متفرق مضامین

مذاہبِ عالم میں روزہ کا تصور

(انیس رئیس۔ مبلغ انچارج جاپان)

قرآن کریم میں صیامِ رمضان کی فرضیت کا اعلان کرتے ہوئے جس انداز سے روزہ کے فضائل وبرکات بیان کیے گئے ہیں انہیں پڑھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسےگذشتہ تمام ادیان و ملل کی تعلیم سے خوبصورت و دلکش پھول چن کر انہیں ایک گلدستہ کی شکل دےدی گئی ہو

اسلام اِس آفاقی نظریہ کا قائل ہے کہ دنیا کی تمام مذہبی سچائیوں کا سرچشمہ خدائے واحد کی ذات ہے۔قرآن کریم تکرار کے ساتھ اس مضمون کو بیان کرتے ہوئے دنیا کی تمام اقوام و ملل میں خدا تعالیٰ کی طرف سے مامور ہونے والی برگزیدہ ہستیوں کی خبر دیتا ہے جو اپنے اپنے زمانہ میں ابنائے آدم کو رُشد وہدایت کی دعوت دیتی رہیں۔وَاِنۡ مِّنۡ اُمَّۃٍ اِلَّا خَلَا فِیۡہَا نَذِیۡرٌ(فاطر:25)یعنی کوئی امت ایسی نہیں جس کے پاس کوئی ڈرانے والا نہیں آیا۔

بانئ اسلام، خاتم النبیین آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت اُن تمام گذشتہ سچائیوں اور چھپی ہوئی صداقتوں کے لیے مہرِ تصدیق ثابت ہوئی جودیو مالائی قصوں اور وقت کی گرد تلے چھپ کر انسانی نظروں سے پوشیدہ ہوچکی تھیں۔گوکہ خدا ئے واحد کی عبادت ازمنۂ قدیم سے جاری تھی مگر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد سے توحید اتم کا قیام عمل میں آیا اور نماز، جمعہ او رحج کی صورت میں عبادت الٰہی کی ایک صورت تشکیل پائی جس کی مثال ادیانِ سابقہ میں ملنا مشکل ہے۔اسی طرح روزہ کا تصور مشرق ومغرب کے ہر مذہب اور معاشرہ میں موجود چلا آرہا تھا لیکن اسلامی تعلیم میں روزہ کا فلسفہ، حکمت اور آداب جس شرح و بسط سے بیان ہوئے ہیں صحفِ سابقہ اس کی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے والوں کے لیے نہ صرف روزہ فرض قرار دیا بلکہ اس عبادت کو پانچ ارکان اسلام میں شامل کرکے مسلمانوں کو یہ تاکید فرمائی کہ ان میں سے جو روزہ کی طاقت رکھیں اور مریض یا مسافر نہ ہوں تو وہ ہر سال ماہِ رمضان میں ایک قمری مہینہ کے روزےبجالاویں۔روزہ کو قرآن کریم کی اصطلاح میں صوم کہا گیا اور ماہِ صیام کی فرضیت کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا:یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُتِبَ عَلَیۡکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ لَعَلَّکُمۡ تَتَّقُوۡنَ۔(البقرہ:184)یعنی اے لوگو جو ایمان لائے ہو تم پر اسی طرح روزے رکھنے فرض کیے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو۔

سورة البقرہ کی یہ آیت صرف اس بات کا اعلان نہیں کہ اسلام سے پہلی امتوں اور اقوام وملل میں بھی روزہ کا تصور موجود تھا بلکہ اس آیت میں یہ حقیقت بھی آشکار کی گئی کہ ادیانِ گذشتہ میں سے بعض روزہ کی فرضیت کے بھی قائل تھے۔ مذاہب عالم میں روزہ کے بارے میں کچھ عرض کرنے سے قبل روزے کےعمومی تصورکا ذکرضروری معلوم ہوتاہے۔ Encyclopedia of Religions لفظFasting کے تحت لکھتا ہے کہ’’روزہ یعنی غذا سے مکمل یا جزوی پرہیز ایک ایسا آفاقی عمل ہے جو مشرق و مغرب کی تقریباً سبھی تہذیبوں میں پایا جاتا ہے۔‘‘

