متفرق مضامین

عالمی بینک کیوں دیوالیہ ہورہے ہیں؟

(راشد احمد)

شرح سود میں اضافے کی وجہ سے بینک کی رقم بڑھنے کے بجائے گویا کم ہوگئی اور المیہ یہ کہ وہ اپنی رقم نکال بھی نہیں سکتے ورنہ نقصان کی شرح بڑھ جائے گی

دنیا ابھی کورونا کی تباہ کاریوں سے نکل ہی رہی ہے کہ امریکہ میں بینکوں کے دیوالیہ ہونے کی خبر نے عالمی معیشت کو ایک نئی تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔دنیا اب اس طرح ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہے کہ کہیں سے بھی کوئی منفی صورت حال نمودار ہو ،تو نیل کے ساحل سے لے کر تابہ خاک کاشغر دنیا پریشان ہوجاتی ہے،خصوصاً پاکستان جیسے تیسری دنیا کے ممالک جن کا چولہاعالمی مالیاتی اداروں کی امداد سے چلتا ہے۔امریکہ کی ۲۴۶ سالہ تاریخ میں ’’سلی کون ویلی‘‘ دوسرابڑا بینک ہے جو دیوالیہ ہوگیا ہے اور اس کے اثرات کرپٹو سے لے کر فاریکس مارکیٹ تک دیکھنے میں آرہے ہیں۔ ایسا کیوں نہ ہو آخر دنیا اب ایک عالمگیر گاؤں کی شکل اختیار کر گئی ہے۔ لفظ دیوالیہ سے برصغیر کے لوگ ہمیشہ سے بخوبی واقف چلے آئے ہیں کیونکہ یہاں کی میڈیا اور سوشل میڈیا میں کسی نہ کسی کے دیوالیہ ہونے کا راگ مسلسل الاپا جاتا رہتا ہے اور یہ ایک دلچسپ امر ہے کہ دیوالیہ ہونے والے بینک نے محض امریکی بانڈز میں ایک سو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہوئی تھی جب کہ پاکستان کے کل فارن ریزور اس وقت چار پانچ ارب ڈالرز ہیں اور پاکستان گویا آئی ایم ایف کو ڈیڑھ ارب ڈالر کے لیے منت سماجت کررہا ہے۔اس ایک بات سے ہی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ دیوالیہ ہونے والے بینک کے اثرات کتنے خوف ناک اور ہمہ گیر قسم کے ہوسکتے ہیں۔

قبل اس کے کہ ہم امریکی بینک کے دیوالیہ ہونے کی وجوہات کے بارے میں بات کریں یہ جاننا دلچسپ ہوگا کہ دیوالیہ ہونے سے کیا مراد ہے؟اس لفظ کی تاریخ بہت دلچسپ ہے۔کہتے ہیں کہ برصغیر میں یہ روایت تھی کہ جب کسی بنیے (تجارت سے وابستہ ایک ہندو قبیلہ)کو کاروبار میں نقصان ہوتا اوروہ اپنی دکان چلانے کے قابل نہ رہتا تو گھر کے باہر دو دیوے(دو چراغ) روشن کردیے جاتے جس کا مطلب تھا کہ اس آدمی کو کاروبار میں نقصان ہوا ہے اور اسے مدد کی ضرورت ہے۔شہر کے باقی تاجر حضرات اس اشارے کو خوب سمجھتے اور مل بانٹ کر سرمایہ اکٹھا کرکے اس کو دوبارہ اس کے پاؤں پہ کھڑا کرنے کی کوشش کرتے۔دو دیووں سے یہ لفظ آہستہ آہستہ دیوالیہ ہوگیا۔موجودہ وقت میں کسی ملک یا ادارے کے دیوالیہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ ملک یا ادارہ اپنے ذمہ واجب الادا رقم ادا کرنے سے قاصر ہے۔امریکی بینک کے دیوالیہ ہونے کا بھی یہی مطلب ہے کہ اس بینک میں جن کمپنیوں یا لوگوں کی رقوم رکھی ہوئی تھیں وہ ڈوب گئی ہیں اور بینک اب انہیں واپس کرنے سے قاصر ہے۔

