متفرق مضامین

براہین احمدیہ کی ایک امتیازی شان، اسلام کا احیائے نَو

(لئیق احمد مشتاق ۔ مبلغ سلسلہ سرینام، جنوبی امریکہ)

براہین احمدیہ میں دیے گئے جوابات اپنے اندر ایسی جامعیت اور وسعت رکھتے تھے گویا ان میں اک جہانِ معنی آباد ہے۔اس کتاب کا منظر عام پر آنا تھا کہ حیران و ششدر مخالفین اسلام منہ چھپاتے اور عزتیں بجاتے نظر آئے

ابتدائے آفرینش سے دنیا میں صحائف اور مخطوطے مختلف شکلوں،صورتوں اور حالتوں میں موجود ہیں۔ نٓ وَالۡقَلَمِ وَمَا یَسۡطُرُوۡنَ:( الْقَلَمِ:2)۔ ’’ن۔ قسم ہے قلم کی اور اس کی جو وہ لکھتے ہیں۔‘‘

خالق کائنات نے قلم دوات اور تحریر کو ایک زندہ اور کامل حقیقت کے طور پر پیش فرمایا ہے۔ روئے زمین پر ایک ہی مقدس و مطہّر صحیفہ ہے جو ’’الکتاب‘‘ کے بابرکت نام سے موسوم ہے۔ جو زمین پر سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب ہے۔

وہ بے باک اور بے لاگ کتاب اپنے پرائے جس کی مدح میں رطب اللسان ہوئے، عالم، مفکّر اور مجتہد کہلانے والے اس کی تعظیم کے لیے ایستادہ ہوئے، اور اس کی تعریف کو اپنے لیے اعزاز اور فخر جانا۔ دلائل و براہین کا وہ سرچشمہ جس سے نور کے سوتے پھوٹے، غیروں کی زبانیں گنگ ہوئیں۔ کائنات میں وہ ایک ہی ایسا درخت ہے جوہمیشہ تروتازہ اور صدا بہار ہے۔ اس کی حقانیت،معجزات، تاثیرات عظیمہ،برکات عمیمہ اورلاریبی کمالات جاودانی ہیں۔

پھر افصح العرب کا کلام اور فرمودات ہیں۔کُل عالم میں وہ ایک ہی ہے جس کے کلام میں معنی کا ایک جہاں آباد ہے، خالق کائنات نے اُم القریٰ میں جنم لینے والے اس النَّبِیُّ الۡاُمِّیُّﷺ کوسمندر کو کوزے میں بندکرنے کا ہنر وملکہ عطا فرمایا۔اس معلّم کامل نے اعلیٰ اخلاقی تعلیمات پیش کرکے انسانیت کی فکری تطہیر کی۔ امن و سلامتی کے اس علمبردار نےاسوہ حسنہ کے ذریعہ عرب کے بدوؤں کی تربیت کی، اور پھر یہ تعلیم وتہذیب سے ناآشنا معلّم جہاں ٹھہرے۔یہ آداب زندگی سے نابلد اعلیٰ ترین آداب زندگی کے اتالیق قرار پائے۔ اور اُس معلّم کامل کا فیض تاابد جاری و ساری رہے گا۔

پھر چودہ سوسال کےعرصہ میں ایسے لوگ پیدا ہوتے رہے جنہوں نے کلام اللہ اور کلام رسول سے اکتساب علم کرکے مختلف کتب اور تحریرات یادگار چھوڑیں۔

وقت گذرنے کے ساتھ اس ہادی کامل کی امت راہ راست سے دور ہوتی چلی گئی،ہر سو جہالت نے ڈیرے ڈال دیے۔ دشمنان اسلام مسیحی اور آریائی مبلغین،برہمو سماج اور نیچری عقائد سے تعلق رکھنے والوں نے اسلام کو طعن و تشنیع کا نشانہ بنانا شروع کر دیا۔ لاکھوں کم عقل دین ِ اسلام سے برگشتہ ہو گئے۔خدا کے دین پر نہایت خوفناک اور پرخطر گردش آگئی، کفر و شقاوت کی وجہ سے دنیا میں سخت فساد برپا ہو گیا۔الحاد و دہریت کی ہوائیں چلنے لگیں،دجالی فتنہ سر چڑھ کر بولنے لگااورتثلیثی عیسائیت تند و تیز سیلاب کی طرح دنیا میں پھیلنے لگی۔اعدائے ملت نے ہر طرف سے دین اسلام کے خلاف محاذ کھول دیے، انصار دیں قلیل سے قلیل تر ہوتے چلے گئے، اور آنکھوں کے سامنے اسلام کی عزت خاک میں ملنے لگی۔ مولانا الطاف حسین حالی اپنی مشہور زمانہ مُسدّس ’’مدوجزر اسلام‘‘ میں نوحہ خواں ہیں۔

اے خاصۂ خاصانِ رُسل وقت دعا ہے
امّت پہ تری آکے عجب وقت پڑا ہے
جو دین بڑی شان سے نکلا تھا وطن سے
پردیس میں وہ آج غریب الغرباء ہے
فریاد ہے اے کشتیٔ امت کے نگہباں
بیڑا یہ تباہی کے قریب آن لگا ہے

(مُسدّس حالی صفحہ 125،ناشران تاج کمپنی لاہور)

پھررحمت ِ الٰہی جوش میں آ ئی اور وہ مہا پُرش اور پوتّر انسان پیدا ہواجس کے ہاتھوں دین اسلام کا احیا مقدر تھا۔ جس کے بارے میں اُس کی سرزمین کے لوگ کہتے تھے: ’’پرمیشور زمین پراترآیاہے‘‘۔ اس کا پاکیزہ بچپن، مطہر جوانی اور لمحہ لمحہ بڑھتی ہوئی زندگی دراصل دوعشقوں سے عبارت تھی۔ اس کا مقصود اپنا محسن، منعم، خالق، مالک، معبود اور محبوب خدا تھا۔ اور اس کا مطلوب اپنے آقا ومطاع حضرت محمدمصطفیٰﷺکی ذات اطہر تھی۔ اُس کی تمام تر گفتگو اور تمام تر کلام نظم ہویا نثر، عربی ہو، فارسی یا اردو انہیں دوعشقوں کے نور سے منورہے۔

امت محمدیہ کے اندر وہ جری پہلوان پیدا ہوا جس کے قلم کو عرش الٰہی سے ’’ذوالفقار‘‘ کا خطاب ملا۔جس نے اندھیروں کے بعد اسلام کے چہرے کو تابانی بخشی۔ اور اسلام بدحالی کے انتہائی مقام سے بہتر حالت کی طرف لوٹنے لگا۔ اسلام کا وہ بطل جلیل نمودار ہوا جس کے ہاتھوں سے ’’یُحْییِ الدِّیْنَ وَیُقِیْمُ الشَّرِیْعَۃَ‘‘ دین اسلام کو زندہ کرنے اور شریعت محمدیہ کو قائم کرنے کے سلسلے کا آغاز ہوا۔

