متفرق مضامین

رمضان المبارک کا جُزوِ لاینفک سحر وافطار

(لئیق احمد مشتاق ۔ مبلغ سلسلہ سرینام، جنوبی امریکہ)

انسان کاملﷺاور اُس کے ظِل کامل کا اُسوہ اور ارشادات

دین برابر غالب رہے گا جب تک کہ لوگ افطار میں جلدی کرتے رہیں گے، کیونکہ یہود و نصاریٰ اس میں تاخیر کرتے ہیں

روزہ ایک کامل و بے مثل عبادت ہےجو بندے کو روحانی اور جسمانی طور پر صحت مند بناتی ہے،ظاہری اور باطنی کثافتیں دور کرکے طبیعت کو اعتدال پر لاتی ہے۔ روزہ صرف بھوک پیاس برداشت کرنےکا نام نہیں بلکہ اس کی علّتِ غائی گناہوں سے نجات،تقویٰ کا حصول،ربِّ رحمٰن کی خوشنودی اور نار جہنم سے آزادی ہے۔

ماہ صیام! رحمت،بخشش اور انعام سمیٹنے کا موسم،عبادت سے آباد ایّام اور معطر فضاؤں کا مہینہ ہے۔

روزے گذشتہ مذاہب اور اقوام پر بھی فرض کیے گئے مگر جس باقاعدگی، منظّم اور مفصّل تعلیم اور جن پابندیوں کے ساتھ مسلمانوں پر فرض ہوئے کبھی کسی قوم پر فرض نہیں ہوئے۔ اور اہل اسلام کے لیے روزے کا جو اجر اور بدلہ مالکِ کل اور نبیٔ کاملﷺ نے بیان فرمایا اس کی نظیر بھی گذشتہ مذاہب میں نہیں ملتی۔

روزہ دار کے فرائض اور اس کی بے مثل جزا کے بارے میں سید المرسلینﷺ کی یہ حدیث قدسی ابدُ الدّہر تک اس صداقت پر گواہ رہے گی۔ قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: قَالَ اللّٰهُ: كُلُّ عَمَلِ ابْنِ آدَمَ لَهُ، إِلَّا الصِّيَامَ فَإِنَّهُ لِي، وَأَنَا أَجْزِي بِهِ، وَالصِّيَامُ جُنَّةٌ، وَإِذَا كَانَ يَوْمُ صَوْمِ أَحَدِكُمْ فَلَا يَرْفُثْ وَلَا يَصْخَبْ، فَإِنْ سَابَّهُ أَحَدٌ أَوْ قَاتَلَهُ، فَلْيَقُلْ: إِنِّي امْرُؤٌ صَائِمٌ، وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ، لَخُلُوفُ فَمِ الصَّائِمِ أَطْيَبُ عِنْدَ اللّٰهِ مِنْ رِيْحِ الْمِسْكِ، لِلصَّائِمِ فَرْحَتَانِ يَفْرَحُهُمَا: إِذَا أَفْطَرَ فَرِحَ، وَإِذَا لَقِيَ رَبَّهُ فَرِحَ بِصَوْمِهِ۔(صحيح البخاري كِتَاب الصَّوْمِ بَابُ ھَلْ یَقُوْلُ اِنِّی صَائِمٌ اِذا شُتِمَحدیث نمبر 1904)

حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہےکہ رسول اللہﷺ نے فرمایا :اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ابن آدم کا ہر عمل اس کے لیے ہوتا ہے سوائے روزہ کے۔ کیونکہ وہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ ہوتا ہوں۔ اور روزہ ایک ڈھال ہے، اور جب تم میں سے کوئی روزے سے ہو تو اسے فحش گوئی نہ کرنی چاہئے اور نہ شور وغل کرے، اگر کوئی شخص اس کو گالی دے یا لڑنا چاہے تو اس کا جواب صرف یہ ہو کہ میں ایک روزہ دار آدمی ہوں۔ اور اس ذات کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں محمدﷺ کی جان ہے! یقیناً روزہ دار کے منہ کی بو اللہ تعالیٰ کے نزدیک بُوئےمشک سے بھی زیادہ پسندیدہ ہے۔ روزہ دار کے لیے دو خوشیاں ہیں جن سے وہ خوش ہوتا ہے۔ پہلی خوشی اس وقت ہوتی ہے جبکہ وہ افطار کرتا ہے۔ اور دوسری جب وہ اپنے رب سے ملاقات کرے گا تو اپنے روزے کا ثواب پا کر خوش ہو گا۔

