متفرق مضامین

ماہِ رمضان ایک سالانہ تربیتی کورس

(ذیشان محمود۔ مربی سلسلہ سیرالیون)

دنیا کے ہر عملی میدان میں لوگوں کے لیےکچھ عرصہ بعد ریفریشر کورس، سیمینارز، ویبِ نار، کانفرنسز کا انعقاد شاملین کی استعدادوں کو صیقل کرنے کے لیے جدید دنیا کی ضرورت بن گیا ہے جس کے بغیر میدانِ عمل میں احسن طریق پر فرائض کی ادائیگی ممکن نہیں ہوتی۔ ایک دانا انسان کے لیے دینی لحاظ سے بھی ان ریفریشر کورسز، تربیتی کلاسزاور سیمینارز کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔دین اسلام جو اکمل دین ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اس کی کاملیت کا ایک ثبوت ماہِ رمضان ہے جو رحمت، برکت اور مغفرت کا خصوصی پیکج لیے ایثار، قربانی، مفاہمت، بھائی چارہ، اصلاح اعمال، اصلاح نفس، محاسبہ نفس اور تربیت کا ایک سالانہ تیس روزہ ریفریشر کورس یا تربیتی کورس فراہم کرتا ہے۔ جس سے گزرنے کے بعد ایک مسلمان اور مومن اگر حقیقی رنگ میں اس سے فائدہ اٹھانا چاہے تو اس کی تمام روحانی قوتیں اور استعدادیں صیقل ہو جاتی ہیں۔

اس ماہِ تعلیم و تربیت کے سایہ فگن ہونے سے قبل ہی رسول اللہ ﷺ بھی ماہِ رمضان کی اہمیت و برکات سے اصحاب کرام کو آگاہ فرماتے تھے۔شعبان سے متعلق روایات سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ کس طرح رسول اللہ ﷺ اس ماہِ مبارک کا انتظار فرماتے اور اس سےسو فیصد مستفیض ہونے کا عملی اظہار فرماتے۔

حضرت سلمان فارسیؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں شعبان کے آخری روز مخاطب کرتے ہوئے فرمایا : اے لوگو! تم پر ایک عظیم اور بابرکت مہینہ سایہ فگن ہوا چاہتا ہے۔ اس میں ایک ایسی رات ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے روزے رکھنے فرض کیے ہیں۔ اور اس کی راتوں کو قیام کرنا نفل ٹھہرایا ہے… ھُوَ شَھْرٌ اَوَّلُہٗ رَحْمَةٌ وَاَوْسَطُہٗ
مَغْفِرَةٌ وَاٰخِرُہٗ عِتْقٌ مِّنَ النَّارِکہ وہ ایک ایسا مہینہ ہے جس کا ابتدائی عشرہ رحمت ہے اور درمیانی عشرہ مغفرت کا موجب ہے اور آخری عشرہ جہنم سے نجات دلانے والا ہے …اور جس نے اس میں کسی روزہ دار کو سیر کیا اسے اللہ تعالیٰ میرے حوض سے ایسا مشروب پلائے گا کہ اسے جنت میں داخل ہونے سے پہلے کبھی پیاس نہ لگے گی۔ (صحیح ابن خزیمہ کتاب الصیام۔باب فضائل شھر رمضان)

