متفرق مضامین

براہین احمدیہ کا فکری تناظر

(پروفیسر نصیر حبیب۔ لندن)

جو لوگ مسلمان کہلا کر صرف یہی بات جانتے ہیں کہ اسلام تلوار سے پھیلانا چاہیے وہ اسلام کی ذاتی خوبیوں کے معترف نہیں ہیں ان کی کارروائی درندوں کی کارروائی کے مشابہ ہے

1857ء کے گمنام علماء کے درمیان بحث ہو رہی تھی کہ اس موقع پر جہاد فرض ہے کہ نہیں۔بقول مصنف مشائخ دیوبندمولانا شیخ محمد کی رائے تھی کہ ’’انگریزوں کے خلاف جہاد کرنا ہم مسلمانوں پر فرض تو درکنار موجودہ احوال میں جائز نہیں (پھر یہ سوال پوچھا گیا) کیا اتنا بھی سامان نہیں کہ جتنا غزوہ بدر میں تھا ۔ اس موقع پر مولانا شیخ محمد نے سکوت فرمایا…چنانچہ جہاد کی تیاریاں شروع ہوگئیں۔ ‘‘ (مفتی عزیز الرحمٰن، مشائخ دیو بند، یوپی، 1967ء، صفحہ 82)

حیرت ہے کہ اس موقع پر موازنہ دنیاوی ساز و سامان کے حوالے سے ہو رہا تھا۔ روحانی سرمایہ اور تائید الٰہی جو ایک فانی فی اللہ کی اندھیری راتوں کی دعاؤں کے طفیل اصحاب بدر کو حاصل تھی اور وہ روحانی انقلاب جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسی کے فیض سے برپا ہوا جس نے صحابہ کرام کو يَبِيْتُوْنَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَّ قِيَامًا کا نمونہ بنا دیا اسے مکمل فراموش کر دیا گیا۔ اِدھر 1857ء کی جنگ میں شامل ہونے والوں کا حال یہ تھاکہ بقول سر سید احمد خان ’’وہ ایسے خراب اور بد رویہ اور بد اطوار آدمی تھے کہ بجز شراب خوری اور تماشا بینی اور ناچ رنگ دیکھنے کے کچھ وظیفہ ان کا نہ تھا۔‘‘ (سر سید احمد خاں، رسالہ اسباب بغاوت ہند، پٹنہ، 1995ء صفحہ 17)

ہم دیکھتے ہیں اس کے برعکس صحابہ کرام کا طرز عمل کیا تھا جو اس روحانی انقلاب کی دولت سے مالا مال تھے۔ کیا کبھی انہوں نے عورتوں اور بچوں پر تلوار اٹھائی۔ حضرت زبیرؓ بیان کرتے ہیں: ’’ابو دجانہؓ …مشرکین کی صفوں میں گُھس گئے …ہند زوجہ ابوسفیان جو بڑے شور سے اپنے مردوں کو جوش دلا رہی تھی اس کے سامنے آئی اور ابودجانہؓ نے اپنی تلوار اوپر اٹھائی …لیکن میں نے دیکھا ابودجانہؓ نے خودبخود ہی اپنی تلوار نیچی کر لی۔‘‘ (سیرت خاتم النبیینؐ۔ صفحہ 489)لیکن یہاں نام نہاد مجاہدین کیا کر رہے تھے۔ بقول مرزا ظہیر الدین دہلوی انگریز عورتوں اور بچوں سے کیا سلوک ہوا بیان کرتے ہیں: ’’دیکھتے ہیں کہ پچاس پچپن عورتیں اور بچے اور چار یا پانچ مرد زخمی چلے آتے ہیں اورگرد ان کے ایک حلقہ پوربیوں کا ہے اور خلائق کا ہجوم ہے…متفق اللّفظ ان سب نے کہا بھائی مسلمانو!لٓااِلَهَ اِلَّا اللّٰهُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ۔ ہم سب مسلمان ہوتے ہیں۔ ہم کو جان سے نہ مارو…تھوڑی دیر میں ہرکارے نے آکر خبر دی ان قیدیوں کا کام تمام کر دیا گیا…وہ کمبخت کیسے سنگدل تھے کہ جن ظالموں کے ہاتھ ان بچوں اور حور طلعت عورتوں پر اٹھائے تھے۔‘‘

(ظہیر دہلوی، داستانِ غدر، لاہور، 1955ء، صفحہ113-121)اس سنگدلی اور روحانی مفلسی کا نتیجہ یہ تھا کہ تائید الٰہی اور نصرت حق کا کوئی نظارہ نظر نہیں آیا جو غزوہ بدر میں نظر آیا تھا۔ اس روحانی بے سرو سامانی اور افلاس کے باعث تائید الٰہی کس طرف تھی۔ دیوبندیوں کے ایک بزرگ فضل الرحمٰن گنج مراد آبادی کے مطابق ’’خضر کو میںتو انگریزوں کی صف میں پا رہا ہوں…باقی خود خضر کا مطلب کیا ہے؟ نصرت حق کی مثالی شکل تھی۔‘‘ (مناظر احسن گیلانی، سوانح قاسمی جلد دوم، صفحہ 103)

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مسلمان اس حالت کو کیوں کر پہنچے۔تائید الٰہی اور نصرت حق جو اہل ایمان کا خاصہ تھی مسلمانوں کا کیوں ساتھ چھوڑ گئی۔

ہم تاریخ مسلمانانِ ہند کے جب اوراق پلٹتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ جب محمود غزنوی سومناتھ میں نبرد آزما تھا جنگ نازک مرحلے میں داخل ہوگئی پانسہ کسی بھی طرف پلٹ سکتا تھا اس نازک صورت حال میں محمود غزنوی حضرت ابوالحسن خرقانی کا عطا کردہ جبّہ زیب تن کر کے خدا کے حضور سر بہ سجود ہوگیا ۔ چند لمحوں میں فتح کی نوید مل گئی۔ لیکن اب 1757ء سے 1857ء تک انگریزوں کے مختصر لشکر مسلمانوں کو شکست پر شکستیں دے رہے تھے لیکن ماضی کی طرح تائید حق کا کوئی نظارہ نظر نہیں آتا تھا۔ بقول شاعر صورتِ حال یہ تھی۔

اُنہی راستوں نےجن پر کبھی تم تھے ساتھ میرے
مجھے روک روک پوچھا ترا ہم سفر کہاں ہے

آخر اس ناکامی کی وجہ کیا تھی؟ سوانح قاسمی کے مصنف مولانا مناظر احسن گیلانی مورخین کے حوالے سے لکھتے ہیں: ’’چونکہ تحریک وقت سے پہلے شروع ہوگئی تھی نیز سب جگہ ایک ہی وقت میں شروع نہیں ہوئی تھی اس وجہ سے انگریزوں کو (جن کے پاس کافی طاقت تھی) تحریک کچلنے میں آسانی ہوگئی۔‘‘ (مولانا مناظر احسن گیلانی، سوانح قاسمی جلد دوم، صفحہ 85)گویا علمائےکرام کی نظر بھی باہر کی طرف تھی وہ اپنی ناکامی کے اسباب بیرونی دنیا میں ڈھونڈ رہے تھے۔ حالانکہ وجوہات اندر تھیں۔ کوئی بھی اس فلاسفی کا قائل نہیں تھاکہ ’’زمین تمہارا کچھ بھی بگاڑ نہیں سکتی اگر تمہارا آسمان سے پختہ تعلق ہے۔‘‘ (کشتی نوح، روحانی خزائن جلد 19، صفحہ 15)

