متفرق مضامین

ملکی اور غیر ملکی ذرائع ابلاغ میں براہین احمدیہ کا تذکرہ وتشہیر

(ابو حمدانؔ)

اتنا تو کہنے سے ہم بھی دریغ نہیں کر سکتے کہ بلاشبہ کتاب لاجواب ہے اور جس زور و شور سے دلائل حقہ بیان کئے گئے ہیں اور مصنف مدظلہ نے اپنے مکشوفات و الہامات کو بھی مخالفان اسلام پر ظاہر کر دیا ہے اس میں اگر کسی کو شک ہو تو مکاشفات الٰہی اور انوار نامتناہی جو عطیہ الٰہی ہیں ان سب کو فیض صحبت مصنف سے مستفیض ہو کر پاوے اور عین الیقین حاصل کرے(اخبار منثورمحمدی)

حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی زندگی کا مشاہدہ کریں تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ آپ کی کُل حیات درحقیقت رسول ﷺ کی پیشگوئی کے مطابق من يجدِّدُ لَها دينَها کا مصداق تھی۔جس زمانہ میں آپ تشریف لائے اس دور میں اسلام، بانیٔ اسلام اور قرآن کریم پر مخالفین کی جانب سے پہ در پہ حملے ہورہے تھے۔چنانچہ کہیں آپ عیسائیوں اور آریہ سماج والوں کے اسلام کے خلاف کھولے گئے محاذ کے خلاف مصروف العمل نظر آتے ہیں تو کہیں آپ اسلام کے چاند پر پڑنے والے اندرونی غبار کو ہٹانے کی کوشش میں لگے دکھائی دیتے ہیںجو کہ قدیم سنت کے مطابق وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پیشگوئیوں کے مطابق مرجھانےلگا۔اور اس کی روشنی مدھم پڑنے لگی اورچہرہ غبارآلود ہوگیا۔مسلمانوں کا یہ حال تھا کہ ان کے اپنے ایمان بھی متزلزل تھے۔ ان سب حالات میں اس جری اللہ کو یہ کس طرح برداشت ہوسکتا تھا کہ وہ سکون سے یہ سب ظلم دیکھ سکے۔ چنانچہ آپؑ نے از بس کوشش کے ذریعہ اسلام اور بانی اسلام کی سیرت اور محاسن کو دوبارہ زندگی بخشی اور دفاع اسلام کے ساتھ ساتھ تبلیغ اسلام کا بیڑا اپنے سر لے لیا۔ چنانچہ حضورؑ اسی مقصد کو خود بیان کرتے ہوئے ایک جگہ فرماتے ہیں: ’’اس زمانہ میں جو کچھ دین اسلام اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کی گئی اور جس قدر شریعت ربّانی پر حملے ہوئے اور جس طور سے ارتداد اور الحاد کا دروازہ کھلا کیا اس کی نظیر کسی دوسرے زمانہ میں بھی مل سکتی ہے؟ کیا یہ سچ نہیں کہ تھوڑے ہی عرصہ میں اس ملک ہند میں ایک لاکھ کے قریب لوگوں نے عیسائی مذہب اختیار کر لیا۔ اور چھ۶کروڑ اور کسی قدر زیادہ اسلام کے مخالف کتابیں تالیف ہوئیں اور بڑے بڑے شریف خاندانوں کے لوگ اپنے پاک مذہب کو کھو بیٹھے یہاں تک کہ وہ جو آل رسول کہلاتے تھے وہ عیسائیت کا جامہ پہن کر دشمن رسول بن گئے اور اس قدر بدگوئی اور اہانت اوردُشنام دہی کی کتابیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں چھاپی گئیں اور شائع کی گئیں کہ جن کے سننے سے بدن پر لرزہ پڑتا اور دل رو رو کر یہ گواہی دیتا ہے کہ اگر یہ لوگ ہمارے بچوں کو ہماری آنکھوں کے سامنے قتل کرتے اور ہمارے جانی اور دلی عزیزوں کو جو دنیا کے عزیز ہیں ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالتے اور ہمیں بڑی ذلت سے جان سے مارتے اور ہمارے تمام اموال پر قبضہ کر لیتے تو واللہ ثم واللہ ہمیں رنج نہ ہوتا اور اس قدر کبھی دل نہ دکھتا جو ان گالیوں اور اس توہین سے جو ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی کی گئی دُکھا۔ پس کیا ابھی اس آخری مصیبت کا وہ وقت نہیں آیا جو اسلام کے لیے دنیا کے آخری دنوں میں مقدر تھا۔ کیا کوئی ثابت کرسکتا ہے کہ اس سے بڑھ کر کوئی اور زمانہ بھی آنے والا ہے جو قرآن کریم اور حدیث کی رو سے ان موجودہ فتنوں سے کچھ زیادہ فتنے رکھتا ہوگا…‘‘ (آئینہ کمالات اسلام،روحانی خزائن جلد5صفحہ52،51)

اسی مقصد کے لیے حضور علیہ السلام نے اگرچہ ابتدائی عمر سے ہی مباحثات اور مضامین وغیرہ کی شکل میں یہ کام شروع کردیا تھا البتہ پہلی باضابطہ کاوش آپؑ نے 1879ءمیں اپنی معرکہ آراکتاب براہین احمدیہ کی شکل میں تصنیف فرمائی جو کہ فی ذاتہ بے مثال تھی اور بمثل مشہور الفضل ما شھدت بہ الاعداء جس کی اغیار نے بھی خوب تعریف کی۔

براہین سے متعلق پہلا اشتہار

اس دور میں برصغیر میں اہلحدیث کا مشہور اخبار اشاعۃ السنۃ جاری تھا جس کی ایڈیٹر شپ محمد حسین بٹالوی کے پاس تھی۔بٹالوی صاحب بلامبالغہ اپنے حلقۂ احباب میں ایک اچھا اثر و رسوخ رکھنےوالے تھے اور حضورؑ کے ہم مکتب بھی تھے۔چنانچہ براہین احمدیہ سے متعلق پہلااشتہار اپریل 1879ء میں اسی رسالہ اشاعۃ السنہ میں بعنوان اشتہاربغرض استعانت واستظہار ازانصاردین محمدؐ مختار صلے اللہ علیہ وعلےٰ آلہ الابرار شائع ہوا۔جس کی عبارت یوں تھی: ’’اخوان دیندار مو منین غیرت شعار و حامیان دین اسلام و متبعین سنت خیر الانام پر روشن ہو کہ اس خاکسار نے ایک کتاب متضمن اثبات حقانیت قرآن و صداقت دین اسلام ایسی تالیف کی ہے جس کے مطالعہ کے بعد طالبِ حق سے بجرقبولیت اسلام اور کچھ بن نہ پڑے۔ اور اس کے جواب میں قلم اُٹھانے کی کسی کو جرأت نہ ہو سکے۔ اس کتاب کے ساتھ اس مضمون کاایک اشتہار دیا جاوے گا کہ جو شخص اس کتاب کے دلائل کو توڑ دے و مع ذالک اس کے مقابلہ میں اسی قدر دلائل یا ان کے نصف یا ثلث یا ربع یا خمس سے اپنی کتاب کا (جس کو وہ الہامی سمجھتا ہے) حق ہونا یا اپنے دین کا بہتر ہونا ثابت کر دکھائے۔ اور اس کے کلام یا جواب کو میری شرائط مذکورہ کے موافق تین منصف (جن کو مذہب فریقین سے تعلق نہ ہو)مان لیں تو میں اپنی جائیداد تعدادی دس ہزار روپیہ سے (جو میرے قبضہ و تصرف میں) دستبردار ہو جاؤں گا۔ اور سب کچھ اس کے حوالہ کر دوں گا۔ اس باب میں جس طرح کوئی چاہے اپنی اطمینان کر لے۔مجھ سے تمسک لکھا لے یا رجسڑی کرالے اور میری جائیداد منقولہ و غیرمنقولہ کو آکر بچشم خود دیکھ لے۔ باعث تصنیف اس کتاب کے پنڈت دیانند صاحب اور ان کے اتباع ہیں جو اپنی اُمت کو آریہ سماج کے نام سے مشہور کر رہے ہیں۔ اور بُجز اپنے وید کے حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ مسیح اور حضرت محمد مصطفٰے علیہم السلام کی تکذیب کرتے ہیں۔ اور نعوذ باللہ توریت زبور، انجیل،فرقان مجید کو محض افتراء سمجھتے ہیں اور ان مقدس نبیوں کے حق میں ایسے توہین کے کلمات بولتے ہیں کہ ہم سن نہیں سکتے۔ ایک صاحب نے ان میں سے اخبار سفیر ہند میں بطلب ثبوت حقانیت فرقان مجید کئی دفعہ ہمارے نام اشتہار بھی جاری کیا ہے۔ اب ہم نے اس کتاب میں ان کا اور ان کے اشتہاروں کا کام تمام کر دیا ہے اور صداقت قرآن و نبوت کو بخوبی ثابت کیا۔ پہلے ہم نے اس کتاب کا ایک حصہ پندرہ جزو میں تصنیف کیا۔ بغرض تکمیل تمام ضروری امروں کے نو حصے اور زیادہ کر دیے۔جن کے سبب سے تعداد کتاب ڈیڑ ھ سو جزء ہو گئی۔ ہر ایک حصہ اس کا ایک ایک ہزار نسخہ چھپے، تو چورانوے روپیہ صرف ہوتے ہیں۔ پس کل حصص کتاب نوسوچالیس روپے سے کم میں چھپ نہیں سکتے۔