محاسبہ نفس

جب ہم رسول اللہ ﷺ کی سیرت پر نظر ڈالتے ہیں تو آپؐ بھی اس ماہ کو محاسبہ نفس کرتے ہوئے گزارتے تھے اور اسی کی اپنے اہل خانہ اور مسلمانوں کو تلقین فرماتے کہ مَنْ صَامَ رَمَضَانَ اِیْمَانًا وَ اِحْتَسَابًا غُفِرَلَهُ مَاتَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهٖ. (صحیح البخاری کتاب الایمان حدیث: 38)ترجمہ: جس شخص نے رمضان کے روزے ایمان کی حالت میں رکھے اور اپنامحاسبۂ نفس کرتے ہوئے رکھے اس کے گزشتہ گناہ معاف کردئے جائیں گے۔ اس حوالہ سے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں : یہاں دو شرطیں بیان کی گئی ہیں۔پہلی یہ کہ ایمان کی حالت اور دوسری ہے محاسبہ نفس۔اب روزوں میں ہر شخص کو اپنے نفس کا بھی محاسبہ کرتے رہنا چاہئے۔ دیکھتے رہنا چاہئے کہ یہ رمضان کا مہینہ ہے اس میں مَیں جائزہ لوں کہ میرے میں کیا کیا برائیاں ہیں، ان کا جائزہ لوں۔ ان میں سے کون کو ن سی برائیاں ہیں جو مَیںآسانی سے چھوڑ سکتاہوں ان کو چھوڑوں۔کون کون سی نیکیاں ہیں جو مَیں نہیں کر سکتا یامَیں نہیں کر رہا۔اور کون کون سی نیکیاں ہیں جو مَیں اختیار کرنے کی کوشش کروں۔ تو اگر ہر شخص ایک دو نیکیاں اختیار کرنے کی کوشش کرے اور ایک دو برائیاں چھوڑنے کی کوشش کرے اورا س پرپھر قائم رہے تو سمجھیں کہ آپ نے رمضان کی برکات سے ایک بہت بڑی برکت سے فائدہ اٹھا لیا۔(خطبہ جمعہ فرمودہ 24؍ اکتوبر 2003ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل19؍دسمبر2003ء)

رمضان ایک ٹریننگ کورس

امیر المومنین حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز رمضان کے اَیَّامًا مَّعْدُوْدَات کو ایک ٹریننگ کورس قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ تقویٰ کے معیار حاصل کرنے کے لئے، نیکیوں میں بڑھنے کے لیے اور شیطان سے بچنے کے لئے، جو یہ ٹریننگ کورس ہے یہ کوئی اتنے لمبے عرصے کے لیے نہیں ہے کہ تم پریشان ہو جاؤ کہ اتنے دن ہم بھوکے پیاسے کس طرح رہیں گے۔ فرمایا کہ سال کے چند دن ہی تو ہیں۔ سال کے 365دنوں میں سے صرف 29یا 30دن ہی تو ہیں۔ اتنی تو قربانی تمہیں کرنی ہو گی اگر تم شیطان سے محفوظ رہنا چاہتے ہو۔ اور نہ صرف شیطان سے محفوظ رہو بلکہ اللہ فرماتا ہے کہ میری رضا بھی حاصل کرو۔ اگر تم چاہتے ہو اور یہ خواہش ہے کہ میری رضا حاصل کرو، میرا قرب پانے والے بنو۔ فرمایا کہ جو لوگ مریض ہوں یا سفر پر ہوں، کیونکہ بیماری بھی انسان کے ساتھ لگی ہوئی ہے، مجبوری کے سفر بھی کرنے پڑ جاتے ہیں توپھر جو روزے چھوٹ جائیں ان کو بعد میں پورا کرو۔ تو یہ سہولت بھی اللہ تعالیٰ نے اس لیے دی کہ فرمایا کیونکہ تم میری طرف آنے کے لئے، میرے سے تعلق پیدا کرنے کے لیے ایک کوشش کر رہے ہو، ایک مجاہدہ کر رہے ہو، اس لیے مَیں نے تمہاری بعض فطری اور ہنگامی مجبوریوں کی وجہ سے تمہیں یہ چھوٹ دے دی ہے کہ سال کے دوران جو چھٹے ہو ئے روزے ہوں وہ کسی اور وقت پورے کر لو۔ اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ میں یہ چھوٹ تمہیں تمہاری اس کوشش کی قدر کرتے ہوئے دے رہاہوں جو تم باقی دنوں میں اپنے آپ کو تکلیف میں ڈالتے ہوئے میرا قرب پانے کے لیے میری خاطر کر رہے ہو۔ (خطبہ جمعہ فرمود ہ 15؍ اکتوبر 2004ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل29؍اکتوبر2004ء)