لہٰذا ہر کوئی ’’سرگشتہ خمارِ رسوم وقیود تھا‘‘۔

اب ان اسباب کا جائزہ لیتے ہیں جن کے باعث آسمان سے رشتہ ٹوٹ گیا۔ بقول شاعر

وقت کرتا ہے پرورش برسوں

حادثہ ایک دم نہیں ہوتا

مسلمانانِ ہندوستان کے زوال کی پہلی وجہ فکری انتشار تھی۔ جس پر قابونہ پایا جاسکا۔

فکری انتشار

جب کسی قوم کی تقدیر بگڑتی ہے تو اس کی سب سے پہلی علامت وہ فکری انتشار ہوتا ہے جو اس کے بنیادی عقائد اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ اور وہ قوم الجھن اور تردّد کا شکار ہوجاتی ہے۔ وہ اپنا اعتماد کھو بیٹھتی ہے اور اس کی قوت عمل سلب ہوجاتی ہے۔ مسلمانانِ ہندوستان کی تاریخ کا جائزہ لیتے ہیں تو ہم دیکھتےہیں کہ ہندوستان میں تیرھویں صدی عیسوی کے آغاز پر مسلم اقتدار قائم ہوگیا لیکن یہاں اسلام کو جو فروغ حاصل ہوا وہ صوفیائے کرام کی بے لوث کوششوں، ایثار و قربانی اور تبلیغی مساعی کے نتیجہ میں ہوا۔ لیکن بعد میں جب ان صوفیائےکرام کا رابطہ ہندوستان کے مذہبی طبقے سے ہوا تو وہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ ہندو جوگی بھی وہی معارف بیان کر رہے ہیں جو اپنے شیوخ سے ایران اور وسط ایشیا میں سن چکے تھے۔ وہ اس نتیجہ پر پہنچے کہ روحانی ترقی کے حصول کے لیے کسی خاص مذہب یا عقیدے سے وابستگی ضروری نہیں اصل کامیابی روحانی طور پر اوپر اٹھنا ہے نہ کہ ایک مذہب سے دوسرے مذہب کی طرف سفر ۔ چنانچہ ان خیالات کا اظہار شاعری میں بھی ہونے لگا۔

وید قرآناں پڑھ پڑھ تھکے
کر کر سجدے گھس گئے متھے

چنانچہ تصوف میں رائج نظریہ وحدت الوجود کی متضاد اور غلط تعبیریں فروغ پاگئیں۔ اور یہ خیال فروغ پا گیا کہ تمام مذاہب خدا تک پہنچاتے ہیں لہٰذا کسی خاص مذہب سے وابستگی کوئی ضروری امر نہیں۔ اس فکری انتشار کی فضا میں مہدوی تحریک نے جنم لیا جس کے بانی سید محمد جوتیوری تھے گو بعد میں انہیں یہ احساس ہوا کہ تائید الٰہی کی جو فعلی شہادت مہدی معہود کے بارے میں بیان ہوئی ہے وہ ان کے ساتھ نہیں۔

لیکن بعض لوگ جو ان پر ایمان لائے ان میں ایک شیخ علائی بھی تھے۔ مخدوم الملک عبداللہ سلطان پوری نے بادشاہ کے کان بھرے کہ شیخ علائی کو قتل کروا دیا جائے ۔ بادشاہ سلیم شاہ نے جب شیخ علائی کو طلب کیا تو وہ ان سے بہت متاثر ہوا اس نے ان کا معاملہ ایک بزرگ عالم میاں بڈھے شاہ کے سپرد کر دیا۔ میاں بڈھے شاہ نے بادشاہ کو خط لکھا کہ ’’علامات مہدی کے بارے میں بہت اختلاف ہے ان سے شیخ علائی کے کفر اور ایمان کے متعلق فیصلہ نہیں ہوسکتا۔ لیکن یہ خط بادشاہ تک نہ پہنچنے دیا گیا۔ بالآخر یہ معاملہ مخدوم الملک ملّاں عبد اللہ سلطان پوری کے سپرد کر دیا گیا۔ بقول شیخ اکرام ’’شیخ علائی کو کوڑے مروا مروا کر شہید کر دیا۔‘‘ (شیخ محمد اکرام، رودِ کوثر، فیروز سنز، 1968ء، صفحہ 32)

علماء دوسروں کو مروانے سے دریغ نہیں کرتے تھے لیکن خود عبداللہ سلطان پوری نے ’’ایک حیلہ شرعی نکال رکھا تھا۔ یعنی ہر سال کے آخر پر تمام روپیہ بی بی کو ہبہ کر دیتا تھا اور سال کےاندر اندر پھر واپس لے لیتا تھا کہ زکوٰة سے بچ جائیں اور اس کے علاوہ اکثر…بنی اسرائیل کے حیلے بھی ان کے آگے شرمندہ ہیں۔ (مولوی محمد حسین آزاد، دربارِ اکبری، لاہور، 1939ء، صفحہ 314)چنانچہ اپنی کوتاہ اندیشی اور حیلہ سازیوں کی وجہ سے علماء عوام اور اشرافیہ کی نظروں سے گر گئے۔

مغل بادشاہ اکبر نے عبادت خانہ قائم کر کے مختلف مذاہب کے پیروکاروں کے درمیان مذہبی مباحثہ کا اہتمام کیا۔ وہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ ملّاں عبداللہ سلطان پوری اور دوسرے علماء پادریوں کے اعتراضات کا کوئی معقول جواب نہ دے سکے۔ پادریوں کو اگر کسی نے معقول جوابات دیئے تو وہ ابو الفضل اور اکبر نے دیے۔ بادشاہ نے علماء سے مایوس ہوکرصلح کل کی پالیسی اختیار کی جس کے تحت حکومت کے انتظام و انصرام میں تمام مذاہب کے پیروکاروں کو شامل کر لیا گیا۔ اسی دوران ایک ہندو پر توہین رسالت کا الزام لگا جسے شیخ عبد النبی نے موت کی سزا سنائی۔ بعد میں کسی ملّاں نے اکبر کو بتایا کہ شیخ عبدالنبی حنفی ہے۔ لیکن شیخ عبد النبی نے فیصلہ فقہ شافعی کے مطابق کیا ہے۔ اس پر ایک محضر نامہ تیار کیا گیا۔ جس میں یہ اعلان کیا گیا کہ اگر کسی معاملہ میں فقہاء کے درمیان اختلاف رائے ہو تو یہ بادشاہ کے اختیار میں ہوگا کہ کس امام کی رائے کو فوقیت دے۔ حیرت انگیز طور پر دوسرے لوگوں کے علاوہ اس محضر نامے پر ملّاں عبد للہ سلطان پوری نے بھی دستخط کر دیے۔ جو دوسروں کو قتل کروانےسےگریز نہیں کرتا تھا لیکن جب خود پہ وقت پڑا تو دودھ پینے والے مجنوں ثابت ہوئے۔

یہ شہادت گہِ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا

اکبر کے زمانے میں جومذہبی بے اعتدالیاں اورفکری انتشار پیدا ہوا اس کے خلاف حضرت مجدد الف ثانیؒ نے تجدید و اصلاح کا بیڑا اٹھایا۔ آپ نے نظریہ وحدت الوجود کی غلط تشریحات و تعبیرات کے ازالے کے لیے نظریہ وحدت الشہود پیش کیا لیکن مسلم اشرافیہ دو گروہوں میں تقسیم ہوگئی۔ ایک نظریہ وحدت الوجود کا حامی اور دوسرا وحدت الشہود کا ہم خیال۔ بقول حضرت شاہ ولی اللہ حقیقت میں ان دونوں نظریات میں کوئی بنیادی اختلاف نہیں۔ اس کی نمایاں مثال ان کا مکتوب مدنی ہے۔ جس میں انہوں نے ابن العربی کی وحدت الوجود اور امام ربّانی کی وحدت الشہود کو ایک دوسرے کے مطابق ثابت کیا ہے۔‘‘ (شیخ محمد اکرم، رودِ کوثر، ادارہ ثقافت اسلامیہ، صفحہ 581)