اُس نے عین جوانی میں ایک عزم مبارک کے ساتھ علمی اور فکری رزم گاہ میں قدم رکھا اور اخبارات میں اسلام اور دیگر مذاہب کے بارے میں مضامین لکھنے شروع کیے، اور مخالفین اسلام سے نبرد آزما ہوا۔لیکن جب دیکھا کہ دُشمنان اسلام اپنے حملوں میں بڑھتے جاتے ہیں اور مسلمان ان حملوں کی تاب نہ لا کر پسپا ہو رہے ہیں تو اُس غیور محافظ اسلام نے ایک ایسی کتاب لکھنے کا ارادہ کیا جس کی سعادت گذشتہ چودہ سو سال میں پہلے کسی مصنف کے ہاتھ نہ آئی۔چنانچہ آپ نے صرف 45سال کی عمر میں ایک ایسی کتاب تالیف کی جو تا ابد زندہ جاوید رہے گی۔ اس عظیم الشان کتاب کے ذریعہ آپ نے مذہبی دنیا میں یہ ثابت کیا کہ روئے زمین پر صرف قرآن کامل و اکمل کتاب، صرف محمد ﷺ کامل و اکمل نبی اورصرف اسلام کامل و اکمل، حقیقی، زندہ اور قابل عمل دین ہے، جس کی تعلیمات ہر قسم کی خامی سے مبرا اور ہرقسم کی خوبی سے منزہ ہیں۔ آپ کی یہ پہلی کتاب اُس منزل کی طرف ابتدائی قدم تھا جو ازل سے آپ کے لیےمقدر تھا۔ یہ کتاب قیامت تک آپ کے تبحر علمی پر گواہ رہے گی اور زندہ خدا اور زندہ نبی کے ہونے کا پتا دیتی رہے گی۔ کُلُّ بَرَکَۃٍ مِّنْ مُّحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَتَبَارَکَ مَنْ عَلَّمَ وَتَعَلَّم۔

’’براہین احمدیہ‘‘ اخلاقی اور علمی جرأت کی آئینہ دار کتاب جو اسلام کے دفاع کے لیے اس مرد میدان نے 1880ء سے 1884ء کے درمیان تخلیق کی۔اس کتاب کو چہار دانگ عالم میں جو شہرہ نصیب ہوا، اور آج بھی اس کا ڈنکا بجتا ہے وہ آسمانی تائید اور فضل الٰہی کے بغیر ممکن نہیں۔

دشمنان اسلام اورمعتر ضین نےاعتراضات وساوس تیار کرنے میں اپنی تمام تر ذہانت صرف کی، عقل و خرد کے مقدور بھر فاصلے طے کرکے ایسے سوالات ترتیب دیےکہ دوسرا لاجواب رہے۔مگر براہین احمدیہ میں دیے گئے جوابات اپنے اندر ایسی جامعیت اور وسعت رکھتے تھے گویا ان میں اک جہانِ معنی آباد ہے۔اس کتاب کا منظر عام پر آنا تھا کہ حیران و ششدر مخالفین اسلام منہ چھپاتے اور عزتیں بجاتے نظر آئے۔ عقل سلیم رکھنے والے انسان یہ کہنے اور داد دینے پر مجبور ہوئے کہ چاہے ہم مؤلف کے خیالات سے متفق ہوں یا نہ ہوں مگر یہ منفرد ہے۔ اس نے زندگی کا وہ دریچہ کھولاہے، اس روشن دان سے ہمیں دنیا دکھائی ہے جہاں سے اس سے پہلے کسی نے نہیں دکھائی۔

متقدمین کی تفاسیرمتاخرین کی تفاسیر، ازمنہ وسطیٰ کے علماء و فضلاء کی تفاسیر چودہ سو سال سے موجود تھیں مگر دعویٰ اور دلیل قرآن سے پیش کرنے کا جو طریق مؤلف براہین احمدیہ نے استعمال کیا وہ بے نظیر و بے مثال ہے۔

غیروں نے بڑی جان کنی سے سالوں کی محنت اور کوشش سے جو وساوس اور اعتراضات تیار کیے ان کے بخیے ادھیڑنے والی قانون قدرت اور صحیفہ قدرت سے مزین جوابات سے لاجواب کرنے والی کتاب صرف اور صرف براہین احمدیہ ہی کہلائی۔ کلام پاک سے 66سورتوں کی بیسیوں آیات سے مزین یہ کتاب اسرار الٰہی کی مظہر اور حقائق و معارف کا سرچشمہ بن کر ابھری۔

براہین احمدیہ کو منصہ شُہود پر آئے 139سال ہو گئے، اور ہر ایک اپنی صلاحیت، استعداد اور ظرف کے مطابق اس پرگفتگوکرتا چلا آیا، اور تجزیہ کرتا رہاہے، مگر حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا۔ ایک کھلا چیلنج جس کا جواب آج تک کسی سے بن نہ پڑا۔انتہائی وسیع، دقیق اور پہلو در پہلو مضامین اپنے دامن میں سمیٹے یہ کتاب ذہنی طور پر مادی طور پر اخلاقی طور پر بند آنکھوں والوں کے لیے نیّر الہام کا سامان لیے ہوئے ہے۔ دشمنان اسلام اور معترضین کو لاجواب کرنے اور آئینہ دکھانے کے ساتھ اس کتاب کی تصنیف کی بنیادی وجہ اسلامی تعلیم کے حسن اور اس کی خوبیوں کو زمانے پر آشکار کرنا تھا، تاکہ گم گشتہ راہوں کو حقیقی روشنی کی طرف واپس لایا جا سکے۔ چنانچہ آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام اشاعت اسلام کے لیے اکابرین کو جگانے اور روحوں کو گرمانے کے لیے لکھتے ہیں :’’… اب میں اس جگہ بخدمت عالی دیگر امرائے اور اکابر کے بھی کہ جن کو اب تک اس کتاب سے کچھ اطلاع نہیں اس قدر گزارش کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ وہ بھی اگر اشاعت اس کتاب کی غرض سے کچھ مدد فرماویں گے تو ان کی ادنیٰ توجہ سے پھیلنا اور شائع ہونا اس کتاب کا جو دلی مقصد اور قلبی تمنا ہے نہایت آسانی سے ظہور میں آجائے گا۔ اے بزرگان و چراغانِ اسلا م آپ سب صاحب خوب جانتے ہوں گے کہ آج کل اشاعت دلائل حقیت اسلام کی نہایت ضرورت ہے اور تعلیم دینا اور سکھلانا براہین ثبوت اس دین متین کا اپنی اولاد اور عزیزوں کو ایسا فرض اور واجب ہوگیا ہے اور ایسا واضح الوجوب ہے کہ جس میں کسی قدر ایما کی بھی حاجت نہیں جس قدر ان دنوں میں لوگوں کے عقائد میں برہمی درہمی ہورہی ہے اور خیالات اکثر طبائع کے حالت خرابی اور ابتری میں پڑے ہوئے ہیں کسی پر پوشیدہ نہ ہوگا کیا کیا رائیں ہیں جو نکل رہی ہیں کیا کیا ہوائیں ہیں جو چل رہی ہیں۔ کیا کیا بخارات ہیں جو اٹھ رہے ہیں پس جن جن صاحبوں کو ان اندھیریوں سے جو بڑے بڑے درختوں کو جڑھ سے اُکھیڑتی جاتی ہیں کچھ خبر ہے وہ خوب سمجھتے ہوں گے جو تالیف اس کتاب کی بلا خاص ضرورت کے نہیں۔ ہر زمانہ کے باطل اعتقادات اور فاسد خیالات الگ رنگوں اور وضعوں میں ظہور پکڑتے ہیں اور خدا نے ان کے ابطال اور ازالہ کے لئے یہی علاج رکھا ہوا ہے جو اسی زمانہ میں ایسی تالیفات مہیا کردیتا ہے جو اُس کی پاک کلام سے روشنی پکڑ کر پوری پوری قوت سے ان خیالات کی مدافعت کے لئے کھڑی ہوجاتی ہیں اور معاندین کو اپنی لاجواب براہین سے ساکت اور ملزم کرتی ہیں پس ایسے انتظام سے پودہ اسلام کا ہمیشہ سرسبز اور تروتازہ اور شاداب رہتا ہے۔