سیلی کون ویلی بینک امریکہ کا مشہور اور خصوصاً سٹارپ اپس(نئی شروع ہونی والی کمپنیاں) کا پسندیدہ بینک تھا۔ٹیکنالوجی اور بزنس سے متعلقہ بیسیوں اداروں کے اربوں ڈالرز یہاں جمع تھے۔عموماً بینک اپنے کل سرمایہ کا محض دس فیصد اپنے پاس رکھتے ہیں تاکہ چھوٹی موٹی رقوم نکالنے والوں کی ضرورت پوری کی جاسکے جبکہ باقی نوّے فیصد رقم مختلف سکیموں میں سرمایہ کاری میں لگا دی جاتی ہے اور اسی سے بینکس منافع کماتے ہیں۔سلی کون ویلی بینک نے بھی اسی طریقہ کار کو اپنایا لیکن ان سےیہ غلطی ہوئی کہ انہوں نے اپنے تمام انڈے ایک ہی ٹوکری میں ڈال دیے۔عام طور پر بینک مختلف بزنسز میں سرمایہ کاری کرتے ہیں تاکہ رقم ایک جگہ پھنس کر نہ رہ جائے اور اگر وہ بزنس ڈوب جائے تو نقصان کم ہو۔سلی کون ویلی بینک نے اس سے ہٹ کر ایک ہی جگہ رقم لگادی اور وہ جگہ امریکی حکومت تھی،یعنی امریکہ کے سرکاری بانڈر میں اپنا سرمایہ لگا دیا۔تقریباً ۱۰۰ ارب ڈالر کے بانڈز خرید کر اس ڈیل کو تین برس کے لیے لاک کردیا گیا یعنی تین برس تک بینک اپنا پیسہ نہیں نکال سکتا اور منافع کی شرح محض ایک اعشاریہ ۷۹ فیصد رکھی گئی۔شرح سود میں اضافے کی وجہ سے بینک کی رقم بڑھنے کے بجائے گویا کم ہوگئی اور المیہ یہ کہ وہ اپنی رقم نکال بھی نہیں سکتے ورنہ نقصان کی شرح بڑھ جائے گی۔گویا بینک کی رقم پھنس گئی اور اس کے پاس ادائیگیوں کے لیے رقم ہی باقی نہیں بچی،جس کے نتیجے میں بینک کو خود کو دیوالیہ قرار کرنا پڑا۔بینک صارفین کی خوش قسمتی کہ امریکی حکومت کی مداخلت اور بینک کو فراہم کیے جانے والے فوری قرض کی وجہ سے بینک حقیقی اعتبار سے فی الوقت دیوالیہ ہونے سے بچ گیا۔اسی دوران ایک اور امریکی بینک بھی دیوالیہ کا شکار ہوگیا۔امریکی صدر کی یقین دہانیوں کے باوجود بہت سے بینک اسی قسمت سے دوچار ہوتے نظر آرہے ہیں۔موجودہ مالیاتی نظام کی جملہ خامیوں اور خوبیوں سے صرف نظر کربھی لیا جائے تو بھی اس میں یہ اندیشہ ہمہ وقت موجود ہوتا ہے کہ بینک کی ایک چھوٹی سی غلطی بھی لوگوں کے اربوں ڈالر ڈبو سکتی ہے۔ اس طرح کے واقعات مسلسل کسی نہ کسی شکل میں ہوتے رہتے ہیں۔جن ممالک میں حکومتیں مضبوط ہیں وہاں تو سرکار کی مداخلت سے بینک دوبارہ بزنس میں آجاتا ہے یا صارفین کی کسی حد تک اشک فشانی ہوجاتی ہے،لیکن نسبتاً غریب ممالک میں سرمایے کی واپسی کا کوئی امکان باقی نہیں بچتا۔