گویا حضرت شاہ ولی اللہ کے نزدیک دونوں نظریات کے درمیان جو اختلاف پایا جاتاہے وہ محض لفظی نزاع ہے لیکن اصل مسئلہ تو وہ غلط تشریحات تھیں۔ جو بھگتی تحریک کے زیر اثر مسلمانوں میں راہ پاگئی تھیں۔ اس نظریہ کے اثرات اتنے گہرے تھے کہ بعد کے دور میں مولانا رشید گنگوہی اپنے ایک مرید کو اپنے بزرگ ضامن علی بلال آبادی کے بارے میں جو ان کے نزدیک غرق فی التوحید بزرگ تھے لکھواتے ہیں کہ سہارن پور کی طوائفیں ان کی مرید تھیں جب ایک طوائف ان کی زیارت کے لئے نہ آئی تو انہوں نے اسے بلوا کر پوچھا کہ وہ کیوں نہیں آئی اس نے جواب دیا حضرت رو سیاہی کی وجہ سے شرماتی ہوں۔ میاں صاحب بولے۔ ’’بی بی تم شرماتی کیوں ہو کرنے والا کون اور کرانے والا کون وہی تو ہے۔‘‘ (مناظرہ جھنگ، اہل سنہ پبلی کیشنز دینہ، ضلع جہلم، صفحہ 140)

گلۂ جفائے وفا نما کہ حرم کو اہلِ حرم سے ہے
کسی بت کدے میں بیاں کروں تو کہے صنم بھی ’ہَری ہَری‘

نظریہ وحدت الوجود کی غلط تشریحات اور تصورات کس طرح اسلامی روح کو مجروح کر رہے تھے اس اقتباس سے واضح ہے۔ ملفوظات احمد رضا بریلوی میں واقعہ درج ہےکہ ایک شخص دریا پار کرنا چاہتا تھا لیکن کوئی کشتی نہیں تھی۔ ’’جب اس نے حضرت کو جاتے دیکھا عرض کی میں کس طرح آؤں فرمایا یا جنید! یا جنید! کہتا چلا آ…جب بیچ دریا میں پہنچا تو شیطان لعین نے دل میں وسوسہ ڈالا کہ حضرت تو یا اللہ کہیں اور مجھ سے جنید کہلواتے ہیں۔ میں بھی یا اللہ کیوں نہ کہوں ۔ اس نے یا اللہ کہا، اور ساتھ ہی غوطہ کھایا پکارا …حضرت میں چلا فرمایا وہی کہہ یا جنید جنید…جب کہا دریا سے پار ہوا۔ (محمد مصطفیٰ رضا خان، ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت، کراچی، 2009ء، صفحہ 166)

ان تصورات نے کس طرح روح عمل کو سلب کر لیا اور تعمیر کردار کے جذبہ کو نقصان پہنچایا۔ اس کی مثال اس قصے میں نظر آتی ہے۔ جو مولوی احمد رضا کی کتاب میں درج ہے۔ ’’ایک فقیر بھیک مانگنے والا ایک دکان پر کھڑا کہہ رہا تھا ایک روپیہ دے دو…ورنہ…دکان الٹ دوں گا…ایک صاحب دل کا گزر ہوا…انہوں نے دکان والے سے فرمایا جلد روپیہ اسے دے ورنہ دکان ٹوٹ جائے گی…لوگوں نے عرض کی یہ بےشرع جاہل کیا کر سکتا ہے؟ فرمایا میں نے اس فقیر کے باطن پر نظر ڈالی کہ کچھ ہے بھی۔ معلوم ہوا بالکل خالی ہے …اس کے شیخ کو دیکھا۔ انہیں اہل اللہ سے پایااور وہ منتظر کھڑے ہیں کہ کب اس کی زبان سے نکلے اور میں دکان الٹ دوں۔ (ملفوظات اعلیٰ حضرت، مرتبہ مصطفیٰ احمد خان، کراچی 2009ء)

ان قصوں اور کہانیوں سے حقیقت خرافات میں کھو گئی۔ قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے اِنَّ اللّٰهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰى يُغَيِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِهِمْ۔ لیکن یہاں یہ بتایا جارہا ہے کہ اگر شیخ پیچھے کھڑا ہے تو عمل کی ضرورت نہیں ۔جب قوم بے عمل ہوجاتی ہے تو پھر خدا کی تقدیر حرکت میں آتی ہے۔

فطرت افراد سےاغماض بھی کر لیتی ہے
کبھی کرتی نہیں ملت کے گناہوں کو معاف

علماء کا تو حال خراب تھا ہی وہ آپس میں ایک دوسرے پر فتوےلگا رہے تھے۔ لیکن ایک افسوسناک پہلو یہ سامنے آیا کہ حکماء اور صوفیاء میں بھی چپقلش شروع ہوگئی۔ حکماء صوفیاء کی تضحیک کرتے اور مذہبی عقائد کی تخفیف کرتے جواب میں صوفیاء نے انسان کے مقصد پیدائش کے حوالے سے بعض باتیں کیں۔ مثلاً حضرت مجدد الف ثانیؒ نے لکھا ’’ان منظم اور مرتبہ علوم میں ایک علم ہندسہ ہے محض لایعنی اور بیہودہ اور لاطائل ہے بھلا مثلث کے تینوں زاویہ کے ساتھ برابر ہونا کس کام آئےگا۔‘‘ (سبط حسن، پاکستان میں تہذیب کا ارتقاء، کراچی، 1989ء، صفحہ 324)حضرت مجدد الف ثانیؒ خود علم ہندسہ کے ماہر تھے لیکن یہ عبارت کسی خاص پس منظر میں لکھی گئی تھی۔ لیکن ان الفاظ کا غلط مفہوم لایا گیا۔ لہٰذا مغلوں کے عہد میں علوم عقلیہ کو کوئی خاص فروغ حاصل نہیں ہوسکا۔

’’امیر فتح اللہ شیرازی جیسے بزرگ چاہتے تو یہاں بھی کم از کم منتخب اداروں میں سائنس کی تعلیم کاآغاز ہوسکتا تھا۔ مغرب میں اس وقت گلیلیو پیدا ہوچکا تھا۔ جس نے نئی ایجاد شدہ دُور بین کی مدد سے علم ہیئت اور فلکیات میں بنیادی تبدیلیاں کیں اور فی الحقیقت سائنس میں مغربی ترقیوں کے نئے دور کا آغاز کیا لیکن ہمارے ہاں یہ سلسلہ قائم نہ ہوا۔‘‘ (شیخ محمداکرم، رودِ کوثر، فیروز سنز، 1968ء، صفحہ 171)