ازانجاکہ ایسی بڑی کتاب کا چھپ کر شائع ہونا بجز معاونت مسلمان بھائیوں کے بڑا مشکل امر ہے۔ اور ایسے اہم کام میں اعانت کرنے میں جس قدر ثواب ہے وہ ادنیٰ اہل اسلام پر بھی مخفی نہیں۔ لہٰذا اخوان مومنین سے درخواست ہے کہ اس کارخیر میں شریک ہوں۔ اور اس کے مصارف طبع میں معاونت کریں۔اغنیاء لوگ اگر اپنے مطبخ کے ایک دن کا خرچ بھی عنایت فرمائیں گے۔تو یہ کتاب بسہولت چھپ جائے گی۔ ورنہ یہ مہرِ درخشاں چھپا رہے گا۔یا یوں کریں کہ ہر ایک اہل وسعت بہ نیت خریداری کتاب پانچ پانچ روپیہ معہ اپنی درخواستوں کے راقم کے پاس بھیج دیں۔جیسی جیسی کتاب چھپتی جائے گی ان کی خدمت میں ارسال ہوتی رہے گی۔ غرض انصار اللہ بن کر اس نہایت ضروری کام کو جلد تر بسر انجام پہونچا دیں اور نام اس کتاب کا ’’البراہین الاحمدیہ علیٰ حقیۃ کتاب اللہ القرآن و النبوۃ المحمدیہ‘‘ رکھا گیا ہے۔ خدا اس کو مبارک کرے اور گمراہوں کو اس کے ذریعہ سے اپنے سیدھے راہ پر چلا وے آمین۔

خاکسار غلام احمدؐ از قادیان ضلع گورداسپور ملک پنجاب(ضمیمہ اشاعۃ السنۃ نمبر 4جلد دوم اپریل 1879ء بحوالہ مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 16، 17)

حضور علیہ السلام نے جہاں اس اشتہار میں براہین احمدیہ کی طباعت کا مقصد بیان فرماتے ہوئے اس بات کا اظہار کیا کہ اس کتاب کی تصنیف کا باعث دراصل آریہ دھرم والے ہیں وہیں اگر اس اشتہار سے پہلے حضورؑکے شائع ہونے والے بے شمار مضامین پر نظر دوڑائی جائے تو انہیں آریہ سماج سے متعلق حضور انور کے پیشتر مضامین کا ایک سلسلہ ہے جو مختلف اخبارات میں ہمیں نظر آتا ہے۔ ان اخبارات میں سے بنگلور سے چھپنے والا ایک اخبار ’’منشور محمدی‘‘ بھی ہے۔جس میں حضرت مسیح موعودؑ نے بھی کثرت سے لکھا ہے بلکہ آپ کے فرزند اکبر مرزا سلطان احمد صاحب ؓنے بھی بھرپور انداز میں اس اخبار کے لیےتحریر کیا ہے۔یہ اخبار 25؍اگست 1872ء کو جاری ہوا تھا۔ حضورؑ کا اس اخبار کا انتخاب کرنا اور اس میں کثرت سے لکھنے کی وجہ یہ بھی تھی کہ اس اخبار کی غرض و غایت یہ تھی کہ جو مخالف اخبار مسلمانوں کے مذہب کی توہین کرتے تھے یہ ان کی تردید کرتا تھا۔مشنریوں کی کتابوں،مضمونوں اور خاص طور پر نور افشاں لدھیانہ کے عیسائی اخبار کے اعتراضات کے اس میں جوابات دیے جاتے تھے۔بہت کم سیاسی تبصرے ہوتے تھے۔ کوئی عیسائی اگر مسلمان ہوتا تو اس کی خبر پہلے صفحہ پر بہت نمایاں طور پر شائع کی جاتی تھی۔اس اخبار کے مضامین مدلل اور محققانہ ہوتے تھے ۔اس اخبار نے سب سے بڑی خدمت یہ کی ہے کہ وہ مضامین یا کتابیں جو عیسائیوں کی مخالفت یا ان کے اعتراضوں کے جواب میں یا اسلام کی فوقیت وافضلیت پر لکھی گئی تھیں اور ان کے مصنفین اپنی مالی مجبوریوں کی وجہ سے ان کو چھپوا نہیں سکتے تھے اس نے ان کو قسط وار چھاپ کے محفوظ کر دیا تھا۔ سوائے عیسائی اخبارات کے تقریباً تمام معاصرین اس اخبار کے حامی تھے۔ چنانچہ کشف الاخبار بمبئی موٴرخہ 22؍ مارچ 1888ء نے اس پر تبصرہ کیا ہے کہ ’’بنگلور سے سترہ برس سے نکلتا ہے عین حالت جوانی میں قومی بے پروائی اور قومی سفاکی سے یہ قومی پرچم بڑی بیدردی سے مارا گیا تھا مگر جن ہمدردوں کو اس کی پیاری اور غایت درجہ مفید باتیں یاد تھیں انہوں نے احیائے موتی کی فکر کی اور الحمد للہ ان کی کوشش کارگر ہوئی۔ دل کش بہار جو پہلے تھی اب بھی موجود ہے ہاتھ کنگن کو آرسی کیا ہے منگا کر دیکھ لیجئے۔ منشور محمدی اسلامی مباحث کا پورا آرگن ہے اور مسائل و حقائق عیسوی بدلائل خوب باطل کرتا ہے۔ اپنے جنس کا ہندوستان بھر میں ناموری کے ساتھ صرف ایک یہی ہے۔ پھر اس کا دھیمی چال چلنا اہل قوم کے لئے ہتک ہے۔ہم اپنے ناظرین سے سفارش کرتے ہیں کہ کم از کم ایک پرچہ کی خریداری فرمائی جائے۔ ہر شخص کو تجربہ سے معلوم ہوگا کہ یہ پرچہ مسلمانوں کے لیے مذہبی اصول کو عیسوی نیشن زنی سے محفوظ رکھنے کے لئے زبردست آلہ ہے۔‘‘ (تاریخ صحافت اردو از امداد صابری جلد 2 صفحہ 421 تا 437مطبوعہ جدید پرنٹنگ پریس 22گلی کبابیاں جامع مسجد دہلی)

