اداریہ

ایک دوسرے کے لیے دعائیں کرنا

(حافظ محمد ظفر اللہ عاجزؔ)

ایک عادت جو اسلامی سیرت کا ٹھیٹھ نمونہ قرار دی جانے والی جماعت احمدیہ میں راسخ ہو چکی وہ ہے گفتگو کا اختتام ایک دوسرے کو دعا کی درخواست سےکرنا۔ ہر احمدی اس بات سے متفق ہو گا کہ چاہے جماعتی یا ذیلی تنظیم کی میٹنگ کا اختتام ہو یا گھر میں ہونے والی کسی دعوت کے بعد مہمانوں کا الوداع، دو سہیلیاں، دوست، بہنیں، بھائی ٹیلی فون پر لمبی بات کر کے ایک دوسرے سے اجازت طلب کرنے لگیں یا کوئی سفر پر نکلنے سے قبل دو گھڑی کھڑا ہو، اکثر مکالمے کی تان ’’دعاؤں میں یاد رکھنا‘‘ پر ہی آ کر ٹوٹتی ہے۔ اَور تو اور اگر کسی کو گفتگو ختم کرنے کی جلدی ہو تو وہ بھی ’’اچھا تو جناب! اپنی خاص دعاؤں میں یاد رکھیے گا‘‘ کہہ کر اجازت کا طلبگار ہوتا ہے، اب اس کی قسمت کہ فریقِ ثانی مدعا سمجھ جائے یا جواباً لمبی دعائیں دینے لگے!

الغرض ایک دوسرے کو دعاؤں کا کہنا اور یاد رکھنا احمدی معاشرے کا غیر محسوس لیکن جزو لاینفک ہے۔ قرآنِ کریم اور سنتِ نبویؐ سے مومنین کا ایک دوسرے کے لیے دعائیں کرنا اور ایک دوسرے کو دعا کا کہنا ثابت ہے۔ سورۂ حشر آیت گیارہ میں اللہ تعالیٰ اسلامی معاشرے میں بسنے والے مومنوں کی ایک خوبی یہ بھی بیان فرماتا ہے کہ وہ ایک دوسرے کے لیے دعائیں کرتے ہیں۔ چنانچہ آیہ کریمہ کا ترجمہ ہے: اور جو لوگ اُن کے بعد آئے وہ کہتے ہیں کہ اے ہمارے ربّ! ہمیں بخش دے اور ہمارے اُن بھائیوں کو بھی جو ایمان میں ہم پر سبقت لے گئے اور ہمارے دلوں میں اُن لوگوں کے لئے جو ایمان لائے کوئی کینہ نہ رہنے دے۔ اے ہمارے ربّ! یقیناً تو بہت شفیق (اور) بار بار رحم کرنے والا ہے۔

ایک مشہور روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آدمی کی اپنے بھائی کےحق میں پیٹھ پیچھے کی جانے والی دعا قبول ہوتی ہے۔ جب وہ اپنے بھائی کے لیے دعائے خیر کرتا ہے تو اس کے سر پر ایک فرشتہ متعین ہوتا ہے جو اُس پر آمین کہتا ہے اور ساتھ میں کہتا ہے کہ تیرے لیے بھی اس جیسی ہی (خیر) ہو۔ گویا ایک جانب پیٹھ پیچھے برائی کرنے کو ایک کراہت آمیز فعل سے نسبت دی گئی تو دوسری جانب اپنے بھائی کی غیر موجودگی میں اس کے لیے دعا کرنے کو ایسی نیکی قرار دیا گیا جس کا اجرِ عظیم فرشتوں کی مقبول دعاؤں کی صورت اسے عطا کیا جاتا ہے۔

روایت میں آتا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے نبی اکرمﷺ سے عمرے پر جانے کی اجازت چاہی تو بادشاہِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دی اور فرمایا ’’لَا تَنْسَنَا يَا أُخَيَّ مِنْ دُعَائِكَ‘‘کہ اے میرے چھوٹے بھائی! ہمیں اپنی دعاؤں میں نہ بھولنا۔‘‘ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ایسے کلمات ارشاد فرمائے کہ ان کے بدلے میں اگر مجھے پوری دنیا بھی دے دی جائے تو مجھے اتنی خوشی نہ ہو جتنی اُن کلمات کو سن کر ہوئی۔ یہ حدیث سے ایک جانب سرورِ کونین ﷺ کی کمال عاجزی اور انکساری اور اپنے صحابہ پر شفقت روزِ روشن کی طرح ثابت کرتی ہے تو دوسری جانب سیرت النبیؐ سے اپنے مسلمان بھائی کو دعا کے لیے کہنے کا ثبوت بھی فراہم کرتی ہے۔