مَا كُنَّا فِيْٓ اَصْحٰبِ السَّعِيْرِ(67:9)سے معلوم ہوتا ہے کہ تدبر کے سوا ایمان صحیح نہیں ہوتا۔ علم صحیح اور عقل سلیم ۔ یہ بھی خوش قسمتی کی نشانیاں ہیں۔ (تفسیر حضرت مسیح موعودؑ،جلد ہفتم ۔ صفحہ 36)قرآن پاک کی سات سو سے زیادہ آیات میں تدبر پر زور دیا گیا ہے۔ لیکن افسوس اس پیغام کو نظر انداز کر دیا گیا۔ مسلم اشرافیہ میں تقسیم اور اختلافات گہرے ہوتے چلے گئے۔ داراشکوہ قادری اور اورنگ زیب عالمگیر کے درمیان جنگ تخت نشینی دراصل نظریہ وحدت الوجود اور نظریہ وحدت الشہود کے درمیان جنگ تھی جس میں اورنگ زیب عالمگیر کو فتح حاصل ہوئی۔ جو نظریہ وحدت الشہود کی فتح تھی۔ علماء داراشکوہ کے مرشد سرمد کو پکڑ لائے اور اس پر کفر کا فتویٰ لگا کر قتل کروا دیا۔ (مولانا ابوالکلام آزاد، رباعیات سرمد، دہلی، 1963ء، صفحہ 19)

گو اورنگ زیب عالمگیر کے دور میں نظریہ وحدت الشہود کو فتح حاصل ہوئی لیکن نظریہ وحدت الوجود ایک بڑے طبقے کے قلب و ذہن سے نہ نکل سکا۔ جس کی جھلکیاں ہمیں بڑے بڑے ادبی شاہکاروں اور شاعری میں نظر آتی ہیں۔ چنانچہ مشہور داستان ہیر رانجھا کے کردار دراصل نظریاتی علامتیں ہیں۔ ہیر انسانی روح کی علامت ہے جبکہ رانجھا طریقت اور کھیڑا شریعت کی علامت ہے۔

چنانچہ وارث شاہ کا یہ شعر دراصل علماء کے تسلط کے خلاف اہل طریقت کا احتجاج ہے۔

ڈولی چڑھدیاں ماریاں ہیر چیکاں
مینوں لے چلے بابلا لے چلے وے

(سید علی عباس جلالپوری، مقامات وارث شاہ)

نظریہ وحدت الوجود کی غلط تشریحوں کی بیخ کنی کے لیے کسی ایسے مرد حق کی ضرورت تھی جس کا قرآن زمینی نہیں آسمانی ہو۔ حضرت خلیفة المسیح الاول رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’مجھ کو ایک وجودی کے ساتھ کھانا کھانے کا اتفاق ہوا۔ ایک کتّے کی طرف جو ہڈی پھینکی تو وہ وجودی بولا ’’یہ بھی آپ ہی ہیں‘‘۔ وہ وجودی سیال والوں کا مرید تھا۔ میں نے کہا اب تو آپ کو موضع سیال میں جانے کی حاجت بھی نہ رہی۔ وجودی بولا واہ مولوی صاحب تم نے ہمارے مرشد کو گالی دی میں نے کہا تم نے ہمارے خدا کو گالی دی۔ فَبُھِتَ‘‘ (اکبر شاہ نجیب آبادی، مرقات الیقین فی حیات نور الدین، قادیان 2002ء، صفحہ 257)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’وجودی نے جو قدم مارا ہے وہ حد ادب سے بڑھ کرہے۔ بیسیوں کتابیں ان لوگوں نے لکھی ہیں مگر ہم پوچھتے ہیں کہ کیا کوئی وجودی اس بات کا جواب دے سکتا ہے کہ واقعی وجودی میں خدا ہے یا تصور ِ خدا ہے؟ اگر خدا ہی ہے تو کیا یہ ضعف اور یہ کمزوریاں جو آئے دن عائد حال رہتی ہیں۔ یہ خدا تعالیٰ کی صفات ہیں؟ ذرا بچہ یا بیوی بیمار ہو جاوے تو کچھ نہیں بنتا اور سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا کیا جاوے مگر خدا تعالیٰ چاہے تو شفا دے سکتا ہے۔ حالانکہ وجودی کے اختیار میں یہ امر نہیں۔‘‘ (تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام، سورہ شوریٰ، جلد ہفتم، صفحہ 122)

اس فکری انتشار اور روحانی زوال کے نتیجے میں مغلیہ سلطنت زوال کا شکار ہوگئی۔ اس تناظر میں حضرت شاہ ولی اللہؒ کی شخصیت ابھر کر سامنے آئی۔ آپ نے اپنے نور فراست سے اس حقیقت کا ادراک کر لیا کہ اِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوْا هٰذَا الْقُرْاٰنَ مَهْجُوْرًا (35:31)آپ نے اسلام کی حقیقی تعلیم سے روشناس کرانے کے لیے قرآن پاک کا فارسی میں ترجمہ کیا جو اس وقت سرکاری زبان تھی۔ لیکن جب علماء کو پتہ چلا تو وہ تلواریں کھینچ کر آگئے۔ (شیخ محمد اکرم، رودِ کوثر، فیروز سنز، 1969ء، صفحہ552)حضرت شاہ ولی اللہ نے امت مسلمہ کے اندرونی اختلاف کو دور کرنے کے لیے ایک اصول پیش کیا۔

“The personality of the Holy Prophet (PBUH) was a comprehensive one and with this comprehensiveness it was possible to reconcile what superficially appeared incompatible.”
(History of the Freedom Movement, Pakistan Historical Society Karachi, 1957 P.494)

یعنی بقول حضرت شاہ ولی اللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت ایک جامع شخصیت ہے لہٰذا جو ہمیں بظاہر سطحی طور پر متضاد نظر آتا ہے۔ ہم آپ کی جامع شخصیت کی روشنی میں ہم آہنگ کر سکتے ہیں۔ حضرت شاہ ولی اللہ نے اس خیال کی روشنی میں اس وقت مسلمانانِ ہندوستان میں پائے جانے والے اختلاف دور کرنے کی کوشش کی۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے پانی پت کی تیسری لڑائی میں احمد شاہ ابدالی کی قیادت میں شیعہ اور سنی امراء کو اکٹھا کر دیا جس کے نتیجہ میں مرہٹوں کو شکست فاش ہوئی۔ لیکن ہندوستان کے سیاسی افق پر ابھرتی ہوئی نئی قوت برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی آپ کی نظروں سے اوجھل رہی۔ ادھر ایک مرہٹہ جرنیل مہادیوجی سندھیا جو پانی پت کی تیسری لڑائی میں اپنی جان بچا کر بھاگ نکلا تھا اپنا اقتدار دہلی پر قائم کرنےمیں کامیاب ہوگیا۔ لیکن بادشاہ جو اب مرہٹوں کے رحم و کرم پر تھا ان سے خوش نہیں تھا۔

کیونکہ مرہٹوں کی پنشن پر اس کا گزارہ نہیں ہوتا تھا۔ اس تناظر میں 1803ء جنرل لیک (Lake)نے دہلی پر قبضہ کر کے بادشاہ کو مرہٹوں سے رہائی دلائی۔ یہ بھی ایک کہانی (Myth)ہے کہ انگریزوں نے اقتدار مسلمانوں سے چھینا تھا۔ ادھر مسلمانانِ ہندوستان کی حالت روز بروز ابتر ہوتی جارہی تھی۔ پنجاب کے مسلمان سکھوں کے جبر و استبداد کا شکار تھے انہیں اذان تک دینے کی اجازت نہیں تھی۔