اے معزز بزرگان اسلام!! مجھے اس بات پر یقین کُلّی ہے کہ آپ سب صاحبان پہلے سے اپنے ذاتی تجربہ اور عام واقفیت سے ان خرابیوں موجودہ زمانہ پر کہ جن کا بیان کرنا ایک درد انگیز قصہ ہے بخوبی اطلاع رکھتے ہوں گے اور جو جو فساد طبائع میں واقعہ ہو رہے ہیں اور جس طرح پر لوگ بباعث اغوا اور اضلال وسوسہ اندازوں کے بگڑتے جاتے ہیں آپ پر پوشیدہ نہ ہوگا پس یہ سارے نتیجے اسی بات کے ہیں کہ اکثر لوگ دلائل حقیت اسلام سے بے خبر ہیں اور اگر کچھ پڑھے لکھے بھی ہیں تو ایسے مکاتب اور مدارس میں کہ جہاں علوم دینیہ بالکل سکھائے نہیں جاتے اور سارا عمدہ زمانہ ان کے فہم اور ادارک اور تفکر اور تدبر کا اور اور علوم اور فنون میں کھویا جاتا ہے اور کوچہ دین سے محض ناآشنا رہتے ہیں پس اگران کو دلائل حقیت اسلام سے جلد تر باخبر نہ کیا جائے تو آخر کار ایسے لوگ یا تو محض دنیا کے کیڑے ہوجاتے ہیں کہ جن کو دین کی کچھ بھی پروا نہیں رہتی اور یا الحاد اور ارتداد کا لباس پہن لیتے ہیں یہ قول میرا محض قیاسی بات نہیں بڑے بڑے شرفا کے بیٹے میں نے اپنی آنکھ سے دیکھے ہیں جو بباعث بے خبری دینی کے اصطباغ پائے ہوئے گرجا گھروں میں بیٹھے ہیں اگر فضل عظیم پروردگار کا ناصر اور حامی اسلام کا نہ ہوتا اور بذریعہ پرزور تقریرات اور تحریرات علماءاور فضلاء کے اپنے اس سچے دین کی نگہداشت نہ کرتا تو تھوڑا زمانہ نہ گزرنا پاتا جو دنیا پرست لوگوں کو اتنی خبر بھی نہ رہتی جو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کس ملک میں پیدا ہوئے تھے بالخصوص اس پرآشوب زمانہ میں کہ چاروں طرف خیالات فاسدہ کی کثرت پائی جاتی ہے اگر محققان دین اسلام جو بڑی مردی اور مضبوطی سے ہریک منکر اور ملحد کے ساتھ مناظرہ اور مباحثہ کررہے ہیں اپنی اس خدمت اور چاکری سے خاموش رہیں تو تھوڑی ہی مدت میں اس قدر شعار اسلام کا ناپدید ہوجائے کہ بجائے سلام مسنون کے گڈبائی اور گڈ مارننگ کی آواز سنی جائے پس ایسے وقت میں دلائل حقیت اسلام کی اشاعت میں بَدل مشغول رہنا حقیقت میں اپنی ہی اولاد اور اپنی ہی نسل پر رحم کرنا ہے کیونکہ جب وبا کے ایام میں زہرناک ہوا چلتی ہے تو اس کی تاثیر سے ہریک کو خطرہ ہوتا ہے۔‘‘ (براہین احمدیہ،روحانی خزائن جلد 1صفحہ 6تا8)

در دلم جوشد ثنائے سرورے

وہ داعی الی اللہ جو سراج منیر بناکر بھیجا گیا،جس کے دم سےدنیا میں دین اسلام کی روشنی پھیلی،جس کے نور نے کُل عالم کو منور کیا اس کی محبت و عشق میں فنا ہوئے بغیر دین کا احیاء ممکن نہ تھا۔ اسی لیے اس کتاب کی شروعات ہی اس مقدس و مطہرسیّدالرسل، سید الطیبین کی انتہائی پاکیزہ سچی اور سُچی مدح سے ہوتی ہے۔ ایک اقتباس تحریر کی ملاحت اوربرکت کی خاطر ذکرکیاجاتاہے۔ آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام تحریر فرماتے ہیں: ’’… لاکھ لاکھ حمد اور تعریف اس قادر مطلق کی ذات کے لائق ہے کہ جس نے ساری ارواح اور اجسام بغیر کسی مادہ اور ہیولیٰ کے اپنے ہی حکم اور امر سے پیدا کرکے اپنی قدرت عظیمہ کا نمونہ دکھلایا اور تمام نفوس قدسیہ انبیا کو بغیر کسی استاد اور اتالیق کے آپ ہی تعلیم اور تادیب فرما کر اپنے فیوض قدیمہ کا نشان ظاہر فرمایا سبحان اللہ کیا رحمٰن اور منان وہ ذات ہے کہ جس نے بغیر کسی استحقاق ہمارے کے سب کام ہم ضعیفوں کا آپ بنایا ہمارے جسمی قیام کے لئے سورج اور چاند اور بادلوں اور ہواؤں کو کام میں لگایا اور ہمارے روحانی انتظام کے لئے توریت اور انجیل اور فرقان اور سب آسمانی کتابوں کو عین وقتوں پر پہنچایا۔ الٰہی تیرا ہزار ہزار شکر کہ تو نے ہم کو اپنی پہچان کا آپ راہ بتایا اور اپنی پاک کتابوں کو نازل کرکے فکر اور عقل کی غلطیوں اور خطاؤں سے بچایا اور درود اور سلام حضرت سید الرسل محمد مصطفیٰ اور ان کی آل و اصحاب پر کہ جس سے خدا نے ایک عالم گم گشتہ کو سیدھی راہ پر چلایا وہ مربی اور نفع رسان کہ جو بھولی ہوئی خلقت کو پھر راہ راست پر لایا وہ محسن اور صاحب احسان کہ جس نے لوگوں کو شرک اور بتوں کی بلا سے چھوڑایا وہ نور اور نور افشان کہ جس نے توحید کی روشنی کو دنیا میں پھیلایا وہ حکیم اور معالج زمان کہ جس نے بگڑے ہوئے دلوں کا راستی پر قدم جمایا وہ کریم اور کرامت نشان کہ جس نے مردوں کو زندگی کا پانی پلایا وہ رحیم اور مہربان کہ جس نے امت کے لئے غم کھایا اور درد اٹھایا وہ شجاع اور پہلوان جو ہم کو موت کے منہ سے نکال کر لایا وہ حلیم اور بے نفس انسان کہ جس نے بندگی میں سرجھکایا اور اپنی ہستی کو خاک سے ملایا وہ کامل موحد اور بحر عرفان کہ جس کو صرف خدا کا جلال بھایا اور غیر کو اپنی نظر سے گرایا وہ معجزہ قدرت رحمن کہ جو اُمّی ہوکر سب پر علوم حقانی میں غالب آیا اور ہریک قوم کو غلطیوں اور خطاؤں کا ملزم ٹھہرایا۔

در دلم جوشد ثنائے سرورے
آنکہ در خوبی ندارد ہمسرے

(براہین احمدیہ،روحانی خزائن جلد 1صفحہ17،16)