رمضان روحانی و جسمانی حرارت

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ’’ رَمَض سورج کی تَپِش کو کہتے ہیں۔ رمضان میں چونکہ انسان اکل و شرب اور تمام جِسمانی لذتوں پر صبر کرتا ہے۔ دوسرے اللہ تعالیٰ کے احکام کے لیے ایک حرارت اور جوش پیدا کرتا ہے۔روحانی اور جسمانی حرارت اورتَپِش مل کر رمضان ہوا۔‘‘ (ملفوظات جلد 1صفحہ136، ایڈیشن1988ء)

حضرت مسیح موعودؑ نے رمضان کے تربیتی کورس سے فائدہ نہ اٹھانے والوں سے متعلق ایک اور نکتہ اس طور پر بیان فرمایا کہ ’’والدین کی خدمت ایک بڑا بھاری عمل ہے۔ حدیث شریف میں آیا ہے کہ دو آدمی بڑے بد قسمت ہیں۔ ایک وہ جس نے رمضان پایا اور رمضان گذر گیا۔ پر اس کے گناہ نہ بخشے گئے اور دوسرا وہ جس نے والدین کو پایا اور والدین گذر گئے اور اس کے گناہ بخشے نہ گئے۔ والدین کے سایہ میں جب بچہ ہوتا ہے تو اس کے تمام ہم و غم والدین اٹھاتے ہیں۔ جب انسان خود دنیوی امور میں پڑتا ہے تب انسان کو والدین کی قدر معلوم ہوتی ہے۔‘‘(ملفوظات جلد4صفحہ 289 ایڈیشن1988ء)

بابرکت ایام

حضرت خلیفة المسیح الاول رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’رمضان کے دن بڑے بابرکت دن ہیں… رمضان کے مہینہ میں دعاؤں کی کثرت،تدارس قرآن،قیامِ رمضان کا ضرور خیال رکھنا چاہیے۔… بدنظری،شہوت پرستی، کینہ، بغض، غیبت اور دوسری بد باتوں سے خاص طور پر اس مہینہ میں بچے رہو۔ ‘‘(خطبات نور صفحہ262-263)

فرمایا: ’’بعض لوگ کہتے ہیں کہ رمضان میں خرچ بڑھ جاتا ہے حالانکہ یہ بات غلط ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ وہ لوگ روزہ کی حقیقت سے بے خبر ہیں۔ سحرگی کے وقت اتنا پیٹ بھر کر کھاتے ہیں کہ دوپہر تک بد ہضمی کے ڈکار ہی آتے رہتے ہیں اور مشکل سے جو کھانا ہضم ہونے کے قریب پہنچا بھی تو پھر افطار کے وقت عمدہ عمدہ کھانے پکوا کے وہ اندھیر مارا اور ایسی شکم پُری کی کہ وحشیوں کی طرح نیند پر نیند اور سستی پر سستی آنے لگی۔ اتنا خیال نہیں کرتے کہ روزہ تو نفس کے لیے ایک مجاہدہ تھا نہ یہ کہ آگے سے بھی زیادہ بڑھ چڑھ کر خرچ کیا جاوے اور خوب پیٹ پُر کر کے کھایا جاوے۔ یاد رکھو اسی مہینہ میںہی قرآن مجید نازل ہونا شروع ہؤا تھا اور قرآن مجید لوگوں کے لیے ہدایت اور نور ہے اسی کی ہدایت کے موجب عمل درآمد کرنا چاہیے۔‘‘ (حقائق الفرقان جلد اول صفحہ 307)

ٹریننگ کا زمانہ

حضرت خلیفة المسیح الثانی ؓ فرماتے ہیں کہ ’’ رمضان کا مہینہ در حقیقت مؤمن کے لیے ٹریننگ کا زمانہ ہے اور یہ اس لیے آتا ہے تا اس میں مشق کرنے کے بعد اس سے فائدہ اُٹھایا جائے۔‘‘ (رمضان کے علاوہ بھی روزے رکھے جائیں، انوارالعلوم جلد 21صفحہ217)