ماہ صیام میں طلوع فجرسے قبل روزہ رکھنے کی نیت سے کچھ کھانا ’’سحری‘‘ اور غروب آفتاب کے فوراًبعد روزہ کھولنے کے لیے اکل و شرب ’’افطار‘‘کہلاتا ہے۔ شارع اسلامﷺ نےجس اصول و طریق پر مداومت اختیار فرمائی اور امت کو جس کی تلقین فرمائی وہ آخر وقت تک سحری کھانا اور اوّل وقت میں افطار کرنا ہے۔

وقت سحر کی فضیلت

سید الکائناتﷺ نے سحری کے وقت کو قبولیت دعا کا خاص وقت، اور روزہ رکھنے کے لیے سحری کھانے کو لازمی قرار دیاہے۔

عَنْ عَبْد اللّٰهِ بْنِ الْحَارِثِ يُحَدِّثُ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ دَخَلْتُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَتَسَحَّرُ، فَقَالَ: إِنَّهَا بَرَكَةٌ أَعْطَاكُمُ اللّٰهُ إِيَّاهَا فَلَا تَدَعُوهُ۔(سنن نسائي كتاب الصيام بَابُ فَضْلِ السُّحُورِ حدیث نمبر ۲۱۶۴)

حضرت عبداللہ بن حارث بیان کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ کے اصحاب میں سے ایک شخص کہتے ہیں کہ میں نبی اکرمﷺ کے پاس آیا، آپ اس وقت سحری کھا رہے تھے، آپؐ نے فرمایا :یہ برکت ہے جواللہ تعالیٰ نے تمہیں دی ہے پس تم اسے مت چھوڑو۔

عَنْ أَبِي سَعِیْدٍ الْخُدْرِيِّ رضی اللّٰه عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ السَّحُوْرُ أُكْلةُ بَرَكةٍ، فَلَا تَدَعُوْه، وَلَوْ أنْ يَجرَعَ أَحَدُكُمْ جُرْعةً مِنْ مَاءٍ؛ فَإِنَّ اللّٰهَ وَمَلَائِكَتَه يُصَلُّوْنَ عَلَى المُتَسَحِّريْنَ۔(مسند احمد،مسنَد المكثِرِینَ مِنَ الصَّحَابَةِ، مسنَد اَبِی سَعِید الخدرِیِّ رَضِیَ اللّٰه تَعَالَى عَنه۔ حدیث نمبر 11396)

حضرت ابوسعید خدریؓ سے مروی ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا:سحری کھانا باعث برکت ہے اس لیے اسے ترک نہ کیا کرو، خواہ پانی کا ایک گھونٹ ہی پی لیا کرو، کیونکہ اللہ اور فرشتے سحری کھانے والوں کے لیے رحمت کی دعا کرتے ہیں۔

عَنْ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، أَنَّ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَصْلُ مَا بَيْنَ صِيَامِنَا وَصِيَامِ أَهْلِ الْكِتَابِ أَكْلَةُ السَّحَرِ۔ (صحيح مسلم كِتَاب الصِّيَامِ باب فَضْلِ السُّحُورِ وَتَأْكِيدِ اسْتِحْبَابِهِ وَاسْتِحْبَابِ تَأْخِيرِهِ وَتَعْجِيلِ الْفِطْرِ: حدیث نمبر: 2550)حضرت عمرو بن عاصؓ سے روایت ہےکہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ہمارے روزے اور اہل کتاب کے روزے میں فرق سحری کھانا ہے۔

