متفرق مضامین

براہین احمدیہ سے متعلق حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی صحابہ کرامؓ و دیگر احباب سے خط و کتابت پر ایک نظر

(’م م محمود‘)

اگر کوئی ہندو فی الحقیقت طالبِ حق ہے تو اُس سے رعایت کرنا واجب ہے بلکہ اگر ایسا شخص بے استطاعت ہو تو اس کو مفت بلا قیمت کتاب دے سکتے ہیں۔ غرضِ اصلی اشاعتِ دین ہے۔ نہ خرید و فروخت۔ جیسی صورت ہو اس سے اطلاع بخشیں تا کتاب بھیجی جاوے

سیدنا حضرت اقدس مسیحِ موعودؑنے اسلام کی نشأۃثانیہ کے لیے اپنی تصنیف ’’فتحِ اسلام‘‘ میں جن پانچ شاخوں کے قیام کا ذکر فرمایا ان میں چوتھی شاخ مکتوبات کو قرار دیا۔چنانچہ آپؑ نے اس شاخ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’چوتھی شاخ اس کارخانہ کی وہ مکتوبات ہیں جو حق کے طالبوں یا مخالفوں کی طرف لکھے جاتے ہیں۔چنانچہ اب تک نوے ہزار سے بھی کچھ زیادہ خط آئے ہوں گے جن کا جواب لکھا گیا ہے بجز بعض خطوط کے جو فضول یا غیر ضروری سمجھے گئے ہیں اور یہ سلسلہ بھی بد ستور جاری ہے اور ہر ایک مہینہ میں غالباًتین سو سے سات سو یا ہزار تک خطوط کی آمد و رفت کی نوبت پہنچتی ہے۔‘‘ (فتح اسلام ،روحانی خزائن جلد3صفحہ23۔24)

جیسا کہ حضورؑ نے اس شاخ کے ذکر میں فرمایا کہ اب تک نوّے ہزار سے زائد خطوط آ چکے ہیں۔خطوط کے تحریر فرمانے کا یہ سلسلہ یقیناً دعویٰ سے قبل جاری تھا۔چنانچہ حضورؑ نے جب تصنیفِ لاجواب و بے نظیر براہینِ احمدیہ تحریر فرمائی توآپؑ نے اس کی اشاعت و ترسیل میں حصہ لینے کے لیے متعدد سربرآوردہ امراء ورؤساءاور والیانِ ریاست ہائے ہندوستان افراد کو خطوط تحریر فرمائے۔آپؑ نے براہینِ احمدیہ میں اس کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ’’ہم نے صدہا طرح کا فتور اور فساد دیکھ کر کتاب براہینِ احمدیہ کو تالیف کیا تھا اور کتاب موصوف میں تین سو مضبوط اور محکم عقلی دلیل سے صداقتِ اسلام کو فی الحقیقت آفتاب سے بھی زیادہ تر روشن دکھلایا گیا چونکہ یہ مخالفین پر فتحِ عظیم اور مومنین کے دل و جان کی مراد تھی اس لیے اُمراء اسلام کی عالی ہمتی پر بڑا بھروسا تھا جو وہ ایسی کتاب لاجواب کی بڑی قدر کریں گے اور جو مشکلات اس کی طبع میں پیش آ رہی ہیں ان کے دور کرنے میں بدل و جان متوجہ ہو جائیں گے مگر کیا کہیں اور کیا لکھیں اور کیا تحریر میں لاویں۔ اَللّٰہُ المستعانُ وَاللّٰهُ خیر و اَبقى!!

بعض صاحبوں نے قطع نظر اعانت کے ہم کو سخت تفکر اور تردد میں ڈال دیا ہے ہم نے پہلا حصہ جو چھپ چکا تھا اُس میں سے قریب ایک سو پچاس جلد کے بڑے بڑے امیروں اور دولتمندوں اور رئیسوں کی خدمت میں بھیجی تھیں اور یہ امید کی گئی تھی جو امرائے عالی قدر خریداری کتاب کی منظور فرما کر قیمت کتاب جو ادنی رقم ہے بطور پیشگی بھیج دیں گے اور اُن کی اس طور کی اعانت سے دینی کام آ سانی سےپورا ہو جائے گا اور ہزارہا بندگان خدا کو فائدہ پہنچے گا۔ اس امید پر ہم نے قریب ڈیڑھ سو کے خطوط اور عرائض بھی لکھے اور بہ انکسار تمام حقیقتِ حال سے مطلع کیا مگر باستثناء دو تین عالی ہمتوں کے سب کی طرف سے خاموشی رہی نہ خطوط کا جواب آیا نہ کتابیں واپس آئیں مصارف ڈاک تو سب ضائع ہوئے لیکن اگر خدا نخواستہ کتابیں بھی واپس نہ ملیں تو سخت دقت پیش آئے گی اور بڑا نقصان اٹھانا پڑے گا۔ افسوس جو ہم کو اپنے معزز بھائیوں سے بجائے اعانت کے تکلیف پہنچ گئی۔اگر یہی حمایت اسلام ہے تو کارِ دین تمام ہے ہم بکمال غربت عرض کرتے ہیں کہ اگر قیمت پیشگی کتابوں کا بھیجنا منظور نہیں تو کتابوں کو بذریعہ ڈاک واپس بھیج دیں ہم اسی کو عطیۂ عظمیٰ سمجھیں گے اور احسانِ عظیم خیال کریں گے ورنہ ہمارا بڑا خرچ ہوگا اور گم شدہ حصوں کو دوبارہ چھپوانا پڑے گا کیونکہ یہ پرچہ اخبار نہیں کہ جس کے ضائع ہونے میں کچھ مضائقہ نہ ہو۔ ہریک حصہ کتاب کا ایک ایسا ضروری ہے کہ جس کے تلف ہونے سے ساری کتاب ناقص رہ جاتی ہے۔برائے خدا ہمارے معزز اخوان سردمہری اور لا پروائی کو کام میں نہ لائیں اور دنیوی استغناء کو دین میں استعمال نہ کریں اور ہماری اس مشکل کو سوچ لیں کہ اگر ہمارے پاس اجزا کتاب کے ہی نہیں ہوں گے تو ہم خریداروں کو کیا دیں گے اور ان سے پیشگی روپیہ کہ جس پر چھپنا کتاب کا موقوف ہے کیونکر لیں گے۔‘‘ (براہینِ احمدیہ حصہ دوم، روحانی خزائن جلد1صفحہ62-63)

اس عظیم الشان اور بے نظیر کتاب کے متعلق جیسا کہ حضرت اقدس مسیحِ موعودؑ نے تحریر فرمایا کہ اس کی طباعت و اشاعت کے لیے بذریعہ خطوط بھی مسلمان امراء و خواص کو اپیلیں کی گئیں لیکن محض چند مسلمانوں نے بطور اعانت و پیشگی روپیہ بھجوایا۔جن کا ذکر موجود ہے۔یوں توحضرت مسیحِ موعودؑ کی جانب سے اخبارات میں دیے گئے اشتہارات کے ذریعہ اس رفیع المنزلت تصنیف کا تعارف ملک کے طول وعرض میں ہو ہی چکا تھا لیکن بہت سے ایسے بے حس امراء بھی تھے جنہیں کتاب کی خریداری کے لیے حضورؑ کو مسلسل خطوط لکھنے پڑے۔لہٰذا اس زمانہ میں آپؑ کی مصروفیت کا یہ عالم تھا کہ آپؑ خود اپنے دستِ مبارک سے کتاب کے پیکٹ تیار فرماتے اور ان پر خود ہی پتے لکھتے تھے۔

محولہ بالا تحریر از براہینِ احمدیہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضورؑ نے اُس زمانہ میں کثرت سے علماء و امراء کے ساتھ خط و کتابت فرمائی۔ذیل میں حضورؑ کے بعض ایسےدستیاب خطوط پیش کیے جارہے ہیں جن میں آپؑ نے براہینِ احمدیہ سے متعلق متفرق امور کا ذکر فرمایا۔

پنڈت دیانند سرسوتی(بانی آریہ سماج) کے نام خط اور پیغامِ تحقیقِ حق

دیانند صاحب نے1875ء میں آریہ تحریک کی بنیاد رکھی۔اس تحریک کے قیام کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ آریوں کو صرف ہندوستان میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں اقتدار حاصل ہوجائے۔یہ وید کے بعد الہام کے قائل نہ تھے۔دیانند اور ان کے دیگر لیڈروں نے اسلام اور آنحضرتﷺ کی شان میں نہایت بے باکی سے حملے کیے اور ہندوؤں کے دلوں میں مسلمانوں کے خلاف منافرت کی فضا قائم کی۔عقائدِاسلام اوراپنے آقا حضرت محمد مصطفیٰﷺ کی شانِ اقدس میں ان گستاخیوں کو دیکھ کر آپﷺ کے عاشقِ صادق وکامل حضرت مسیحِ موعودؑ نے دیانند صاحب کو 1878ء میں مبلغ پانچ صد روپے کا انعامی چیلنج دیا۔سوامی دیانند صاحب نے حضورؑ کو مباحثہ کی دعوت دی جسے حضرت اقدسؑ نے 10؍جون 1878ء کو بلا تامّل منظور فرمایا۔اور انہیں اختیار عطا فرمایا کہ مباحثہ کے مقام و تاریخ خود ہی معین کر کے اخبار میں اعلان کر دیں لیکن سوامی دیانند جنہوں نے پہلے خود ہی دعوتِ مباحثہ دی تھی،میدانِ مباحثہ سے راہِ فرار اختیار کر گئے۔