فرمایا: ’’روزوں کی غرض یہ نہیں کہ تمہیں دُکھ دیا جائے لیکن اس میں شک نہیں کہ روزوں سے تکلیف ضرور ہوتی ہے۔تو کیا وہ شخص دانا ہے جو کونِیْن اس لیے نہ کھائے کہ وہ کڑوی ہوتی ہے۔اور اس پھوڑے میں جس نے اس کی زندگی تلخ کر رکھی ہو نشتر نہ لگانے دے کہ اس سے تکلیف ہوتی ہے۔ کونِیْن سے منہ کڑوا ہو گا۔ اور نِشْتَرْ سے درد ہوگا۔مگر نتیجہ اس کا یہ ہو گا کہ تکلیف دور ہو جاویگی۔اس طرح روزہ بے شک تکلیف دیتا ہے،لیکن یہ نشتر ہے اُن ہزاروں پھوڑوں کے دور کرنے کا جو انسان کی رُوح میں ہوتے ہیں …..پس جو روزہ اس لیے نہیں رکھتا کہ تکلیف ہوتی ہے وہ گویا علاج سے بچنا چاہتا ہے۔ (خطبات محمود جلد 6صفحہ460)

بہانے تلاش کرنا جائز نہیں

فرمایا : ’’ہماری جماعت کو چاہیے کہ وہ خوب سمجھ لے کہ شریعت خدا کی رحمت ہے۔اس کے احکام کو ٹَلا نے کے لیے بہانے تلاش کرنا جائز نہیں…. گرمی کی شدت کے باعث جو روزہ چھوڑتا ہے اس کو یاد رکھنا چاہیے کہ جہنم کی آگ کی گرمی اس سے بہت زیادہ تیز ہے۔جب لوگوں نے نبی کریم ﷺ کے وقت میں جہاد سے بچنے کے لیے گرمی کا بہانہ تلاش کیا تو خدا نے فرمایا کہ قُلْ نَارُ جَھَنَّمَ اَشَدُّ حَرًّا (التوبہ :81) یہ گرمیاں اتنی گرم نہیں۔ جتنی نارِ جہنم تیز گرم ہے۔یہ دنیا کی گرمیاں اس کے مقابلہ میں کچھ بھی نہیں۔ (خطبات محمود جلد 6صفحہ462،461)

نیزفرمایا:’’رمضان حقیقی فرمانبرداری کی طر ف توجہ دلاتا ہے۔ … رمضان میں انسان سحری کے وقت اٹھ سکتا ہے تو کیا وجہ ہے کہ اور دنوں میں نہ اٹھ سکے …اگر تم ایک مہینہ کھانا کھانے کے لیے سحری کے وقت اٹھ سکتے ہو تو باقی گیارہ مہینے عبادت کے لیے کیوں نہیں اٹھ سکتے۔‘‘ (خطبات محمود جلد 10صفحہ123،122)