امت کو نصیحت

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:اسْتَعِيْنُوْا بِطَعَامِ السَّحَرِ عَلَى صِيَامِ النَّهَارِ، وَبِالْقَيْلُوْلَةِ عَلَى قِيَامِ اللَّيْلِ۔(سنن ابن ماجه كتاب الصيام بَابُ: مَا جَاءَ فِي السُّحُورِ حدیث نمبر1693)

حضرت عبداللہ بن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: دن کے روزے کے لیے سحری کے کھانے سے مدد لو، اور قیلولہ سے رات کی عبادت میں مدد لو۔

آخر وقت تک سحری

عَنْ عَبْدِ اللّٰهِ بْنِ مَسْعُودٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: لَا يَمْنَعَنَّ أَحَدَكُمْ أَوْ أَحَدًا مِنْكُمْ أَذَانُ بِلَالٍ مِنْ سَحُورِهِ، فَإِنَّهُ يُؤَذِّنُ أَوْ يُنَادِي بِلَيْلٍ لِيَرْجِعَ قَائِمَكُمْ وَلِيُنَبِّهَ نَائِمَكُمْ، وَلَيْسَ أَنْ يَقُولَ الْفَجْرُ أَوِ الصُّبْحُ، وَقَالَ: بأَصَابِعِهِ وَرَفَعَهَا إِلَى فَوْقُ وَطَأْطَأَ إِلَى أَسْفَلُ حَتَّى يَقُولَ هَكَذَا، وَقَالَ زُهَيْرٌ: بِسَبَّابَتَيْهِ إِحْدَاهُمَا فَوْقَ الْأُخْرَى ثُمَّ مَدَّهَا عَنْ يَمِينِهِ وَشِمَالِهِ۔(صحيح البخاري كِتَاب الْأَذَانِ بَابُ الأَذَانِ قَبْلَ الْفَجْرِ حدیث نمبر 621)

حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سےمروی ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا تم میں سے کسی کو بلال کی اذان سحری کھانے سے نہ روک دے کیونکہ وہ رات رہے اذان دیتا ہے یا (فرمایا کہ پکارتا ہے)۔ تاکہ تم میں سے جو تہجد کے لیے کھڑا ہے وہ گھر کو لوٹے اور جو ابھی سوئے ہوئے ہیں وہ ہوشیار ہو جائیں۔ کوئی یہ نہ سمجھ بیٹھے کہ فجر یا صبح صادق ہو گئی اور آپ نے اپنی انگلیوں کے اشارے سے(طلوع صبح کی کیفیت بتائی)۔ انگلیوں کو اوپر کی طرف اٹھایا اور پھر آہستہ سے انہیں نیچے لائے اور پھر فرمایا کہ اس طرح فجر ہوتی ہے۔زُہیر نے اپنی دونوں شہادت کی انگلیوں سے اشارہ کیا۔ ان میں سے ایک دوسری کے اوپر تھی،پھر ہر ایک کو اس نے اپنے دائیں طرف اور بائیں طرف کھینچا۔

عَنْ عَائِشَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ، قَالَ: إِنَّ بِلَالًا يُؤَذِّنُ بِلَيْلٍ، فَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يُؤَذِّنَ ابْنُ أُمِّ مَكْتُومٍ۔(صحيح البخاري كِتَاب الْأَذَانِ بَابُ الأَذَانِ قَبْلَ الْفَجْرِ حدیث نمبر 623)

حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ بلال تو رات رہے اذان دیتا ہے۔ اس لیے تم کھاؤ اور پیو یہاں تک کہ ابن اُم مکتوم اذان دے۔

عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدُبٍ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا يَغُرَّنَّكُمْ أَذَانُ بِلَالٍ، وَلَا هٰذَا الْبَيَاضُ لِعَمُودِ، الصُّبْحِ حَتَّى يَسْتَطِيرَ هٰكَذَا ۔