تصنیفِ معرکہ آرا براہینِ احمدیہ میں بھی آپؑ نے ایک معتد بہ حصہ آریوں کو مخاطب کر کے تحریر فرمایا۔

20؍ اپریل1883ء کو حضورؑ نے پنڈت دیانند صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے ایک مکتوب میں تحریر فرمایا: ’’واضح ہو کہ ان دنوں میں اس عاجز نے حق کی تائید کے لیے اور دینِ اسلام کی حقانیت ثابت کرنے کی غرض سے ایک نہایت بڑی کتاب تالیف کی ہے جس کا نام ’براہینِ احمدیہ‘ ہے۔ چنانچہ اس میں سے تین حصے چھپ کر مشتہر ہو چکے ہیں اور حصہ چہارم عنقریب چھپنے والا ہے۔حصہ سوم میں اس بات کا کافی ثبوت موجود ہے کہ سچا دین جس کے قبول کرنے پر نجات موقوف ہے…اب چونکہ میں نے اس روشنی کو آپ جیسے لوگوں کی سمجھ کے موافق نہایت صاف اور سلیس اردو میں کھول کر دکھلایا ہے اور اس بات کا قطعی فیصلہ کردیا ہے کہ آپ لوگ سخت ظلمت میں پڑے ہوئے ہیں…۔

لہٰذا یہ خط آپ کے پاس رجسٹری کرا کر بھیجتا ہوں۔اگر آپ کتاب براہینِ احمدیہ کے مطالعہ کے لیے مستعد ہوں تو میں وہ کتاب مفت بلا قیمت آپ کو بھیج دوں گا۔آپ اس کو غور سے پڑھیں۔اگر اس کے دلائل کو لاجواب پاویں تو حق کے قبول کرنے میں توقف نہ کریں کہ دنیا روزے چند آخرکار باخداوند۔میں ابھی اس کتاب کو بھیج سکتا تھا مگر میں نے سنا ہے کہ آپ اپنے خیالات میں محو ہورہے ہیں اور دوسرے شخص کی تحقیقاتوں سے فائدہ اٹھانا ایک عار سمجھتے ہیں۔سو میں آپ کو دوستی اور خیرخواہی کی راہ سے لکھتا ہوں کہ آپ کے خیالات صحیح نہیں ہیں۔آپ ضرور ہی میری کتاب کو منگا کر دیکھیں۔امید ہے کہ اگر حق جوئی کی راہ سے دیکھیں گے تو اس کتاب کے پڑھنے سے بہت سے حجاب اور پردے آپ کے دور ہو جائیں گے اور اگر آپ اردو عبارت پڑھ نہ سکیں تاہم کسی لکھے پڑھے آدمی کے ذریعہ سے سمجھ سکتے ہیں۔آپ اپنے جواب سے مجھ کو اطلاع دیں اور جس طور سے آپ تسلی چاہیں خدا وند قادر ہے۔صرف سچی طلب اور انصاف اور حق جوئی درکار ہے۔جواب سے جلد تر اطلاع بخشیں کہ میں منتظر ہوں اور اگر آپ خاموش رہیں تو پھر اس سے یہی سمجھا جائے گا کہ آپ کو صداقت اور روشنی اور راستی سے کچھ غرض نہیں۔‘‘ (مکتوباتِ احمدؑ جلد اول صفحہ49تا50)

حضورؑ کے اس مکتوبِ مبارک سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آپؑ الحب فی اللّٰہ والبغض فی اللّٰہ کی عملی تصویر تھے۔آپؑ کےمباحثات اور چیلنجز کا مقصد ظاہری فتح و شکست نہ تھا بلکہ سچی انسانی ہمدردی کے تحت آپؑ کا مقصودِ محض یہ تھا کہ دنیا اسلام کی حقانیت، قرآنِ کریم کی تعلیمِ حقیقی اور رسول اللہﷺ کی سچائی کو پہچان جائے۔

حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام نے پنڈت دیانند کو براہینِ احمدیہ بغرض مطالعہ مفت بھجوانے کی جو پیشکش کی تھی اس سے متعلق آپؑ نے میر عباس علی صاحب(ان کا تعارف اسی مضمون میں درج ہے) کو 15؍جون1883ء کو تحریر فرمودہ ایک مکتوب میں فرمایا: ’’الحمدللہ کہ کام طبع کا شروع ہے۔ یہ سب اُسی کریم کی عنایات اور تفضّلات ہیں کہ اس نابکار اور عاجز کے کاموں کا آپ متولی ہو رہا ہے۔

اگر ہر موئے من گردد زبانے
ازو رانم بہریک داستانے

پنڈت دیانند نے کتاب طلب نہیں کی اور نہ راستی اور صدق کے راہ سے جواب لکھا بلکہ ان لوگوں کی طرح جو شرارت اور تمسخر سے گفتگو کرنا اپنا ہنر سمجھتے ہیں۔ ایک خط بھیجا اور خط رجسٹری کرا کر بھیجا گیا۔(حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی ؓ نے یہاں نوٹ دیا ہے کہ ’نقل مطابق اصل۔اگلے مضمون سے واضح ہوتا ہے کہ یہ خط حضرت مسیحِ موعودؑ نے پنڈت دیانند کو بھیجا تھا‘) جس کا خلاصہ صرف اس قدر تھا مجھ کو خدا تعالیٰ نے حقیقتِ اسلام پر یقین کامل بخشا ہے اور ظاہری اور باطنی دلائل سے مجھ پر کھول دیا ہے کہ دنیا میں سچا دین دینِ محمدی ہے اور اسی جہت سے مَیں نے محض خیر خواہی خلق اللہ کی رو سے کتاب کو تالیف کیا ہے اور اس میں بہت سے دلائل سے ثابت کر کے دکھلایا ہے کہ تعلیمِ حقانی محض قرآنی تعلیم ہے۔ پس کوئی وجہ نہیں کہ میں آپ کے پاس حاضر ہوں بلکہ اس بات کا بوجھ آپ کی گردن پر ہے کہ جن قوی دلیلوں سے آپ کے مذہب کی بیخ کنی کی گئی ہے ان کو توڑ کر دکھلاویں یا ان کو قبول کریں اور ایمان لاویں اور میں ہر وقت کتاب کو مفت دینے کو حاضر ہوں۔ اس خط کا جواب نہیں آیا۔ ان شاء اللہ تعالیٰ اسی حصہ چہارم میں ان کے مذہب اور اصول کے متعلق بہت کچھ لکھا جائے گا اور آپ اگر خط کو چھپوا دیں تو آپ کو اختیار ہے۔‘‘ (مکتوباتِ احمدؑ جلد اول صفحہ536)