انسائیکلو پیڈیا برٹینیکا روزہ کی تعریف کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ’’خاص مقاصد کے لیے یا اہم مقدس تقریبات کے دوران یا ان سے قبل روزہ رکھنا دنیا کے بڑے بڑے مذاہب کا خاصہ ہے۔‘‘

Jewish Encyclopedia لکھتا ہے کہ ’’روزے کی تعریف عموماً یہ کی جاتی ہے کہ مذہبی اور اخلاقی مقاصد کے حصول کے لیے خوش دلی سے جسم کو ایک مقررہ مدت کے لیے تمام قدرتی غذاؤں سے محروم رکھنا۔ روزے کے اس تصورکو دنیا کے تمام مذاہب میں بہت مقبولیت حاصل رہی ہے۔ اگرچہ یہ بھی حقیقت ہے کہ مختلف مذاہب اور قوموں میں اس کے محرکات اور اس کی شکلیں مختلف رہی ہیں۔‘‘

ہندوؤں میں روزہ کا تصور

ہندو مت دنیا کا قدیم اور تیسرا بڑا مذہب متصور ہوتا ہے۔ہندوؤں میں روزے کے لیے ’’ورت ‘‘ یا’’ برت‘‘ کی اصطلاح عام ہے۔ نئے چاند کے موقع پر اور شوراتری اور سرسوتی جیسے تہواروں کی مناسبت سے روزے رکھنا ہندو مت کے پیروکاروں کا معمول ہے۔ہندوؤں میں نئے اور پورے چاند کے د نوں میں بھی روزہ رکھنے کا رواج ہے۔Sacred ۔Books of the Eastمیں ویدوں کے حوالے سے ان روزوں کی ترغیب یوں دلائی گئی ہے کہ’’صاحبِ خانہ اور اس کی بیوی کو نئے اور پورے چاند کے دنوں میں روزہ رکھنا چاہیے۔‘‘ (جلد2، صفحہ100)

ہندومت میں روزہ روحانیت کے حصول، غلطیوں کے ازالہ اور پُر امن احتجاج کا ذریعہ تصور ہوتا ہے۔ مختلف علاقوں میں بسنے والے ہندوؤں میں اپنے پسندیدہ خداؤں کو خوش کرنے،آشاؤں کی قبولیت اور اپنے علاقائی تہواروں کی مناسبت سے بھی روزہ رکھنے کا رواج قدیم سے چلا آرہا ہے۔مغربی بنگال میں بسنےو الے ہندو دُرگا پوجا کے موقع پر روزوں کا اہتمام کرتے ہیں تو بعض دیگر علاقوں میں بسنے والے ہندو اپنے پسندیدہ دنوں میں یا خاندانی روایات کے ماتحت مرضی کے ایام میں روزے رکھتے ہیں۔

ہندو مت کے ورت کے دوران عموماً چولھے پر پکی ہوئی اشیا کھانے سے پرہیز کیا جاتا ہے جبکہ پانی پینے اور پھل وغیرہ کھانے کی اجازت ہوتی ہے۔ ورت کی حالت میں گھنٹوں تک ایک جگہ پر دھونی رما کر بیٹھ جانے کا تصور بھی ہندوؤں میں پایا جاتا ہے۔

پارسی مذہب میں روزہ

پارسی مذہب جسے قرآن کریم کی اصطلاح میں مجوسیت کہا گیا ہے اس کا آغاز ایران سے ہوا اور یہ مذہب اپنے عقائد کے لحاظ سے توحیدی مذہب متصور ہوتا ہے۔ ہندو مت کی طرح اہل مجوس یا پارسی بھی خود کو دنیا کا قدیم ترین مذہب خیال کرتے ہیں لیکن محققین اس بارےمیں اختلاف کا شکار ہیں۔جدید محققین اس بات کے قائل ہیں کہ حضرت زرتشت کی پیدائش پانچ سو برس قبل مسیح سے لے کرڈیڑھ ہزار سال قبل مسیح کے مابین ہوئی۔

