متفرق مضامین

رمضان اور کچھ پرانی یادیں

جیسے جیسے رمضان المبارک کی آمد قریب ہو تو اس کا تذکرہ بھی عام ہوجاتا ہے۔ رمضان سے قبل ایسے ہی ایک ذکر کے دوران خاکسار نے اپنی ساس امی آسیہ بی بی سے پوچھا کہ آپ کا رمضان کیسے گزرتا تھا توانہوں نے بتایا کہ ہم نے بچپن سے اپنے گھر میں یہ دیکھا کہ رمضان المبارک شروع ہونے سے دس پندرہ دن پہلے عید کے کپڑے سلوا لیتے۔ اس کے علاوہ، جوتے، چوڑیاں اور مہندی وغیرہ بھی پہلے خرید لیتے۔

اسی طرح تمام گھر کی گہری صفائی ستھرائی بھی چند دن پہلے کرلیتے۔ تین چار دن پہلےایسی اشیا تیار کر کے رکھ لیتے جو جلدی خراب نہ ہوں مثلاً کباب، میٹھی چٹنی، پودینہ سبز مرچ کی چٹنی وغیرہ۔ مطلب یہ کہ کوشش ہوتی کہ دورانِ رمضان گھر یا کچن کا کم سے کم کام کرنا پڑے اور زیادہ وقت عبادت میں گزرے۔

جیسا کہ ہر کام شروع کرنے سے پہلے انسان کو اس کی تیاری کرنی پڑتی ہے مثلاً نماز کے لیے نیت و وضو۔ اسی طرح رمضان المبارک شروع ہونے سے دو ماہ قبل خود کو روزہ رکھنے کے لیے تیار کرنا شروع کیا جاتا۔ اس میں روٹین سے کم کھانا وغیرہ شامل ہے۔ اسی طرح بیمار یا بزرگ روزہ نہیں رکھتے بلکہ فدیہ دیتے ہیں۔ یہ کام بھی بر وقت کر لیا جاتا۔

رمضان المبارک میں چندہ جات کی ادائیگی کی طرف بھی خاص توجہ ہوتی۔ گھر کی خواتین گھر کے کام کی منصوبہ بندی اس طرح کرتیں کہ تمام خواتین کو عبادت کا برابر وقت ملتا۔ ایک وقت میں ایک خاتون کام کرتی اور باقی کے افرادِ خانہ عبادت کرتے۔ پھر ایک گھنٹہ بعد پہلی خاتون عبادت کرتی اور دوسری اٹھ کرباقی کام نبٹالیتی۔ ہر نماز کے بعد کم از کم چھ سے سات رکوع تلاوت کی جاتی۔ اس طرح ہر کسی کو کم از کم قرآن کریم کا ایک دور مکمل کرنے کا موقع ملتا۔ بعض اوقات گھر کے مرد حضرات بھی چھوٹے موٹے کاموں میں مدد کر دیتے۔

اب بات آتی ہے سحری کی۔سحری میں ہمارے ہاں زیادہ تر کدو، کالی توری، حلیم یا دالوں کا سالن بنتا اور سالن اتنا بنتا کہ اسی وقت ختم ہو جائے۔ روٹی میں پراٹھے نہیں بلکہ روٹی پر مکھن لگا کر کھایا جاتا۔ ساتھ میں لسی اور میٹھے میں سوجی کا حلوہ یا گندم یا جَو کا دلیہ ضرور بنایا جاتا۔ اور ساتھ میں سلاد۔

افطاری کا وقت بھی بہت حسین ہوتا۔ نماز عصر و تلاوت کے بعد افطاری کی تیاری شروع ہو جاتی۔ افطار میں ہمارے ہاں کھجور اور موسمی مشروب جیسے کہ سردیوں میں کھجور، بادام اور دودھ کا ملک شیک یا پھر تازہ مالٹے کا جوس ہوتا جبکہ گرمیوں میںسکنجبین، آلو بخارہ اور املی کا شربت یا کبھی فالسہ کا شربت بنتا۔اس کے علاوہ دہی میں پہلے سے بنی پودینے اور ہری مرچ کی چٹنی ڈال کر چنے، آلو اورٹماٹر ڈال کر کھائے جاتے۔ کبھی کدو کا رائتہ تو کبھی بینگن کا رائتہ بنتا۔

کھجور اور مشروب کے ساتھ روزہ کھول کر نماز مغرب ادا کی جاتی اور پھر کچھ اور کھایا جاتا۔

ہر روز اپنے ہمسائے میں جوزیادہ مستحق ہوتا اسے افطاری ضرور دی جاتی۔ انفرادی افطاری کے بھی حسین دن تھے۔ گھر میں بڑے بڑے دیگ نما دیگچوں میں گھر کی خواتین مل کر چاول بناتیں جو پھر تقسیم کیے جاتے۔

پیاس لگنے والی اور جلن پیدا کرنے والی غذائیں مثلاً چاول، کریلے،گوشت یا مصالحہ دار چیزیں بہت ہی کم بنائی جاتیں یا بس دعوت وغیرہ پر۔ویسے تو ہمارے ہاں رمضان المبارک میں دعوت شاذو نادر ہوتی۔ اکثر عید کے دن یا شوال کے روزوں کے بعد دعوتوں کا سلسلہ ہوتا۔

آخری عشرہ میں تو راتیں اَور بھی حسین ہوجاتیں۔ بچے، بڑے، بزرگ سب مل کر عبادت کرتے جس کی وجہ سے دیکھا دیکھی عبادت کا جذبہ پیدا ہوتا۔ میری بہن میرے ساتھ والے گھر میں رہتی تھی، اس کے بچے، میرے بچے، بہو ہم سب مل کر آخری عشرہ میں عبادت کرتے اور جب کوئی سونے لگتا تو اس کے لیے چائے بنائی جاتی۔ اور پھر نماز فجر اور تلاوت کے بعد سویا جاتا۔اور بچوں کے لیے کچھ نہ کچھ کھانے کا انتظام ہوتا۔

گھر میں تو عبادت الحمدللہ کی ہی جاتی تھی مگر جب نماز تراویح اور نماز فجر مساجد میں ادا کی جاتیں توان کی بات ہی الگ تھی۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button