مختلف مذاہب کے لیڈروں کے نام بھیجا گیا مکتوب

8؍مارچ 1885ء کو آپؑ نے ایک خط تحریر فرمایا جس کی آپؑ نے 240کاپیاں( مع ایک اشتہار انگریزی،جسے آٹھ ہزار کی تعداد میں شائع کروایا گیا)متفرق لیڈرانِ مذاہب کو ارسال فرمائیں۔حضورؑ نے اس مکتوب میں فرمایا: ’’بعد ما وجب گزارش ضروری یہ ہے کہ یہ عاجز (مؤلف براہین احمدیہ) حضرت قادر مطلق جلشانہٗ کی طرف سے مامور ہوا ہے کہ نبی ناصری اسرائیلی (مسیح) کے طرز پر کمال مسکینی و فروتنی و غربت و تذلل و تواضع سے اصلاحِ خلق کےلیے کوشش کرے اور ان لوگوں کو جو راہ راست سے بیخبر ہیں صراطِ مستقیم (جس پر چلنے سے حقیقی نجات حاصل ہوتی ہے اور اسی عالم میں بہشتی زندگی کے آثار اور قبولیت اور محبوبیت کے انوار دکھائی دیتے ہیں) دکھاوے۔ اسی غرض سے کتاب براہین احمدیہ تالیف پائی ہے جس کے 37 جز چھپ کر شائع ہو چکے ہیں اور اس کا خلاصہ مطلب اشتہار ہمراہی خط ہٰذا میں مندرج ہے… لیکن چونکہ پوری کتاب کا شائع ہونا ایک طویل مدت پر موقوف ہے اس لیے یہ قرار پایا ہے کہ بالفعل بغرضِ اتمامِ حجت یہ خط (جس کی دو سو چالیس کاپی چھپوائی گئی ہیں، مع اشتہار انگریزی جس کی آٹھ ہزار کاپی چھپوائی گئی ہیں) شائع کیا جاوے اور اُس کی ایک ایک کاپی بخدمت معزز برہمو صاحبان و آریہ صاحبان و نیچری صاحبان و حضرت مولوی صاحبان جو وجود خوارق و کرامت سے منکر ہیں اور اس وجہ سے اس عاجز پر بدظن ہیں ارسال کی جاویں۔ یہ ان حضرات نیچریہ یا مولوی صاحبان کو کہا جاتا ہے جو اسلام کو مانتے ہیں اور پھر وجودِ خوارق اور کرامات سے منکر اور اس عاجز پر بدظن ہیں۔ یہ تجویز اپنی فکر اور اجتہاد سے نہیں قرار پائی ہے بلکہ حضرت مولیٰ کریم کی طرف سے اس کی اجازت ہوئی ہے اور بطور پیشگوئی یہ بشارت ملی ہے کہ اس خط کے مخاطب (جو خط پہنچنے پر رجوع کریں گے) ملزم و لاجواب و مغلوب ہو جاویں گے۔ بناء علیہ پر یہ خط چھپوا کر آپ کی خدمت میں (اس نظر سے کہ آپ اپنی قوم میں معزز اور مشہور اور مقتدر ہیں) ارسال کیا جاتا ہے اور آپ کےکمال علم اور بزرگی کی نظر سے امید ہے کہ آپ حبۃ اللہ اس خط کے مضمون کی طرف سے توجہ فرما کر طلب حق میں کوشش کریں گے۔ اگر آپ نےاس کی طرف توجہ نہ کی تو آپ پر حجت تمام ہوگی اور اس کارروائی کے (کہ آپ کو خط رجسٹری شدہ ملا اور پھر آپ نے اُس کی طرف توجہ کو مبذول نہ فرمایا) حصہ پنجم کتاب براہین احمدیہ میں پوری تفصیل سے بحث کی جاوے گی اور اصل مدعا خط جس کے ابلاغ کیلئے میں مامور ہوا ہوں یہ ہے کہ دینِ حق جو خدا کی مرضی کے موافق ہے صرف اسلام ہے اور کتاب حقانی جو منجانب اللہ محفوظ اور واجب العمل ہے صرف قرآن ہے اس دین کی حقانیت اور قرآن شریف کی سچائی پر عقلی دلائل کے سوا آسمانی نشانوں کی (خوارق و پیشگوئیوں) شہادت بھی پائی جاتی ہے جس کو طالبِ صادق اس خاکسار (مؤلف براہین احمدیہ) کی صحبت اور صبر اختیار کرنے سے بمعائنہ چشم تصدیق کر سکتا ہے آپ کو اس دین کی حقانیت یا ان آسمانی نشانوں کی صداقت میں شک ہو تو آپ طالب صادق بن کر قادیان میں تشریف لاویں اور ایک سال تک اس عاجز کی صحبت میں رہ کر آسمانی نشانوں کو بچشم خود مشاہدہ کر لیں ولیکن اس شرط و نیت سے (جو طالب صادق کی نشانی ہے) کہ بمجرد معائنہ آسمانی نشانوں کے اِسی جگہ قادیان میں مشرف اظہار اسلام یا تصدیق خوارق سے مشرف ہو جاویں گے۔ اس شرط و نیت سے آپ آویں گے تو ضرور انشاء اللہ تعالیٰ آسمانی نشان مشاہدہ کریں گے۔اس امر کا خدا کی طرف سے وعدہ ہو چکا ہے جس میں تخلف کا امکان نہیں۔ اب آپ تشریف نہ لاویں تو آپ پر خدا کا مواخذہ رہا اور بعد انتظار تین ماہ کے آپ کی عدم توجہی کا حال درج حصہ پنجم کتاب ہوگا اور اگر آپ آویں اور ایک سال تک رہ کر کوئی آسمانی نشان مشاہدہ نہ کریں تو دو سو روپیہ ماہوار ہ کے حساب سے آپ کو حرجانہ یا جرمانہ دیا جاوے گا۔ اس دو سو روپیہ ماہوارہ کو آپ اپنی شایان شان نہ سمجھیں یا تو اپنی حرج اوقات کا عوض یا ہماری وعدہ خلافی کا جرمانہ جو آپ اپنی شان کے لائق قرار دیں گے ہم اُس کو بشرط استطاعت قبول کریں گے۔ طالبان حرجانہ یا جرمانہ کے لئے ضروری ہے کہ تشریف آوری سے پہلے بذریعہ رجسٹری ہم سے اجازت طلب کریں اور جو لوگ حرجانہ یا جرمانہ کے طالب نہیں ان کو اجازت طلب کرنے کی نہیں۔ اگر آپ بذات خود تشریف نہ لا سکیں تو آپ اپنا وکیل جس کے مشاہدہ کو آپ معتبر اور اپنا مشاہدہ سمجھیں روانہ فرما دیں مگر اس شرط سے کہ بعد مشاہدہ اس شخص کے آپ اظہار اسلام یا (تصدیق خوارق) میں توقف نہ فرماویں آپ اپنی شرط اظہار اسلام (تصدیق خوارق) ایک سادہ کاغذ پر جس پر چند ثقات مختلف مذاہب کی شہادتیں ہوں تحریر کر دیں جس کومتعدد انگریزی اُردو اخباروں میں شائع کیا جاوے گا ہم سے اپنی شرط دو سو روپیہ ماہوار حرجانہ یا جو آپ پسند کریں اور ہم اُس کی ادائی کی طاقت بھی رکھیں۔عدالت میں رجسٹری کرائیں بالآخر یہ عاجز حضرت خداوندکریم جل شانہٗ کا شکر ادا کرتا ہے جس نے اپنے سچے دین کے براہین ہم پر ظاہر کئے اور پھر اُن کی اشاعت کیلئے ایک آزاد سلطنت کی حمایت میں جو گورنمنٹ انگلشیہ ہے، ہم کو جگہ دی۔ اس گورنمنٹ کا بھی حق شناسی کی رو سے یہ عاجز شکریہ ادا کرتا ہے۔ والسلام علی من اتبع الہدٰی

فقط

راقم خاکسار غلام احمد قادیانی‘‘ (مکتوباتِ احمدؑ جلد اول صفحہ51تا53)

حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کے ساتھ براہینِ احمدیہ کے متعلق خط و کتابت

سیدنا حضرت اقدس مسیحِ موعودؑ کے ساتھ حضرت حکیم مولانا نورالدین صاحبؓ کی خط و کتابت کا آغاز1885ء میں ہوا۔جب آپؓ جموں کشمیر میں رہائش پذیر تھے۔چونکہ براہینِ احمدیہ کی اشاعت کے وقت آپؓ کو حضرت اقدس علیہ السلام سے ابھی تعارف نہ ہوا تھا لہٰذا آپؓ براہینِ احمدیہ(ابتدائی چہارحصص) کے لیے مالی خدمت انجام نہ دے سکے تھے۔

1887ء میں جب پنڈت لیکھرام پشاوری نے براہینِ احمدیہ کے رد میں ’’تکذیب براہینِ احمدیہ‘‘ لکھی جس میں اُس نے آنحضرتﷺ کی ذاتِ طاہر و مطہر پر نہایت خبیث الزامات لگائے۔تواس موقع پرحضورؑ نے حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کو اس کا جواب لکھنے کی تحریک فرمائی۔آپؑ نے اس بارے میں اول مرتبہ 26؍جولائی1887ء کو اپنےمکتوب مبارک میں درج ذیل تحریک فرمائی(اس وقت تک حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ دو مرتبہ قادیان تشریف لا چکے تھے)۔