توحید کے علاوہ، جنت و دوزخ اور نیکی و بدی کے تصور کے بارے میں اہل مجوس کے عقائد ابراہیمی مذاہب سے مماثل اور قریب ترنظر آتے ہیں مگر پارسیوں میں روزے کے بارے میں اس قدر تلقین اور اصرار نہیں پایا جاتا جس قدر تاکید دیگر مذاہب وادیان میں ملتی ہے۔بلکہ پارسیوں کا عمومی خیال یہ ہےکہ کھانا پینا انسانی جسم کی نشوو نما کے لیے نہایت ضروری ہے اورروزہ انسانی صحت کے لیے مضر ثابت ہوسکتا ہے لہٰذا اس مذہب کے عام پیروکاروں کو روزہ کی بہت زیادہ تلقین نہیں کی گئی۔مگرزرتشتیوں میں کھانے پینے سے مکمل طور پر اجتناب کی بجائے جزوی روزوں کا تصور موجود ہے جیسا کہ ایک ماہ کے لیے گوشت کھانے سے اجتناب۔ مگر سید سلیمان ندوی صاحب ’’سیرت النبی‘‘ میں پارسیوں کے ہاں روزے کے بارے میں لکھتے ہیں:’’پارسی مذہب میں گو عام پیروؤں پر روزہ فرض نہیں لیکن ان کی الہامی کتاب کی ایک آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ روزہ کا حکم ان کے ہاں موجود تھا۔ خصوصاً مذہبی پیشواؤں کے لیے تو پنج سالہ روزہ ضروری تھا۔‘‘ (جلد5 صفحہ242)اسی طرح قارئین کے لیے یہ بات بھی غیر معمولی دلچسپی کا باعث ہوگی کہ اردو زبان میں رائج لفظ نماز اور روزہ فارسی زبان سے ماخوذ ہیں اور اہل اردو نے یہ الفاظ پارسی مذہب سے مستعار لیے ہیں۔یوں اس مذہب میں ’’روزہ‘‘ کا لفظ ہی اس بات کا اظہار ہے کہ مجوسیوں کے ہاں بھی کسی نہ کسی رنگ میں روزہ کا تصور موجود ہے۔

یہودی مذہب میں روزہ کا تصور

ابراہیمی مذاہب میں سے پہلا مذہب یہودیت ہے جو تقریباً ساڑھے تین ہزار سال قدیم ہے۔ اس مذہب کے بانی حضرت موسیٰ علیہ السلام تھے، جن کے بعد اہل یہود کی رُشد وہدایت کے لیے ہزارہا پیغمبران خدا مبعوث ہوئے۔قرآن کریم اور تورات کے مطالعہ سے پتا چلتا ہے کہ حضرت موسیٰ، حضرت یسعیاہ،حضرت زکریااور حضرت دانیال علیہم السلام سمیت روزہ رکھنا انبیائے بنی اسرائیل کی سنت ہے۔ توریت اور صحف میں ان برگزیدہ ہستیوں کے روزہ رکھنے کا ذکر محفوظ ہے۔اللہ تعالیٰ کےفرستادوں کی اس سنت کی پیروی میں ازمنۂ قدیم سےہی یہودی امت میں بھی بعض روزے رائج ہیں۔

آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کے بعد مدینہ تشریف لائے تو اہل قریش کی طرح یہود کو بھی روزہ رکھتے دیکھا اور یہ مشاہدہ کیاکہ وہ دس محرم کا روزہ رکھتے ہیں، آپ ﷺ کے استفسار پر یہود نے بتایا کہ یہ دن ان کے لیے غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔ چنانچہ حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کچھ ایسے یہودیوں کے پاس سے گزرے جنہوں نے یوم عاشور کا روزہ رکھا ہوا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے دریافت فرمایا: یہ کیسا روزہ ہے۔ انہوں نے جواب دیا کہ آج کے دن ہی اللہ نے موسیٰ اور بنی اسرائیل کو غرق ہونے سے بچایا تھا۔ اور اس روز فرعون غرق ہوا تھا، نوح کی کشتی جُودی پہاڑ پر رکی تھی۔ نوح علیہ السلام نے اور موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے شکرانے کے طور پر اس دن روزہ رکھا تھا۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں موسیٰ کے ساتھ تعلق اور نسبت میں سب سے بڑھ کر ہوں پس اسی وجہ سے اس دن روزہ رکھنے کا بھی میں زیادہ حقدار ہوں۔ پھر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی روزہ رکھا اور اپنے صحابہ کو بھی یومِ عاشور کا روزہ رکھنے کی تلقین فرمائی۔ (مسند احمد بن حنبل جلد 2صفحہ 359-360 مطبوعہ بیروت)جب ہم توریت کا مطالعہ کرتے ہیں تو انبیائے بنی اسرائیل کے بارے میں جا بجا یہ ذکر ملتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حضور عبادت اور دعاؤں کی غرض سے روزوں کا اہتمام کرتے ۔ توریت میں روزے کی اصطلاح کے علاوہ ’’ اپنی جان کو دُکھ دینے ‘‘کا محاورہ بھی روزہ کی ریاضت اور ضبط نفس کی تعلیم کو بیان کرتا ہے۔حضرت موسیٰ علیہ السلام جب کوہ طور پر تشریف لے گئے تو اس کیفیت کا بیان یوں مذکور ہے کہ’’ اور خدا وند نے موسیٰ سے کہا اسی ساتویں مہینے کی دسویں تاریخ کو کفارے کا دن ہے۔ اس روز تمہارا مقدس مجمع ہو اور تم اپنی جانوں کو دکھ دینا… جو شخص اس دن اپنی جان کو دکھ نہ دے وہ اپنے لوگوں میں سے کاٹ ڈالا جائے‘‘ (احبار۔ باب23آیات 26تا31)حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں فرمایا :’’ سو وہ (موسیٰ) چالیس دن اور چالیس رات وہیں خدا وند کے پاس رہا اور نہ روٹی کھائی۔ نہ پانی پیا‘‘(خروج۔ باب 34آیت28)