’’یہ بھی ایک صحیح روایت ہے کہ جب آپ (سید صاحب) سکھوں سے جہاد کرنے کو تشریف لے جاتے تھے کسی شخص نے آپ سے پوچھا کہ آپ دور سکھوں پر جہاد کرنے کیوں جاتے ہو؟ انگریز جو اس ملک پر حاکم ہیں دین اسلام سے کیا منکر نہیں؟…سید صاحب نے جواب دیا کہ کسی کا ملک چھین کر ہم بادشاہت نہیں کرنا چاہتے سکھوں سے جہاد کرنے کی صرف یہی وجہ ہے کہ وہ ہمارے برادرانِ اسلام پر ظلم کرتے ہیں اور اذان وغیرہ فرائض مذہبی کے ادا کرنے کے مزاحم ہوتے ہیں اگر سکھ اب یا ہمارے غلبے کے بعد ان حرکات مستوجب جہاد سے باز آجائیں گے تو ہم کو ان سے بھی لڑنے کی ضرورت نہ رہےگی۔‘‘ (مولانا غلام رسول مہر،تحریک سید احمد شہید، جلد اول، مکتبہ الحق بمبئی، 2008ء صفحہ 342)

سید احمد شہید کو ابتدا میں کامیابی ملی لیکن بقول شیخ اکرام انہوں نے ’’قرنِ اول کے مخلص مسلمان کی طرح بہ یک جنبش لب احکام خداوندی کو نافذ کرنا چاہا…شاید مصلحین کی کوششیں بھی اس قدرمہلک ثابت نہ ہوتیں اگر سرداران پشاورکی مسلسل اور مکارانہ مخالفت متقیانہ قوتوں کو یکجا نہ کر لیتی۔‘‘(شیخ اکرام، موجِ کوثر، لاہور، 1975ء، صفحہ 31)چنانچہ سازش کر کے ان مجاہدین کو نماز پڑھتے ہوئے شہید کر دیا گیا۔

’’شقاوت کی انتہا یہ ہے کہ شہیدوں کی لاشوں کو گھوڑوں کے پاؤں تلے روندتے اور کہتے کہ اٹھو اور نماز کی تاکید کرو یا عشر لو۔‘‘ (غلام رسول مہر، سید احمد شہید، لاہور، حصہ دوم، صفحہ 322)

سید احمد شہید کی تحریک گو بظاہر ناکام رہی لیکن آپ کی روحانی قوت کے فیض سے سکھ حکومت کا پنجاب سے خاتمہ ہوگیا۔ 1857ء کے واقعہ کے بعد دلّی کی سات سو سالہ تہذیب کا سورج ڈوب گیا۔ یہ سانحہ اتنا بڑا تھا کہ بقول سرسید احمد خان (جن کے ننھیال شاہ عبدالعزیز کے عقیدت مند تھے اور والدشاہ غلام علی دہلوی سے بیعت تھے)

’’میراارادہ ہندوستان میں رہنے کا نہیں ہے۔ میں اس وقت ہرگز نہیں سمجھتا تھا کہ قوم پھر پنپے گی اور کچھ عزت پائے گی اور جو حال اس وقت قوم کا تھا وہ مجھ سے دیکھا نہیں جاتا تھا۔‘‘ (مولانا الطاف حسین حالی، حیاتِ جاوید، لاہور، 2002ء، صفحہ 95)

یہی حالت علماء کی بھی تھی بعض حاجی امداد اللہ مہاجر مکی کی طرح ہجرت کر گئے اور بعض پس منظر میں چلے گئے۔ بعد ازاں اس صورت حال سے نپٹنے کے لیے سرسید احمد خان اور مولانا محمد قاسم نانوتوی نے اپنے خیالات کے مطابق اپنے اپنے مدرسہ کی بنیاد رکھی۔ مولانا محمد قاسم نانوتوی مسلمانان ہندوستان کا دین بچانا چاہتے تھے جبکہ سرسید احمد خان دنیا۔

مولانا قاسم نانوتوی سمجھتے تھے کہ مسلم ریاست کی غیرموجودگی میں اسلامی علوم اور ورثہ کی حفاظت کے لیے مسلمانان ہندوستان کو بحیثیت قوم اس کا بیڑا اٹھانا چاہیے۔آپ نے 1867ء میں دارالعلوم دیو بند کی بنیاد رکھی۔ لیکن دیوبند میں ایک طبقہ یہ خیال کرتا تھا کہ مولانا قاسم نانوتوی نے یہ مدرسہ اس لئے بنایا تھا کہ ’’1857ء کی ناکامی کی تلافی کی جائے۔‘‘ (مولانا سید مناظر احسن گیلانی، احاطہ دارالعلوم میں بیتے ہوئے دن، مکتبہ دیو بند، صفحہ 170)

چنانچہ مولانا محمود الحسن نے اس کے لیے منصوبہ سازی شروع کر دی۔ چنانچہ تحریک ریشمی رومال اسی تصور کا شاخسانہ تھی۔ جبکہ دوسرا طبقہ یہ سمجھتا تھا کہ یہ ادارہ اسلامی تعلیم کے فروغ کے لیے قائم کیا گیاہے۔ لہٰذا مولانا قاسم نانوتوی کے صاحبزادہ مولانا محمد احمد ان خفیہ منصوبوں اور تحریک ریشمی رومال کے کرداروں کی نقل و حرکت کی اطلاع انگریزوں تک پہنچا دیتے تھے۔

(Shan Muhammad, Indian Muslims, Documentary Record, 1857, 1900)

مولانا محمد احمد کو ان خدمات کے عوض شمس العلماء کا خطاب اور 300 روپیہ وظیفہ گورنمنٹ کی طرف سے عطا ہوا۔

مولانا سندھی 1857ء کی تلافی کے لیے پہلی جنگ عظیم کے آغاز پر کابل پہنچے۔ ’’سات سال کابل میں اور پھر تین سال ترکی میں رہ کر انہوں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھ کر اور عملی زندگی میں تجربہ کر کے جان لیا کہ سیاسی خوش اعتقادی کا یہ محل پوری طرح ڈھےگیا ہے۔‘‘ (محمد سرور، افادات و ملفوظات مولانا عبید اللہ سندھی، ساگر آکادمی لاہور، صفحہ 58)

یہ الگ بات ہے کہ یہ تصور کہ ریاست اور تلوار کی مدد کے بغیر اسلام کی تبلیغ اور فروغ کا فریضہ سر انجام نہیں دیا جاسکتا ہے۔ تحریک ریشمی رومال سے لے کر القاعدہ کے قیام اور اس کی سرگرمیوں سے بعض مسلمانوں کو متاثر ہو رہے ہیں کیونکہ مولانا مودودی کی طرح وہ سمجھتے ہیں کہ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسی اور دعوت و تبلیغ نہیں بلکہ تلوار تھی جس نے دلوں کا زنگ اتارا تھا۔ انہوں نے گویا ایک طرح حقائق کو مسخ کر کے عام مسلمانوں کے سامنے اسلام کی صحیح تصویر پیش نہیں کی۔ مؤرخ Karen Armstrongنے ایک پتہ کی بات کی ہے۔

“We need the Prophet’s story at this dangerous time. Muslim extremists must not be allowed to hijack the biography of Muhammad and twist it to suit their own ends.”
(Karen Armstrong, Muhammad, London, 2001, Page 14)

بعض علماء سمجھتے ہیں کہ اسلام کی تلوار کے بغیر دلوں کے پردے چاک نہیں ہوسکتے۔ (سید ابوالاعلیٰ مودودی، الجہاد فی الاسلام، لاہور، 2005، صفحہ 174)

ان شدت پسند دانشوروں اور علماء نے بقول کیرن آرمسٹرانگ تاریخ اسلام کو یرغمال بنا لیا ہے اور اپنی من مانی تشریحوں اور تفسیروں سے مخلوق خدا کو گمراہ کر رہے ہیں۔