(صحيح مسلم كِتَاب الصِّيَامِ باب بَيَانِ أَنَّ الدُّخُولَ فِي الصَّوْمِ يَحْصُلُ بِطُلُوعِ الْفَجْرِ وَأَنَّ لَهُ الأَكْلَ وَغَيْرَهُ حَتَّى يَطْلُعَ الْفَجْرُ وَبَيَانِ صِفَةِ الْفَجْرِ الَّذِي تَتَعَلَّقُ بِهِ الأَحْكَامُ مِنَ الدُّخُولِ فِي الصَّوْمِ وَدُخُولِ وَقْتِ صَلَاةِ الصُّبْحِ وَغَيْرِ ذٰلِكَ، حدیث نمبر 2544)

حضرت سمرہ بن جندبؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا :تمہاری سحری کے بارہ میں تمہیں بلالؓ کی اذان دھوکا میں نہ ڈالے۔ اور نہ ہی افق کی اس طرح لمبی (عمودی) سفیدی، یہاں تک کہ وہ اس طرح پھیل جائے۔ اور حماد نے اپنے ہاتھ پھیلا کر اُسے بیان کیا، یعنی چوڑائی کے رخ۔

عَنْ عَبْدِ اللّٰهِ بْنِ مَسْعُودٍ، أَنَّ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: لَا يَمْنَعَنَّ أَحَدَكُمْ أَذَانُ بِلَالٍ مِنْ سُحُورِهِ، فَإِنَّهُ يُؤَذِّنُ لِيَنْتَبِهَ نَائِمُكُمْ، وَلِيَرْجِعَ قَائِمُكُمْ، وَلَيْسَ الْفَجْرُ أَنْ يَقُولَ هٰكَذَا، وَلَكِنْ هٰكَذَا يَعْتَرِضُ فِي أسْفَلِ السَّمَاءِ۔(سنن ابن ماجه كتاب الصيام بَابُ: مَا جَاءَ فِي السُّحُورِ حدیث نمبر1696)

حضرت عبداللہ بن مسعودؓسے روایت ہے کہ رسولﷺ نے فرمایا :تم میں سے کسی کو بلال کی اذان سحری کھانے سے مانع نہ ہو، وہ اذان اس لیے دیتے ہیں کہ تم میں سےجو سو رہا ہے وہ سحری کھانے کے لیے جاگ جائے، اور قیام (یعنی تہجد پڑھنے والا) اپنے گھر چلا جائے، اور صبح صادق وہ نہیں جواوپر کو اٹھتی ہے بلکہ صبح صادق آسمان کے کناروں پر پھیل جاتی ہے۔(عرف عام میں جسے پَوپھٹناکہتےہیں)

رمضان المبارک میں افطار کے حوالے سے سنّت رسولﷺ

وقت افطار قبولیت دعا کا خاص وقت ہے۔ اس لیے اس وقت کو دنیا داری کی باتوں میں ہرگز ضائع نہیں کرنا چاہیے۔

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ثَلَاثَةٌ لَا تُرَدُّ دَعْوَتُهُمْ: الصَّائِمُ حِينَ يُفْطِرُ وَالْإِمَامُ الْعَادِلُ وَدَعْوَةُ الْمَظْلُومِ يَرْفَعُهَا اللّٰهُ فَوْقَ الْغَمَامِ وَتُفْتَحُ لَهَا أَبْوَابُ السَّمَاءِ وَيَقُولُ الرَّبُّ: وَعِزَّتِي لَأَنْصُرَنَّكِ وَلَوْ بعد حِين۔ (مشكوة المصابيح كتاب الدعوات، حدیث نمبر 2249)

حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیںکہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: تین آدمیوں کی دعا ضرور قبول ہوتی ہے، روزہ دار جب وہ افطار کے وقت دعا کرتا ہے، عادل بادشاہ اور مظلوم کی دعا، اللہ اس دعا کو بادلوں کے اوپر اٹھا لیتا ہے، اس کے لیے آسمان کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور رب فرماتا ہے: میری عزت کی قسم! میں ضرور تمہاری مدد کروں گا خواہ کچھ دیر سے ہو۔

افطار میں جلدی

عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، أَنَّ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: لَا يَزَالُ النَّاسُ بِخَيْرٍ مَا عَجَّلُوا الْفِطْرَ۔(صحيح البخاري كِتَاب الصَّوْمِ بَابُ تَعْجِيلِ الإِفْطَارِ: حدیث نمبر: 1957)