معاملہ صرف اسی ایک بینک کے دیوالیہ ہونے پہ نہیں رکا،اس کے ساتھ ہی گویا واقعات کی ایک ترتیب شروع ہوگئی۔اس کے بعد ایک اور امریکی بینک دیوالیہ قرار پایا۔اس کے بعد عالمی معیشت اور مالیاتی اداروں کو ایک بڑا دھچکا ایک سوئس بینک کی دیوالیہ ہونے کی ممکنہ خبروں سے پہنچا۔’’کریڈٹ سوئس‘‘ایک عالمی سرمایہ کاری بینک ہے جہاں دنیا بھر کے امراء نے اپنی رقم سرمایہ کاری میں لگائی ہوئی ہے۔اس بینک کو گذشتہ دنوں سوئس حکومت نے جبری انضمام کے نتیجے میں ایک اور ادارے کے حوالہ کردیا ہے۔کریڈٹ سوئس بینک گذشتہ کافی عرصہ سے مسائل کا شکار چلا آرہا تھا اور حکومتی امداد کے باوجود سرمایہ کار بہت تیزی سے اپنا پیسہ یہاں سے باہر منتقل کررہے تھے۔سوئٹزرلینڈ کا مالیاتی نظام دنیا بھر میں اپنی ایک خاص پہچان رکھتا ہے،شاید اسی تاثر کو محفوظ کرنے کے لیے حکومت نے مداخلت کی اور فی الوقت گویا دیوالیہ پن کو روک دیا گیا۔دیوالیہ روکنے کی یہ کوشش سوئس حکومت کو ۱۰۰ ارب ڈالر سے زیادہ مہنگی پڑی ہےاور یہ کہا جارہا ہے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر سوئس شہری نے گویا ۱۳۰۰۰ ڈالر سے زیادہ کی رقم ادا کی ہے۔محض اپنے تاثر کو قائم رکھنے کی خاطر شاید یہ موجودہ وقت کا سب سے بڑا ’’جرمانہ ‘‘ہے۔ایسی خبروں کی وجہ سے عالمی طور پہ اب یہ تاثر بن رہا ہے کہ جلد یا بدیر بہت سے بینک دیوالیہ ہوں گے اور اس کے نتیجے میں اربوں ڈالرز کے ڈوبنے کے خطرات بھی تیزی سے بڑھ رہے ہیں اور ۲۰۰۸ء جیسے ایک بحران کے بادل بھی منڈلا رہے ہیں تاہم امریکی اور یورپین یونین کے عہدیداران مصر ہیں کہ صورت حال قابو میں ہے۔

ان حالات میں تیسری مثلاً پاکستان جیسے ممالک کے مسائل میں مزید اضافہ ہوگا کیونکہ عالمی مارکیٹ جب مندی کا شکار ہوگی تو سب سے پہلا نقصان غریب ممالک کا ہی ہوتا ہے کیونکہ انہیں ملنے والی امداد اور قرضوں میں کمی ہوجاتی ہے۔درآمدات کم یا بند ہوجاتی ہیں،تجارت نقصان میں چلی جاتی ہے۔چھوٹے تاجروں کی دکان بند ہوجاتی ہے۔فری لانسرز کی آمدنیاں بھی مسائل کا شکار ہوجاتی ہیں۔دنیا نے جب سے عالمی گاؤں کی شکل اختیار کی ہے تب سے بحران افریقہ میں سراٹھائے یا سوئٹزرلینڈ میں بینک دیوالیہ ہو،اس کے اثرات شکارپور تا جے پور ہر جگہ محسوس کیے جاتے ہیں۔حکومتی مداخلت کے سبب فوری طور پہ تو شاید بحران ٹل گیا ہے،لیکن اگر عالمی اداروں نے بر وقت احتیاطی اقدام نہ اٹھائے تو ۲۰۰۸ء جیسا عالمی بحران شاید پھر دنیا کے دروازے پہ دستک دے اور وہ بھی ان حالات میں جب کہ دنیا کورونا کی تباہ کاریوں سے مکمل طور پہ جانبر نہیں ہوسکی۔دنیا پہلے ہی بہت سی آفات کی زد میں ہے،کہیں سیلاب بلا خیز ہے تو کہیں زلزلہ نے تباہ حال کر رکھا ہے،اس لیے دعا کرنی چاہیے کہ خدا تعالیٰ حکمرانوں کو ہوش کے ناخن عطا فرمائے اور عوام کو مزید مصائب سے امن دے۔

ایں دعا ازمن و جملہ جہاں آمین باد

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button