پھر بڑی تحدّی کے ساتھ اعلان کرتے ہیں: ’’…اما بعد سب طالبان حق پر واضح ہو جو مقصود اس کتاب کی تالیف سے جو موسوم بالبراھین الاحمدیہ علی حقیت کتاب اللّٰہ القراٰن والنبوة المحمدیّہ ہے یہ ہے جو دین اسلام کی سچائی کے دلائل اور قرآن مجید کی حقیت کے براہین اور حضرت خاتم الانبیاءصلی اللہ علیہ وسلم کی صدق رسالت کے وجوہات سب لوگوں پر بوضاحت تمام ظاہر کئے جائیں اور نیز ان سب کو جو اس دین متین اور مقدس کتاب اور برگزیدہ نبی سے منکر ہیں ایسے کامل اور معقول طریق سے ملزم اور لا جواب کیا جائےجو آئندہ ان کو بمقابلہ اسلام کے دم مارنے کی جگہ باقی نہ رہے۔‘‘ (براہین احمدیہ،روحانی خزائن جلد1۔صفحہ24،23)

ہمیں کچھ کیں نہیں بھائیو

کتاب کے مقدّمہ میں تحریر فرماتے ہیں: ’’…اوّل ہر ایک صاحب کی خدمت میں جو اعتقاد اور مذہب میں ہم سے مخالف ہیں بصد ادب اور غربت عرض کی جاتی ہے جو اس کتاب کی تصنیف سے ہمارا ہرگز یہ مطلب اور مدعا نہیں جو کسی دل کو رنجیدہ کیا جائے یا کسی نوع کا بے اصل جھگڑا اُٹھایا جائے بلکہ محض حق اور راستی کا ظاہر کرنا مراد دلی اور تمناءقلبی ہے اور ہم کو ہرگز منظور نہ تھا کہ اس کتاب میں کسی اپنے مخالف کے خیالات اور عندیات کا ذکر زبان پر لاتے بلکہ اپنے کام سے کام تھا اور مطلب سے مطلب مگر کیا کیجئے کہ کامل تحقیقات اور باستیفاءبیان کرنا جمیع اصولِ حقہ اور ادلہ کاملہ کا اسی پر موقوف ہے کہ ان سب اربابِ مذاہب کا جو برخلاف اصولِ حقہ کے رائے اور خیال رکھتے ہیں غلطی پر ہونا دکھلایا جائے پس اس جہت سے ان کا ذکر کرنا اور ان کےشکوک کو رفع دفع کرنا ضروری اور واجب ہوا…علاوہ اس کے یہ بات بھی نہایت پختہ تجربہ سے ثابت ہے کہ اس زمانہ کے مخالفین اسلام کی یہ عادت ہورہی ہے کہ جب تک اپنے اصولِ مسلمہ کو باطل اور خلافِ حق نہیں دیکھتے اور اپنے مذہب کے فساد پر مطلع نہیں ہوتے تب تک راستی اور صداقت دین اسلام کی کچھ بھی پروا نہیں رکھتے اور گو آفتاب صداقت دین الٰہی کا کیسا ہی ان کو چمکتا نظر آوے۔ تب بھی اس آفتاب سے دوسری طرف مونہہ پھیر لیتے ہیں پس جبکہ یہ حال ہے تو ایسی صورت میں دوسرے مذاہب کا ذکر کرنا نہ صرف جائز بلکہ دیانت اور امانت اور پوری ہمدردی کا یہی مقتضا ہے جو ضرور ذکر کیا جائے اور ان کے اوہام کے مٹانے اوران کے عقائد کے بطلان ظاہر کرنے میں کسی طرح کی فروگذاشت اور کسی طور کا اخفا نہ رکھا جائے بالخصوص جبکہ وہ لوگ ہماری دانست میں صراطِ مستقیم سے دور اور مہجور ہیں اور ہم اپنے سچے دل سے ان کو خطا پر سمجھتے ہیں اور ان کے اصول کو حق کے برخلاف جانتے ہیں اور ان کا انہیں عقائد پر اس عالم فانی سے کوچ کرنا موجب عذابِ عظیم یقین رکھتے ہیں۔ تو پھر اس صورت میں اگر ہم ان کی اصلاح سے عمداً چشم پوشی کریں اور ان کا گمراہ ہونا اور دوسرے لوگوں کو گمراہی میں ڈالنا دیدہ و دانستہ روا رکھیں تو پھر ہمارا کیا ایمان اور کیا دین ہوگا اور ہم اپنے خدا کو کیا جواب دیویں گے۔ اور اگرچہ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ بعض دنیا پرست آدمی کہ جن کو خدا اور خدا کے سچے دین کی کچھ بھی پروا نہیں ان کو اپنے مذہب کی خرابیاں یا اسلام کی خوبیاں سن کر بڑا رنج دل میں گزرے گا اور منہ بگاڑیں گے اور کچھ کا کچھ بولیں گے مگر ہم امید رکھتے ہیں کہ ایسے طالب صادق بھی کئی نکلیں گے کہ جو اس کتاب کے پڑھنے سے صراطِ مستقیم کو پاکر جنابِ الٰہی میں سجدات شکر کے ادا کریں گے اور خدا نے جو ہم کو سجھایا ہے وہ اُن کو بھی سوجھاوے گا اور جو کچھ ہم پر ظاہر کیا ہے وہ ان پر بھی ظاہر کردے گا اور حقیقت میں یہ کتاب انہیں کے لئے تصنیف ہوئی ہے اور یہ سارا بوجھ ہم نے انہیں کی خاطر اٹھایا ہے وہی ہمارے حقیقی مخاطب ہیں اور ان کی خیر خواہی اور ہمدردی ہمارے دل میں اس قدر بھری ہوئی ہے کہ نہ زبان کو طاقت ہے کہ بیان کرے اور نہ قلم کو قوت ہے کہ تحریر میں لاوے۔‘‘ (براہین احمدیہ،روحانی خزائن جلد1صفحہ71تا73)

صداقت اسلام

اسلام کی حقانیت اور اپنے دلائل کی پختگی پر کامل بھروسہ رکھتے ہوئے دشمنان کے خائب و خاسر رہنے کی بابت تحریر فرماتے ہیں: ’’…اب اے بھائیو! خلاصہ کلام یہ ہے کہ جب میں نے ایسے ایسے باطل عقائد میں لوگوں کو مبتلا دیکھا اور اس درجہ کی گمراہی میں پایا کہ جس کو دیکھ کر جی پگھل آیا اور دل اور بدن کانپ اٹھا۔ تو میں نے ان کی راہنمائی کے لئے اس کتاب کا تالیف کرنا اپنے نفس پر ایک حق واجب اور دَین لازم دیکھا جو بجز ادا کرنے کے ساقط نہ ہوگا۔ چنانچہ مسودہ اس کتاب کا خدا کے فضل و کرم سے تھوڑے ہی دِنوں میں ایک قلیل بلکہ اقل مدت میں جو عادت سے باہر تھی طیار ہوگیا اور حقیقت میں یہ کتاب طالبان حق کو ایک بشارت اور منکران دین اسلام پر ایک حجت الٰہی ہے کہ جس کا جواب قیامت تک ان سے میسر نہیں آسکتا اور اسی وجہ سے اس کے ساتھ ایک اشتہار بھی انعامی دس ہزار روپیہ کا شامل کیا گیا کہ تاہریک منکر اور معاند پر جو اسلام کی حقیت سے انکاری ہے اتمام حجت ہو اور اپنے باطل خیال اور جھوٹے اعتقاد پر مغرور اور فریفتہ نہ رہے۔‘‘ (براہین احمدیہ،روحانی خزائن جلد 1صفحہ83)