حضرت سہل بن سعدؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ہمیشہ لوگ خیر پر رہیں گے جب تک روزہ افطارکرنے میں جلد ی کریں گے۔

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: قَالَ اللّٰهُ عَزَّ وَجَلَّ: أَحَبُّ عِبَادِي إِلَيَّ أَعْجَلُهُمْ فِطْرًا۔

(سنن ترمذي ابواب الصيام باب مَا جَاءَ فِي تَعْجِيلِ الإِفْطَارِ۔ حدیث نمبر 700)

حضرت ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’اللہ عزوجل فرماتا ہے: مجھے میرے بندوں میں سب سے زیادہ محبوب وہ ہیں جو افطار میں جلدی کرنے والے ہیں۔

عَنْ عَاصِمَ بْنَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، عَنْ أَبِيهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:إِذَا أَقْبَلَ اللَّيْلُ مِنْ هَاهُنَا، وَأَدْبَرَ النَّهَارُ مِنْ هَاهُنَا، وَغَرَبَتِ الشَّمْسُ، فَقَدْ أَفْطَرَ الصَّائِمُ۔(صحيح البخاري كِتَاب الصَّوْمِ بَابُ مَتَى يَحِلُّ فِطْرُ الصَّائِمِ: حدیث نمبر: 1954)

حضرت عاصم بن عمر بن خطاب روایت کرتے ہیں، کہ میرے والدحضرت عمرؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہﷺ نےفرمایا: جب رات اس طرف (مشرق) سے آئے اور دن ادھر مغرب میں چلا جائے کہ سورج ڈوب جائے تو روزہ کےافطار کا وقت آ گیا۔

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا يَزَالُ النَّاسُ بِخَيْرٍ مَا عَجَّلُوا الْفِطْرَ، عَجِّلُوا الْفِطْرَ فَإِنَّ الْيَهُوْدَ يُؤَخِّرُوْنَ۔(سنن ابن ماجه كتاب الصيام بَابُ: مَا جَاءَ فِي تَعْجِيلِ الإِفْطَارِ حدیث نمبر1698)ح

ضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جب تک لوگ افطار میں جلدی کرتے رہیں گے ہمیشہ خیر میں رہیں گے، تم لوگ افطار میں جلدی کرو اس لیے کہ یہود اس میں دیر کرتے ہیں۔

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: لَا يَزَالُ الدِّينُ ظَاهِرًا مَا عَجَّلَ النَّاسُ الْفِطْرَ، لِأَنَّ الْيَهُوْدَ وَ النَّصَارَى يُؤَخِّرُوْنَ۔(سنن ابي داؤد كتاب الصيام باب مَا يُسْتَحَبُّ مِنْ تَعْجِيلِ الْفِطْرِ حدیث نمبر 2353)

حضرت ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: دین برابر غالب رہے گا جب تک کہ لوگ افطار میں جلدی کرتے رہیں گے، کیونکہ یہود و نصاریٰ اس میں تاخیر کرتے ہیں۔