اس اخبار (منشور محمدی) میں حضور علیہ السلام کی جانب سے لکھا گیا ایک معروف مضمون آریہ سماج کے بانی ’پنڈت سوامی دیانند سرسوتی‘ کے نام بھی ملتاہے۔ بسا اوقات تو ان مضامین کا ایک طویل سلسلہ ہوا کرتا تھا جو کئی اقساط پر مشتمل ہوتا تھا۔مثلاً اسی اخبار منشور محمدی (بنگلور)میں 29؍جنوری تا18؍اپریل 1878ء کے دوران حضور علیہ السلام کا ایک طویل مضمون بعنوان ’’ہندو صاحبوں کی ہدایت‘‘ سات (7) اقساط میں شائع ہوا۔

اخبار منشور محمدیﷺ میں حضورؑ کے ایک اور مضمون کا سلسلہ اور براہین احمدیہ کی تشہیر

بعدازاں اسی منشور محمدی اخبار میں براہین احمدیہ سے متعلق اشتہارات بھی شائع ہوتے رہے۔ براہین احمدیہ کی اشاعت کے دوران 1878ء1879ء میں حضور علیہ السلام کاایک سلسلہ مضامین ایک ہندوعالم باوانرائن سنگھ کے نام بھی ملتا ہے۔ چنانچہ 16؍مئی 1879ء بمطابق 5 جمادی الاول 1296ھ کےاخبار’’منشور محمدی‘‘ میں حضور باوا صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’لہٰذا ہم نے حسب درخواست باواصاحب ایک کتاب مسمی بہ براہین احمؐدیہ علیٰ حقیّۃ کتاب اللہ القرآن والنبوة المحمدیہ ادلہ کاملہ قطعیہ سے مرتب کرکے تیار کی ہے۔‘‘ (حیات احمد،جلد دوم صفحہ8تا9)اب تک براہین کے ہندوستان بھر میں چرچے ہونے لگ گئے۔اور لوگ کافی بے تابی سے اس کا انتظار بھی کر رہے تھے۔ چنانچہ حضور کی جانب سے 1881ء میں اشتہار بعنوان ’براہین احمدیہ کا اعلان‘ منشور محمدی اخبار(5؍ محرم 1299ھ /نمبر 1جلد11) میں ہی شائع کیا گیا کہ دیباچہ اور مقدمہ کتاب موصوف کا چھپ گیا ہے بقیہ بھی اب آہستہ آہستہ شائع ہورہی ہے۔اس لیےکچھ مزید انتظار کی درخواست کی گئی۔ یہاں پر حضورؑ نے اس مجبوری کا بھی اظہار کیا کہ امرتسر میں ہیضہ وتپ کی وبا کے باعث پریس وغیرہ کے کام کافی متأثر ہوئے ہیں اس لیے طباعت میں دیری کا سامنا ہے۔(مولوی محمد حسین بٹالوی کا براہین احمدیہ پر ریویو از اشاعۃ السنۃ)

براہین احمدیہ کی اشاعت کے بعد ہندوستان کے اکثر علماء نے آپؑ کو اسلام کی حقیقی خدمت کرنے والا قرار دیا۔اور مختلف ریویو وغیرہ لکھے۔ بٹالہ سے تعلق رکھنے والے مشہور ومعروف عالم مولوی محمد حسین بٹالوی کی ایک تحریر پیش ہے جہاں مولوی صاحب نے حضرت اقدسؑ کی تصنیف براہین احمدیہ پر ایک تفصیلی ریویو لکھتے ہوئے کہا کہ ہماری نظر میں یہ کتاب اس زمانہ میں اور موجودہ حالات کی نظرسے ایسی کتاب ہے جس کی نظیر آج تک اسلام میں تالیف نہیں ہوئی …اور اس کا مؤلف بھی اسلام کی مالی و جانی و قلمی ولسانی و حالی و قالی نصرت میں ایسا ثابت قدم نکلا ہے جس کی نظیر پہلے مسلمانوں میں بہت ہی کم پائی جاتی ہے۔ ہمارے ان الفاظ کو کوئی ایشیائی مبالغہ سمجھے تو ہم کو کم سے کم ایک کتاب بتادے جس میں جملہ فرقہ ہائے مخالفین اسلام خصوصاً آریہ و برہم سماج سے اس زور شورسے مقابلہ پایا جاتا ہو اور دو چار ایسے اشخاص انصار اسلام کی نشاندہی کرے جنہوں نے اسلام کی نصرت مالی وجانی و قلمی و لسانی کے علاوہ حالی نصرت کا بھی بیڑہ اٹھالیا ہو۔‘‘ (رسالہ اشاعۃ السنہ جلد 7نمبر6صفحہ169)

مولوی بٹالوی صاحب نے صرف یہیں پر بس نہیں کی بلکہ براہین احمدیہ سے انکار کرنے والے مسلمانوں کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے مزید لکھتے ہیں کہ ’’افسوس صد افسوس سب سے پہلے اس کتاب کی خوبی وبحق اسلام نفع رسانی سے بعض مسلمانوں ہی نے انکار کیا ہے اور برطبق اتجعلون رزقکم انکم تکذبون اس احسان مولف کے مقابلہ میں کفران کرکے دکھا دیا۔مزید برآں بٹالوی صاحب نے اس انکار کی وجہ بھی بتلادی کہ ایسے مسلمان دراصل گورنمنٹ انگلشیہ سے جہاد وبغاوت کا عقیدہ رکھتے ہیں جبکہ مرزا صاحب نے اس کتاب میں اسے غیر مناسب قرار دیا ہے لہٰذا وہ مسلمان اس کتاب کے خلاف ہیں لیکن کیونکہ برملا حکومت کے خلاف اظہار کرنے سے ڈرتے بھی ہیں اس لیے اس کو کسی اور پیرایہ میں لے جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ براہین احمدیہ میں فلاں فلاں امور کفریہ ( دعوی نبوت اور نزول القرآن اور تحریف آیات قرآنیہ پائی جاتی ہیں) اس لیے اس کا مؤلف کافر ہے۔‘‘ (رسالہ اشاعۃ السنہ جلد 7نمبر6صفحہ170)

پھر اپنے ریویو کے آخر پر مولوی صاحب حضرت صاحب کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے لوگوں کو اس کو خریدنے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’مؤلف براہین احمدیہ نے مسلمانوں کی عزت رکھ دکھائی ہے اور مخالفین اسلام سے شرطیں لگا لگا کر تحدی کی ہے اور یہ منادی اکثر روئے زمین پر کردی ہے کہ جس شخص کو اسلام کی حقانیت میں شک ہو وہ ہمارے پاس آئے اور اس کی صداقت دلائل عقلیہ قرآنیہ و معجزات نبویہ محمدیہ سے (جس سے وہ اپنے الہامات وخوارق مرادرکھتے ہیں) بچشم خود ملاحظہ کرے۔پھر کیا اس احسان کے بدلے مسلمانوں پر یہ حق نہیں ہے کہ فی کس نہ سہی فی گہر ایک ایک نسخہ کتاب اس کی ادنی قیمت دیکر خریدکریں…‘‘ بٹالوی صاحب نہ صرف یہ بلکہ اس ریویو کے آخر پر خداوند سے ایک دعا بھی کرتے ہیں کہ ’’اے خدا اپنے طالبوں کے رہنما ان پر ان کی ذات سے ان کے ماں باپ سے تمام جہان سے زیادہ رحم فرما۔تو اس کتاب کی محبت لوگوں کے دلوں میں ڈال دے اور اس کے برکات سے مالامال کردےاور کسی اپنے صالح بندہ کے طفیل اس خاکسار شرمسار گناہگار کو بھی اپنے فیوض وانعامات اوراس کتاب کی اخص برکات سے فیضیاب کر آمین وللارض من کاس الکرام نصیب‘‘ (رسالہ اشاعۃ السنہ جلد 7نمبر11صفحہ348)