چھ فوائد

براہین احمدیہ کی تصنیف کے جو چھ فوائد آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے خود اپنے قلم سے بیان فرمائے وہ اس کتاب کے حقیقی مقصد کو پوری طرح واضح کرتے ہیں،موقعہ کی مناسبت سے ابتدائی دو فوائد ملاحظہ ہوں: ’’… بالآخر بعد تحریر تمام مراتب ضروریہ کے اس بات کا واضح کرنا بھی اسی مقدمہ میں قرین مصلحت ہے جو کن کن قسموں کے فوائد پر یہ کتاب مشتمل ہے۔ تا وہ لوگ جو حقانی صداقتوں کے جان لینے پر جان دیتے ہیں اپنے روحانی محبوب کی خوشخبری پاویں۔ اور تا ان پر جو راستی کے بھوکے اور پیاسے ہیں۔ اپنی دلی مراد کا راستہ ظاہر ہوجاوے۔ سو وہ فوائد چھ(6) قسم کے ہیں۔ جو بہ تفصیل ذیل ہیں:اوّل اس کتاب میں یہ فائدہ ہے کہ یہ کتاب مہمات دینیہ کے تحریر کرنے میں ناقص البیان نہیں بلکہ وہ تمام صداقتیں کہ جن پر اصول علم دین کے مشتمل ہیں اور وہ تمام حقائق عالیہ کہ جن کی ہیئت اجتماعی کا نام اسلام ہے وہ سب اس میں مکتوب اور مرقوم ہیں۔ اور یہ ایسا فائدہ ہے کہ جس سے پڑھنے والوں کو ضروریات دین پر احاطہ ہو جاوے گا اور کسی مغوی اور بہکانے والے کے پیچ میں نہیں آئیں گے۔ بلکہ دوسروں کو وعظ اور نصیحت اور ہدایت کرنے کے لئے ایک کامل استاد اور ایک عیار رہبر بن جائیں گے۔

دوسرا یہ فائدہ کہ یہ کتاب تین سو محکم اور قوی دلائل حقیت اسلام اور اصول اسلام پر مشتمل ہے کہ جن کے دیکھنے سے صداقت اس دین متین کی ہریک طالب حق پر ظاہر ہوگی بجز اس شخص کے کہ بالکل اندھا اور تعصب کی سخت تاریکی میں مبتلا ہو۔‘‘ (براہین احمدیہ روحانی خزائن جلد 1صفحہ129)

قطبی ستارہ

براہین احمدیہ مضبوط دلائل اور مستحکم براہین سے مزین وہ تصنیف ہے جس کی خبر اس کی تصنیف سے برسوں پہلے مالک کائنات نے مظہر اتم الوہیت کے ذریعہ آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بذریعہ کشف دی۔ کہ قطبی نام کی ایک کتاب لکھنا آپ کے لیے مقدر ہے، اور جس طرح قطب ستارہ قبلہ کی سمت متعین کرنے میں مدد دیتا ہے اسی طرح یہ کتاب دین اسلام کو زندہ کرنے اور گم گشتہ راہوں کو صراط مستقیم پر لانے کا فریضہ انجام دے گی۔ اس کشف کا ذکر کرتے ہوئے آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام رقمطراز ہیں: ’’… یہ عاجز اپنے بعض خوابوں میں سے جن کی اطلاع اکثر مخالفین اسلام کو انہیں دنوں میں دی گئی تھی کہ جب وہ خوابیں آئی تھیں اور جن کی سچائی بھی انہیں کے روبرو ظاہر ہوگئی بطور نمونہ بیان کرتا ہے۔ منجملہ اُن کے ایک وہ خواب ہے جس میں اس عاجز کو جناب خاتم الانبیاء محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہوئی تھی۔ اور بطور مختصر بیان اس کا یہ ہے کہ اس احقر نے ۱۸۶۴ء یا ۱۸۶۵ء عیسوی میں یعنے اسی زمانے کے قریب کہ جب یہ ضعیف اپنی عمر کے پہلے حصہ میں ہنوز تحصیل علم میں مشغول تھا جناب خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا۔ اور اس وقت اس عاجز کے ہاتھ میں ایک دینی کتاب تھی کہ جو خود اس عاجز کی تالیف معلوم ہوتی تھی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کتاب کو دیکھ کر عربی زبان میں پوچھا کہ تو نے اس کتاب کا کیا نام رکھا ہے۔ خاکسار نے عرض کیا کہ اس کا نام میں نے قطبی رکھا ہے۔ جس نام کی تعبیر اب اس اشتہاری کتاب کی تالیف ہونے پر یہ کھلی کہ وہ ایسی کتاب ہے کہ جو قطب ستارہ کی طرح غیرمتزلزل اور مستحکم ہے جس کے کامل استحکام کو پیش کرکے دس ہزار روپیہ کا اشتہار دیا گیا ہے۔غرض آنحضرت نے وہ کتاب مجھ سے لے لی۔ اور جب وہ کتاب حضرت مقدس نبوی کے ہاتھ میں آئی تو آنجناب کا ہاتھ مبارک لگتے ہی ایک نہایت خوش رنگ اور خوبصورت میوہ بن گئی کہ جو امرود سے مشابہ تھا مگر بقدر تربوز تھا۔آنحضرت نے جب اس میوہ کو تقسیم کرنے کے لئے قاش قاش کرنا چاہا تو اس قدر اس میں سے شہد نکلا کہ آنجناب کا ہاتھ مبارک مرفق تک شہد سے بھر گیا۔ تب ایک مردہ کہ جو دروازہ سے باہر پڑا تھا آنحضرت کے معجزہ سے زندہ ہوکر اس عاجز کے پیچھے آکھڑا ہوا اور یہ عاجز آنحضرت کے سامنے کھڑا تھا جیسے ایک مستغیث حاکم کے سامنے کھڑا ہوتا ہے اور آنحضرت بڑے جاہ و جلال اور حاکمانہ شان سے ایک زبردست پہلوان کی طرح کرسی پر جلوس فرما رہے تھے۔ پھر خلاصۂ کلام یہ کہ ایک قاش آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ کو اس غرض سے دی کہ تا میں اس شخص کو دوں کہ جو نئے سرے زندہ ہوا اور باقی تمام قاشیں میرے دامن میں ڈال دیں اور وہ ایک قاش میں نے اس نئے زندہ کو دے دی اور اس نے وہیں کھالی۔ پھر جب وہ نیا زندہ اپنی قاش کھاچکا تو میں نے دیکھا کہ آنحضرت کی کرسی مبارک اپنے پہلے مکان سے بہت ہی اونچی ہوگئی اور جیسے آفتاب کی کرنیں چھوٹتی ہیں ایسا ہی آنحضرت کی پیشانی مبارک متواتر چمکنے لگی کہ جو دین اسلام کی تازگی اور ترقی کی طرف اشارت تھی۔ تب اسی نور کے مشاہدہ کرتے کرتے آنکھ کھل گئی۔ والحمدللہ علیٰ ذٰلک۔(براہین احمدیہ،روحانی خزائن جلد 1صفحہ274تا276۔حاشیہ در حاشیہ نمبر1)