حضرت مسیح موعودؑکی تہجد اور سحری کاطریق

حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ اپنی معروف تصنیف سیرت المہدی میں تحریر کرتے ہیں کہ’’ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ 1895ء میں مجھے تمام ماہ رمضان قادیان میں گزارنے کا اتفا ق ہوا اور میں نے تمام مہینہ حضرت صاحب کے پیچھے نماز تہجد یعنی تراویح ادا کی۔ آپ کی یہ عادت تھی کہ وتر اوّل شب میں پڑھ لیتے تھے اور نماز تہجد آٹھ رکعت دو دو رکعت کرکے آخر شب میں ادا فرماتے تھے۔ جس میں آپ ہمیشہ پہلی رکعت میں آیت الکرسی تلاوت فرماتے تھے یعنی اَللّٰہُ لَا اِلٰہَ اِلَّا ھُو سے وَھُوَ الْعَلِیُّ الْعَظِیْم تک اوردوسری رکعت میں سورۃ اخلاص کی قراء ت فرماتے تھے اور رکوع و سجود میں یَا حَیُّ یَا قَیُّوْمُ بِرَحْمَتِکَ اَسْتَغِیْثُ اکثر پڑھتے تھے۔ اور ایسی آواز سے پڑھتے تھے کہ آپ کی آواز میں سُن سکتا تھا نیز آپ ہمیشہ سحری نماز تہجد کے بعد کھاتے تھے اوراس میں اتنی تاخیر فرماتے تھے کہ بعض دفعہ کھاتے کھاتے اذان ہوجاتی تھی اور آپ بعض اوقات اذان کے ختم ہونے تک کھانا کھاتے رہتے تھے۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ دراصل مسئلہ تو یہ ہے کہ جب تک صبح صادق افق مشرق سے نمودار نہ ہوجائے سحری کھانا جائز ہے اذان کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں ہے کیونکہ صبح کی اذان کا وقت بھی صبح صادق کے ظاہر ہونے پر مقرر ہے۔ اس لیے لوگ عمومًا سحری کی حد اذان ہونے کو سمجھ لیتے ہیں۔ قادیان میں چونکہ صبح کی اذان صبح صادق کے پھوٹتے ہی ہو جاتی ہے بلکہ ممکن ہے کہ بعض اوقات غلطی اور بے احتیاطی سے اس سے بھی قبل ہوجاتی ہو۔اس لیے ایسے موقعوں پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اذان کا چنداں خیال نہ فرماتے تھے اور صبح صادق کے تبیّن تک سحری کھاتے رہتے تھے اور دراصل شریعت کا منشاء بھی اس معاملہ میں یہ نہیں ہے کہ جب علمی اور حسابی طورپرصبح صادق کا آغاز ہواس کے ساتھ ہی کھانا ترک کر دیا جاوے بلکہ منشاء یہ ہے کہ جب عام لوگوں کی نظر میں صبح کی سفیدی ظاہر ہو جاوے اس وقت کھانا چھوڑ دیا جاوے۔چنانچہ تبیّن کا لفظ اسی بات کو ظاہر کررہا ہے۔ حدیث میں بھی آتا ہے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ بلال کی اذان پر سحری نہ چھوڑا کرو بلکہ ابن مکتوم کی اذان تک بیشک کھاتے پیتے رہا کرو۔ کیونکہ ابن مکتوم نابینا تھے اور جب تک لوگوں میں شور نہ پڑ جاتا تھا کہ صبح ہوگئی ہے، صبح ہوگئی ہے اس وقت تک اذان نہ دیتے تھے۔‘‘( سیرت المہدی جلد اول حصہ دوم روایت نمبر۳۲۰صفحہ ۲۹۶،۲۹۵۔ایڈیشن ۲۰۰۸ء نظارت نشرو اشاعت قادیان)

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام خود بھی سحری کی پابندی فرمایا کرتے تھے، اور احباب جماعت سے بھی فرمایا کرتے تھے کہ سحری ضروری ہے۔ اسی طرح جو مہمان قادیان میں آیا کرتے تھے ان کی سہولت کے لیے سحری کا باقاعدہ انتظام ہوا کرتا تھا۔اس بارے میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تحریر ہے کہ’’منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میں قادیان میں مسجد مبارک سے ملحق کمرے میں ٹھہرا کرتا تھا۔ میں ایک دفعہ سحری کھا رہا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تشریف لے آئے۔ دیکھ کر فرمایا کہ آپ دال سے روٹی کھاتے ہیں؟ اور اسی وقت منتظم کو بلوایا اور فرمانے لگے کہ سحری کے وقت دوستوں کو ایسا کھانا دیتے ہیں؟ یہاں ہمارے جس قدر احباب ہیں وہ سفر میں نہیں۔ ہر ایک سے معلوم کرو کہ ان کو کیا کیا کھانے کی عادت ہے اور وہ سحری کو کیا کیا چیز پسند کرتے ہیں۔ ویسا ہی کھانا ان کے لئے تیار کیا جائے۔ پھر منتظم میرے لئے اور کھانا لایا مگر مَیں کھا چکا تھا اور اذان بھی ہو گئی تھی۔ حضور نے فرمایا کھا لو۔ اذان جلدی دی گئی ہے۔ اس کا خیال نہ کرو۔‘‘ (سیرت المہدی جلددوم حصہ چہارم روایت نمبر ۱۱۶۳صفحہ۱۲۷۔ ایڈیشن ۲۰۰۸ء نظارت نشرو اشاعت قادیان)