عجیب لطف اور مزے کا مہینہ

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:’’اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے رمضان ہمیشہ ختم ہو جاتے ہیں اور خدا اپنے بندوں کے لیے عیدیں بھیج دیتا ہے۔لمبے سے لمبا عرصہ امتحان کا جو خدا نے اپنے بندوں کے لیے رکھا ہے رمضان کا مہینہ ہے۔ تیس دن خدا کے بندے روزے رکھتے ہیں، بھوکے رہتے ہیں، پیاسے رہتے ہیں، شہوانی تقاضوں سے بچتے ہیں، راتوں کو جاگتے ہیں، دعائیں کرتے ہیں، تلاوت قرآن کریم زیادہ کرتے ہیں، ذکرالٰہی کرتے ہیں اور بعض تراویح بھی پڑھتے ہیں۔ غرض یہ تیس دن کا مہینہ دینی لحاظ سے عجیب لطف اور مزے کا مہینہ ہوتا ہے لیکن جسمانی لحاظ سے ایک امتحان ہوتا ہے کیونکہ خدا کے بندے بھوکے اور پیاسے رہتے اور شہوانی تقاضوں سے اپنے آپ کو مجتنب رکھتے ہیں لیکن یہ ابتلاء ایک مہینہ کے بعد ختم ہو جاتا ہے اور خدا اپنے بندوں کے لیے عید کا دن لے آتا ہے۔ اس طرح مومنوں کو یہ بتایا گیا ہے کہ جب خدا تعالیٰ کی طرف سے مشکلات پیدا ہوتی ہیں تو وہ ہمیشہ عارضی ہوتی ہیں اور ان کے بعد جلد ہی خوشی اور راحت کا دن آجاتا ہے۔ لیکن بندہ جب خود اپنے لیے کوئی مصیبت پیدا کرتا ہے تو بعض دفعہ وہ اتنی لمبی ہو جاتی ہے کہ نسلاً بعد نسلٍ وہ مصیبت چلتی جاتی ہے اور بعض دفعہ تو صدیوں تک وہ مصیبت سروں پر مسلط رہتی ہے اور عید آنے میں ہی نہیں آتی بلکہ روزبروز دور ہوتی چلی جاتی ہے۔‘‘ (خطبات محمود جلد 1 صفحہ321)

پانچ بنیادی عبادات کا مجموعہ

حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ فرماتے ہیں : ’’ماہِ رمضان اپنی تمام برکتوں کے ساتھ آرہا ہے اور ہمیں اللہ تعالیٰ کی اس نعمت سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی کوشش کرنی چاہیے۔اس مہینے میں تمام قسم کی عبادتوں کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے بندوں کے حقوق کو قائم کرنے یا ادا کرنے پر بہت کچھ کہا گیا ہے۔رمضان کا مہینہ پانچ بنیادی عبادتوں کا مجموعہ ہے۔پہلے تو روزہ ہے دوسرے نماز کی پابندی کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔پھر قیام اللیل یعنی رات کے نوافل پڑھے جاتے ہیں۔تیسرے قرآن کریم کی کثرت سے تلاوت ہے چوتھے سخاوت اور پانچویں آفاتِ نَفْس سے بچنا ہے ان پانچ بنیادی عبادات کا مجموعہ، عباداتِ ماہِ رمضان کہلاتی ہیں۔‘‘ (خطبات ناصر جلد2 صفحہ954)

رمضان کی برکتوں سے فائدہ اٹھائیں

حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ فرماتے ہیں کہ ’’رمضان شریف تمام عبادتوں کا خلاصہ ہے، رمضان شریف تمام عبادتوں کا ارتقا ہے، رمضان شریف انسان کو اس مقصد کی طرف لے جاتا ہے جس کی خاطر انسان پیدا کیا گیا ہے، یہ انسان کو بنی نوع انسان کے حقوق ادا کرنے میں بھی درجہ کمال تک پہنچاتا ہے اور اللہ کے حقوق ادا کرنے میں بھی درجہ کمال تک پہنچاتا ہے۔ اس کے باوجود بڑے ہی بد قسمت ہوں گے وہ لوگ جو رمضان کو پائیں اور خالی ہاتھ اس میں سے نکل جائیں۔ رمضان کی برکتوں میں سے ہو کے نکلیں لیکن یہ پانی ان کو نہ چھوئے اور چکنے گھڑے کی طرح ویسے کے ویسے وہاں سے آگے چلے جائیں۔‘‘ (خطبات طاہر جلد2 صفحہ 326-327)

استغفار کا موسم

پھر آپؒ نے فرمایا کہ ’’جب میں کہتا ہوں کہ رمضان استغفار کا موسم ہے تو یہ ہر گز مراد نہیں کہ باقی اوقات استغفار کے اوقات یا استغفارکے موسم نہیں ہیں۔دیکھیں چیزیں ہر موسم میں اُگتی رہتی ہیں اور ہر موسم میں مرتی بھی رہتی ہیں لیکن پھر بھی بہار کا بھی ایک موسم ہے اور خزاں کا بھی ایک موسم ہے۔اس لیے گناہوں سے بخشش حاصل کرنے کے لیے اگر کسی مہینے کو موسم قرار دیا جاسکتا ہے تو وہ رمضان ہی کا مہینہ ہے۔‘‘ (خطبات طاہر جلد7 صفحہ290 )