اسی طرح روزہ کے نتیجہ میں خوشی اور شادمانی کا تصور بیان کرتے ہوئے فرمایا گیا کہ’’اور میں نے رب الافواج کا کلمہ پایا۔ اس نے کہا کہ رب الافواج یوں فرماتا ہے: چوتھے مہینے کا روزہ اور پانچویں کا روزہ اور ساتویں کا روزہ اور دسویں کا روزہ یہودہ کے گھرانے کے لیے خوشی اور خرمی کا موقع اور شادمانی کی عید ہو گا۔ تم فقط سچائی اور سلامتی کو عزیز جانو۔‘‘ (زکریا باب8آیت 19,18)حضرت یسعیاہ روزہ کے ساتھ قبولیت دعا کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :’’ دیکھو تم اس مقصد سے روزہ رکھتے ہو کہ جھگڑا رگڑا کرو اور شرارت کے مُکّے مارو۔ پس اب تم اس طرح کا روزہ نہیں رکھتے ہو کہ تمہاری آواز عالمِ بالا پر سُنی جائے ‘‘(یسعیاہ۔ باب58آیت4)

انبیائے بنی اسرائیل علیہم السلام کے تتبع اور پیروی میں یہودیوں کے ہاں روزہ کو ایک خاص مرتبہ اور تقدس حاصل ہے۔ بعض روزے ماضی کے یادگار ایام یا اللہ تعالیٰ کے بعض احسانوں پر شکرانے کے طور پر رکھے جاتے ہیں اور بعض روزے ایسے ہیں جو یہودی علماء اور ربانیوں کی ہدایت پر نفلی رنگ میں رکھے جاتے ہیں۔اسی طرح بعض روزے تمام یہودی ملت کے لیے رکھنے ضروری ہیں اور بعض ایسے روزے ہیں جو مخصوص طبقات یا علماء وغیرہ میں رائج ہیں۔

یہودیوں کے ہاں روزہ کو ’’ تعنیت‘‘ کہا جاتا ہے۔دو روزے یعنی یوم کپور اورTisha B Aveکے روزےmajor fasting کہلاتے ہیں جن میں سےیومِ کپور یا یومِ غفران کا روزہ سب سے مقد س اور ضروری خیال کیا جاتا ہے۔عبرانی تقویم کے تشری مہینہ کی دس تاریخ کا یہ روزہ غروب آفتاب سے اگلے دن غروب آفتاب تک رکھا جاتا اور اس دن کو سال بھرکے لیے یوم توبہ کے طور پر منایا جاتا ہے۔

اسی طرح ۱۰؍تویط کا روزہ ۴۲۵قبل مسیح میں یروشلم کی تباہی کی یاد میں رکھا جاتا ہے جبکہ رومیوں کے ہاتھوں ہیکل سلیمانی کی تباہی کی یاد میں بھی روزہ کی روایت اہل یہود کے ہاں معروف و مقبول ہے۔ماضی کے واقعات کی یاد میں رکھے جانے والے ان روزوں کی تعداد پانچ بیان کی جاتی ہے اور یہ دعائیہ روزے نفلی رنگ رکھتے ہیں جنہیںminor fastingبھی کہا جاتا ہے۔