’’جو لوگ مسلمان کہلا کر صرف یہی بات جانتے ہیں کہ اسلام کوتلوار سے پھیلانا چاہیے وہ اسلام کی ذاتی خوبیوں کے معترف نہیں ہیں ان کی کارروائی درندوں کی کارروائی سے مشابہ ہے۔‘‘ (تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 167 حاشیہ)

اُس دور کا تناظر یہ تھا کہ ’’بعض مخالفوں نے اسلام کو تلوار سے روکنابلکہ نابود کرنا چاہا تھا سو اسلام نے اپنی حفاظت کے لئے ان پر تلوار اٹھائی۔‘‘ (گورنمنٹ انگریزی اور جہاد، روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 31)

’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نہ صرف پیغمبری کا عہدہ رکھتےتھے بلکہ وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک بادشاہ با اختیار کی طرح ملکی مصالح قائم رکھنے کے ذمہ دار ٹھہرائے گئے تھے‘‘ (چشمہ معرفت، روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 240)

لہٰذا اگر پیغام حق کے راستے میں کوئی کوہِ گراں نہیں ہے تو نہ تلواروں کی ضرورت ہے نہ ریاست کےجبر کی۔ ضرورت ہے تو کسی ایسے مطہر وجود کی جو زمانہ کے تناظر کو سمجھ سکے۔ کیوں کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے لَا يَمَسُّهٗٓ اِلَّا الْمُطَهَّرُوْنَ۔ اوریہ کام امام زمانہ کے علاوہ کوئی اور نہیں کر سکتا۔ چنانچہ امام زمانہ کی چشمِ بصیرت نے زمانہ کا ادراک اس طرح کیا کہ اب اسلام کی شان جمالی کے ظہور کے لیے سامان پیدا ہو رہے ہیں اور اب اسلام کی تبلیغ و اشاعت کے راستے میں کوئی روک نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ’’زمین پر ہر ایک سامان مہیا کر دیا ہے اور ریل اور تار اوراگن بوٹ اور ڈاک کے احسن انتظاموں اور سیرو سیاحت کے سہل طریقوں کو کامل طور پر جاری فرمادیاہے۔‘‘ (گورنمنٹ انگریزی اور جہاد، روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 16)آپ نے زمانہ کا ادراک فرماکر نام نہاد مجاہدین کو انتباہ فرمایا۔

یہ حکم سن کے بھی جو لڑائی کو جائے گا
وہ کافروں سے سخت ہزیمت اٹھائے گا

آپؑ کی یہ پیشگوئی بار بار پوری ہوئی۔ چنانچہ مولانا عبیداللہ سندھی نےجو تحریک ریشمی رومال کے ایک اہم کردار تھے جب نئی دنیا کا جلوہ دیکھا تو خیرہ ہوگئے۔ جب بین الاقوامی سیاست کی مرکبات دیکھیں اور جدید دنیا سے رابطہ ہوا تو وہ اپنا خیال ترک کر بیٹھے اور ایک انداز میں جماعت احمدیہ کے موقف کی سچائی کو تسلیم کرنے لگے۔ اور جماعت کی مساعی کے بارے اپنے ایک خط میں تسلیم کیا۔

’’ایک مقصد کے لئے مختلف نظریات پر لوگ کام کر رہے ہیں ہر ایک کو کام کرنے کا موقعہ دینا چاہیے۔ خدا جانے کس طریق سے کامیابی ہوتی ہے۔‘‘ (ڈاکٹر ابو سلیمان سندھی، مولانا عبیداللہ سندھی کے مکتوبات، المحمود اکیڈمی، لاہور، صفحہ 131)

گویا آپ نے جماعت کے بارے میں تسلیم کیا کہ ممکن ہے اللہ تعالیٰ ان کے طریق کو کامیابی عطا فرمائے لیکن مولانا نے نام نہاد غازیوں کو جو تلواروں سے دلوں کا زنگ اتارنے کی فکر میں تھے دو ٹوک الفاظ میں فرمایا۔ ’’یہ گھروندے جو تم نے بنا رکھے ہیں اور جنہیں فلک الافلاک سے بلند سمجھتے ہو یہ گھروندے زمانے کے ہاتھوں سےاب نہیں بچ سکتے۔ تمہارا تمدن تمہارا سماج، تمہارے افکار، تمہاری سیاست اور تمہاری معاشرت سب کھوکھلی ہوچکی ہیں۔ تم اسے اسلامی تمدن کہتے ہو۔ لیکن اس تمدن میں اسلام کا شائبہ بھی نہیں تم مذہب کا نام لیتے ہو لیکن یہ مذہب تمہاری ہٹ دھرمی کا نام ہے۔‘‘ (محمد سرور، افادات و ملفوظات سندھ، ساگر اکیڈمی، 1972ء لاہور، صفحہ 18)

دوسرا مکتبہ فکر سرسید احمد خاں اور ان کے رفقاء کا تھا جو یہ سمجھتے تھے کہ اگر مسلمانان ہندوستان کی دنیا نہ بچائی گئی تو دین بھی ہاتھ سے جاتا رہے گا ۔مسلم اشرافیہ کو یہ غم بھی کھائے جا رہا تھا کہ ہندو ہم سے ملازمتوں میں بڑھتے چلے جارہے ہیں۔ سرسید احمد خاں نے نوجوانوں کے لیے نئے سسٹم میں جگہ بنانے کے لیے 1875ء میں محمڈن اینگلو اورینٹل کالج کی بنیاد رکھی۔ تاکہ نوجوانوں کو اس قابل بنایا جائے کہ وہ نئے سسٹم میں اپنی جگہ بنائیں۔ انگریزی تعلیم کی ترویج کے ساتھ یہ بھی لازمی تھا کہ اس کے ساتھ ساتھ نوجوان مغربی افکار اور سائنسی علوم سے بھی روشناس ہوں گے اور ان کی سوچ میں ایک نمایاں تبدیلی آئے گی اور وہ اپنے مذہب کے حوالے سے نئے نئے سوالات اٹھائیں گے جس کا علماء جن کا ان جدید علوم سے کوئی تعلق نہیں ہے جواب نہیں دے سکیں گے۔ نوجوانوں کے سامنے مغرب کی فکری تاریخ اور فتوحات ہوں گی وہ ضرور اُن طرز فکر سے اور مغرب کی اصلاحی تحریکوں سے متاثر ہوں گے ۔ ان کی نظروں سے بھی کلیسا کے جبر کے خلاف آزاد خیال دانشوروں کے اخبارات گزریں گے۔ اور وہ ان سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکیں گے۔

چنانچہ سرسید کو ’’مدت سے یہ خیال تھا کہ انگریزی تعلیم سے اسلام کے حق میں جن مضر نتائج کے پیدا ہونے کا خدشہ ہے ان کا انسداد کیا جائے ۔ لیکن جو طریقہ استدلال کا زمانہ گذشتہ میں یونانی فلسفہ کے مقابلہ کے لئے ہمارے متکلمین نے اختیار کیا تھا…وہ کسی طرح فلسفہ حال کے مقابلہ میں کچھ کام نہیں دے سکتا تھا …اس کے مقابلہ کے لئے ایک نئے علم کلام کی بنیاد ڈالی جائے۔‘‘ (الطاف حسین حالی، حیات جاوید، آزاد کشمیر 2000ء،صفحہ 260)سرسید کو اس چیلنج کا علم تھا اور جلدی جلدی انہوں نے قرآن پاک کی ایسی تفسیر بیان کرنی شروع کردی جو کہ زمانہ کے مزاج سے ہم آہنگ ہو۔ لیکن سرسید احمد خاں نے اس شوق جنوں میں ’’بعض عقائد اسلامیہ کی ایسے رنگ میں تاویلیں کیں جو قرآن مجید کی آیات بینہ اور امتِ محمدیہ کے متفقہ مسلمہ عقائد اسلامیہ کے صریح مخالف تھیں۔ مثلاً یہ کہ انہوں نے لفظی یا خارجی وحی اور وجود ملائکہ اور استجابت دعا وغیرہ کا انکار کیا۔‘‘ (تعارف برکات الدعا، روحانی خزائن جلد 6 صفحہ IX- X)

