سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح

(’اے ولیم‘)

سجدۂ شُکر ’’مبارک‘‘

ابھی مولانا عبدالکریم صاحب ترجمہ سُنا ہی رہے تھے کہ حضرت اقدس ؑفرطِ جوش کے ساتھ سجدہ ٔ شکرمیں جا پڑے۔ حضورؑ کے ساتھ تمام حاضرین نے سجدۂ شکرادا کیا۔ سجدہ سے سراُٹھاکر حضرت اقدس ؑنے فرمایا:’’ابھی مَیں نے سُرخ الفاظ میں لکھادیکھا ہے کہ ’’مبارک‘‘ یہ گویا قبولیت کا نشان ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد 2صفحہ 31 ایڈیشن1984ء)حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:’’عید اضحی کی صبح کو مجھے الہام ہو اکہ کچھ عربی میں بولو چنانچہ بہت احباب کو اس بات سے اطلاع دی گئی اور اس سے پہلے میں نے کبھی عربی زبان میں کوئی تقریر نہیں کی تھی لیکن اس دن میں عید کا خطبہ عربی زبان میں پڑھنے کے لئے کھڑا ہوا تو اللہ تعالیٰ نے ایک بلیغ فصیح پُر معانی کلام عربی میں میری زبان میں جاری کی جو کتاب خطبہ الہامیہ میں درج ہے۔ وہ کئی جز کی تقریر ہے جو ایک ہی وقت میں کھڑے ہو کر زبانی فی البدیہہ کہی گئی۔ اور خدا نے اپنے الہام میں اس کا نام نشان رکھا کیونکہ وہ زبانی تقریر محض خدائی قوت سے ظہور میں آئی۔ میں ہرگز یقین نہیں مانتا کہ کوئی فصیح اور اہل علم اور ادیب عربی بھی زبانی طور پر ایسی تقریر کھڑا ہو کر کر سکے یہ تقریر وہ ہے جس کے اس وقت قریباً ڈیڑھ سو آدمی گواہ ہوں گے۔‘‘(نزول المسیح، روحانی خزائن جلد 18صفحہ 588)

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:’’11؍اپریل 1900ء کو عید اضحٰی کے دن صبح کے وقت مجھے الہام ہوا کہ آج تم عربی میں تقریر کرو تمہیں قوت دی گئی۔ اور نیز یہ الہام ہوا کَلَامٌ اُفْصِحَتْ مِنْ لَّدُنْ رَبٍّ کَرِیْمٍ یعنی اس کلام میں خدا کی طرف سے فصاحت بخشی گئی ہے۔ چنانچہ اس الہام کو اُسی وقت اخویم مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم اور اخویم حکیم مولوی نور دین صاحب اور شیخ رحمت اللہ صاحب اور مفتی محمد صادق صاحب اور مولوی محمد علی صاحب ایم اے اور ماسٹر عبد الرحمٰن صاحب اور ماسٹر شیر علی صاحب بی اے اور حافظ عبد العلی صاحب اور بہت سے دوستوں کو اطلاع دی گئی۔ تب میں عید کی نماز کے بعد عید کا خطبہ عربی زبان میں پڑھنے کے لئے کھڑا ہو گیا اور خدا تعالیٰ جانتا ہے کہ غیب سے مجھے ایک قوت دی گئی اور وہ فصیح تقریر عربی میں فی البدیہ میرے مُنہ سے نکل رہی تھی کہ میری طاقت سے بالکل باہر تھی اور میں نہیں خیال کر سکتا کہ ایسی تقریر جس کی ضخامت کئی جزو تک تھی ایسی فصاحت اور بلاغت کے ساتھ بغیر اس کے کہ اول کسی کاغذ میں قلمبند کی جائے کوئی شخص دنیا میں بغیر خاص الہام الٰہی کے بیان کر سکے جس وقت یہ عربی تقریر جس کا نام خطبہ الہامیہ رکھا گیا لوگوں میں سنائی گئی اس وقت حاضرین کی تعداد شاید دوسو۲۰۰ کے قریب ہو گی سبحان اللہ اُس وقت ایک غیبی چشمہ کھل رہا تھا مجھے معلوم نہیں کہ میں بول رہا تھا یا میری زبان سے کوئی فرشتہ کلام کر رہا تھا کیونکہ میں جانتا تھا کہ اس کلام میں میرا دخل نہ تھا خود بخود بنے بنائے فقرے میرے مُنہ سے نکلتے جاتے تھے اور ہر ایک فقرہ میرے لئے ایک نشان تھا چنانچہ تمام فقرات چھپے ہوئے موجود ہیں جن کا نام خطبات الہامیہ ہے۔ اس کتاب کے پڑھنے سے معلوم ہوگا کہ کیا کسی انسان کی طاقت میں ہے کہ اتنی لمبی تقریر بغیر سوچے اور فکر کے عربی زبان میں کھڑے ہو کر محض زبانی طور پر فی البدیہ بیان کر سکے یہ ایک علمی معجزہ ہے جو خدانے دکھلایا اور کوئی اس کی نظیرپیش نہیں کر سکتا۔‘‘(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22صفحہ375-376)