مسیح کا من و سلویٰ

شیخ کرم الٰہی صاحبؓ پٹیالوی کی روایت ہے کہ ایک دفعہ وہ سخت سردیوں کے مہینے میں رمضان گزارنے کےلیےقادیان آئے اور مسجد مبارک سے متصل کمرے میں حکیم فضل الدین بھیروی کے ساتھ رہائش مل گئی۔ حضور علیہ السلام اسی کمرہ میں سے گزر کر نماز کے لیے تشریف لاتے تھے۔شیخ کرم الٰہی صاحب بیان کرتے ہیں کہ ’’ایک دفعہ سحری کے وقت دروازہ کھلا خاکسار سامنے بیٹھا تھا یہ دیکھ کر کہ حضرت صاحبؑ دروازہ میں کھڑے ہیں تعظیماً کھڑا ہوگیا۔ حضورؑ نے اشارے سے اپنی طرف بلایا میں جب آگے بڑھا تو دیکھا کہ حضورؑ کے دونوں ہاتھوں میں دو چینی کے پیالے ہیں جن میں کھیر تھی حضورؑ نے وہ دونوں پیالے خاکسار کو دیتے ہوئے فرمایا کہ جن احباب کے نام ان پر لکھے ہوئے ہیں دیکھ کر ان کو پہنچا دو میں نے وہ حکیم صاحب کے پیش کیے انہوں نے مسجد میں سے کسی کو طلب کرکے وہ پیالے ان احباب کو پہنچا دیے جن کے نام سیاہی سے لکھے ہوئے تھےاس کے بعد پھر دروازہ کھلا۔ پھرحضرت صاحب دو پیالے پکڑا گئے۔ وہ بھی جن کے نام کے تھے ان کو پہنچا دیے گئے۔ اس طرح حضرت صاحبؑ خود دس گیارہ دفعہ پیالے لاتے رہے اور ہم ان اشخاص کو مہمان خانہ میں پہنچاتے رہے۔ آخری دفعہ میں جو دوپیالے حضورؑ نے دیے ان میں سے ایک پرحکیم صاحب کا نام اور دوسرے پر میرا نام تحریر تھا حکیم صاحب نے کھیر کھا کر کہا کہ آج تو مسیح کا من و سلویٰ اترآیا۔‘‘(سیرت المہدی جلددوم حصہ چہارم روایت نمبر ۱۰۸۸ صفحہ۶۹۔ ایڈیشن ۲۰۰۸ء نظارت نشرو اشاعت قادیان)