’’میں آپ کو ایک ضروری امر سے اطلاع دیتا ہوں کہ حال میں لیکھرام نام ایک شخص نے میری کتاب براہین کے ردّ میں بہت کچھ بکواس کی ہے اور اپنی کتاب کا نام تکذیب براہینِ احمدیہ رکھا ہے۔ یہ شخص اصل میں غبی اور جاہل مطلق ہے اور بجز گندی زبان کے اور اس کے پاس کچھ نہیں۔ مگر معلوم ہوا ہے کہ اس کتاب کی تالیف میں بعض انگریزی خواں اور دنی استعداد ہندوؤں نے اس کی مدد کی ہے۔ کتاب میں دو رنگ کی عبارتیں پائی جاتی ہیں جو عبارتیں دشنام دہی اور تمسخر اور ہنسی اور ٹھٹھے سے بھری ہوئی ہیں اور لفظ لفظ میں توہین اور ٹوٹی پھوٹی عبارت اور گندی اور بدشکل ہیں وہ عبارتیں تو خاص لیکھرام کی ہیں اور جو عبارت کسی قدر تہذیب رکھتی ہے اور کسی عملی طور سے متعلق ہے وہ کسی دوسرے خواندہ آدمی کی ہے۔ غرض اس شخص نے خواندہ ہندوؤں کی منت سماجت کر کے اور بہت سی کتابوں کا اس نے خیانت آمیز حوالہ لکھ کر یہ کتاب تالیف کی ہے۔ اس کتاب کی تالیف سے ہندوؤں میں بہت جوش ہو رہا ہے۔ یقین ہے کہ کشمیر میں بھی یہ کتاب پہنچی ہوگی۔ کیونکہ میں نے سنا ہے کہ لالہ لچھمن داس صاحب ملازم ریاست کشمیر نے تین سو روپیہ اس کتاب کے چھپنے کے لیے دیا ہے۔ شاید یہ بات سچ ہو یا جھوٹ ہو لیکن اس پُر افترا کتاب کا تدارک بہت جلد از بس ضروری ہے اور یہ عاجز ابھی ضروری کام سراجِ منیر سے جو مجھے درپیش ہے بالکل عدیم الفرصت ہے اور میں مبالغہ سے نہیں کہتا اور نہ آپ کی تعریف کے رو سے بلکہ قوی یقین سے خدا تعالیٰ نے میرے دل میں یہ جما دیا ہے کہ جس قدر اللہ تعالیٰ کے دین کی نصرت کے لیےآپ کے دل میں جوش ڈالا ہے اور میری ہمدردی پر مستعد کیا ہے۔کوئی دوسرا آدمی ان صفات سے موصوف نظر نہیں آتا۔ اس لیے میں آپ کو یہ بھی تکلیف دیتا ہوں کہ آپ اوّل سے آخر تک اس کتاب کو دیکھیں اور جس قدر اس شخص نے اعتراضات اسلام پر کیے ہیں ان سب کو ایک پرچہ کاغذ پر بیاد داشت صفحہ کتاب نقل کریں اور پھر ان کی نسبت معقول جواب سوچیں اور جس قدر اللہ تعالیٰ آپ کو جوابات معقول دل میں ڈالے وہ سب الگ الگ لکھ کر میری طرف روانہ فرماویں اور جو کچھ خاص میرے ذمہ ہوگا میں فرصت پا کر اس کا جواب لکھوں گا۔ غرض یہ کام نہایت ضروری ہے اور میں بہت تاکید سے آپ کی خدمت میں عرض کرتا ہوں کہ آپ بہمہ جدوجہد جانفشانی اور مجاہدہ سے اس طرف متوجہ ہوں اور جس طرح مالی کام میں آپ نے پوری پوری نصرت کی ہے اس سے یہ کم نہیں ہے کہ آپ خداداد طاقتوں کی رُو سے بھی نصرت کریں۔

آج ہمارے مخالف ہمارے مقابلہ پر ایک جان کی طرح ہو رہے ہیں اور اسلام کو صدمہ پہنچانے کے لئے بہت زور لگا رہے ہیں۔ میرے نزدیک آج جو شخص میدان میں آتا ہے اور اعلائے کلمۃ الاسلام کے لئے فکر میں ہے وہ پیغمبروں کا کام کرتا ہے۔ بہت جلد مجھ کو اطلاع بخشیں۔ خدا تعالیٰ آپ کے ساتھ رہے اور آپ کا مددگار ہو آپ اگر مجھے لکھیں تو میں ایک نسخہ کتاب مذکور کا خرید کر آپ کی خدمت میں بھیج دوں۔‘‘ (مکتوبات احمؑد جلددوم صفحہ42-43)

اسی طرح 4؍جنوری1888ء کو اسی بارے میں حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ و السلام نے اپنے ایک مکتوب میں آپؓ کو تحریر فرمایا: ’’مجھے یہ بات سن کر نہایت خوشی ہوئی کہ تکذیب براہین کا ردّ آپ نے تیار کر لیا ہے۔ الحمدللّٰہ والمنۃ اس ردّ کے شائع ہونے کیلئے عام طور پر مسلمانوں کا جوش پایا جاتا ہے۔ شاید ڈیڑھ سو کے قریب ایسے خط آئے ہوں گے جنہوں نے اس کتاب کے خریدنے کا شوق ظاہر کیا ہے میں نے ابھی کام ہر دو رسالہ کا شروع نہیں کیا اب شاید بیس بائیس روز تک شروع کیا جائے۔

عوام کو اس تاخیر سے جس قدر غصہ و بدظنی عائد حال ہوئی ہے میں امید کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ وہ سب دور کر دے گا۔ اصل بات یہی ہے کہ اگر خدا تعالیٰ راضی ہو تو انجام کار خلقت بصد ندامت خود راضی ہو جاتی ہے۔‘‘ (مکتوبات احمؑد جلددوم صفحہ52-53)

چنانچہ اپنے آقا امام الزماںؑ کے ارشاد کے نتیجہ میں آپؓ نے تکذیب براہینِ احمدیہ کے رد میں ’’تصدیق براہینِ احمدیہ‘‘ ایسی لاجواب کتاب تصنیف فرمائی جو 1890ء میں شائع ہوئی۔اس کتاب سے متعلق حضرت مسیح موعودؑ نے اپنی تصنیف ’’فتحِ اسلام‘‘ میں فرمایا: ’’حضرت مولوی صاحب علومِ فقہ اور حدیث اور تفسیر میں اعلیٰ درجہ کی معلومات رکھتے ہیں فلسفہ اور طبعی قدیم اور جدید پر نہایت عمدہ نظر ہے۔ فن ِطبابت میں ایک حاذق طبیب ہیں۔ ہر ایک فن کی کتابیں بلادِ مصر و عرب و شام و یورپ سے منگوا کر ایک نادر کتب خانہ طیار کیا ہے اور جیسے اور علوم میں فاضل جلیل ہیں،مناظراتِ دینیہ میں بھی نہایت درجہ نظر و سیع رکھتے ہیں۔ بہت سی عمدہ کتابوں کے مؤلف ہیں۔ حال ہی میں کتاب ’تصدیق براہین احمدیہ‘ بھی حضرت ممدوح نے ہی تالیف فرمائی ہے جو ہر ایک محققانہ طبیعت کے آدمی کی نگاہ میں جواہرات سے بھی زیادہ بیش قیمت ہے۔‘‘ (فتح اسلام،روحانی خزائن جلد3صفحہ37درحاشیہ)

حضرت منشی رستم علی صاحبؓ کے ساتھ براہینِ احمدیہ کے متعلق خط و کتابت

حضرت منشی صاحبؓ مدراں ضلع جالندھر کے رہنے والے تھے اور آپؓ کے والد محترم کا نام شہاب الدین تھا۔ آپؓ محکمہ پولیس میں سارجنٹ کے طور پر بھرتی ہوئے اور 1888ء میں ترقی کرکے ڈپٹی انسپکٹر ہوئے اور دھرم سالہ ضلع کانگڑہ میں تعینات ہوئے۔ 1890ء میں آپؓ کی تبدیلی محکمہ پولیس ریلوے میں ہوئی۔ 1893ء میں کورٹ انسپکٹر ہوکر منٹگمری چلے گئے۔ پھر انسپکٹر بنادیے گئے اور پہلے لاہور میں، پھر حضورؑ کی دعا سے (قادیان کے قریب) گورداسپور میں متعین رہے۔’’براہین احمدیہ‘‘ کی خریداری کے سلسلہ میں حضرت منشی صاحبؓ کا پہلا رابطہ حضرت مسیح موعودؑ سے قائم ہوا جو بعد میں مراسلات اور تعلقات کے ذریعہ مضبوط ہوتا چلا گیا اور آپؓ کو اخلاص و محبت کے ساتھ محض للہ خدمت کی سعادت بھی عطا ہوتی رہی۔ بیعت کرنے والوں میں آپؓ کا نمبر دسواں ہے۔ آپؓ کا نام حضورؑ نے 313 صحابہؓ کی فہرست میں 227ویں نمبر پر تحریر فرمایا ہے۔ حضورؓ نے اپنی کتاب ’’ازالہ اوہام‘‘ میں آپؓ کا ذکر کرتے ہوئے لکھا: ’’حبی فی اللہ منشی رستم علی ڈپٹی انسپکٹر پولیس ریلوے۔ یہ ایک جوان صالح اخلاص سے بھرا ہوا میرے اوّل درجہ کے دوستوں میں سے ہے۔ اُن کے چہرے پر ہی علامات غربت و بے نفسی و اخلاص ظاہر ہیں۔ کسی ابتلا کے وقت مَیں نے اس دوست کو متزلزل نہیں پایا اور جس روز سے ارادت کے ساتھ انہوں نے میری طرف رجوع کیا، اس ارادت میں قبض اور افسردگی نہیں بلکہ روزافزوں ہے‘‘۔

11؍مارچ1886ء کو حضرت مسیحِ موعودؑ نے آ پؓ کوایک مکتوب میں فرمایا: ’’اب یہ عاجز قادیان کی طرف جانے کو تیار ہے اور انشاء اللہ منگل کو روانہ ہو گا۔ آپ میر صاحب کو تاکید کردیں کہ دو جلدیںچہارم حصہ براہین احمدیہ اگر سفید کاغذ پر ہوں تو بہتر ورنہ حنائی کاغذ پر ہی سوموار تک روانہ فرمادیں یعنی اس جگہ پہنچ جاویں۔ اور شاید اگر صلاح ہوئی تو جالندھر کی راہ سے جاویں مگر جلدی ہے۔ توقف نہیں ہو گا۔‘‘(مکتوبات احمؑد جلددوم صفحہ472)اسی طرح 2مارچ1888ء کو آپؑ نے ایک مکتوب میں فرمایا: ’’اگر براہین احمدیہ کا کوئی شائق خریدار ہے تو آپ کو اختیار ہے کہ قیمت لے کر دے دیں مگر ارسال قیمت کا محصول ان کے ذمہ رہے۔‘‘ (مکتوبات احمؑد جلددوم صفحہ538)