اشاعۃ السنۃ کا ہی مزید مطالعہ کریں تو ہمارے سامنے یہ منظر بھی عیاں ہوجاتا ہے کہ نہ صرف مولوی صاحب کو حضرت اقدسؑ کی اس کاوش نے انتہائی متأثر کیا تھا بلکہ مولوی صاحب نے اس کتاب کی بہتر ترویج اور تشہیر کے لیے حضورؑ کو تدبیر فراہمی چندہ یا قیمت کتاب کے لیے مختلف رؤساء سے متعلق تحریک بھی کی تھی۔ چنانچہ اشاعۃ السنہ میں مولوی صاحب لکھتے ہیں کہ ’’براہین احمدیہ کی معاونت کی نسبت ہم نمبر سابق میں بہت کچھ ترغیب دے چکے ہیں جس سے مسلمانان حامیان اسلام متاثر ہونےکی امید قوی ہے۔ اب ہم اس کتا ب کے مؤلف مرزا غلام احمد صاحب کو ایک تدبیر فراہمی چندہ یا قیمت کتاب پر آگاہ کرتے ہیں وہ یہ کہ مرزا صاحب اس باب میں ان اعیان و رؤسا ء اسلام کی طرف سے مراجعت کریں جن میں اکثر ایسے ا ہل وسعت ہیں کہ اگر ان میں سے کوئی صاحب توجہ کریں تو صرف اپنی ہمت سے بلا شراکت غیر کتاب کو چھپوا سکتے ہیں۔ آگے اس تدبیر کا کار گر ہونا خدا کے اختیار ہے جس کی عظمت شان ہے اللھم لامانع لما اعطیت و لا معطی لما منعت حکایت ہے۔ آں حضرات کے نام نامی یہ ہیں :

1.نواب والا جاہ امیر الملک مولوی سید محمد صدیق حسن خانصاحب بہادر امیر ریاست بھوپال۔

2.نواب محمود علی خان صاحب بہادر رئیس چھتاری ضلع بلند شہر۔

3.نواب محمد ابراہیم علی خان صاحب رئیس مالیر کوٹلہ۔

4.نواب محمد داؤد خان صاحب رئیس کرنول ضلع مدراس۔

5.جناب خلیفہ محمد حسن صاحب وزیر ریاست پٹیالہ دام اقبالھم۔

6.آغا کلب عابد بیگ صاحب ایکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر بہادر ضلع امرتسر

7.سید ہدایت علی صاحب اکسٹرااسسٹنٹ کمشنر بہادر ضلع گورداسپورہ

8.جناب جامع معقول ومنقول ماہر فروع واصول معدن فیض عام۔ناصر اسلام برروتصنیف وکلام حضرت مولوی حاجی سید امداد العلی صاحب ڈپٹی کلکٹر مرآدآباد

9.خان صاحب محمد امام خان صاحب مالگذار کانواڑہ ضلع سیونی۔

10.خانصاحب محمد امام خان صاحب مالگذار آری ضلع سیونی۔

پھر براہین کی قیمت سے متعلق تجویز کرتے ہیں کہ ’’قیمت براہین احمدیہ جو بنرخ جدید فی نسخہ دس روپیہ مقرر ہوئی ہے وہ صرف اہل اسلام کے لئے ہے جنکی جانب سے علاوہ از قیمت کتاب اور نوع سے بھی مدد پہنچنے کی توقع ہے ان کے سواء اور مذہب (عیسائی آریہ وغیرہ) والوں سے اس کی قیمت پچیس روپیہ لےجاوےگی اور ایک روپیہ نو آنہ محصول ڈاک علاوہ برآن۔‘‘ (اشاعۃ السنہ جلد 2 نمبر نہم و دہم بابت ستمبر و اکتوبر 1880ء صفحہ 3-4)

قارئین! شومیٔ قسمت دیکھیے ان سب کے باوجود یہی مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب پھر بعد میں حضور علیہ السلام کے شدید مخالف بن گئے اور آپؑ کی مخالفت میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ چنانچہ ایک دفعہ حضرت اقدسؑ نے مولوی صاحب کے اسی طرز عمل ( پہلے تائید میں شدت بعدازاں مخالفت میں شدت)سے متعلق فرمایا: ’’ہمیں اس کی حالت پر تعجب ہے کہ جس وقت ایک درخت کا ابھی تخم ہی زمین میں ڈالا گیا ہے اور کسی طرح کا نشوونما نہ پتہ نکلا ہے نہ پھل لگا ہے نہ کو ئی پھول تو اس معدومی کی حالت میں تو اس کی تعریف کی جا تی ہے کہ اس کی نظیر ۱۳ سو سا ل میں کہیں نہیں ملتی اور اب جب وہ درخت پگلا اور پھولا اور نشوونما پائی تواس کے وجود سے انکار کیا جا تا ہے ابتدا میں ہمارے دعویٰ کی مثال رات کی تھی اس وقت تو شپر کی طرح اسے قبول اور پسند کیا اور اب جب دن چڑھا اور سورج کی طرح وہ چمکا تو آنکھ بند کر لی۔ جن ایام میں شناخت کے آثار نہ تھے اور اس وقت یہ امر مستور تھاتوریویو لکھے اور را ئے ظاہر کی اب یہ وقت آیا تھا کہ وہ اپنے ریویو پر فخر کرتا کہ دیکھو جو باتیں مَیں نے اول کہی تھیں وہ آج پوری ہو رہی ہیں اور میری اس فراست کے شواہد پیدا ہو گئے ہیں مگر افسوس کہ اب وہ اپنی فراست کے خود ہی دشمن ہو گئے ہم نے کو نسی با ت نئی کی ہے جس حکم کے وہ لوگ منتظر ہیں بھلا ہم پوچھتے ہیں کہ کیا اس نے آکر ہر ایک رطب ویا بس کو قبول کر لینا ہے اور وہ وحی کی پیروی کرے گا یاکہ ان مختلف مولویوں کی ؟ اس نے آکر انہی کی ساری با تیں قبول کر لینی ہیں تو پھر اس کا وجود بہیودہ ہے۔‘‘ (البدر جلد ۲ نمبر ۱۶ صفحہ ۱۲۳ مورخہ ۸ ؍مئی ۱۹۰۳ء)

حسن اتفاق دیکھیے کہ کچھ یہی احوال حضور علیہ السلام کے ایک اور معاند کا بھی تھا۔ جس کا نام ہے مولوی ثناء اللہ امرتسری۔چنانچہ مولوی صاحب اپنی تحریر ’تاریخ مرزا‘ میں بعنوان ’مرزاصاحب کی نظر عنایت خاکسار‘ لکھتے ہیں کہ ’’جس طرح مرزاصاحب کی زندگی کے دو حصے ہیں(براہین احمدیہ تک اور اس سے بعد)اسی طرح مرزاصاحب سے میرے تعلق کے بھی دو حصے ہیں۔براہین احمدیہ تک اور براہین سے بعد۔ براہین تک میں مرزاصاحب سے حسن ظن تھا…‘‘