صحیح مسلم میں ایک روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:تابعین میں سے بہترین انسان وہ شخص ہے جسے اویس کہتے ہیں، اس کی والدہ ہے (یعنی زندہ ہے) اور اس کے جسم میں سفیدی ہے۔ اس سے کہو کہ تمہارے لیے استغفار (یعنی دعا)کرے ۔

حضرت امیرالمومنین ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ جمعہ ۲۸؍ نومبر۲۰۱۴ء میں احمدیوں کو ایک دوسرے کے لیے دعائیں کرنے کی تحریک کرتے ہوئے فرمایا:’’ہر ایک کو دوسرے کے لئے دعائیں کرنے کی ضرورت ہے تا کہ اللہ تعالیٰ کی مدد ہر وقت ہر جگہ ہر احمدی کے شامل حال ہو۔ اور جب ہماری یہ حالت ہو گی تو خدا تعالیٰ کی مدد اور نصرت کے حیرت انگیز نظارے ہم دیکھیں گے۔‘‘

ہم سب بحیثیت جماعت اور بطور احمدی خوش نصیب ہیں کہ ہمارے درمیان ایک ایسا وجود باجود موجود ہے جس کی دعائیں بلا تفریق رنگ و نسل یا ملک، ہر قدم اور ہر مرحلے پر احمدیوں کے ساتھ رہتی ہیں۔ ہم کسی خاص سفر پر نکلنے لگیں، ہمارے امتحانات ہوں، کوئی بیمار ہو، پریشانی ہو، خوشی ہو یا خدانخواستہ کوئی غم درپیش ہو، ہر احمدی کے لیے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں دعائیہ خط بھجوانا اولین ترجیحات میں شامل ہوتا ہے۔اور پھر ہم ان دعاؤں کی برکات سے فیضیاب بھی ہوتے ہیں۔ یہ ہماری ایسی خوش نصیبی ہے کہ اگر ہم سمجھیں تو اس کے مقابل پر دنیا کی ساری دولتیں ہیچ ہیں!

حضرت مصلح موعودؓ نے بھی جماعت کی اس خوش نصیبی کا اظہار یوں فرمایاکہ ’’تمہارے لیے ایک شخص تمہارا درد رکھنے والا، تمہاری محبت رکھنے والا، تمہارے دکھ کو اپنا دکھ سمجھنے والا، تمہاری تکلیف کو اپنی تکلیف جاننے والا، تمہارے لئے خدا کے حضور دعائیں کرنے والا ہے۔‘‘(برکات خلافت، انوار العلوم جلد 2صفحہ 158)

حضرت امیرالمومنین ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اس امر کا ذکر ایک خطبہ جمعہ میں کچھ اس طرح فرماتے ہیں: ’’خلیفۂ وقت کا تو دنیا میں پھیلے ہوئے ہر قوم اور ہر نسل کے احمدی سے ذاتی تعلق ہے۔ ان کے ذاتی خطوط آتے ہیں جن میں ان کے ذاتی معاملات کا ذکر ہوتا ہے۔ ان روزانہ کے خطوط کو ہی اگر دیکھیں تو دنیا والوں کے لئے ایک یہ ناقابلِ یقین بات ہے۔ یہ خلافت ہی ہے جو دنیا میں بسنے والے ہر احمدی کی تکلیف پر توجہ دیتی ہے۔ ان کے لئے خلیفۂ وقت دعا کرتا ہے۔… جماعت احمدیہ کے افراد ہی وہ خوش قسمت ہیں جن کی فکر خلیفۂ وقت کو رہتی ہے کہ وہ تعلیم حاصل کریں۔ ان کی صحت کی فکر خلیفۂ وقت کو رہتی ہے۔ رشتے کے مسائل ہیں۔ غرض کہ کوئی مسئلہ بھی دنیا میں پھیلے ہوئے احمدیوں کا چاہے وہ ذاتی ہو یا جماعتی، ایسا نہیں جس پر خلیفۂ وقت کی نظر نہ ہو اور اس کے حل کے لئے وہ عملی کوشش کے علاوہ اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتا نہ ہو۔ اس سے دعائیں نہ مانگتا ہو۔ مَیں بھی اور میرے سے پہلے خلفاء بھی یہی کچھ کرتے رہے۔