بدھ مت میں روزہ کا تصور

مسیحیت، اسلام اور ہندومت کے بعد دنیا کا چوتھا بڑا مذہب بدھ مت ہے۔ اس مذہب کے بانی حضرت گوتم بدھ تھےجو چھٹی صدی قبل مسیح میں ہندوستان کے شمال مشرقی حصہ میں ظاہرہوئے۔آپ کا فلسفۂ حیات خواہشات پر قابو پانے،ضبط نفس اور تارک الدنیا ہوکر عبادت و ریاضت کرنے کی تعلیم پر مشتمل ہے۔ گوکہ حضرت بدھ نے اپنے ماننے والوں کو حد اعتدال میں رہنے کی بھی تعلیم عطا فرمائی مگر بدھ مت کےبھکشو حضرت گوتم بدھ کی پیروی میں تارک الدنیا ہو کر زندگی بسر کرنا احسن خیال کرتے ہیں۔

عصرِ حاضر میں بھکشوؤں کے ہاں دن میں ایک کھانے کا تصور، گھنٹوں مراقبہ میں پڑا رہنا اور ضبط نفس کے مختلف طریق رائج ہیں۔اسی طرح بدھ مت میں ہندوؤں کی طرز پرچاند سے منسلک روزوں کا تصور بھی پایا جاتا ہے اورحضرت گوتم بدھ کی وفات سے متصل ایام میں پانچ دن تک روزے رکھنے کی روایت بھی معروف و مقبول ہے۔ تبت کے بدھسٹ سال میں چار دن کا مسلسل روزہ رکھتے ہیں جبکہ جاپان سمیت دیگر ممالک میں بسنے والے بدھ مت کے مذہبی پیشوا چاند کی چودہ، پندرہ یا انتیس اور تیس تاریخ کو مکمل یا جزوی روزہ رکھتے ہیں۔ہندوستان کے بدھ مت کے پیروکاروں کے نزدیک روزہ انسان کے لیے نہ صرف ایک ضروری عمل ہےبلکہ اس عبادت کوصحت مند رہنے کا ایک فطری طریقہ خیال کیا جاتا ہے۔

(B(Buddhism And Medicine page 146 by Salguero Pierce)e)

جین مت میں روزہ کا تصور

ہندوستان سے ہی جنم لینے والے اس مذہب کے بانی مہاویر تھے جو تقریباً ساڑھے پانچ سو برس قبل مسیح میں اترپردیش میں پیدا ہوئے۔ مہاویر کا پیش کردہ فلسفہ روئے زمین پر موجود تمام ادیان و مذاہب کے مقابل سب سے زیادہ ریاضت پسند اور سخت معلوم ہوتا ہے۔جین مت میں یہ عقیدہ پایا جاتا ہے کہ راہبانہ ریاضتیں انسان کی باطنی اصلاح کے لیے ناگزیر ہیں۔ انہی ریاضتوں میں سے ایک روزہ بھی قرار دی گئی ہے۔جین مت کے سنیاسی مرد اور عورتیں اپنی روز مرہ زندگی میں تعلیم، مراقبوں اور جسمانی ریاضتوں میں مصروف رہتے ہیں، اور سال بھر کے کئی ایام روزوں میں بسر کرتے ہیں۔جین مت کے نزدیک یہ ریاضتیں اسی لیے بنائی گئی ہیں کہ یہ روح (Jiva)کے کرما سے آزاد ہونے کے عمل میں ممدو معان ہوں اوراس کے نتیجہ میں انسان روحانی منزل طے کرتا چلا جائے۔اس مقصد کے حصول کی خاطر بہت سے راہبانہ طور طریقے زندگی بھر کے لیے اپنانے ضروری ہیں، کیونکہ ان کے بغیر ان مراحل سے گزرا نہیں جا سکتا۔ ان ریاضتوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ سنیاسی جب ریاضتیں کرتے کرتے بوڑھا ہو جاتا ہے تو وہ اپنی روحانی ترقی کے لیے چاہے تو رضا کارانہ طور پر اپنے لیے تامرگ روزے کا انتخاب کر سکتاہے۔ یعنی وہ سنیاسی روزہ رکھ لے گا اور افطار نہیں کرے گا، حتیٰ کہ وہ مر جائے۔