حضرت نواب محمد علی خان صاحبؓ کے ساتھ براہینِ احمدیہ کے متعلق خط و کتابت

حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ نے مکتوبات جلد دوم میں آ پؓ کے تعارف میں لکھا کہ ’’آپؓ کی بیعت 19؍نومبر 1890ء کی ہے۔ آپؓ ان خوش قسمت صحابہ کرام میں سے ہیں کہ جن کا نام 313 صحابہ میں نہ صرف ایک بار آئینہ کمالات اسلام میں آیا بلکہ دوسری بار ضمیمہ انجام آتھم میں بھی درج ہوا۔ آپؓ کی اہلیہ محترمہ امتہ الحمید بیگم صاحبہ کو حضور نے اپنی بیٹی بنایا۔ بالآخر حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ ؓسے عقد کر کے آپ کو اپنی فرزندی میں لیا۔ بعد میں آپؓ کے صاحبزادہ حضرت نواب محمد عبد اللہ خاں صاحبؓ بھی حضرت صاحبزادی امتہ الحفیظ بیگم صاحبؓہ سے عقد ہونے پر حضورؑ کی فرزندی میں آگئے۔ اس طرح یہ خاندان حضرت عثمان ذوالنورین کا مماثل ہو گیا۔ نواب صاحب ؓکی اولاد میں سے کئی صاحبزادیاں حضورؑ کے خاندان میں بیاہی جا کر خواتین مبارکہ میں شمار ہو چکی ہیں اور آپؓ کی اولاد میں سے کئی صاحبزادگان کی حضورؑکے خاندان میں شادیاں ہوئی ہیں۔ آپؓ کی ایک صاحبزادی حضورؑ کے مبشر بیٹے حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحبؓ کے عقد میں آئیں۔ نواب صاحبؓ دسمبر 1901ء میں ہجرت کر کے قادیان چلے آئے اور عرصہ دراز تک سلسلہ کی مختلف رنگ میں قابل قدر خدمات سرانجام دیں۔ آپؓ کو حضورؑنے تحریر فرمایا کہ ’’میں آپ سے محبت رکھتا ہوں اور آپ کو ان مخلصین میں سے سمجھتا ہوں جوصرف چھ سات آدمی ہیں۔‘‘ نیز یہ بھی تحریر فرمایا کہ ’’میں آپ سے ایسی محبت رکھتا ہوں جیسا کہ اپنے فرزند عزیز سے محبت ہوتی ہے اور دعا کرتا ہوں کہ اس جہان کے بعد بھی خدا تعالیٰ ہمیں دار السلام میں آپ کی ملاقات کی خوشی دکھاوے۔‘‘

آپؓ کو اللہ تعالیٰ نے ’حجۃ اللہ‘ کے لقب سے نوازا۔آپؓ 10؍فروری1945ء کو فوت ہوئے۔‘‘ (مکتوبات احمؑد جلددوم صفحہ145۔146)

7؍اگست1889ء کو حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے آ پؓ کے نام تحریر فرمودہ مکتوب میں فرمایا: ’’کتاب براہینِ احمدیہ کا اب تک حصہ پنجم طبع نہیں ہوا ہے۔ امید کہ خداتعالیٰ کے فضل سے جلد سامان طبع کا پیدا ہوجائے۔ صرف کتاب کے چند نسخے باقی ہیں اور بطور پیشگی دیئےجاتے ہیں اور بعد تکمیل طبع باقی انہی کو ملیں گے جو اول خریدار ہوچکے ہیں۔ قیمت کتاب سوروپیہ سے پچیس روپیہ حسب مقدرت ہے۔ یعنی جس کو سو روپیہ کی توفیق ہے وہ سوروپیہ ادا کرے اور جس کو کم توفیق ہے وہ کم۔مگر بہرحال پچیس روپیہ سے کم نہ ہواور نادار کو مفت للہ ملتی ہے۔ آپ جس صیغہ میں چاہیں لے سکتے ہیں اور چاہیں تو مفت بھیجی جاوے۔‘‘ (مکتوبات احمؑد جلددوم صفحہ149)

مولوی ابو سعید محمد حسین بٹالوی کے نام خط میں عقیدۂ وفاتِ مسیح کی وضاحت

مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب کے تعارف کے تحت مضمون ھٰذا میں محض یہ ذکر کافی ہو گا کہ یہ مولوی صاحب موصوف براہینِ احمدیہ کی اشاعت پر اپنے ہی رسالہ میں اس جلیل القدر تصنیف پر ایک توصیفی تبصرہ تحریر کر چکے تھے لیکن بدقسمتی، تکبر اور صفت ہائے بو جہل آڑے آئی اور یہی مولوی صاحب جو حضورؑ سے تعلقِ حب و اخوت رکھتے تھے،آپؑ کے دعویٰ مسیحیت کے بعد نہ صرف مخالفین کی صفِ اول میں ایستادہ ہوگئے بلکہ تیرگی بخت سے اول المکذبین کہلائے اور معاندانہ روش اختیار کرلی۔

حضورؑ نے 14؍مارچ1891ء کوبٹالوی صاحب کو ایک خط میں تحریرفرمایا: ’’مخدومی مکرمی السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ آپ کا خط آج کی ڈاک میں مجھ کو ملا اور اس کے پڑھنے سے مجھ کو بہت ہی افسوس ہوا کہ آپ مکالماتِ الٰہیہ کے امر کو لہو ولعب میں داخل کرنا چاہتے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ اس عاجز نے براہینِ احمدیہ کے صفحہ ۴۹۸ و ۴۹۹ میں اس ظاہری عقیدے کی پابندی سے جو مسلمانوں میں مشہور ہے یہ عبارت لکھی ہے کہ یہ آیت کہ حضرت مسیح علیہ السلام دوبارہ دنیا میں آئیں گے تو ان کے ہاتھ سے دین اسلام جمیع آفاق میں پھیل جائے گا ۔چونکہ اس عاجز کو حضرت مسیح سے مشابہت تامہ ہے اس لئے خداوندکریم نے مسیح کی پیشگوئی میں ابتدا سے اس عاجز کو شریک رکھا ہے فقط ان عبارتوں کو اس کے لئے دستاویز ٹھہرانا کہ براہین میں اوّل یہ اقرار ہے اور پھر اس کے مخالف یہ دعویٰ اور ایسا خیال سراسرغلط اور دور از حقیقت ہے۔

اے میرے عزیز دوست! اس عاجز کے اس دعویٰ کی، جو فتح اسلام میں شائع کیا گیا ہے،اپنے علم اور عقل پر بنا نہیں تا ان دونوں بیانات میں بوجہ اتحاد بنا صورت تناقض پیدا ہو بلکہ براہین کی مذکورہ بالا عبارتیں تو صرف اس ظاہری عقیدے کی رو سے ہیں جو سرسری طور پر عام طور پر اس زمانہ کے مسلمان مانتے ہیں اور اس دعویٰ کی بنا الہام الٰہی اور وحی ربّانی پر ہے۔ پھر تناقض کے کیا معنے ہیں۔ میں خود یہ مانتا ہوں اور تسلیم کرتا ہوں کہ جب تک خدا تعالیٰ کسی امر پر بذریعہ اپنے خاص الہام کے مجھے آگاہ نہ کرے میں خود بخود آگاہ نہیں ہو سکتا اور یہ امر میرے لئے کچھ خاص نہیں۔اس کی نظیریں انبیاء کی سوانح میں بہت ہیں۔ملہم لوگ بغیر سمجھائے نہیں سمجھتے لاعلم لی الا ما علّمنی ربی بلکہ خدا تعالیٰ کا سمجھانا بھی جب تک صاف طور پر نہ ہو انسان ضعیف البیان اس میں بھی دھوکا کھا سکتا ہے۔

فذھب وھلی کی حدیث آپ کو یاد ہی ہوگی۔

اب خدا تعالیٰ نے فتح اسلام کی تالیف کے وقت مجھے سمجھایا تب میں سمجھا اِس سے پہلے کوئی اس بارے میں الہام نہیں ہوا کہ درحقیقت وہی مسیح آسمان سے اُتر آئے گا اگر ہے تو آپ کو پیش کرنا چاہئے ہاں یہ عاجز روحانی طور پر مثیل موعود ہونے کا براہین میں دعویٰ کر چکا ہے جیسا کہ اسی صفحہ۴۹۸میں موعود ہونے کی نسبت یہ اشارہ ہے صدق اللّٰہ و رسولہ۔چونکہ آپ نے اپنے ریویو میں اس دعویٰ کا ردّ نہیں کیا اس لئے اپنے اس معرض بیان میں سکوت اختیار کر کے، اگرچہ ایمانی طور پر نہیں مگر امکانی طور پر مان لیا۔

اب خلاصہ کلام یہ ہے کہ اس عاجز نے خدا تعالیٰ سے الہام پا کر براہین احمدیہ میں ابن مریم کے موعود یا غیر موعود ہونے کے بارہ (میں)کچھ بھی ذکر نہیں کیا۔صرف ایک مشہور عقیدہ کے طور سے ذکر کردیا تھا آپ کو اس جگہ اسے پیش کرنے سے کچھ فائدہ نہیں ہوگا۔