صراط مستقیم فقط دین اسلام

’’…اب چند کشوف اور الہامات نوواردہ بغرض افادہ طالبین حق لکھے جاتے ہیں اور اسی طرح انشاء اللہ تعالیٰ وقتاً فوقتاً اگر خدا نے چاہا تو جو کچھ مواہب لدنّیہ سے اس احقر عباد پر ظاہر کیا جائے گا وہ اس کتاب میں درج ہوتا رہے گا۔ اِلَّا مَاشَاء اللّٰہ۔ اور اس سے غرض یہ ہے کہ تا یقین اور معرفت کے سچے طالب فائدہ حاصل کریں اور اپنی حالت میں کشائش پاویں اور ان کے دل پر سے وہ پردے اٹھیں جن سے ان کی ہمت نہایت پست اور ان کے خیالات نہایت پُرظلمت ہورہے ہیں اور اس جگہ ہم مکرراً یہ بھی ظاہر کرتے ہیں کہ یہ باتیں ایسی نہیں ہیں جن کا ثبوت دینے سے یہ خاکسار عاجز ہو یا جن کے ثبوت میں اپنے ہی ہم مذہبوں کو پیش کیا جائے بلکہ یہ وہ بدیہی الصدق باتیں ہیں جن کی صداقت پر مخالف المذہب لوگ گواہ ہیں اور جن کی سچائی پر وہ لوگ شہادت دے سکتے ہیں جو ہمارے دینی دشمن ہیں اور یہ سب اہتمام اس لئے کیا گیا کہ تا جو لوگ فی الحقیقۃراہ راست کے خواہاں اور جویاں ہیں ان پر بکمال انکشاف ظاہر ہوجائے کہ تمام برکات اور انوار اسلام میں محدود اور محصور ہیں اور تا جو اس زمانہ کے ملحد ذرّیت ہے اس پر خدائے تعالیٰ کی حجت قاطعہ اتمام کو پہنچے اور تا ان لوگوں کی فطرتی شیطنت ہریک منصف پر ظاہر ہو کہ جو ظلمت سے دوستی اور نور سے دشمنی رکھ کر حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے مراتب عالیہ سے انکار کرکے اس عالی جناب کی شان کی نسبت پر خبث کلمات مونہہ پر لاتے ہیں اور اس افضل البشر پر ناحق کی تہمتیں لگاتے ہیں اور بباعث غایت درجہ کی کور باطنی کے اور بوجہ نہایت درجہ کی بےایمانی کے اس بات سے بے خبر ہورہے ہیں کہ دنیا میں وہی ایک کامل انسان آیا ہے جس کا نور آفتاب کی طرح ہمیشہ دنیا پر اپنی شعاعیں ڈالتا رہا ہے اور ہمیشہ ڈالتا رہے گا۔ اور تا ان تحریراتِ حقہ سے اسلام کی شان و شوکت خود مخالفوں کے اقرار سے ظاہر ہوجائے اور تا جو شخص سچی طلب رکھتا ہو اس کے لئے ثبوت کا راستہ کھل جائے اور جو اپنے میں کچھ دماغ رکھتا ہو اس کی دماغ شکنی ہوجائے اور نیز ان کشوف اور الہامات کےلکھنے کا یہ بھی ایک باعث ہے کہ تا اس سے مومنوں کی قُوّت ایمانی بڑھے اور ان کے دلوں کو تثبت اور تسلی حاصل ہو اور وہ اس حقیقت حقہ کو بہ یقین کامل سمجھ لیں کہ صراط مستقیم فقط دین اسلام ہے اور اب آسمان کے نیچے فقط ایک ہی نبی اور ایک ہی کتاب ہے یعنی حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم جو اعلیٰ و افضل سب نبیوں سے اور اتم و اکمل سب رسولوں سے اور خاتم الانبیاء اور خیر الناس ہیں جن کی پیروی سے خدائے تعالیٰ ملتا ہے اور ظلماتی پردے اٹھتے ہیں اور اسی جہان میں سچی نجات کے آثار نمایاں ہوتے ہیں اور قرآن شریف جو سچی اور کامل ہدایتوں اور تاثیروں پر مشتمل ہے جس کے ذریعہ سے حقانی علوم اور معارف حاصل ہوتے ہیں اور بشری آلودگیوں سے دل پاک ہوتا ہے اور انسان جہل اور غفلت اور شبہات کے حجابوں سے نجات پاکر حق الیقین کے مقام تک پہنچ جاتا ہے۔‘‘ (براہین احمدیہ،روحانی خزائن جلد 1 صفحہ555تا557۔حاشیہ در حاشیہ نمبر3۔ایڈیشن 2021ءاسلام انٹرنیشنل پبلیکیشنر یوکے)

مؤلّف کی یکتائیت

’’…اور باایں ہمہ آسمانی مدد دین حق کی تائید کے لئے ایسے جوش میں ہے کہ وہ نشان اور خوارق جن کی سماعت سے عاجز اور ناقص بندے خدا بنائے گئے تھے اب وہ حضرت سیدالرسل کے ادنیٰ خادموں اور چاکروں سے مشہود اور محسوس ہورہے ہیں اور جو پہلے زمانہ کے بعض نبی صرف اپنے حواریوں کو چھپ چھپ کر کچھ نشان دکھلاتے تھے۔ اب وہ نشان حضرت سید الرسل کےاحقر توابع سے دشمنوں کے روبرو ظاہر ہوتے ہیں اور انہیں دشمنوں کی شہادتوں سے حقیت اسلام کا آفتاب تمام عالم کے لئے طلوع کرتا جاتا ہے۔ ماسوا اِس کے یہ زمانہ اشاعت دین کے لئے ایسا مددگار ہے کہ جو امر پہلے زمانوں میں سو سال تک دنیا میں شائع نہیں ہوسکتا تھا۔ اب اس زمانہ میں وہ صرف ایک سال میں تمام ملکوں میں پھیل سکتا ہے۔ اس لئے اسلامی ہدایت اور ربانی نشانوں کا نقارہ بجانے کے لئے اس قدر اس زمانہ میں طاقت و قوت پائی جاتی ہے جو کسی زمانہ میں اس کی نظیر نہیں پائی جاتی۔ صدہا وسائل جیسے ریل و تار و اخبار وغیرہ اسی خدمت کے لئے ہروقت طیار ہیں کہ تا ایک ملک کے واقعات دوسرے ملک میں پہنچاویں۔ سو بلاشبہ معقولی اور روحانی طور پر دین اسلام کے دلائل حقیقت کا تمام دنیا میں پھیلنا ایسے ہی زمانہ پر موقوف تھا اور یہی باسامان زمانہ اس مہمان عزیز کی خدمت کرنے کے لئے من کل الوجوہ اسباب مہیا رکھتا ہے۔ پس خداوند تعالیٰ نے اس احقر عباد کو اس زمانہ میں پیدا کرکے اور صدہا نشان آسمانی اور خوارق غیبی اور معارف و حقائق مرحمت فرما کر اور صدہا دلائل عقلیہ قطعیہ پر علم بخش کر یہ ارادہ فرمایا ہے کہ تا تعلیماتِ حقّہ قرآنی کو ہر قوم اور ہر ملک میں شائع اور رائج فرماوے اور اپنی حجت ان پر پوری کرے۔ اور اسی ارادہ کی وجہ سے خداوند کریم نے اس عاجز کو یہ توفیق دی کہ اتماماًللحجۃ دس ہزارروپیہ کا اشتہار کتاب کے ساتھ شامل کیا گیا اور دشمنوں اور مخالفوں کی شہادت سے آسمانی نشانی پیش کی گئی اور اُن کے معارضہ اور مقابلہ کے لئے تمام مخالفین کو مخاطب کیا گیا تا کوئی دقیقہ اتمام حجت کا باقی نہ رہے اورہریک مخالف اپنے مغلوب اور لاجواب ہونے کا آپ گواہ ہوجائے۔ غرض خداوند کریم نے جو اسباب اور وسائل اشاعت دین کے اور دلائل اَور براہین اتمام حجت کے محض اپنے فضل اور کرم سے اس عاجز کو عطا فرمائے ہیں وہ امم سابقہ میں سے آج تک کسی کو عطا نہیں فرمائے اور جو کچھ اس بارے میں توفیقات غیبیہ اس عاجز کو دی گئی ہیں وہ ان میں سے کسی کو نہیں دی گئیں۔ وَ ذٰلِکَ فَضۡلُ اللّٰہِ یُؤۡتِیۡہِ مَنۡ یَّشَآءُ۔ سو چونکہ خداوند کریم نے اسباب خاصہ سے اس عاجز کو مخصوص کیا ہے اور ایسے زمانہ میں اس خاکسار کو پیدا کیا ہے کہ جو اتمام خدمت تبلیغ کے لئے نہایت ہی معین و مددگار ہے۔ اس لئے اس نے اپنے تفضّلات و عنایات سے یہ خوشخبری بھی دی ہے کہ روز ازل سے یہی قرار یافتہ ہے کہ آیت کریمہ متذکرہ بالا اور نیز آیت وَاللّٰہُ مُتِمُّ نُوۡرِہٖ کا روحانی طور پر مصداق یہ عاجز ہے اور خدائے تعالیٰ ان دلائل و براہین کو اور ان سب باتوں کو کہ جو اس عاجز نے مخالفوں کے لئے لکھی ہیں خود مخالفوں تک پہنچا دے گا اور ان کا عاجز اور لاجواب اور مغلوب ہونا دنیا میں ظاہر کرکے مفہوم آیت متذکرہ بالا کا پورا کردے گا۔ فالحمد للہ علیٰ ذٰلک۔‘‘ (براہین احمدیہ،روحانی خزائن جلد 1صفحہ595تا597۔حاشیہ در حاشیہ نمبر3)