گویا وہ اسلام کی کشتی سے جو اس وقت ان کے خیال کے مطابق نئے فلسفہ کے طوفان کی زد میں تھی جواہرات اور نفیس مال کی گٹھڑیاں دریا میں پھینک رہے تھے لیکن بقول حضرت مسیح موعود علیہ السلام ’’اس کشتی کا نا خدا خداوند تعالیٰ ہے نہ آپ وہ بار بار وعدہ کر چکا ہے کہ ایسے خطرات میں یہ کشتی قیامت تک نہیں پڑے گی ۔ اور وہ ہمیشہ اس کو طوفان اور بادِ مخالف سے آپ بچاتا رہے گا۔ جیساکہ فرماتا ہے اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ اِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ (الحجر:10)۔(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 260حاشیہ)

سرسید احمد خاں اپنے اس نئے علم الکلام اورمعذرت خواہانہ رویے کے باعث نوجوانوں کے دلوں میں کوئی یقین محکم پیدا نہیں کر سکے۔ جب بھی اسلام پر کوئی اعتراض ہوتا ان کا رویہ یہی ہوتا

سرِتسلیم خم ہے جو مزاج یار میں آئے

اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ علی گڑھ کالج میں ایک Anti Godسوسائٹی قائم کی گئی جس کی خبر سن کر علامہ اقبال کی رات کی نیند اڑ گئی۔ (مکاتیب اقبال، نذیر نیازی)

سرسید احمد خاں مذہب کے مابعد الطبیعاتی کردار کو ختم کر کے اور مذہب کو تہذیب و تمدن کی ترقی سے لاتعلق ثابت کر کے اس حقیقت کو فراموش کر گئے بقول ٹائن بی ’’جب کبھی لوگوں نے اپنے مذہب پر اعتقادکھو دیا تو ان کی تہذیب سماجی تشتت و افتراق کا شکار ہوگئی۔‘‘ (ٹائن بی، اکیڈا، چوز لائف، آکسفورڈ صفحہ 288)لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ Anti God سوسائٹی قائم کرنے والے طبقہ کے اندر کوئی جرأتِ کردار نہ تھی بلکہ یہ عقائد روحانی کمزوری اور ذہنی پراگندگی کا کرشمہ تھے اس لیے ’’جب یونیورسٹی کے حکام نے اساتذہ کے عقائد کی تحقیق شروع کی تو یہ لوگ اس دورِ احتساب میں اپنے آزاد خیالات پر قائم نہ رہ سکے۔ اور اٰمَنْتُ بِاللّٰہِ وَمَلَائِکَتِہٖ وَ کُتُبِہٖ وَ رُسُلِہٖ پر دستخط کرنے والوں میں پیش پیش تھے۔‘‘(شیخ محمد اکرام، موج کوثر، فیروز سنز، صفحہ 151)

یہ حال جدید تعلیم یافتہ طبقہ کا تھا۔ حیرت ہے کہ علماء کا حال بھی اس سے زیادہ مختلف نہ تھا۔ بقول مولانا مفتی محمود ’’عام لوگ سمجھتے ہیں کہ جھوٹ ہر حالت میں بُرا اور حرام ہے۔ حالانکہ جھوٹ بعض اوقات فرض اورواجب ہوتا ہے۔ ہمارے بزرگوں نے 1857ء میں سب کچھ کیا جب انگریزحاکم نے پوچھا تو سب انکار کر کے چلےآئے۔‘‘ (حسین احمد مدنی، نقش حیات جلد دوم صفحہ 205)

حیرت انگیز طور پر جب ہم مغرب کی طرف دیکھتے ہیں تو برطانیہ کا ایک سیاسی لیڈر چارلس بریڈلا جو ایک دہریہ ہے۔ افلاس کی وجہ سے بارہ سال کی عمر میں اسے سکول چھوڑنا پڑا لیکن اپنی ذاتی کوشش اور مطالعہ سے قانون پر عبور حاصل کر لیا۔ وہ خدا پر یقین نہیں رکھتا تھا لیکن وہ جھوٹ نہیں بولتا تھا۔ 1880ء میں وہ پارلیمنٹ کا انتخاب جیتنے میں کامیاب ہوا لیکن پارلیمنٹ میں اس نے دستور کے مطابق بائیبل پر حلف اٹھانے سے انکار کر دیا۔ کیونکہ وہ اپنے ضمیر کی صداقت پر حلف اٹھانا چاہتا تھا لیکن اسے پارلیمنٹ سے نکال دیا گیا۔ وہ بار بار منتخب ہوا اور اسے پارلیمنٹ سے نکال دیا جاتا۔ بالآخر جب وہ چوتھی بار انتخاب جیت کر آیا تو پارلیمنٹ کو اجازت دینی پڑی کہ وہ اپنے ضمیر کی صداقت پرحلف اٹھا سکتا ہے۔ (عاشق حسین بٹالوی، چند یادیں چند تاثرات، آئینہ ادب لاہور،1969ء، صفحہ 433، 434)یہ جرأت کردار نہ ہمارے پڑھے لکھے نوجوانوں میں تھی نہ علماء میں جو مصلحت کے تحت جھوٹ بولنا جائز نہیں بلکہ واجب سمجھتے تھے۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا۔ ’’لوگ سمجھتے ہیں کہ یورپ اور امریکا کی ترقی سائنس کی وجہ سے ہوئی حالانکہ…ان کی ترقی محض اخلاق کی وجہ سے ہوئی ہے۔‘‘ (تفسیر کبیر جلد ششم، صفحہ 581)

اس خیال کی تائید مشہور مؤرخ ٹائن بی بھی کرتا ہے کہ دور جدید میں اسلام اور مغرب کے تصادم کے وقت مغرب کو اخلاقی برتری حاصل تھی۔

“the modern West is superior to her not only in arms…and above all in spiritual culture.”(Toynbee, Civilization on Trial, P 187)

اب سوال یہ ہے کہ یہ نوجوان تعلیم یافتہ طبقہ جو علماء سےمایوس ہوچکا تھا۔ اور انہیں کفر کھینچ رہا تھا اب ان کے کیا سوال تھے، کیا معیار تھے جن کے مطابق انہیں تسلی بخش جواب دیا جاسکے۔

دورِ اکبری میں تو کوئی ابو الفضل موجود تھا جو پادریوں کو معقول جواب دے کر خاموش کروا دیتا تھا لیکن اب یہ معاملہ تھا کہ 1851ء میں عیسائیوں کی تعداد ہندوستان میں اکانوے ہزار تھی اور 1881ء میں چار لاکھ ستر ہزار ہوگئی۔

اس تناظر میں ضرورت تھی نئے علم کلام کی جو زمانے کی ضرورت کے مطابق ہر سوال کا جواب دے سکے۔ بقول مولانا شبلی ’’ہر طرف سے صدائیں آرہی ہیں کہ پھر ایک نئے علم کلام کی ضرورت ہے…آج بدیہات اور تجربہ کا سامنا ہے۔ اس لئے اس کے مقابلہ میں محض قیاسات عقلی اور احتمال آفرینیوں سے کام نہیں چل سکتا۔‘‘