ہمارے نبی ﷺ بھی بعض اعمال میں جب وحی نازل نہیں ہوتی تھی انبیاء بنی اسرائیل کی سنن مشہورہ کا اقتدا کیا کرتے تھے اور وحی کے بعد جب کچھ ممانعت پاتے تھے تو چھوڑ دیتے تھے اس کو تو ایک بچہ بھی سمجھ سکتا ہے آپ جیسے فاضل کیوں نہیں سمجھیں گے۔ مجھے نہایت تعجب ہے کہ آپ یہی طریق انصاف پسندی کا قرار دیتے ہیں۔کیا اس عاجز نے کسی جگہ دعویٰ کیا ہے کہ میرا ہر ایک نطق وحی اور الہام میں داخل ہے اگر آپ طریق فیصلہ اسی کو ٹھہراتے ہیں تو بسم اللہ !میرے رسالہ کا جواب لکھنا شروع کیجیے۔ آخر حق کو فتح ہوگی۔ میں نے آپ کو ایک صلاح دی تھی کہ عام جلسہ علماء کا بمقام امرتسر منعقد ہو اور ہم دونوں حسبۃً للہ و اظہاراًللحق اس جلسہ میں تحریری طور پر اپنی اپنی وجوہات بیان کریں اور پھر وہی وجوہات حاضرین کو پڑھ کر سنا دیں اور وہی آپ کے رسالہ میں چھپ جائیں۔دور نزدیک کے لوگ خود دیکھ لیں گے جس حالت میں آپ اس کام کے لئے ایسے سرگرم ہیں کہ کسی طرح رُکنے میں نہیں آتے اور جب تک اشاعۃ السنۃ میں عام طور پر اپنے مخالفانہ خیال کو شائع نہ کر دیں صبر نہیں کر سکتے تو کیا اِس تحریری مباحثہ میں کسی فریق کی کسرِشان ہے؟

میں وعدہ کرتا ہوں کہ میں اس جلسہ میں خاک کی طرح متواضع ہو کر حاضر ہو جاؤں گااور اگر کوئی ایسی سخت دشنامی بھی کرے جو انتہا تک پہنچ گئی ہو تو میں اس پر بھی صبر کروں گا اور سراسر تہذیب اور نرمی سے تحریر کروں گا۔خدا تعالیٰ خوب جانتا ہے جو اس نے مجھے مامور کر کے بھیجا ہے۔

اگر آپ مجھے اب بھی اجازت دیں تو میں اشتہارات سے اس جلسہ کے لیے عام طور پر خبر کر دوں۔اب میری دانست میں خفیہ طور پر آپ کا مجھ سے ذکر کرنا مناسب نہیں۔جب آپ بہرحال اشاعت پر مستعد ہیں تو محض للہ اس طریق کو منظور کریں۔ ومااقول الاللّٰہ والسلام علی من اتبع الھدی

خاکسار

۱۴؍مارچ ۱۸۹۱ء غلام احمد

از لودھیانہ محلّہ اقبال گنج

(مکتوباتِ احمدؑ جلد اول صفحہ321تا323)

حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کا مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب کو رقم فرمودہ یہ خط پڑھنے سے بھی آپؑ کے اس کلام پر مہرِ تصدیق ثبت ہوتی ہے کہ

بدِل دردے کہ دارم از برائے طالبانِ حق
نمے گردد بیاں، آں درد، از تقریر کوتاہم
دل و جانم، چُناں مستغرق، اندر فکرِ اُوشان است
کہ نَے از دِل خبردارم، نہ ازجانِ خود آگاہم

یعنی وہ درد جو میں طالبان حق کے لیے اپنے دل میں رکھتا ہوں میں اس درد کو الفاظ میں بیان نہیں کرسکتا۔میری جان و دل ان لوگوں کی فکر میں اس قدر مستغرق ہے کہ مجھے اپنے دل کی خبر ہے، نہ اپنی جان کا ہوش ہے۔

مولوی محمد حسین بٹالوی کے الزام کے جواب میں تحریر فرمودہ مکتوب

مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب نے اپنے تحریر کردہ ایک خط میں حضرت اقدس علیہ السلام کے متعلق ایک بےبنیاد اور باطل الزام لگایا کہ نعوذباللہ آپؑ نے براہینِ احمدیہ کی اشاعت کااعلان کرنے کے بعد اسے مکمل شائع نہیں کیا اور حاصل ہونے والی رقم میں خوردبرد کی ہے۔دراصل براہینِ احمدیہ کی چوتھی جلد کی اشاعت کے ساتھ اس کی آئندہ اشاعت ایک غیر معین عرصہ کے لیے معرضِ التوا میں آئی اور اس التوا کی وجہ خود حضورؑ نے مختلف مواقع پر بیان فرمائی ہے۔تاہم اس الزام کی حقیقت یوں بھی عیاں ہے کہ براہینِ احمدیہ کے سلسلہ میں مالی معاونت کرنے والوں کی حضورؑ نے جو فہرست صفحہ10تا12پر شائع فرمائی اس میں وصول شدہ رقم کا کُل میزان محض پانچ صد روپے سے بھی کم ہے۔طرفہ یہ کہ ان معاونین میں اُس وقت کے بڑے بڑے رؤسا اور نواب بھی شامل ہیں۔ باوجود اس کے کہ یہ ایک دوراز حقیقت بے سروپا الزام تھا لیکن آپؑ نے ایسے لزام کا بھی جواب عطافرمایاجس کی ایک وجہ مولوی صاحب موصوف سے دیرینہ تعلقِ دوستی تھا اور آپؑ کی حتی المقدور کوشش تھی کہ مولوی صاحب کسی طرح حق کو پہچان لیں۔مذکورہ الزام ا ور بعض دیگر اعتراضات کےجواب میں آپؑ نے مولوی صاحب کو جو خط تحریر فرمایااس کی نقل آئینہ کمالاتِ اسلام(صفحہ 304تا310)میں شائع فرمائی۔آپؑ نے فرمایا: ’’آپ کا یہ خیال کہ گویا یہ عاجز براہین احمدیہ کے فروخت میں دس ہزار روپیہ لوگوں سے لے کر خوردبرد کر گیا ہے یہ اس شیطان نے آپ کو سبق دیا ہے جو ہر وقت آپ کے ساتھ رہتا ہے آپ کو کیوں کر معلوم ہو گیا کہ میری نیت میں براہین کا طبع کرنا نہیں اگر براہین طبع ہو کر شائع ہوگئی تو اس دن شرم کا تقاضا نہیںہوگا۔ کہ آپ غرق ہو جائیں ہر یک دیر بدظنی پر مبنی نہیں ہو سکتی اور میں نے تو اشتہار بھی دے دیا تھا کہ ہر ایک مستعجل اپنا روپیہ واپس لے سکتا ہے اور بہت سار وپیہ واپس بھی کر دیا۔ قرآن کریم جس کی خلق اللہ کو بہت ضرورت تھی اور لوح محفوظ میں قدیم سے جمع تھا۔ تیئیس سال میں نازل ہوا اور آپ جیسے بدظنیوں کے مارے ہوئے اعتراض کرتے رہے کہ لَوۡلَا نُزِّلَ عَلَيۡهِ الۡـقُرۡاٰنُ جُمۡلَةً وَّاحِدَةً‘‘ (مکتوباتِ احمدؑ جلد اول صفحہ350-351)

حاجی محمد ولی اللہ صاحب(ریاست کپورتھلہ)کے ایک وسوسہ کا جواب

حاجی ولی اللہ صاحب کپور تھلہ میں سیشن جج تھے۔آپ براہین احمدیہ کے خریدار تھے اور ان ایام میں خوش عقیدت بھی تھے۔ابتداءً آپ سرکار انگریزی میں ملازم تھے لیکن جب بندوبست کا آغاز پنجاب میں ہوا تو ریاست کپورتھلہ کے مہاراجہ نے آپ کی خدمات کو مستعار لے لیا اور پھر مستقل طور پر اپنی ریاست میں رکھا۔اگر چہ موصوف خود اپنے مخفی کبر اور دنیاوی جاہ و حشمت کے باعث شرفِ بیعت سے محروم رہے مگر یہ امرِ واقعہ ہے کہ کپورتھلہ کی جماعت کا باعث آپ ہی بنے۔آپ کے بھتیجے حضرت منشی حبیب اللہ خان صاحبؓ اور آپ ہی سے گہراتعلق رکھنے والے حضرت منشی ظفر احمد صاحب ؓکپورتھلوی سلسلۂ بیعت میں آپ کے ذریعہ داخل ہوئے۔حاجی صاحب براہین کے خریدار تھے اور ان کے پاس براہینِ احمدیہ کے حصص جا رہے تھے جسے نہ صرف وہ خود پڑھا کرتے بلکہ مذکورہ بالا ہر دو احباب کو بھی سنایا کرتے تھے۔باوجود اس کے کہ انہیں ایک وقت میں حجاب حائل ہو گیا لیکن انہوں نے کبھی بھی مانندِ مکفرین سبّ و شتم سے کام نہیں لیا۔( ماخوذ از مکتوبات احمدؑجلداول صفحہ389تا391،تاریخِ احمدیت جلد اول صفحہ216)