رمضان کا قلعہ

حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ فرماتے ہیں کہ ’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ روزہ ایک ڈھال اور آگ سے بچانے والا ایک مضبوط قلعہ ہے۔ ‘‘(مسند احمد بن حنبل جلد 2صفحہ 402مطبوعہ بیروت)

یہ قلعہ تو ہے لیکن اس ڈھال کے پیچھے اور اس قلعہ کے اندر کب تک اس قلعے میں حفاظت ہوتی رہے گی، کب تک محفوظ رہو گے اس کی وضاحت ایک اور روایت میں کر دی کہ جب تک اس کو جھوٹ یا غیبت کے ذریعے سے پھاڑ نہیں دیتے۔ تو رمضان میں روزوں کی جو برکتیں ہیں اسی وقت حاصل ہوں گی جب یہ چھوٹی چھوٹی برائیاں بھی جو بعض بظاہر چھوٹی لگ رہی ہوتی ہیں، آدمی معمولی سمجھ رہا ہوتا ہے ہر قسم کی برائیاں بھی ختم نہیں کرتے۔ ان میں بہت بڑی برائی جو ہے جس کو آدمی محسوس نہیں کرتا وہ جھوٹ ہے۔ اگر جھوٹ بول رہے ہو تواس ڈھال کو پھاڑ دیتے ہو۔ لوگوں کی غیبت کر رہے ہو چغلیاں کر رہے ہو، پیچھے بیٹھ کے ان کی باتیں کر رہے ہو تو یہ بھی تمہارے روزے کی ڈھال کو پھاڑنے والی ہیں۔ تو روزہ اگر تمام لوازمات کے ساتھ رکھا جائے تو ڈھال بنے گا۔ ورنہ دوسری جگہ فرمایا پھر تو یہ روزہ صرف بھوک اور پیاس ہی ہے جوآدمی برداشت کر رہا ہوتا ہے۔

اللہ تعالیٰ ہمیں روزے کو تمام شرائط کے ساتھ رکھنے کی توفیق عطا فرمائے اور خا لصتہً اللہ تعالیٰ کی خاطر روزے رکھنے والے ہوں نہ کہ دنیا کے دکھاوے کے لئے۔ کوئی نفس کا بہانہ ہمارے روزے رکھنے میں حائل نہ ہو اور اس مہینے میں اپنی عبادتوں کو بھی زندہ کرنے والے ہوں۔ اللہ توفیق دے۔ اور جب نیکیوں کے راستے پر اس رمضان میں چلیں یہ بھی اس رمضان میں دعائیں کرتے رہنا چاہئے کہ نیکیاں رمضان کے ختم ہونے کے ساتھ ختم نہ ہو جائیں بلکہ ہمیشہ ہماری زندگیوں کا حصہ بنی رہیں۔ اور ہم میں سے ہر ایک اللہ تعالیٰ کے پیاروں میں شامل ہو، اس کا پیار حاصل کرنے والا ہو اور ہمیشہ اس کی پیار کی نظر ہم پر پڑتی رہے۔ اور یہ رمضان ہمارے لئے، جماعت کے لیے غیرمعمولی فتوحات لانے والا ہو۔ اللہ کرے ایسا ہی ہو۔‘‘ (خطبہ جمعہ فرمود ہ 15؍ اکتوبر 2004ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل29؍اکتوبر 2004ء)