چنانچہ مولوی صاحب پھر سلسلہ کے ایک معاند کی شکل اختیار کرگئے۔ حضورؑنے بھی گاہے گاہے مولوی صاحب کی بابت اپنی تحریرات میں بیان کیا۔

اخبار منشور محمدی کا براہین احمدیہ پر ریویو

بنگلور سے نکلنےوالے اخبار منشور محمدی نے 1882ء میں اپنی 2 اشاعتوں میں براہین سے متعلق تفصیلی ریویو شائع کیا۔ چنانچہ اپنے پہلے ریویو منشور محمدی جلد 12 نمبر21صفحہ 212-219 میں اخبار ہذا نے بعنوان ذیل اپنے ریویو کا آغاز کیا:جآء الحق و زهق الباطل ان الباطل كان زهوقا

براہین احمدیہ ملقب بہ البراہین الاحمدیہ علی حقیت کتاب اللہ القرآن والنبوۃ المحمدیہ

سبحان اللہ دنیا میں ایسے بھی لوگ ابھی موجود ہیں کہ حمایت دین اسلام کے لیے محنت شاقہ اپنے پر گوارا کرتےہیں۔دین حق کی غمخواری میں زحمتیں اٹھاتے اور مصیبتیں جھیلتے ہیں، یا وہ لوگ بھی ہیں جن کو دین سے سروکار نہیں…مدت سے ہماری آرزو تھی کہ علمائے اہل اسلام سے کوئی حضرت جن کو خدا نے دین کی تائید اور حمایت کی توفیق دی ہے کوئی ایسی تصنیف یا تالیف کریں جو زمانہ موجودہ کی حالت کے موافق ہو اور جس میں دلائل عقلیہ اوربراہین نعتیہ قرآن کریم کے کلام اللہ ہونے پر اور آنحضرتﷺ کے ثبوت نبوت پر قائم ہوں۔ خدا کا شکر ہے کہ یہ آرزو بھی برآئی۔ یہ وہی کتاب ہے جس کی تالیف یا تصنیف کی مدت سے ہم کو آرزو تھی۔براہین احمدیہ ملقب بہ البراہین الاحمدیہ علی حقیت کتاب اللہ القرآن والنبوۃ المحمدیہ جس میں مصنف زاد قدرہ اللّٰھم مع المسلمین بطور میانہ نے تین سو براہین قطعیہ عقلیہ سے حقیقت قرآن اور نبوت محمدیہ کو ثابت کیا ہے۔افضل العلماء فاضل جلیل جرنیل فخر اہل اسلام ہند مقبول بار گر محمد جناب مولوی میرزا غلام احمد صاحب رئیس قادیان ضلع گورداسپور پنجاب کی تصنیف ہے۔سبحان اللہ کیا تصنیف منیف ہے کہ جس سے دین حق کا لفظ لفظ ثبوت ہورہا ہے۔ہر ہر لفظ سے حقیقت قرآن ونبوت ظاہر ہورہی ہے۔ مخالفوں کوکیسے آب وتاب سے دلائل قاطعہ سنائے گئے ہیں…ایھا الناظرین یہ وہی کتاب ہے جو فی الحقیقت لاجواب ہےاور دعویٰ تو یہ ہے کہ اس کا جواب ممکن نہیں اگر مخالف بشرائط مندرجہ اشتہار وجواب لکھیں تو پھر دس ہزار روپیہ مفت نذر ہے اورحال یہ ہے کہ اگر مخالفوں کو کچھ بھی خداترسی ہو تو وہ بجز مطالعہ اس کتاب کے جواب یہی دینا چاہئے کہ لاالٰہ الا اللہ حق اور محمد رسول اللہ برحق۔ ہم تو فخریہ یہ کہتے ہیں کہ جواب ممکن نہیں،ہاں قیامت تک محال ہے …بھائیو کتاب براہین احمدیہ ثبوت قرآن ونبوت میں ایک ایسی بےنظیر کتاب ہے کہ جس کا ثانی نہیں …الٰہی مصنف کتاب مبارک براہین احمدیہ کی محنتوں اور عرقریزیوں کا تو ہی صلہ دے کہ ہم ہیں عاجز بندے محض بے مقدور اور مسلمانوں کو توفیق دے کہ وہ تیرے دین کی تائید میں سرگرمی دکھلائیں اور خریدیں کتاب براہین احمدیہ کو بلاقصور الٰہی ہمارے مذہب کے جو رئیس ہیں یا مقدور ان کو ہدایت نصیب کیجئے کہ وہ اشاعت مذہب میں کریں نہ قصور خداوندا جن امیراں عالی ہمم نے اس کتاب کی طبع میں اعانت کی ہے اور جن کے نام نامی مصنف نے بمشکوری لکھے ہیں اس کا عوض ان کو یہاں بھی دیجیو اور وہاں بھی۔ یا اللہ یا غفور۔ آمین

کیا خوب ہے یہ کتاب سبحان اللہ

اک دم میں کرے ہے دین حق سے آگاہ

از بس کہ یہ مغفرت کی بتلاتی ہے راہ

تاریخ بھی یا غفور1297 نکلی واہ واہ

(منشور محمدی 25رجب1300ھ/(بمطابق 31؍مئی1883ء ) جلد12نمبر 21 صفحہ212-218)

براہین احمدیہ حصہ چہارم پر ریویو

پھر اسی اخبار منشور محمدی نے اپنی ایک اور اشاعت میں براہین کے حصہ چہارم کی بابت بھی ریویو شائع کیا۔ چنانچہ اخبار لکھتا ہے: ’’براہین احمدیہ ملقب بہ البراہین الاحمدیہ علیٰ حقیت کتاب اللہ القرآن والنبوۃ المحمدیہ ’’یہ وہی لاجواب کتاب ہے جس کو فخر اہل اسلام ہند اسوۃ المحققین قدوۃ المدققین مقبول بارگاہ صمد مولوی مرزا غلام احمد صاحب رئیس اعظم قادیان ضلع گورداسپور پنجاب دام فیوضہ نے کمال تحقیق و تدقیق سے تالیف کر کے منکرین اسلام پر حجت اسلام پوری کرنے کے لیے بوعدۂ انعام دس ہزار روپیہ شائع کیا ہے۔ ہم نے اس کتاب کے اگلے حصوں پر اخبار منشور محمدی نمبر 21 جلد12مورخہ 25؍رجب 1300 ہجری میں ریویو لکھا ہے۔ اب جس پر ہم اپنا ریویو لکھتے ہیں وہ اسی کتاب کا چوتھا حصہ ہے۔‘‘

چنانچہ اس کے بعد ایڈیٹر کتاب کےمضامین پر11 پوائنٹس پر مشتمل ایک تفصیلی ریویو بھی شامل کرتاہے۔جس کے بعد لکھا ہے کہ ’’اس کتاب کی زیادہ تعریف کرنی ہماری حد امکان سے باہر ہے اور حقیقت یہ ہے کہ جس تحقیق و تدقیق سے اس کتاب میں مخالفین اسلام پر حجت اسلام قائم کی گئی ہے وہ کسی کی تعریف و توصیف کی محتاج نہیں۔