ان کے نام پر پھگواڑہ سے نوکلومیٹر کے فاصلہ پر حاجی پور نامی گاؤں آج بھی موجود ہے۔ایک جانب دنیاوی مراتب کی خاطرامامِ وقت کو نہ ماننے والے ان حاجی صاحب کے اس گاؤں میں 2011ء کی مردم شماری کے مطابق محض 812 نفوس آباد ہیں۔جبکہ دوسری جانب مامورمن اللہ مسیح موعود و مہدی معہودؑ کا مولد ومسکن مرجعِ خواص و عام بن چکا ہے۔

ذیل میں حضرت مسیحِ موعودؑ کے اس خط کو درج کیا جاتا ہے جو آپؑ نے حاجی صاحب کے اس وسوسہ کے نتیجہ میں جواباً تحریر فرمایا جو انہیں براہینِ احمدیہ کے التواکی وجہ سے لاحق ہوا۔حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی ؓ اس مکتوب کے متعلق تحریر فرماتے ہیں:’’انہوں نے بعض ناملائم الفاظ بھی اپنے مکتوب میں لکھے۔ حضرت اقدسؑ نے ان کو ان کے خطوط کا بھی ایسا جواب دیا کہ ایک سلیم الفطرت کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے۔‘‘ (حیاتِ احمد جلد دوم صفحہ230)نیز آپؓ نے مکتوبات جلد اول کی اشاعت میں اس مکتوب کے ذیل میں تحریر فرمایا کہ ’’اس مکتوب کے پڑھنے سے معلوم ہوتاہے کہ حاجی صاحب کے خط کا اسلوبِ بیان کیا ہو گا۔مگر حضرت اقدسؑ نے جس حوصلہ اور ہضمِ نفس سے اس کو پڑھااور جواب دیا ہے وہ آپؑ کے اخلاقِ فاضلہ کی رفعت و عظمت کا مظہر ہے اور آپؑ کا اپنی ماموریت پر کامل بصیرت کے ساتھ یقین ہے۔حضرت مسیح موعودؑ کی سیرت و کردار کے متعدد پہلو اس مکتوب کے آئینہ میں نظر آتے ہیں۔یہ یقین اور بصیرت کسی شخص کو میسر نہیں آ سکتی جب تک وہ خدا تعالیٰ کی متواتر وحی سے تسلی نہ پاتا ہو۔‘‘ (مکتوبات احمدؑجلد اول صفحہ395)

چنانچہ23؍دسمبر1884ء کو تحریر فرمودہ حضورؑ کا یہ مکتوب ذیل میں درج ہے۔

’’مخدومی مکر می اخویم حاجی صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ بعد سلام مسنون۔

آج مدت کے بعد عنایت نامہ پہنچا۔ آپ نے جس قدر اپنے عنایت نامے میں اس حقیر عباد اللہ کی نسبت اپنے بزرگانہ ارشادات سے بدنیتی، ناراستی اور خراب باطنی اور وعدہ شکنی اور انحراف از کعبہ حقیقت وغیرہ وغیرہ الفاظ استعمال کئے ہیں۔ میں ان سے ناراض نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ اول تو ’ہر چه از دوست مے رسد نیکوست‘‘

ماسوا اس کے اگر خداوند کریم ورحیم ایسا ہی برا انجام کرے جیسا کہ آپ نے سمجھا ہے تو میں اس سے بدتر ہوں اور درشت تر الفاظ کا مستحق ہوں۔ رہی یہ بات کہ میں نے آپ سے کوئی وعدہ خلافی کی ہے یا میں کسی عہد شکنی کا مرتکب ہوا ہوں تو اس وہم کا جواب زیادہ تر توجہ سے خود آپ ہی معلوم کر سکتے ہیں۔ جس روز چھپے ہوئے پر دے کھلیں گے اور جس روز وَحُصِّلَ مَا فِي الصُّدُورِ (العٰدیٰت:11)کا عملدرآمد ہو گا اور بہت سے بدظن اپنی جانوں کو رویا کر یں گے۔ اس روز کا اندیشہ ہر ایک جلد باز کو لا زم ہے۔ یہ سچ ہے کہ براہینِ احمدیہ کی طبع میں میری امید اور اندازے سے زیادہ توقف ہو گیا مگر اس توقف کا نام عہد شکنی نہیں۔ میں فی الحقیقت مامور ہوں اور درمیانی کارروائیاں جو الٰہی مصلحت نے پیش کر دیں دراصل وہی تو قف کا موجب ہو گئیں۔ جن لوگوںکو دین کی غمخواری نہیں وہ کیا جانتے ہیں کہ اس عرصہ میں کیا کیا عمدہ کام اس برا ہین کی تکمیل کےلیے ہوئے اور خدا تعالیٰ نے اتمامِ حجّت کے لئے کیا کیا سامان میسر کیے۔ آپ نے سنا ہوگا کہ قرآن شریف کئی برسوں میں نازل ہوا تھا۔ کیا وہ ایک دن نازل نہیں ہو سکتا تھا۔ آپ کو اگر معلوم نہ ہو تو کسی با خبر سے دریافت کر سکتے ہیں کہ اس عرصہ میں یہ عاجز بیکار رہا یا بڑا بھاری سامان اتمامِ حجّت کا جمع کرتا رہا۔ تیس ہزار سے زیادہ اشتہارات اردو انگریزی میں تقسیم ہوئے۔ بیس ہزار سے زیادہ خطوط میں نے اپنے ہاتھ سے لکھ کر مختلف مقامات میں روانہ کیے۔ ایک عقلمند اندازہ کر سکتا ہے کہ علا و ہ جد و جہد اور محنت اور عرق ریزی کے کیا کچھ مصارف ان کارروائیوں پر ہوئے ہوں گے۔ ہر ایک کا معاملہ خدا کے ساتھ ہے۔ بد باطن اور نیک باطن کو خوب جانتا ہے۔ وَاِنْ يَّكُ كَاذِبًا فَعَلَيْهِ کِذبُهُ ا(المومن:29)اور اگر بقول آپ کے میں خراب اندروں ہوں اور کعبہ کو چھوڑ کر بت خانہ کو جارہا ہوں تو وہ عالم الغیب ہے آپ سے بہتر مجھے جانتا ہوگا۔ لیکن اگر حال ایسا نہیں ہے تو میں نہیں سمجھ سکتا کہ آپ روزِ مطالبہ اس بدظنی کا کیا جواب دیں گے۔ اللہ جل شانہ فرماتا ہے۔ وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْم إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولٰئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُولًا(بنی اسرائیل:37)

والسلمُ عَلى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى‘‘ (مکتوبات احمدؑ جلد اول صفحہ394۔395)حضورؑ کے تحریر فرمودہ مکتوب کے بعد جب کچھ عرصہ بیت گیا اور حاجی صاحب موصوف کا جواب موصول نہ ہوا تو آپؑ نے اس بابت 4؍فروری 1885ء کوایک اورمکتوب تحریر فرمایا جس میں آپؑ نے لکھا: ’’مخدومی مکر می اخویم حاجی محمد ولی اللہ صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ

بعد السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ عنایت نامہ کا جواب بھیجا گیا تھا مگر آج تک انتظار رہا کہ آپ کی طرف سے کوئی جواب آوے تا پورا منشاء خط سابق میں، کا ظاہر کیا جاوے۔ آخر جواب سے نا امید ہو کر خود اپنی طرف سے تحریک کی جاتی ہے کہ آں مخدوم کے خط سابق میں اس قدر حرارت اور تلخی بھری ہوئی تھی اور ایسے الفاظ درشت اور نا ملائم تھے جن سے ببداہت یہ بُو آرہی تھی کہ آں مکرم کی بدظنی غایت درجہ کے فساد اور خرابی تک پہنچ گئی ہے۔ اگر کتاب کی خرید وفروخت کا تعلق نہ ہوتا تو ہرگز امید نہ تھی کہ آپ کے قلم سے ایسے الفاظ نکلتے۔ پس اس سے ثابت ہوا کہ ایسے منحوس تعلق نے آپ جیسے بزرگ کی طبیعت کو آشفتہ کیا اور ابھی معلوم نہیں کہ آشفتگی اور پریشان باطنی کہاں تک منجر ہو۔ اور اس عاجز کا حال یہ ہے کہ یہ تمام کا روبار بجز ذات باری عزّاسمہ کسی کے بھروسہ پر نہیں۔ پس اس صورت میں قرینِ مصلحت ہے کہ بیع اور استرداد قیمت مرسلہ سے آپ کی طبیعت کو ٹھنڈ اور آرام پہنچایا جاوے۔ کیونکہ اس تمام اشتعال کا بجز اس کے اور کوئی موجب نظر نہیں آتا کہ چند درہم کی جدائی نے جو بہر صورت جدا ہونے والے ہیں، آپ کی طبیعت کو تر دّد تاسّف و پریشانی و حیرت میں ڈال دیا ہے۔ تو اسی نظر سے یہ خط بھیجا جاتا ہے کہ اگر ان سخت اور نالائق الفاظ کا موجب یہی ہے جو میں نے سمجھا ہے تو آپ مجھ کو قیمت کے لیے اطلاع دیں تا کہ آپ کی قیمت مرسلہ واپس کر کے وہ علاج کر دیا جائے جس سے کفِ لسانی کی سعادت جو شعارِ مومنین ہے، آپ کو حاصل ہو۔ اگر آپ رسالہ سرمہ چشم آریہ دیکھتے تو آپ کو معلوم ہوتا کہ اس عاجز نے پہلے ہی اشتہار دے دیا ہے کہ اگر کوئی توقّفِ طبعِ براہین پر ناراض ہو اور اپنی قیمت واپس لینا چاہے تو وہ اطلاع دے تو ویسے سب خریداروں کی قیمت واپس ہوگی۔