…دنیا کا کوئی ملک نہیں جہاں رات سونے سے پہلے چشم تصور میں مَیں نہ پہنچتا ہوں اور ان کے لئے سوتے وقت بھی اور جاگتے وقت بھی دعا نہ ہو۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ ۶؍جون ۲۰۱۴ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۲۷؍جون ۲۰۱۴ء صفحہ۷)

قدرتی طور پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ خلیفۂ وقت کی دعاؤں کا حق دار ٹھہرنے کے لیے کیا خاص کیا جائے؟ کیا محض خلافت کی بیعت میں آجانا ہمیں خلیفۂ وقت کی دعاؤں کا وارث بنا دیتا ہے؟ یقیناً ہر احمدی حضور کی دعاؤں سے کسی نہ کسی حد تک فیض پاتا ہے لیکن جیسا کہ قاعدہ ہے کہ شاخ درخت سے جتنا مضبوط تعلق رکھے گی اتنی ہی سرسبزوشاداب رہے گی، اسی طرح جتنا زیادہ کسی کا خلافت سے پختہ تعلق ہوگا اتنا ہی زیادہ وہ خلیفۂ وقت کی دعاؤں کا مستحق ٹھہرے گا۔

رہا یہ سوال کہ خلافت سے پختہ تعلق کیسے قائم ہو! اسے سمجھنے کے لیے چلتے ہیں جامعہ احمدیہ ربوہ کی مسجد حسن اقبال میں۔ جامعہ دَور میں بعض اوقات ہمارے بہت ہی بزرگ اور محترم پرنسپل صاحب جستہ جستہ نصائح فرمادیا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ نماز ظہر جو ختم ہوئی تو محترم پرنسپل صاحب نے کھڑے ہو کر اپنے مخصوص دھیمے انداز میں اس امر پر زور دیا کہ مبلغ کی کامیابی خلافت سے پختہ تعلق کے بغیر ممکن نہیں۔ اور پھر یہ سوال اٹھا کر کہ یہ تعلق کیسے پیدا ہوخود ہی کہنے لگے کہ خط لکھ کر بھی تعلق پیدا ہو سکتا ہے، رابطہ رکھ کر بھی تعلق پیدا ہو سکتا ہے لیکن خلیفۂ وقت سے پختہ تعلق پیدا کرنے کا ایک آزمودہ نسخہ ہے خلیفۂ وقت کے لیے باقاعدہ دعا کرنا۔ اپنی ہر نماز میں کم از کم ایک سجدہ اس بابرکت وجود کے لیے وقف کر دینا۔

ہم اُس بابرکت مہینے سے گزر رہے ہیں جس میں قدم قدم پر دعائیں کرنے اور ان کی قبولیت کے سامان میسر ہیں۔ پس جہاں ان مبارک دنوں میں ہم ایک دوسرے کو دعاؤں میں یاد رکھیں وہاں سب سے بڑھ کر ہماری دعائیں ہمارے پیارے امام، ہمارے خلیفہ حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے لیے ہونی چاہئیں جو ہم پر ایک شفیق باپ سے بڑھ کر شفقت کرنے والے، ہر امر میں ہماری راہنمائی فرمانے والے اور قدم قدم پر ہمارے لیے دعائیں کرنے والے ہیں۔

آئیے ہم سب مل کر اس امر کا التزام کریں کہ جہاں ہم اپنے دین اور دنیا کی بھلائی کی خاطر خلیفۂ وقت سے پختہ اور مخلصانہ تعلق قائم کریں، حضورِ انور کے ارشادات و احکام کی اطاعت کرنے کی پوری کوشش کریں وہاں ہم اپنے امام کے لیے دعائیں کرنا اپنی ذمہ داری سمجھیں اور اپنی نمازوں میں کم از کم ایک سجدہ حضور کے لیے وقف کر دیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button