور۔ میونسپل بورڈ ہائی سکول پشاور۔ اسلامیہ ہائی سکول پشاور۔ اسلامیہ کالج پشاور۔ دفتر سول سیکرٹریٹ پشاور۔

جبکہ فصل سوم میں تحصیل پشاور کے مندرجہ ذیل دیہات کا بتایا گیا ہے: موضع خزانہ۔ عبدالاکبر خان۔ ڈاڈرخان۔ تہکال بالا۔ محمد عجب خان۔ محمود خان۔ سفید ڈھیری۔ ملک کندن خان۔اچینی پایاں۔ ملک چراغ شاہ۔اس کے علاوہ اوربھی اضلاع کا تعارف ہے۔

کتاب کے صفحہ ۲۳۹ پر پشاور کی تحصیل ہشت نگر کے دیہات کاذکر فصل چہارم میں اس تفصیل کے ساتھ ہے:

موضع تنگی۔ تالا شاہ۔ ترنگزئی۔موضع چارسدہ(جو تحصیل ہشت نگرکا صدر مقام ہے)۔ موضع سورخٹکی۔ پڑانگ۔ نِسَتّہ۔سر ڈھیری۔ ترناب۔ خرکی۔ شبقدر۔ میاں عیسیٰ۔

اور ان کے بعد متفرق احباب کے تعارف میں درج ذیل نام ملتے ہیں: مرزا نصر اللہ صاحب۔ چودھری محمد شفیع صاحب۔ شیخ محمد صدیق صاحب کامل پور

کتاب کی فصل پنجم میں پشاور کی تحصیل نوشہرہ کا احوال تفصیل کے ساتھ ہے۔

جبکہ اس کتاب کے صفحہ ۳۱۸ پر کتاب کی کتابت کے حوالہ سے تصحیح اغلاط کی فہرست بھی دی گئی ہے جو متعددصفحات پر پھیلی ہوئی ہے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button