حرف آخر

اسلام کی تعلیم اعتدال سے عبارت ہے، یہ افراط و تفریط سے مبرافطرت انسانی کے مطابق قابل عمل تعلیم کا منبع اور خزانہ ہے۔ اور اس کی یہی خوبی اسے باقی تمام مذاہب سے ممتاز کرتی ہے۔ رمضان المبارک بھی زندگی اور طبیعت میں ٹھہراؤ اور اعتدال پیدا کرنے کا نام ہے۔ رمضان المبارک انسانی زندگی کو تکلفات سے پاک کرنے کا مہینہ ہے، اس لیے اس میں بھی اعتدال ہونا چاہئے۔ روزہ ایک کیفیت اور احساس کا بھی نام ہے۔ چنانچہ اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے ایک ارشاد کا حوالہ دیتے ہوئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ تفسیر کبیر میں بیان کرتے ہیں :’’پھر فرماتا ہے یُرِیْدُ اللّٰہُ بِکُمُ الُیُسْرَ وَلَایُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْر۔اللہ تعالیٰ تمہارے لئے آسانی چاہتا ہے تنگی نہیں چاہتا۔ یعنی ہم نے رمضان میں روزے اس لئے مقرر کیے ہیں کہ ہم یہ برداشت نہیں کر سکتے تھے کہ تم ایمان لاؤ اور پھر اپنی زندگی تنگیوں میں بسر کرو۔ حالانکہ بظاہر یہ دکھائی دیتا ہے کہ ان دنوں مومنوں کو اپنے نفس پر زیادہ تنگی برداشت کرنی پڑتی ہے۔درحقیقت اس آیت میں ایک عظیم الشان نکتہ بتایا گیا ہے کہ خدا تعالیٰ کے لئے بھوکا رہنا یا دین کے لئے قربانیاں کرنا انسان کے لئے کسی نقصان کا موجب نہیں بلکہ سراسر فائدے کا باعث ہوتا ہے۔ جو شخص یہ خیال کرتا ہے کہ رمضان میں انسان بھوکا رہتا ہے وہ قرآن کریم کی تکذیب کرتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم بھوکے تھے ہم نے رمضان مقرر کیا تا تم روٹی کھاؤ۔ پس معلوم ہوا کہ روٹی وہی ہے جو خدا تعالیٰ کھلاتا ہے اور اصلی زندگی اسی سے وابستہ ہے کہ انسان خدا کے لئے قربانی کرےاور پھر جو کچھ ملے اسے خدا تعالیٰ کا شُکر ادا کرتا ہوا کھائے…مومن کا فرض ہے کہ جو لقمہ اس کے منہ میں جائے اس کے متعلق پہلے دیکھے کہ وہ کس کے لئے ہے۔ اگر تو وہ خدا کے لئے ہے تو وہی روٹی ہے اور اگر نفس کے لئے ہے تو وہ روٹی نہیں بلکہ پتھر ہیں۔ اسی طرح جو کپڑا خدا کے لئے پہنا جائے وہی لباس ہے۔ جو نفس کے لئے پہنا جاتا ہے وہ ننگا ہے۔ دیکھو کیسے لطیف پیرائے میں بتایا کہ جب تک خدا کے لئے تکالیف اور مصائب برداشت نہ کرو تم سہولت حاصل نہیں کر سکتے۔ اس سے ان لوگوں کے خیال کا بھی اِبطال ہو جاتا ہے جو بقول حضرت مسیح موعود علیہ السلام رمضان کو موٹے ہونے کا ذریعہ بنا لیتے ہیں۔ آپ فرمایا کرتے تھے کہ بعض لوگوں کے لئے تو رمضان ایسا ہی ہوتا ہے جیسے گھوڑے کے لئے خوید۔ وہ ان دنوں میں خوب گھی، مٹھائیاں اور مرغن اغذیہ کھاتے ہیں اور اسی طرح موٹے ہو کر نکلتے ہیں جس طرح خوید کے بعد گھوڑا۔ یہ چیز بھی رمضان کی برکت کو کم کرنے والی ہے۔اسی طرح افطاری میں تنوع اور سحری میں تکلفات بھی نہیں ہونے چاہئیں اور یہ خیال نہیں کرنا چاہئے کہ سارا دن بھوکے رہے ہیں اب پُرخوری کرلیں۔ رسول کریمﷺ کے زمانہ میں صحابہ کرامؓ افطاری کے لئے کوئی تکلفات نہ کرتے تھے۔ کوئی کھجور سے، کوئی نمک سے، بعض پانی سے اور بعض روٹی سے افطار کر لیتے تھے۔ ہمارے لئے بھی ضروری ہے کہ ہم اس طریق کو پھر جاری کریں اور رسول کریمﷺ اور صحابہؓ کے نمونہ کو زندہ کریں‘‘۔(تفسیر کبیر جلد دوم سورۃ البقرہ زیر آیت۱۸۶،صفحہ ۳۹۶،۳۹۵۔ایڈیشن اپریل ۱۹۸۶ء)

قادر مطلق ہم سب کو اس مقدس مہینے سے بھرپور فائدہ اٹھانے اور رحمت و مغفرت سے جھولیاں بھرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button