شنٹوازم میں روزہ کا تصور

شنٹو ازم جاپان کا قومی اور روایتی مذہب ہے۔ دنیا کے دیگرادیان اور مذاہب سے موازنہ کریں تو شنٹو ازم غیرمعمولی رنگ میں منفرد اور الگ مذہب نظر آتا ہے۔قارئین کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ اس مذہب کا کوئی بانی نہیں نہ ہی شنٹو ازم کا کوئی ایسا صحیفہ وجود رکھتا ہے جو اس مذہب کے فلسفہ پر روشنی ڈالنے والا ہو۔

شنٹو از م میں بھی صدیوں سے پاکیزگی کے حصول اور روحانی مدارج میں ترقی کے لیے روزہ کی روایت موجود چلی آرہی ہے۔ شنٹو مت کی مذہبی شخصیات تقویٰ شعاری اور پاکیزگی کے حصول کی خاطر اپنےتہواروں سےقبل روزوں کا اہتمام کرتی ہیں۔جاپانی زبان میں روزہ کے لیے سب سے موزوں لفظ ’saikai‘ہے، اس لفظ کے لغوی معنی پاکیزگی اور روحانیت پر دلالت کرتے ہیں۔شنٹومت کے مذہبی بزرگان کے روزہ کی کیفیت اس طرح ہوتی ہے کہ وہ اس دوران ایک مخصوص لباس پہن کر، گھر یا معبد کے کسی مخصوص حصہ میں وقت بسر کرتے ہوئے دعاؤں کا اہتمام کرتے ہیں۔ اس دوران کھانے پینے سے احتراز کیا جاتا ہے اور محاسبہ نفس کرتے ہوئے برائیوں سے محفوظ رہنے کا عزم نو باندھاجاتا ہے۔ایسے روزے صرف مذہبی پیشوا رکھتے ہیں جبکہ شنٹومت کے پیروکاروں کے لیے روزہ رکھنا ضروری نہیں۔

تاؤ ازم میں روزہ کا تصور

حضرت کنفیوشس کے ہم عصر حضرت لاؤتزے کا پیش کردہ فلسفہ تاؤ ازم یا داؤازم کہلاتا ہے۔حضرت لاؤتزے تقریباً پانچ سو برس قبل مسیح چین میں پیدا ہوئے اور 5ہزار الفاظ پر مشتمل آپ کی تعلیم Dao De Jingکے نام سے محفوظ ہے۔

تاؤ ازم میں صدیوں سے مقبول Biguنامی عبادت روزوں سے مشابہہ ہونے کے ساتھ ساتھ ضبطِ نفس اور اخلاق فاضلہ کے حصول کا ایک ذریعہ سمجھی جاتی ہے۔تاؤ ازم کے فلسفہ میں جسمانی روزوں کے بجائے روحانی روزوں کی اہمیت پر اصرار کیا گیاہے، اسے دل کے روزے کا نام دیا جاتا ہے۔ اسی طرح تاؤ ازم میں الہام پانے کے لیے بھی جسمانی روزوں کاتصور پایا جاتا ہے۔تاؤ ازم کے فلسفہ کے مطابق ان روزوں کے ذریعے سےانسان غیر معمولی یکسوئی حاصل کرتا ہے اوریہ عمل اسے دنیوی زندگی سے منقطع ہونے میں مدد فراہم کرتا ہے۔ جب آدمی اس کیفیت کو پا لیتا ہے تو ان کے خیال میں وہ شخص خدائی پیغام وصول کرنے کے لیے بالکل تیار ہو جاتا ہے۔

کنفیوشس ازم میں روزے کا تصور

چین سے جنم لینے والا ایک اور مذہبی فلسفہ کنفیوشس ازم کہلاتا ہے۔ حضرت کنفیوشس چینی بزرگ لاؤتزے کے ہم عصر تھے۔حضرت کنفیوشس کی تعلیم میں اخلاق وآداب پر بہت زور دیا گیا ہے۔ بڑوں کی تکریم،اساتذہ کی عزت اور والدین کی خدمت بھی کنفیوشس ازم کی تعلیم کا خاصہ کہی جا سکتی ہے۔ چینی اقوام میں آباء و اجداد کی وفات کی نسبت سے ماتمی روزوں کا تصور بھی پایا جاتا ہے۔یہ روزے وفات یافتہ انسان کے رشتے دار رکھتے ہیں۔ اس روزے میں عموماً ان کھانوں سے پرہیز کیا جاتا ہے جوچینی روایات میں روح کو نذرانے کے طور پر پیش کیے جاتے ہیں۔