تربیتی کورس کا مہینہ

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: ’’رمضان کا مہینہ جس میں قرآن انسانوں کے لیے ایک عظیم ہدایت کے طور پر اتارا گیا اور ایسے کھلے نشانات کے طور پرجن میں ہدایت کی تفصیل اور حق و باطل میں فرق کر دینے والے امور ہیں، پس جو بھی تم میں سے اس مہینے کو دیکھے تو اس کے روزے رکھے اور جو مریض ہو یا سفر پر ہو تو گنتی پوری کرنا دوسرے ایاّم میں ہو گا۔ اللہ تعالیٰ تمہارے لیے آسانی چاہتا ہے اور تمہارے لیے تنگی نہیں چاہتا اور چاہتا ہے کہ تم سہولت سے گنتی کو پورا کرو اور اس ہدایت کی بنا پر اللہ کی بڑائی بیان کرو جو اس نے تمہیں عطا کی اور تاکہ تم شکر کرو۔ اور جب میرے بندے تجھ سے میرے متعلق سوال کریں تو یقیناً مَیں قریب ہوں۔ مَیں دعا کرنے والوں کی دعا کا جواب دیتا ہوں جب وہ مجھے پکارتا ہے۔ پس چاہئے کہ وہ بھی میری بات پر لبیک کہیں اور مجھ پر ایمان لائیں تاکہ وہ ہدایت پائیں۔ آج کل ہم اللہ تعالیٰ کے فضل سے رمضان میں سے گزر رہے ہیں اور یہ مہینہ جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں، روزوں کا مہینہ ہے …یہ روزے بغیر کسی مقصد کے نہیں ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے تقویٰ میں ترقی، ان کی روحانیت میں اضافہ، انہیں اپنے قرب سے نوازنے اور انہیں دعاؤں کی قبولیت کے طریق اور حقیقت بتانے کے لیے ایک تربیتی کورس کے طور پر یہ روزے فرض فرمائے ہیں۔ پہلی آیت جو مَیں نے تلاوت کی ہے، اس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ روزے اس لیے فرض ہیں تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو یعنی ہر قسم کی برائیوں سے بچنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آ جاؤ۔‘‘ (خطبہ جمعہ فرمودہ 5؍ستمبر 2008ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 26؍ ستمبر 2008ء)

رمضان کے تربیتی کورس کے شاملین سے توقع

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے تمام احمدیوں سے رمضان میں اپنائی گئی نیکیوں، اعلیٰ اخلاق اورعبادات کو رمضان کے بعد بھی جاری رکھنے سے متعلق توقع کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’رمضان اپنی بیشمار برکتیں لے کر آیا اور جن کو اس سے حقیقی معنوں میں فائدہ اٹھانے کی توفیق ملی یعنی راتوں کو اٹھ کر نوافل ادا کرنے کی، فجر کی نمازکے بعد اکثر جگہوں پر حدیث کے درس کا انتظام تھا،اس درس کو سننے کی توفیق ملی۔ مسجد میں پانچ وقت کوشش کرکے نماز باجماعت ادا کرنے کے لیے آنے کی توفیق ملی۔ درس قرآن کریم اور پھررات کو تراویح کی نماز ادا کرنے کی توفیق ملی۔ اس کے علاوہ خود بھی ایک دو یا تین قرآن کریم کے دور مکمل کرنے کی توفیق ملی اور پھر روزے رکھنے کی بھی اللہ تعالیٰ نے توفیق عطا فرمائی۔ تو آپ میں ایسے وہ لو گ جنہوں نے یہ سب اہتمام کیا اس رمضان میں، انہوں نے یقیناًمحسوس کیاہوگاکہ رمضان آیا اور انتہائی تیزی سے اپنی برکتیں چھوڑتا ہوا چلا گیا۔عبادتوں کے لطف دوبالاہوئے۔ خطوط سے پتہ چلتاہے، مختلف لوگ خط لکھتے رہتے ہیں کہ بہت سوں کواللہ تعالیٰ نے اپنی معرفت کا، اپنی ہستی کا یقین دلایا۔ اللہ کرے کہ یہ برکتیں اب ہم سمیٹے رکھیں۔ اللہ تعالیٰ نے محض اورمحض اپنے فضل سے،نہ کہ ہماری کسی خوبی کی وجہ سے اپنی برکتوں سے ہمیں اپنے برتن بھرنے کی توفیق دی ہے اب ہماری کسی لاپرواہی کی وجہ سے، ہماری کسی کمزور ی کی وجہ سے یا ہمارے کسی تکبر کی وجہ سے ہمارے یہ برتن خالی نہ ہوجائیں…