خطبہ کو حفظ کرنے کی تحریک

’’خطبہ چونکہ ایک زبردست علمی نشان تھا اس لئے اس کی خاص اہمیت کے پیش نظر حضرت مسیح موعودؑ نے اپنے خدام میں تحریک فرمائی کہ اسے حفظ کیا جائے۔ چنانچہ اس کی تعمیل میں صوفی غلام محمد صاحب، حضرت میر محمد اسماعیل صاحب،مفتی محمد صادق صاحب اورمولوی محمد علی صاحب کے علاوہ بعض اور اصحاب نے اسے زبانی یاد کیا۔ بلکہ مؤخرالذکردواصحاب نے مسجد مبارک کی چھت پر مغرب و عشاء کے درمیان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مجلس میں بھی اسے زبانی سنایا۔ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب جو انتہا درجہ ادبی ذوق رکھتے تھے وہ تو اس خطبہ کے اتنے عاشق تھے کہ اکثراسے سناتے رہتے تھے اور اس کی بعض عبارتوں پر تو وہ ہمیشہ وجد میں آجاتے۔ مولوی صاحب ایسے بلند پایہ عالم کو خطبہ الہامیہ کے اعجازی کلام پر وجد آنا ایک طبعی بات قراردی جاسکتی ہے مگر خدا کی طرف سے ایک تعجب انگیز امر یہ پید ا ہوا کہ تقریر سننے والے بچے بھی اس کی جذب و کشش سے خالی نہیں تھے۔ چنانچہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کا بیان ہے کہ وہ دن جس میں یہ تقریر کی گئی ابھی ڈوبا نہیں تھاکہ چھوٹے چھوٹے بچے جن کی عمر بارہ سال سے بھی کم تھی اس کے فقرے قادیان کے گلی کوچوں میں دہراتے پھرتے تھے جو ایک غیر معمولی بات تھی۔

خطبہ الہامیہ کی اشاعت

یہ خطبہ اگست ۱۹۰۱ءمیں شائع ہوا۔حضورؑنے نہایت اہتمام سے اسے کاتب سے لکھوایا۔ فارسی اور اردو میں ترجمہ بھی خود کیااور اعراب بھی خود لگائے۔ اصل خطبہ کتاب کے اڑتیسویں صفحہ پر ختم ہوجاتا ہے جو کتاب کے باب اول کے تحت درج ہے۔ اگلا حصہ آخرتک عام تصنیف ہے جس کا اضافہ حضور نے بعد میں فرمایا اور پوری کتاب کا نام خطبہ الہامیہ رکھا گیا۔ یہ کتاب شائع ہوئی تو بڑے بڑے عربی دان اس کی بے نظیر زبان اور عظیم الشان حقائق و معارف پڑھ کر دنگ رہ گئے حق تویہ ہے کہ مسیح محمدی کا یہ وہ علمی نشان ہے جس کی نظیر قرآن مجید کے بعد نہیں ملتی۔‘‘(تاریخ احمدیت جلددوم صفحہ85تا 86)

خطبہ الہامیہ کی بابت دومبشرخوابیں

’’اسی خطبہ الہامیہ کے متعلق دو خوابیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے قلمِ مبارک سے لکھی ہوئی ملی ہیں۔ 19؍اپریل 1900ء کی تاریخ دے کرحضورؑ نے میاں عبداللہ صاحب سنوری کی مندرجہ ذیل خواب لکھی ہے کہ میاں عبد اللہ سنوری کہتے ہیں کہ منشی غلام قادر مرحوم سنور والے یہاں آئے ہیں۔ ان سے انہوں نے پوچھا ہے کہ اس جلسہ کی بابت اس طرف کی خبر دو۔کیا کہتے ہیں۔ تو اس نے جواب دیا کہ اوپر بڑی دھوم مچ رہی ہے۔

یہ خواب بعینہٖ سید امیر علی شاہ صاحب کے خواب سے مشابہ ہے کیونکہ انہوں نے دیکھا تھا کہ جس وقت عربی خطبہ بروز عید پڑھا جاتاتھا اس وقت جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت خضرعلیہ السلام جلسہ میں موجود ہیں اور اس خطبہ کو سن رہے ہیں۔ یہ خواب عین خطبہ پڑھنے کے وقت ہی بطور کشف اس جگہ بیٹھے ہوئے ان کو معلوم ہو گیا تھا۔‘‘ (تذکرہ صفحہ290 حاشیہ ایڈیشن چہارم )