اسی طرح چینی اقوام میں ایک رسم ’’چائی‘‘ کہلاتی ہے۔ اس رسم میں قربانی سے پہلے روزے رکھنے کا رواج ہے۔ چینیوں کے مطابق ان روزوں اور عبادات کے نتیجہ میں وہ بذریعہ کشف اپنے آباء کی ارواح سے ہمکلام ہوسکتے ہیں۔

مسیحیت میں روزہ کا تصور

گوکہ حضرت عیسیٰ مسیح ابن مریم علیہ السلام اہل یہود کی رُشد و ہدایت کے لیے مبعوث ہوئے۔لیکن یہودیوں کی طرف سے پیش آنے والی شدید مخالفت، حضرت مسیح علیہ السلام کو صلیب دینے کی کوشش اوراللہ تعالیٰ کے اس برگزیدہ نبی کے انکار کے نتیجہ میں مسیحیت کو یہود سے الگ کوئی نیا مذہب خیال کیا جانے لگا۔آج اپنے پیروکاروں کے لحاظ سے مسیحیت دنیا کا سب سے بڑا مذہب کہلاتا ہے۔متی کی انجیل میں حضرت مسیح علیہ السلام کے چالیس دن کے روزوں کا ذکر اس طرح ملتا ہے :’’اور جب وہ چالیس دن اور چالیس رات روزہ رکھ چکا، آخر کار بھوکا ہوا۔‘‘ (متی باب4، آیت2)اسی طرح محض للہ روزہ رکھنے اورروزہ رکھ کر ریاکاری سے مجتنب رہنے کے بارے میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنے حواریوں کو یوں نصیحت فرمائی کہ’’اور جب بھی تم روزہ رکھو تو اسے ظاہر نہ کرو جیسا کہ منافق کرتے ہیں، اس لیے کہ وہ شکستہ حال اور پریشان دکھنے کی کوشش کر تے ہیں تاکہ لوگ روزہ رکھنے کے لیے ان کی تعریف کریں۔ میں تمہیں سچ بتاتا ہوں کہ صرف وہ اجر ہی ہے جو انہیں ملے گا۔ جب تم روزہ رکھو تو کنگھی کرو اور اپنا چہرہ دھوؤ۔ اس لیے کہ کوئی یہ نہیں جان سکے گا کہ تم روزے سے ہو، سوائے تمہارے خدا کہ جو کہ ان تمام باتوں کو جانتا ہے جو تم خفیہ طور پر کرتے ہو۔ اور تمہارا خدا جو سب کچھ دیکھتا ہے تمہیں اس کا اجروثواب دے گا۔ ‘‘(متی باب 6 آیات 16تا18)

روزوں کی اس تعلیم اورانبیائے بنی اسرائیل کی سنت پر عمل کرتے ہوئے ابتدائی مسیحیوں میں کئی قسم کےروزوں کے شواہد ملتے ہیں۔ لیکن عصرِ حاضر کی مسیحیت میں روزہ کا محض تصور باقی ہے جبکہ عملی رنگ میں روزے مفقود ہوچکے ہیں۔ پروٹسٹنٹ فرقہ میں روزہ کی پابندی ختم کرکے اسے انسانی مرضی پر چھوڑ دیا گیا ہے۔آرتھوڈوکس مسیحی بھی روزہ کے قائل تو ہیں مگرعملی طور پر روزہ رکھنے والے مسیحیوں کی تعداد برائے نام بیان کی جاتی ہے۔مسیحیوں کے سب سے بڑے فرقے رومن کیتھولک کے ماننے والےایسٹر یعنی عید فسح کے علاوہ Good FridayاورAsh Wednesdayکے روزے رکھ کر مسیحیت میں روزوں کی روایت کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔

اسلام میں روزے کا تصور

روزہ کے بارے میں دنیا کے مذاہب و ادیان میں پایا جانے والا تصور باہم مماثلتوں کے علاوہ کئی پہلوؤں سے ایک دوسرے سے مختلف بھی ہے۔ لیکن اگر اس ساری تعلیم کو یکجا نظر سے دیکھا جائے تو یہ حقیقت منکشف ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے لیے روزہ کا جو طریق مقرر فرمایا ہے وہ اپنی جامعیت اور معنویت میں اس درجہ کمال کو پہنچا ہوا ہےکہ گویا ان تمام مذاہب وادیان کی تعلیم کا ایک حسین خلاصہ ہو۔ قرآن کریم میں صیامِ رمضان کی فرضیت کا اعلان کرتے ہوئے جس انداز سے روزہ کے فضائل وبرکات بیان کیے گئے ہیں انہیں پڑھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسےگذشتہ تمام ادیان و ملل کی تعلیم سے خوبصورت و دلکش پھول چن کر انہیں ایک گلدستہ کی شکل دےدی گئی ہو۔قرآن کریم کی سب سے بڑی سورت، البقرہ میں روزہ کی فرضیت اور احکامات کا ذکر ان الفاظ میں کیا گیا ہے: اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! تم پر روزے اسی طرح فرض کر دیئے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو۔

گنتی کے چند دن ہیں۔ پس جو بھی تم میں سے مریض ہو یا سفر پر ہو تو اسے چاہئے کہ وہ اتنی مدت کے روزے دوسرے ایام میں پورے کرے۔ اور جو لوگ اس کی طاقت رکھتے ہوں ان پر فدیہ ایک مسکین کو کھانا کھلانا ہے۔ پس جو کوئی بھی نفلی نیکی کرے تو یہ اس کے لیے بہت اچھا ہے۔ اور تمہارا روزے رکھنا تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

رمضان کا مہینہ وہ ہےجس میں قرآن انسانوں کے لیے ایک عظیم ہدایت کے طور پر اُتارا گیا ایسے کھلے نشانات کے طور پر جن میں ہدایت کی تفصیل اور حق و باطل میں فرق کر دینے والے امور ہیں۔ پس جو بھی تم میں سے اس مہینے کو دیکھے تو اِس کے روزے رکھے اور جو مریض ہو یا سفر پر ہو تو گنتی پوری کرنا دوسرے ایام میں ہوگا۔ اللہ تمہارے لیے آسانی چاہتا ہے اور تمہارے لیے تنگی نہیں چاہتا اور چاہتا ہے کہ تم (سہولت سے) گنتی کو پورا کرو اور اس ہدایت کی بنا پر اللہ کی بڑائی بیان کرو جو اُس نے تمہیں عطا کی اور تاکہ تم شکر کرو۔اور جب میرے بندے تجھ سے میرے متعلق سوال کریں تو یقیناً میں قریب ہوں۔ میں دعا کرنے والے کی دعا کا جواب دیتا ہوں جب وہ مجھے پکارتا ہے۔ پس چاہئے کہ وہ بھی میری بات پر لبّیک کہیں اور مجھ پر ایمان لائیں تاکہ وہ ہدایت پائیں۔

تمہارے لیے (ماہِ) صیام کی راتوں میں اپنی بیویوں سے تعلقات جائز قرار دیئے گئے ہیں۔ وہ تمہارا لباس ہیں اور تم ان کا لباس ہو۔ اللہ جانتا ہے کہ تم اپنے نفسوں کا حق مارتے رہے ہو۔ پس وہ تم پر رحمت کے ساتھ جھکا اور تم سے درگذر کی۔ لہٰذا اب ان کے ساتھ (بے شک) اِزدواجی تعلقات قائم کرو اور اس کی طلب کرو جو اللہ نے تمہارے حق میں لکھ دیا ہے۔ اور کھاؤ اور پیو یہاں تک کہ فجر (کے ظہور) کی وجہ سے (صبح کی) سفید دھاری (رات کی) سیاہ دھاری سے تمہارے لیے ممتاز ہو جائے۔ پھر روزے کو رات تک پورا کرو۔ اور ان سے ازدواجی تعلقات قائم نہ کرو جبکہ تم مساجد میں اعتکاف بیٹھے ہوئے ہو۔ یہ اللہ کی حدود ہیں پس ان کے قریب بھی نہ جاؤ۔ اسی طرح اللہ اپنی آیات لوگوں کے لیے کھول کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ وہ تقویٰ اختیار کریں۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button