(علامہ شبلی نعمانی، علم الکلام اور الکلام، لاہور 2003ء، صفحہ 17)

صورت حال کچھ اس طرح تھی 557ھ کا واقعہ ہے کہ سلطان نور الدین زنگی نے سرورِ انبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک رات تین دفعہ خواب میں دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو اشخاص کی طرف اشارہ کر کے فرمایا مجھے ان دو شخصوں کے شر سے خلاصی دے۔ سلطان سمجھ گیا کہ مدینہ میں کوئی امر واقعہ ہورا ہے۔ سلطان مدینہ پہنچا۔ واقعہ یہ تھا کہ نصاریٰ نے دو نصرانیوں کو مدینہ بھجوایا ’’تاکہ مدینہ پہنچ کر حجرہ شریفہ میں داخل ہو کر جسم اطہر حضرت سید الکائنات صلی اللہ علیہ وسلم سے نعوذ باللہ گستاخی کریں۔ جب یہ نقب قبر شریف کے قریب پہنچی تھی کافی ابرو بار بجلی کی کڑک و دھماکہ اور زلزلہ عظیم پیدا ہوا۔ اسی رات کو سلطان پہنچ گیا…حجرہ شریف کی شباک کے نیچے ان ہر دو ناپاکوں کی گردنیں مار ڈالیں۔ اور حریم حجرہ کے گرد ایک گہری خندق کھودی جو پانی تک پہنچ گئی اور سیسہ پگھلا کر اس میں بھر دیا تاکہ وجود شریف تک پھر کبھی کوئی بھی نہ پہنچ سکے۔‘‘ (حضرت علامہ شیخ محمد عبدالحق محدث دہلوی، تاریخ مدینہ جذب القلوب الیٰ دیار المحبوب، نوری کتب خان لاہور، صفحہ 128)

چنانچہ اس وقت اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جسم اطہر خطرہ میں تھا تو اس وقت ان کے روحانی تقدس اور بطور زندہ نبی مسلمانوں کے عقیدے کو خطرہ لاحق تھا۔ پادر ی اہل اسلام کو زندہ نبی کے موضوع پر دعوت مقابلہ دیتے لیکن مسلمانوں میں کوئی سامنے نہیں آتا تھا جو انہیں مسکت جواب دے سکے۔ علماء آپس میں رفع یدین اور کوّے کی حلت و حرمت کی بحث میں مصروف تھے۔ اور سرسید کا پیرو روشن خیال طبقہ پیروی مغرب میں روحانیت سے خالی ہوچکا تھا۔

چنانچہ ناموس رسالت اور غیرت مصطفیٰ ؐ کے لیے ملاء اعلیٰ میں ایک شور برپا ہوگیا۔ ایک بار پھر بجلی کی کڑک، دھماکہ اور زلزلہ عظیم پیداہوا ایک ایسے محی کی تلاش شروع ہوئی جس کا عشقِ رسولؐ میں کوئی ثانی نہ ہو۔ اچانک اشارہ ہوا۔ ھَذَا رَجُلٌ یُحِبُّ رَسُوْلَ اللّٰہِ چنانچہ قادیان کے گمنام گوشوں سے عشقِ محمد عربیؐ میں مخمور ایک عاشقِ صادق باہر نکلا اور پکار کر کہا ۔

’’اے تمام وہ لوگوجو زمین پر رہتے ہو!…ہمیشہ کی روحانی زندگی والا نبی اور جلال اور تقدس کے تخت پر بیٹھنے والاحضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔‘‘ (تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 141)آپ نے ان لوگوں کے چیلنج کو جو جلوہ دانش فرنگ سے خیرہ ہوچکے تھے قبول کرتے ہوئے فرمایا۔ ’’اگر کوئی کتاب مدعی الہام کی کسی ایسے امر کی تعلیم کرے کہ جس کے امتناع پر کھلاکھلی دلائل عقلیہ قائم ہوتی ہیں تو وہ امر ہرگز درست نہیں ٹھہر سکتا بلکہ وہ کتاب ہی باطل یا محرف یا مبدل المعنی کہلائے گی۔ ‘‘(براہین احمدیہ حصہ دوم، روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 76)

گویا دوسرے لفظوں،میں دلیل ہماری ہوگی اور کسوٹی تمہاری۔ دعویٰ ہمارا ہوگا جج تمہارے۔ نیز فرمایا:اگر کوئی میرے دلائلِ دربارہ حقیت فرقان مجید اور صدق رسالت ’’حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم…نمبر وار توڑ دے تو … بلاعذرے، وحیلتے اپنی جائیداد قیمتی دس ہزار روپیہ پر قبض و دخل دے دوں گا۔‘‘ (براہین احمدیہ حصہ اول، روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 26-28)

آپؑ نے اپنے مضبوط دلائل کے ذریعے قصرِ صدقِ رسالت کے گرد ایک آہنی حصار کھڑا کر دیا۔ جو اس سے ٹکرایا پاش پاش ہوگیا۔ چنانچہ عبداللہ آتھم ہو یا لیکھرام جو مقابل پہ آیا عبرت کا نشان بن گیا۔ تائید الٰہی کی فعلی شہادت کے اس نظارے نے سالکین کے حق کو ’’ہونا چاہیئے‘‘ کے مقام سے ’’ہے‘‘ کے مقام پر کھڑا کر دیا اور انہوں نے درجہ احسان کی رفعتوں کو چھو لیا۔ حق الیقین کی اس منزل پر انہیں ایسی استقامت عطا ہوئی کہ ان کا ایمان شہداء کا رنگ پکڑ گیا۔ جب علی گڑھ کالج کےترقی پسند اپنی نوکری بچانے کے لیے اپنے عقیدے پر لعنتیں بھیج رہے تھے اور بقول مولانا مفتی محمود علماء جان بچانے کے لیے عدالتوں میں جھوٹ بول کر چلے آرہے تھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق کا ایک جاںنثار اور فدائی شاہزادہ عبداللطیف جن کے ہاتھوں دستار بندی بادشاہ باعث فخر سمجھتے تھے، جن کے ارادت مندوں کی تعداد پچاس ہزار تھی اور ایک بڑی جاگیر کے مالک تھے وہ اعلائے کلمة اللہ کے لیے بھاری زنجیریں پہن کر اس دھج سے مقتل کی طرف روانہ ہوئے کہ ایک عینی شاہد فرینک مارٹن انگشت بدنداں رہ گیا اور بے اختیار گواہی دی کہ ’’موت کا خوف بھی آپ کے پائے استقلال میں کوئی لغزش پیدا نہیں کر سکا۔ ‘‘

(Frank Martin: Under the Absolute Amir. New York, 1907, P202)

مولوی محمد حسین بٹالوی نے کتاب براہین احمدیہ کے بارے میں لکھا تھا کہ یہ کتاب اس زمانے میں الٰہی کتاب ہے جس کی نظیر آج تک اسلام میں شائع نہیں ہوئی لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق اور بروزِ کامل کے علم الکلام کے فیض سے جو اخلاقی جرأت اور رفعتِ کردار سالکین حق کو نصیب ہوئی اس کی نظیر بھی اُس زمانے میں نہیں ملتی تھی۔

پائے کوباں زنداں میں کوئی نیا ہے مجنوں
آتی آوازِ سلاسل کبھی ایسی تو نہ تھی

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button