رمضان گزر جانے کے بعد ہم ڈھیلے نہ پڑ جائیں،ہماری مسجدیں ویران نہ نظر آنے لگیں…تو رمضان کے دنوں میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ عاد ت ہمیں پڑ گئی کہ رات کو اٹھے اور تہجدکی نمازاداکی، نوافل پڑھے۔اگرہم اس عادت کو باقاعدہ کرلیں اور جاری رکھیں تو اس حدیث کے مطابق اللہ تعالیٰ کے ہم بہت قریب ہوں گے۔اور اللہ تعالیٰ کے قریب ہونے کا مطلب یہی ہے کہ آپ نے سب کچھ پا لیا۔ تو دعاؤں کے ساتھ پھر ایک بات یہ ہے کہ دعاؤں کے ساتھ، عبادات کے ساتھ جمعہ کے دن کابھی ایک خاص تعلق ہے۔ اس دن میں اللہ تعالیٰ نے ایک ایسا وقت رکھاہواہے جس میں بندے کی دعا سنی جاتی ہے اور پھر اس دور کا حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ الصلوٰة والسلام کے دور کا،اسلام کی نشأة ثانیہ کا جمعہ کے ساتھ ایک خاص تعلق ہے۔تو جمعہ کو بھی ہمیں خاص اہتمام سے منانا چاہئے۔ بعض ایسی دعائیں ہیں، جماعتی دعائیں ان کے لحاظ سے بھی خاص طورپر اس طرف توجہ کرنی چاہئے۔ نوافل کے لیے بھی، گھر کے ہرفرد کو ا ٹھنا چاہئے۔جمعہ پڑھنے کے لیے تمام مردوں کو ضرور جانا چاہئے، کوشش کرکے بھی اور مساجد میں جمعوں کی حاضریاں بھی ایسی ہی ہونی چاہئیں جیسے رمضان میں ہوتی تھیں…

تو یہ خطوط ملتے رہتے ہیں مختلف۔ان سے ایسا تأثر ملتاہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے رمضان میں بہت سوں کو جیساکہ مَیں نے پہلے بھی کہا، اللہ تعالیٰ کی ہستی پر یقین پیدا ہواہے۔بہت سوں کے پردے سرکنے شروع ہوئے ہیں،لیکن ابھی حقیقی معرفت حاصل کرنے کے لیے مزید محنت کی ضرورت ہے۔ ان حجابوں کو مکمل طورپر اٹھانے کے لیے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا،عبادات کی طرف اسی باقاعدگی سے توجہ کی ضرورت ہے جیسے رمضان کے مہینے میں توجہ رہی ہے ہم سب کی۔تو جتنی زیادہ تعداد میں ایسی دعائیں کرنے والے ہماری جماعت میں پیدا ہوں گے اتنا ہی جماعت کا روحانی معیار بلند ہوگااور ہوتاچلاجائے گا۔ خلیفہ ٔوقت کو بھی آپ کی دعاؤں سے مدد ملتی چلی جائے گا اور جب یہ دونوں مل کر ایک تیز دھارے کی شکل اختیار کریں گے توپھر انشاء اللہ تعالیٰ فتوحات کے دروازے بھی کھلتے چلے جائیں گے۔پس ہمارے ہتھیار یہ دعائیں ہیں جن سے ہم نے فتح پانی ہے۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں یہ معیار جلد سے جلد حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (خطبہ جمعہ فرمودہ28؍ نومبر 2003ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل23؍ جنوری 2004ء)

اللہ تعالیٰ ہمیں اس ماہ سے کما حقہ استفادہ کرنے کی توفیق عطا فرمائےآمین۔

٭………٭………٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button