اَلْحَقُّ یَعْلُوْوَلَایُعْلٰی عَلَیْہ

ازل سے نظام عالم میں یہ تقدیر جاری و ساری ہے کہ حق ہمیشہ غالب آتا ہے اور کامیاب و کامران ہوتا ہے۔اس کی بہترین مثال براہین احمدیہ کے منظر عام پر آنے کے بعد علماء کے تبصرے اور سمجھدار طبقے کا ردّعمل ہے۔

مضمون کے عنوان کی مناسبت سے صرف ایک تبصرہ درج کیا جاتا ہے۔ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی جو اُس وقت تمام اہلِ حدیث وہابی فرقہ کے سربراہ تھے انہوں نے اس کتاب کی تعریف میں ایک مفصل آرٹیکل تحریر کیا اور بڑے زور سے اس کی تائید کی اور لکھا کہ تیرہ سو سال میں اسلام کی تائید میں ایسی کتاب کوئی نہیں لکھی گئی۔وہ اپنے طویل ریویو میں ایک جگہ لکھتے ہیں: ’’ہماری رائے میں یہ کتاب اس زمانہ میں اور موجودہ حالت کی نظر سےایسی کتاب ہے جس کی نظیرآج تک اسلام میں تالیف نہیں ہوئی اور آئندہ کی خبر نہیں۔ لَعَلَّ اللّٰہَ یُحۡدِثُ بَعۡدَ ذٰلِکَ اَمۡرًا۔ اور اس کا مولف بھی اسلام کی مالی و جانی و قلمی و لسانی و حالی و قالی نصرت میں ایسا ثابت قدم نکلا ہے جس کی نظیر پہلے مسلمانوں میں بہت کم پائی جاتی ہے۔ ہمارے ان الفاظ کو کوئی ایشیائی مبالغہ سمجھے تو ہم کو کم سے کم ایک ایسی کتاب بتا دے جس میں جملہ فرقہ ہائےمخالفین اسلام خصوصاً فرقہ آریہ و برہم سماج سے اس زور شور سے مقابلہ پایا جاتا ہو اور دو چار ایسے اشخاص انصار اسلام کی نشان دہی کرے، جنہوں نےاسلام کی نصرت مالی و جانی وقلمی و لسانی کے علاوہ حالی نصرت کا بھی بیڑہ اٹھایا ہو۔ اور مخالفین اسلام اور منکرین الہام کے مقابلہ میں مردانہ تحدی کے ساتھ یہ دعویٰ کیا ہو کہ جس کو وجود اسلام پہ شک ہووہ ہمارے پاس آکر تجربہ ومشاہدہ کرلے۔اور اس تجربہ و مشاہدہ کا اقوام غیر کو بھی مزہ چکھا دیا ہو۔‘‘ (اشاعتہ السنّہ جلد ہفتم نمبر 6صفحہ 170،169)

حرف آخر

گذشتہ ایک سو چالیس سال میں امت مسلمہ کے اندر لاکھوں کتب منصہ شہود میں آئیں۔ ہزاروں ایسے پیدا ہوئے جو قدوۃ السالکین،رئیس الفقہاء والمحدثین،شیخ الزہاد والمجاہدین، شیخ الاسلام، شیخ الحدیث، مفکّر،مدبرمجتہد، علامہ ٔاجل، فاضل بے بدل، جامع شریعت و طریقت،واقف رموزِحقیقت و معرفت، عدیم النظیر صاحبِ قلم کہلائے، لیکن نہ ان کےقلم میں چاشنی ہے، نہ تحریر میں سلاست وروانی۔ دلائل و براہین کی کاٹ ہےنہ استدلال کی چمک۔ حقائق و معارف کا خزانہ ہے نہ ان میں گہرائی اور گیرائی۔ بلکہ اُمت افقی طورپر،عمودی طور پر معاشی، معاشرتی، طبقاتی اورمذہبی طور پر تقسیم در تقسیم ہوتی بٹی اورپھٹی چلی گئی۔ آج مسلمان دنیا میں بے نوا اور بے یارو مددگار ہیں، اور علماء کہلانے والے بانجھ اور بنجر زمین کی طرح ہیں۔وہ دین جو سلامتی کا منبع ہے، جو ارحم الراحمین کے کرم سے انسانیت کو ملا، جس کو لانے والا رحمۃ للعالمین بنا کر بھیجا گیا آج نعوذباللہ وہی دین دنیا کے لیے زحمت بنا ہوا ہے، اُسے دنیا میں مسائل کی وجہ اور فتنہ و فساد کی جڑ سمجھا جاتا ہے۔ اُمت کو آج نہ منزل کا پتا نہ سحر کی خبر، نہ روشنی سے واسطہ نہ صبح کی نوید، بےمنزل سفر کے مسافر کس جانب رواں ہیں یہ کوئی نہیں جانتا۔

برصغیر پاک و ہند کے مشہور شاعر ڈاکٹر محمد اقبال کی نظم ’’جواب شکوہ‘‘ اس زبوں حالی کو عیاں کرتی ہے۔

ہاتھ بے زور ہیں الحاد سے دل خوگر ہیں
امتی باعث رسوائی پیغمبر ہیں
رہ گئی رسم اذاں روح بلالی نہ رہی
فلسفہ رہ گیا تلقین غزالی نہ رہی
مسجدیں مرثیہ خواں ہیں کہ نمازی نہ رہے
یعنی وہ صاحب اوصاف حجازی نہ رہے
شور ہے ہو گئے دنیا سے مسلماں نابود
ہم یہ کہتے ہیں کہ تھے بھی کہیں مسلم موجود
وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدن میں ہنود
یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود

ان تمام مسائل کا حل صرف اور صرف اُس ایک ذات کے پاس ہے جو اس زمانے کا حصن حصین اور عافیت کا حصار ہے۔ وہ ایک ہی ہے جس کوعرش الٰہی سے ’’کَلَامٌ اُفْصِحَتْ مِنْ لَّدُنْ رَبٍّ کَرِیْمٍ‘‘ کی سند ملی۔ فصاحت و بلاغت میں کوئی اس کا ثانی تھا، ہے اور نہ ہوگا۔ اسلام کی راستی کا عصا اس کے ہاتھ میں دیا گیا۔ اس دبستاں میں پیدا ہونے والےمُعَلِّم کاملﷺکا یہ ظل کامل قرآنِ حکیم کے حقائق ومعارف بیان کرنے میں متفرد کیا گیا۔