ع حاجت مشاطہ نیست رومی دلا رام را،

مگر اتنا تو کہنے سے ہم بھی دریغ نہیں کر سکتے کہ بلاشبہ کتاب لاجواب ہے اور جس زور و شور سے دلائل حقہ بیان کئے گئے ہیں اور مصنف مدظلہ نے اپنے مکشوفات و الہامات کو بھی مخالفان اسلام پر ظاہر کر دیا ہے اس میں اگر کسی کو شک ہو تو مکاشفات الٰہی اور انوار نامتناہی جو عطیہ الٰہی ہیں ان سب کو فیض صحبت مصنف سے مستفیض ہو کر پاوے اور عین الیقین حاصل کرے۔ اثبات اسلام و حقیت نبوت و قرآن میں یہ لاجواب کتاب اپنا نظیر نہیں رکھتی ہے۔ ابھی آغاز ہے مگر اس کتاب کے مطالعہ سے انجام کا مزہ ملتا ہے۔ افسوس ہے کہ کتاب تو ثبوت دین الٰہی میں بے نظیر ہے مگر مسلمانوں کی کم توجہی سے مکمل چھپ جانے میں دیر پر دیر ہے۔ بڑی کتاب ہے۔ حجت اسلامی قائم کرنے میں لاجواب ہے۔ پر بیقدری ارباب زمانہ سے اس کا طبع التوا میں پڑ گیا ہے۔ جو امیر ذی مقدور ہیں وہ ہمت کے کچے اور دین کے کاموں میں ازبس پسپا ہیں۔ مالدار مسلمانوں کو مال کمانے کا ہی دہن ہے محبت خدا اور رسول کا نہ ان کو خیال ہے اور نہ ان کو پروا۔ پس یہ عمدہ کتاب چھپے تو کیونکر چھپے اور کس طرح حجۃ البالغہ الاسلام مخالفوں پر ظاہر ہو۔ الٰہی تیرا ہی فضل چاہئے کہ ہمارے رئیسوں اور مالدار مسلمانوں کا دل اس کی تائید کے طرف آوے۔ آمین۔

مضامین عالیہ مندرجہ کتاب براہین احمدیہ کی تعریف کیونکر ہو سکے۔ یہ وہ عالی مضامین اور قاطع دلائل ہیں جن کے جواب کے لئے مخالفین کو دس ہزار روپیہ کی تحریص دلائی گئی ہے اور اشتہار دئے ہوئے عرصہ ہو چکا مگر کسی کو قلم اٹھانے کی اب تک طاقت نہ ہوئی۔ ہم بلاتصنع کہتے ہیں کہ ساری جلد چہارم حقائق و معارف اسلام سے بھری ہوئی ہے اور جابجا دعویٰ یہ کیا گیا ہے کہ اگر کسی کو شبہ ہو تو ہمارے پاس آوے اور اپنی آنکھوں سے ہر ایک بات کا مشاہدہ کرے۔ پس مسلمان اگر اس مبارک کتاب کی خریداری نہ کریں اور اعانت سے قاصر رہیں تو فردائے قیامت خدا اور رسول کو کیا جواب دیں گے۔ اس کتاب کے چھپنے کو البتہ صرف کثیر درکار ہے دس پندرہ ہزار روپیہ تکمیل انطباع کے لئے چاہئے مگر یہ رقم کچھ ایسی کثیر نہیں جو فراہم نہ ہو۔ بشرطیکہ قوم چاہے۔ یوں تو ہمارے امرائے عالیشان ہزاروں لاکھوں روپیہ اپنی عیش و عشرت میں صَرف کر دیتے ہیں۔ اور مالدار مسلمان شادی و غمی میں دس پندرہ ہزار کے صرف کی کچھ مالیت نہیں سمجھتے۔ دین کی اعانت بھی اگر ان سے نہیں تو پھر کس سے ہو۔ آیا غریب مسلمانو کو یہ مقدور ہے کہ وہ بلا مشارکت امرائے اسلام پندرہ ہزار روپیہ خرچ کر دیں۔ ہمارے امیروں کی کوتاہ دلی کا اس سے زیادہ کیا ثبوت ہو سکے کہ اس کتاب کی اصل لاگت سو روپیہ ہے اور غریب و کم استطاعت مسلمانوں کو 10 روپیہ پر فروخت کی جاتی ہے ظلم ہے اگر رئیس بھی اسی قیمت پر کتاب کو چاہیں اور خریداری کی آمادگی صرف دس روپیہ بھیجنے پر ظاہر کریں۔ حضرت مصنف نے عنوان کتاب میں ایک نواب صاحب کا حال لکھا ہے جو قال اللہ اور قال رسول اللہ کے شیدا و والہ ہیں۔جب ان سے اعانت کی در خواست کی گئی تو پہلے لکھا کہ البتہ بیس پچیس جلد ریاست کی جانب سے خریدی جائیں گی۔ دوبارہ یاددہانی پر جواب ملا کہ کتب مباحثات دینی کی اعانت خلاف منشاء سرکار ہے اس لئے اعانت ممکن نہیں۔ سبحان اللہ حضرت نواب صاحب کی یہ دلسوزی دین قابل تعریف ہے۔ گورنمنٹ کے منشا ءکو ان رئیس عالی بخت کے سوا اور کس نے نہ پایا۔ حضرت ریاست سے خریداری بفرض محال خلاف منشاء گورنمنٹ تصور کر لی جائے تو آپ کے جیب خاص سے بطور اعانت دینی ہزار پانسو روپیہ دینا خلاف منشاء سرکار نہ تھا۔ دیکھو گورنر جنرل لارڈرپن لفٹننٹ گورنر وغیرہ اس فنڈکے معاونوں میں داخل ہیں جس فنڈ سے پادری اشاعت دین پولوسی پر کمر باندھے ہیں اور جس فنڈ سے مذہب اسلام کی خلاف میں عماد الدین و صفدر علی وغیرہم کتابیں لکھتے ہیں۔ پس اگر آپ اپنی طرف سے کچھ عنایت فرماتے تو پھر یہ گلہ ہی نہ ہوتا۔ جب قرآن و حدیث کے عامل رئیسوں کا یہ حال ہے تو پھر شارب الخمر اور فسق و فجور کے مرتکب امیروں سے کیا امید اعانت دین ہو سکتی ہے۔ حضرات اہل اسلام سے ہم بارہا درخواست کر چکے ہیں کہ ایک فنڈ ایسا قائم کیا جاوے جس کے سرمایہ سے کتب رد نصاریٰ چھپ کر مشتہر ہوں۔ افسوس ہے کہ مسلمانوں کا ادھر خیال ہی نہیں آتا۔ دین اسلام کی یہ اشاعت جو آجکل مذہب پولوسی سے ہزارہا درجے ترقی پر ہے اس کی وجہ حقیت اور سچائی اسلام ہی ہے،کوئی یہ نہ سمجھے کہ مسلمان اس کی تائید کرتے ہیں۔ اگر مسلمان دین کی تائید کرتے تو علیٰ وجہ الکمال اسلام اور بھی رونق پذیر ہوتا۔ اکثر رسائل و کتب بمضامین ردّ مذہب پولوسی قالب تالیف میں آ کر بے اعانتی کی وجہ سے مشتہر نہیں ہوئے ہیں۔ چنانچہ یہ کتاب جس کا ہم ریویو لکھ رہے ہیں ایسی عمدہ اور مکمل کتاب ہے کہ اس کو مطالعہ کر کے ہر ایک دین سے بدلائل قاطعہ اور براہین ساطعہ مقابلہ اسلام کر کے حجت اسلامی قائم کر سکتے ہیں۔ افسوس ہے کہ مسلمان ایسی کتاب کی تائید سے باز ہیں۔ مالدار مسلمان اگر زکوٰۃ کا مبلغ ہی اس کام کے لئے بخش دیں تو آج تمام کتب نامطبوعہ چھپ کر مشتہر ہو سکتی ہیں۔ زیادہ ا فسوس یہ ہے کہ آریہ اور برہمو سماج کے مذاہب باطلہ کی اشاعت کے لئے ہزاروں لاکھوں روپیہ اس مذہب کے پیروخرچ کرتے ہیں اور مسلمان جن کو مذہبی طور پر اعانت دین واجب ہے اعانت سے پہلو تہی کر رہے ہیں۔ صاحبو فردائےقیامت خدا و رسول کو کیا جواب دو گے۔ بھائی دنیا کے لئے تو سب کچھ تو کچھ عقبیٰ کے لئے بھی خرچ کریں الدّنیا مزرعۃ الآخرۃ کا ثمرہ حاصل کریں۔ مالدار مسلمان سو پچاس سے کمک کریں جو کم مقدور ہیں وہ ایک روپیہ سے ایک پائی تک دیں اگر اس طرح کا سرمایہ بہم پہنچے تو کیا کچھ اسلام کی ترقی ہو نہیں سکتی۔ اب مسلمانوں کو ضرور ہے کہ خریداری براہین احمدیہ پر مستعد ہوں اگر ایک شخص سے اس کتاب کی تائید نہ ہو سکے تو ہر شہر و قصبہ میں دس دس پچاس پچاس مسلمان جمع ہوں اور چندہ کریں جو مبلغ چندہ سے حاصل ہو وہ مصنف کتاب کے پاس بھیجا جاوے۔ اگر ہندوستان و پنجاب بمبئی و دکن کے مسلمان ذرا بھی اس طرف متوجہ ہوں تو عرصہ قلیل میں ساری کتاب براہین احمدیہ چھپ کر نور افزائے دیدۂ اہل طلبی ہو جاوے گی۔ الٰہی مسلمانوں کو دین کی اعانت کی توفیق دے۔ اسلامی ریاستوں کے امیر و نواب دین متین کی تائید میں کمر باندھیں۔ الٰہی مصنف اللہم متع المسلمین بطول حیاتہ کو اس کتاب کی تصنیف کا اجر دے۔ آمین ثم آمین۔ فقط‘‘ (منشور محمدی 15؍جمادی الآخر1301ھ/(بمطابق 11اپریل1884ء ) جلد13نمبر17 صفحہ195-198)