خطبہ الہامیہ کی بابت بعض روایات

حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم۔اے بیان فرماتے ہیں:’’بیان کیا مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے کہ جب حضرت مسیح موعود ؑنے عید الاضحی کے موقعہ پر خطبہ الہامیہ پڑھا تو میں قادیان میں ہی تھا۔حضرت صاحب مسجد مبارک کی پرانی سیڑھیوں کے راستہ سے نیچے اُترے، آگے میں انتظا ر میں موجود تھا۔ میں نے دیکھا کہ اس وقت آپ بہت بشاش تھے اور چہرہ مسرت سے دمک رہا تھا پھر آپ بڑی مسجد کی طرف تشریف لے گئے اور وہاں نماز کے بعد خطبہ شروع فرمایا۔ اور حضرت مولو ی نورالدین صاحب اور مولوی عبدالکریم صاحب کو خطبہ لکھنے پر مقرر کر دیا۔میاں عبداللہ صاحب بیان کرتے ہیں کہ حضرت صاحب اس خیال سے کہ لکھنے والے پیچھے نہ رہ جائیں بہت تیز تیز نہیں بولتے تھے بلکہ بعض اوقات لکھنے والوں کی سہولت کے لئے ذرا رُک جاتے تھے اور اپنا فقرہ دہرا دیتے تھے۔اور میاں عبداللہ صاحب بیان کرتے ہیں کہ مجھے یاد ہے کہ ایک وقت آپ نے لکھنے والوں سے یہ بھی فرمایا کہ جلدی لکھو۔یہ وقت پھر نہیں رہے گا اور بعض اوقات آپ یہ بھی بتاتے تھے کہ مثلاً یہ لفظ ’’ص‘‘ سے لکھو یا’’سین‘‘ سے لکھو۔اور بیان کیا مجھ سے مولوی شیر علی صاحب نے کہ خطبہ کے وقت حضرت صاحبؑ کرسی کے اوپر بیٹھے تھے اور آپ کے بائیں طرف فرش پر حضرت مولوی صاحب خلیفہ اوّل و مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم تھے جن کو آپ نے خطبہ لکھنے کے لئے مقرر کیا تھا اور آپ کی آواز عام آواز سے ذرا متغیرتھی۔اور آواز کا آخری حصہ عجیب انداز سے باریک ہوجا تا تھا۔اور دوران خطبہ میں آپ نے مولوی صاحبا ن سے یہ فرمایا تھا کہ جو لفظ لکھنے سے رہ جاوے وہ مجھ سے ابھی پوچھ لو کیوں کہ بعد میں ممکن ہے کہ وہ مجھے بھی معلوم رہے یا نہ رہے۔ اور مولوی صاحب نے بیان کیا کہ بعد خطبہ حضرت صاحب فرماتے تھے کہ یہ خطبہ میری طر ف سے نہ تھا بلکہ میرے دل میں اللہ کی طرف سے الفاظ ڈالے جاتے تھے اور بعض اوقات کچھ لکھا ہوا میرے سامنے آجاتا تھا اور جب تک ایسا ہوتا رہا خطبہ جاری رہا۔لیکن جب الفاظ آنے بند ہوگئے خطبہ بند ہو گیا۔اور فرماتے تھے کہ یہ خطبہ بھی ہمارے دوستوں کو یاد کر لینا چاہیے۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ ہم اُس وقت بچے تھے۔ صرف سات آٹھ سال کی عمر تھی لیکن مجھے بھی وہ نظارہ یادہے۔ حضرت صاحب بڑی مسجد کے پرانے حصہ کے درمیانی در کے پاس صحن کی طرف منہ کئے ہوئے تھے اور اس وقت آپ کے چہرہ پر ایک خاص رونق اور چمک تھی اور آپ کی آوازمیں ایک خاص درد اور رعب تھا اور آپ کی آنکھیں قریباً بند تھیں۔یہ خطبہ،خطبہ الہامیہ کے نام سے چھپ چکا ہے۔لیکن اس خطبہ الہامیہ کے صرف پہلے اڑتیس صفحے جہاں باب اوّل ختم ہوتا ہے اصل خطبہ کے ہیں۔جو اس وقت حضرت نے فرمایا اور باقی حصہ بعد میں حضرت صاحب نے تحریراً زیادہ کیا تھا۔نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ خطبہ الہامیہ اس عیدالاضحی میں دیا گیا تھا جو 1900ءمیں آئی تھی مگر شائع بعد میں 1902ء میں ہوا۔‘‘(سیرۃ المہدی جلد اول روایت نمبر 156)

(باقی آئندہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button