عصر حاضر میں وہ ایک ہی ہے جو یقین کامل کے ساتھ یہ دعویٰ کرتا ہے:

لوائے ماپنہ ہر سعید خواہد بود
ندائے فتح نمایاں بنامِ مَا باشد

امت محمدیہ میں وہ یکا وتنہا امامِ صادق ہے جسے مالک ارض و سماء نے یہ خبر دی: ’’آسمان سے بہت دودھ اُترا ہےمحفوظ رکھو‘‘ اور وہ معارف اور حقائق کا دودھ ہےجو صرف اس پر اتارا گیا۔

عالم اسلام میں وہ ایک ہی ہے جو یقین کامل کے ساتھ یہ تحریر کرتا ہے: ’’…جب سے میرے قدم نے چلنا اور میرے قلم نے لکھنا شروع کیا مجھے یہی محبوب رہا کہ میں تحقیق کو اپنا مسلک اور غور و فکر کو اپنا مقصود بناؤں۔‘‘ (سر الخلافة (مترجم) صفحہ 186حاشیہ)

ایک اور جگہ تحریر فرماتے ہیں: ’’…یہ تو معلوم ہے کہ محمدی برکتیں معارف اور اسرار اور نکات اورکَلم جامعہ اور بلاغت اور فصاحت ہے۔ سو میری کتابوں میں اُن برکات کا نمونہ بہت کچھ موجود ہے۔ براہین احمدیہ سے لے کر آج تک جس قدر متفرق کتابوں میں اسرار اور نکات دینی خدا تعالیٰ نے میری زبان پر باوجود نہ ہونے کسی اُستاد کے جاری کئے ہیں…اُس کی نظیر اگر موجود ہے تو کوئی صاحب پیش کریں۔ مگر انصاف کی پابندی کے لئے بہتر ہو گا کہ اوّل تمام میری کتابیں براہین احمدیہ سے لے کر فریاد درد یعنی کتاب البلاغ تک دیکھ لیں اور جو کچھ اُن میں معارف اور بلاغت کا نمونہ پیش کیا گیا ہے اس کو ذہن میں رکھ لیں اور پھر دوسرے لوگوں کی کتابوں کو تلاش کریں اور مجھ کو دکھلاویں کہ یہ تمام امور دوسرے لوگوں کی کتابوں میں کہاں اور کس جگہ ہیں۔‘‘ (ایام الصلح،روحانی خزائن جلد 14صفحہ 406)وہ ایک ہی ہے جس کی زبان کی تائید میں ایک اور زبان بولی، اور وہ ایک ہی ہے جس کے ہاتھ کی تقویت کے لیے ایک آسمانی ہاتھ چلا۔براہین احمدیہ سے لے کر پیغام صلح تک علم وحکمت اور رشد وہدایت کا ایک ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ہے جو ہر طرح کا علمی اور ادبی مذاق رکھنے والے، ہرطرح کا پس منظر اور متفرق فکری استعدادیں رکھنے والوں کے لیے ان کی عقل و فہم کے مطابق مواد اپنے دامن میں سموئے ہوئے ہے۔ وہ ایک ہی ہے جس کی تحریر میں ایسی دل آویزی، چاشنی اور لطافت ہے کہ وہ پیاسی روحوں کے لئے آب ِبقاء کا درجہ رکھتی ہیں۔ اور وہ ایک ہی ہے جس کی تحریرات کی سحر انگیزی اور ضو فشانی تا ابد قائم دائم رہے گی۔کیونکہ عطائے رب کریم کسی کوشش،کسی دنیاوی فیصلے،کسی ارادےاور کسی ریاضت کے ساتھ مشروط نہیں۔ ذٰلِکَ فَضۡلُ اللّٰہِ یُؤۡتِیۡہِ مَنۡ یَّشَآءُ کا ارشادِرحمانی تا ابد اس صداقت اور حقیقت پرگواہ رہے گا۔

یہ سراسر فضل و احساں ہے کہ میں آیا پسند
ورنہ درگہ میں تری کچھ کم نہ تھے خدمت گزار

عصر حاضر میں وہ ایک ہی پیدا ہوا جویقینِ کامل اور تحدّی کے ساتھ یہ دعویٰ کرنے والا بنا

میں وہ پانی ہوں جو آیا آسماں سے وقت پر
میں ہوں وہ نور خدا جس سے ہوا دن آشکار
وہ خزائن جو ہزاروں سال سے مدفون تھے
اب میں دیتا ہوں اگر کوئی ملے امیدوار

حضرت مسیح موعودؑ نےجو بھی علوم و معارف لٹائے و ہ دراصل حضرت محمد مصطفے ﷺ کے روحانی فیض کے جاری و ساری ہونے کا نتیجہ ہیں۔ان علوم ومعارف کے مطالعہ سے آنحضرت ﷺ کی اعلیٰ وارفع شان کا بھی بخوبی اندازہ لگایا جاسکتاہے۔ یہ علوم و معارف خداکی خاص تائید و نصرت سےاسلام کی عظمت رفتہ کو پھر سے قائم کرنے کے لیےلکھے گئے۔ روحانی خزائن کی صورت میں آپؑ کی کتب ایسے دلائل و براہین پر مشتمل ہیں جو کسی بھی معترض کو ملزم وساکت کرسکتے ہیں۔ان معرکہ آرا کتب کو پڑھ کر زندہ خداسے روشناسی ہوجاتی ہے۔ ان کتب کا ہر ہر لفظ اورہر ہر سطر محبت الٰہی اورمحبت رسول سے معمور و مملوء ہے۔ یہ کتب محبت الٰہی اورمحبت رسول کو فروغ دیتیں اور دلوں میں اسے جاگزیں کرتی ہیں یہ کتب ملّی خدمات کا بے مثال نمونہ ہیں۔بڑے بڑے کبار علماء آپ کی تبحر علمی کے قائل ہوئے۔ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں: ’’…میں سچ سچ کہتا ہوں کہ مسیح کے ہاتھ سے زندہ ہونے والے مر گئے مگر جو شخص میرے ہاتھ سے جام پئےگا جو مجھے دیا گیا ہے وہ ہرگز نہیں مرے گا۔وہ زندگی بخش باتیں جو میں کہتا ہوں اور وہ حکمت جو میرے منہ سے نکلتی ہے اگر کوئی اور بھی اس کی مانند کہہ سکتا ہے تو سمجھو کہ میں خدائے تعالیٰ کی طرف سے نہیں آیا لیکن اگر یہ حکمت اور معرفت جو مُردہ دلوں کے لئے آب حیات کا حکم رکھتی ہے دوسری جگہ سے نہیں مل سکتی توتمہارے پاس اس جُرم کا کوئی عذر نہیں کہ تم نے اُس کے سرچشمہ سے انکار کیا جو آسمان پر کھولا گیا زمین پر اس کو کوئی بند نہیں کر سکتا سو تم مقابلہ کیلئے جلدی نہ کرو اور دیدہ و دانستہ اس الزام کے نیچے اپنے تئیں داخل نہ کرو جو خدائے تعالیٰ فرماتاہے لَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ اِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ اُولٰىِٕكَ كَانَ عَنْهُ مَسْـُٔوْلًا (بنی اسرائیل: 37)بدظنی اور بدگمانی میں حد سے زیادہ مت بڑھو ایسانہ ہو کہ تم اپنی باتوں سے پکڑے جاؤ اور پھر اس دکھ کے مقام میں تمہیں یہ کہنا پڑے کہ مَا لَنَا لَا نَرٰى رِجَالًا كُنَّا نَعُدُّهُمْ مِّنَ الْاَشْرَارِ۔‘‘ (ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد 3 صفحہ104)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button