قارئین، مشہور کہاوت ہے کہ فضیلت تو تب ہے جب کوئی مخالف کسی خوبی کا اعتراف کرے۔ چنانچہ حضور علیہ السلام کی اسلام کے لیے خدمات کا جہاں مذکورہ بالا علماء نے بالوضاحت اور انتہائی وثوق کے ساتھ اعتراف کیا وہیں بعد میں آنے والے علماء بھی یہ تعریف کیے بنا نہ رہ سکے۔ براہین احمدیہ حضور علیہ السلام کی ایسی معرکہ آرا کاوش تھی کہ جب کبھی حضور علیہ السلام کا جس بھی پیرائے میں ذکر آئے، یا حضور کی علمی کوششوں کا ذکر ہو؛ براہین کا تذکرہ لازم وملزوم ہوتا ہے۔ چنانچہ ذیل میں چند ایسے حوالے پیش ہیں:

اخبار سیاست کے مدیر مولوی سید حبیب صاحب جماعت اور بانی اسلام کے خلاف اپنی کتاب ’’تحریک قادیان‘‘ میں جہاں شدید مخالفانہ روش اختیار کیے دکھائی دیتے ہیں وہیں حضورؑ کے مسیحیوں اور آریہ سماج سے ہونے والے مباحثات کی بابت لکھتے ہیں: ’’اس وقت کے آریہ اور مسیحی مبلغ اسلام پر بے پناہ حملے کر رہے تھے اکے دکے جو عالم دین بھی کہیں موجود تھے وہ ناموس شریعت حقہ کے تحفظ میں مصروف ہو گئے مگر کوئی زیادہ کامیاب نہ ہوا۔ اُس وقت مرزا غلام احمد صاحب میدان میں اترے انہوں نے مسیحی پادریوں اور آریہ اپدیشکوں کے مقابلہ میں اسلام کی طرف سے سینہ سِپر ہونے کا تہیہ کر لیا… مجھے یہ کہنے میں ذرا باک نہیں کہ مرزا صاحب نے اس فرض کو نہایت خوبی و خوش اسلوبی سے ادا کیا اور مخالفین اسلام کے دانت کھٹے کر دیئے۔‘‘ (تحریک قادیان صفحہ208)

1897ء میں مولوی سید محمد حسن بدایونی کی تحریر کی گئی کتاب ’مظھر العلماء فی تراجم العلماء والکملاء‘ جو تذکرۂ علمائے ہندوستان کے نام سے ستمبر 2018ء میں شائع ہوئی اس میں حضورؑ کا 405 نمبرپر ذکر موجود ہے۔چنانچہ لکھتے ہیں: ’’مرزا غلام احمد قادیانی ابن غلام مرتضی(ضلع گورداس پور)،آپ نامی گرامی شہرہ آفاق فرقہ ٔمرزائی احمدی کے بانی [اور] امام مہدی ومسیح موعود کے مدعی، بحالت بروزی ہوئے۔آریہ اور عیسائی وغیرہ مخالفین اسلام سے مباحثے ومناظرے رہے۔ان کے خلیفہ مولوی حکیم نورالدین (جموں)ہوئے۔ ’’البدر‘‘ اور ’’الحکم‘‘ اخبار جاری ہوئے۔ پنڈت دیانند سرسوتی،لیکھ رام(آریائی)اورعبداللہ آتھم(عیسائی)سے تحریری وتقریری مذہبی مکالمے ومباحثے رہے۔علمائے اہل اسلام سے خلاف عقائد پرگفتگو رہی،آخر پر نزول وحی کے مدعی ہوئے۔ابتدائی حالت میں اہل اسلام(ان کے)موافق رہے،جب (ان سے) خلاف احکام شرعی امور سرزد ہوئے، مخالف ہوگئے۔ان کے مقابلے پران کے شاگرد اور مرید مولوی چراغ دین (ساکن جموں) بھی مدعی رسالت ہوئے۔(اپنی)کتاب براہین احمدیہ کےجواب لکھنے والےکودس ہزار روپے انعام قرار کیا…الخ‘‘ (تذکرہ علمائے ہندوستان ازسید حسین بدایونی /تحقیق :ڈاکٹرخوشتر نورانی مطبع دارالنعمان لاہور)

عصر حاضر میں حضورؑ کی تعلیمی وتحقیقی کاوشوں کے ساتھ کی جانے والی زیادتی

علامہ اقبال کے احمدی ہونے نہ ہونے سے متعلق گاہے گاہے علمی وادبی حلقوں میں بحث ہوتی رہتی ہے۔ چنانچہ اعظم گڑھ سے منسوب ایک تاریخی رسالہ ’معارف‘ نے چند عشروں پہلے اکتوبر 2002ء میں ’’اقبال اوراحمدیت‘‘ کےعنوان سے ایک بحث شائع کی جس میں جہاں ایک طرف اقبال کا اپنا بیان کہ ’’پنجاب میں اسلامی سیرت کا ٹھیٹھ نمونہ اس جماعت کی شکل میں ظاہر ہوا ہے جسے فرقہ قادیانی کہتے ہیں۔‘‘ وہیں دوسری جانب ان کی احمدیت سے انحراف کی داستان بھی انہیں کی زبانی بیان کی گئی ہے وہ درج ہے، جس میں علاوہ دیگر باتوں کے اقبال نے مولوی چراغ علی مرحوم کا بانی احمدیت کو براہین احمدیہ میں معاونت فراہم کرنے کا ذکر کیا ہے۔

یاد رہے کہ مولوی چراغ علی صاحب نے باقی مسلمان علماء کی طرح فقط مالی معاونت کی تھی جس پر حضور نے شکریہ کا اظہار بھی کیا تھا۔ البتہ کیا کسی قسم کی کوئی علمی امداد بھی کی تھی،اگرچہ اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ ایسا ممکن ہوا ہوگا جس کا تشفی بخش جواب حضرت مصلح موعودؓ نے بھی بیان کیا ہے (جو آخر پر درج ہے)،مگر اس اعتراض کو رفع کرنے کے لیے حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی ؓ صاحب نے پھر بھی مولوی صاحب کو باضابطہ لکھ کر تفصیل اور آگاہی لینا چاہی، مگر افسوس کہ جناب مولوی صاحب کا حافظہ بھی یکدم غائب ہوگیا اور یہ لکھنے پر اتفاق کیا کہ۔مجھے مطلق یاد نہیں اور نہ مجھے اب ان چیزوں سے کچھ سروکار ہے۔مجھے افسوس ہے کہ ان امور میں میں آپ کی کوئی مددنہیں کر سکتا۔(عبدالحق) (حیات احمدؐ جلد دوم از یعقوب عرفانی صاحب ؓ صفحہ 42)

حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں: ’’آجکل تو ’’زمیندار‘‘ اور ’’احسان‘‘ وغیرہ مخالف اخبارات یہ بھی لکھتے رہتے ہیں کہ کوئی مولوی چراغ علی صاحب حیدرآبادی تھے وہ آپ کو یہ مضامین لکھ کر بھیجا کرتے تھے۔ جب تک اُن کی طرف سے مضامین کا سلسلہ جاری رہا آپ بھی کتاب لکھتے رہے مگر جب انہوں نے مضمون بھیجنے بند کر دیے تو آپ کی کتاب بھی ختم ہو گئی۔ گو یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ مولوی چراغ علی صاحب کو کیا ہوگیا کہ اُنہیں جو اچھا نکتہ سُوجھتا وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کو لکھ کر بھیج دیتے اور اِدھر اُدھر کی معمولی باتیں اپنے پاس رکھتے۔ آخر مولوی چراغ علی صاحب مصنّف ہیں۔ براہین احمدیہ کے مقابلہ میں اُن کی کتابیں رکھ کر دیکھ لیا جائے کہ آیا کوئی بھی ان میں نسبت ہے؟ پھر وجہ کیا ہے کہ دوسرے کو تو ایسا مضمون لکھ کر دے سکتے تھے جس کی کوئی نظیر ہی نہیں ملتی اور جب اپنے نام پر کوئی مضمون شائع کرنا چاہتے تو اُس میں وہ بات ہی پیدا نہ ہوتی۔ پس اوّل تو انہیں ضرورت ہی کیا تھی کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کو مضمون لکھ لکھ کر بھیجتے؟ اور اگر بھیجتے تو عُمدہ چیز اپنے پاس رکھتے اور معمولی چیز دوسرے کو دے دیتے۔ جیسے ذوق کے متعلق سب جانتے ہیں کہ وہ ظفر کو نظمیں لکھ لکھ کر دیا کرتے تھے۔ مگر ’’دیوانِ ذوق‘‘ اور ’’دیوانِ ظفر‘‘ آجکل دونوں پائے جاتے ہیں۔ انہیں دیکھ کر صاف نظر آتا ہے کہ ذوق کے کلام میں جو فصاحت اور بلاغت ہے وہ ظفر کے کلام میں نہیں۔ جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اگر وہ ظفر کو کوئی چیز دیتے بھی تھے تو اپنی بچی ہوئی دیتے تھے اعلیٰ چیز نہیں دیتے تھے حالانکہ ظفر بادشاہ تھا۔ غرض ہر معمولی عقل والا انسان بھی سمجھ سکتا ہے کہ اگر مولوی چراغ علی صاحب حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰة والسلام کومضامین بھیجا کرتے تھے تو انہیں چاہئے تھاکہ معرفت کے عُمدہ عُمدہ نکتے اپنے پاس رکھتے اور معمولی علم کی باتیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کو لکھ کر بھیجتے۔ مگر مولوی چراغ علی صاحب کی کتابیں بھی موجود ہیں اور حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی کتابیں بھی۔ انہیں ایک دوسرے کے مقابلہ میں رکھ کر دیکھ لو کوئی بھی ان میں نسبت ہے؟ انہوں نے تو اپنی کتابوں میں صرف بائیبل کے حوالے جمع کئے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قرآن کریم کے وہ معارف پیش کئے ہیں جو تیرہ سَوسال میں کسی مسلمان کو نہیں سُوجھے۔ اور اِن معارف اور علوم کا سینکڑواں بلکہ ہزارواں حصہ بھی ان کی کتابوں میں نہیں۔‘‘ (فضائل القرآن ، انوار العلوم جلد 14 صفحہ 350)

اسی تناظر میں کچھ عرصہ قبل ایک پروگرام میں سوال کا جواب دیتے ہوئے معروف مذہبی سکالرڈاکٹر اسرار احمد نے اہل علم اور معروف افراد کے احمدیت کی آغوش میں آنے سے متعلق کہا کہ ’’وہ کام جو کر رہا تھا، اس نے عیسائی مشنریز کے ساتھ مناظرے کر کے غلام احمد نے انہیں شکست دے دی۔اور پھر جو ایک زبردست Violentتحریک اٹھ گئی تھی ستھیارتھ پرکاش کا جو مصنف تھا آریہ سماج۔ تو آریہ سماج کے لوگوں سے بھی اس نے مناظرے کیے اور انہیں شکست دے دی۔ ان دو چیزوں کی وجہ سے آنکھوں کا تارہ بن گئے۔ اس لیےکہ ہمارے علماء تو پڑھتے ہی نہیں، نہ بائبل پڑھتے ہیں نہ کسی اورمذہب کی کوئی کتاب تو آخر مناظرہ کس طرح کریں..‘‘

(Dr Israr Ahmad Speaking Truth About Hazrat Mirza Ghulam Ahmad Qadiani A.Flv, 2011. Accessed January 07, 2023. https://www.youtube.com/watch?v=LHyDvHkYnGM.)

اسی طرح حکومت پنجاب کی جانب سے 1953ء کے فسادات پر شائع کی جانے والی انکوائری رپورٹ میں جماعت احمدیہ کے تعارف میں بھی حضور علیہ السلام کے تعارف کے ساتھ براہین احمدیہ کابھی تذکرہ موجود ہے۔چنانچہ رپورٹ ہذا کے صفحہ 9 پر لکھا ہے کہ

Here we content ourselves with only giving a brief account of the Ahmadiyya movement, which was founded by Mirza Ghulam Ahmad, a grandson of Mirza Ghulam Murtaza who was a General in the Sikh Darbar. Mirza Ghulam Ahmad was born on 13th February 1835, at Qadian, a village in the district of Gurdaspur, which exclusively belonged to his family in proprietary rights. He learned Persian and Arabic languages at home but does not appear to have received any Western education. In 1864 he got some employment in the District Courts, Sialkot, where he served for four years. On his father’s death he devoted himself whole-heartedly to the study of religious literature, and between 1880 and 1884 wrote his famous ‘Buraheen-i-Ahmadiya’ in four volumes. Later he wrote some more books. Acute religious controversies were going on in those days and there were repeated attacks on Islam, not only by Christian missionaries but also by preachers of Arya Samaj, a liberal Hindu movement which was becoming very popular.

(Munir, Muhammad. “Report of the Court of Inquiry constituted under Punjab act II of 1954 to enquire into the Punjab disturbances of 1953.” (1954). Pg.10)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button