آپ پر واضح رہے کہ جو لوگ بدظنی کرتے ہیں اور منہ سے گندی باتیں نکالتے ہیں وہ ہمارا کچھ نقصان نہیں کر سکتے۔ وہ آپ ہی بدظن ہو کر خسر الدنیا والآخرة کے مصداق ٹھہر جاتے ہیں۔ یہ کا رو با رسب جنابِ الٰہی کی طرف سے ہے اور وہی اس کو بخیر و خوبی پورا کرے گا۔ اگر تمام بنی آدم ایسا ہی خیال دل میں پیدا کریں جیسا کہ آج کل آپ کا ہے تو تب بھی ایک ذرہ ہم کو ضر ر نہیں پہنچا سکتا۔ ہمارا وہ مربّی کریم ہے جس نے تاریکی کے زمانہ میں مامور کیا، وہ ہمارے ساتھ ہے اور وہی کافی ہے۔ والسَّلامُ علٰى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدىٰ‘‘ (مکتوباتِ احمدؑجلد اول صفحہ399۔400)حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی ؓ نے مندرجہ بالا مکتوب کے متعلق تحریر کیا کہ ’’اس مکتوب سے آپؑ کے توکّل علی اللہ کا بھی پتہ ملتا ہے اور اسی لیے خدا تعالیٰ کی وحی نے آپؑ کا نام ’متوکّل‘ بھی رکھا۔غرض حضرت اقدسؑ کی سیرت ِ مطہرہ کا یہ مکتوب آئینہ ہے‘‘

آپؓ مزید لکھتے ہیں ’’اس مکتوب میں آپؑ نے براہینِ احمدیہ کی قیمت کی واپسی کے متعلق اشتہار مندرجہ سرمۂ چشمِ آریہ کا بھی حوالہ دیا ہے۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شاید تاریخوں میں کچھ غلطی ہوئی ہو مگر اس سے نفسِ واقعہ پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔‘‘ (مکتوباتِ احمدؑجلد اول صفحہ400۔401)

اول الذکر مکتوبِ مبارک کے جواب میں حاجی ولی اللہ صاحب نے 22؍جنوری1885ء کوحضورؑ کی خدمتِ اقدس میں ایک خط تحریر کیا جس میں انہوں نے اظہارِ ندامت کرتے ہوئے تحریر کیا ’’بخدمت با برکت مرزا صاحب مجمع فضائل و کمالات دینی و دنیوی دام مجد کم۔

پس از ابراز لوازم مکرمت و احترام گزارش آنکہ یہ عاجز گنہگار معافی چاہتا ہے۔ جو سابقاً نیاز نامہ جات ارسال کیے تھے اور اس میں آپ کو مقلد سید احمد نیچری کا تحریر کیا تھا یا کوئی اور لفظ خلاف ادب تحریر ہو گیا ہو یا آپ کے غائبانہ کوئی لفظ بر خلاف ذات شریف اور منشاء شریف کے زبان پر گزر گیا ہو۔ کیونکہ وہ وقت نادانی اور نا واقفی اصل حال کا تھا۔ اس زمانہ میں جو ظلمات کا وعدہ ہے اور ہر طرف سے دیکھا جاتا ہے۔ جَو فروش گندم نما۔ اوّل اپنی خوبیوں کو ظاہر کرتے ہیں۔ پھر وہ اپنی دنیا طلبی دکھلاتے ہیں۔ یہ بڑی احتیاط کا زمانہ ہے۔ اگر احتیاط نہ کرے تو سلامتی ایمان کی ناممکن ہے۔ اشتہارات اور آوازہ تصنیفات سید احمد کے دیکھ سن کر میں نے ایک دوست کو مشورہ دیا تھا کہ تصنیفات اوس کی منگا لینی چاہئیں تا کہ دیکھ کر اصل بات سے واقفیت پیدا ہوگی۔ چنانچہ اس نے اپنا روپیہ صرف کیا۔ جب ان کو دیکھا معلوم ہوا کہ یہ جانبِ دین سے بالکل پردہ ڈالتے ہیں اور ظلمت کو زیادہ کرتے ہیں اور جیفۂدنیا کی طرف زور سے پکڑ کر ز نجیرسنگین ڈال کر کھینچے لیے جاتے ہیں۔ اس واسطے بندہ کو افسوس اس مشورہ سے ہوا جس دوست کو مشورہ دیا تھا۔ اس کی تعلیم اور طبیعت مستعد ہو گئی تھی۔ اس نے اس کی طرف توجہ مبذول کر لی اور اس کے مسائل پر قائم ہو گیا۔ چونکہ مومن ایک سوراخ سے دوبارہ نیش نہیں کھاتا اور چھا چھ کو بھی دودھ کی طرح گرم سمجھ کر پھونک پھونک کر نوش کرتا ہے اس واسطے آپ کے اشتہار کو بھی دیکھ کر احتیاطاً اسی قسم کا سمجھا تھا۔ اب اتفاقیہ مجھ کو دو جلدیں سوم و چہارم کتاب آپ کی دستیاب ہوئیں اور اول سے آخر تک مطالعہ میں آگئی ہیں اور اس عاجز کو وہ ایسی بر خلافِ تصنیفات سید احمد سے معلوم ہوئی ہیں۔گویازمین آسمان کا فرق ہے۔ یعنی وہ دنیا کی طرف لے جانے کا زور دیتے ہیں اور آپ کی کتاب دین کی طرف لے جاتی ہے…یہ کتاب ایسی اس زمانہ میں ہے جس کی ہر جگہ رائج ہونے کی ضرورت ہے۔ آپ کی تجویز پر سوائے اَحْسَنْتَ کے اور کچھ زائد کرنا مناسب نہیں ہے مگر دست بستہ نیک نیتی سے عرض کرتا ہوں امید ہے کہ باوجود اس قدر بلند منزلت کے ناگوار نہ ہوگا۔ اس وقت تعداد قیمت آدھی بھی حالات مسلمانوں پر گراں ہے اور تابع رواج اور اشتہار کے ہو رہی ہے۔ اکثر غریب مسکین آدمیوں کو شوق دین کا ہوتا ہے۔ متمول آدمیوں کو تو اپنے اشغال سے فرصت ہی نہیں ہوتی کہ توجہ دنیا سے دین کی طرف کریں۔ اس واسطے کم استطاعت آدمی قیمت سن کر خاموش رہ جاتے ہیں کہ اپنی قدرو منزلت سے زیادہ سمجھتے ہیں۔ جب آپ نے کُل اوقات اور جائیداد اس کارِخیر میں مستغرق کر دی ہے اور آپ کا درجہ اعلیٰ ملائے اعلیٰ میں ہے اس وقت اس فیضانِ عام کو کیوں محدود کیا گیا ہے؟ استمداد منعم حقیقی پر ہی کیوں تعلق چھوڑ ا نہیںگیا؟…

حسبِ حال اپنی درخواست کرتا ہوں کہ یہ کتاب بندہ عاجز کو آپ محض خدا کے واسطے عطا فرماویں اگر خدا کی مرضی ہے۔ کیونکہ بندہ کا کچھ اختیار نہیں عاجز حسبۃ للہ نہ بلحاظ قیمت محض بنظرِ حصولِ خوشنودی وہ خداوند تعالیٰ کے لئے جلد ارسالِ خدمت کرے گا…

اب یہ عاجز گنہگار السلام علیکم پر اس عریضہ کوختم کر کے التجا کرتا ہے کہ اوقاتِ عزیز میں یاد رکھ کر دعائے خیر بابت درستی دنیا و آخرت کے مشرف فرمائے۔‘‘ ( مکتوبات احمدؑ جلد اول صفحہ402تا406)

حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے حاجی صاحب موصوف کو 21؍مئی1886ء کوایک مکتوب تحریر فرمایا۔ اس میں آپؑ نے فرمایا: ’’عنایت نامہ پہنچا۔ جو کچھ آں مخدوم نے لکھا ہے وہ بہت مناسب ہے۔ اس عاجز نے پہلے ہی سے یہ تجویز قرار دے رکھی ہے کہ کتاب براہین احمد یہ بجز متن عبارت و دلائل معقولی اور کچھ درج نہ ہو۔ اسی وجہ سے الہامات کے بارے میں یعنی پیشگوئیوں میں ( جو ) ہنوز وقوع میں نہیں آئیں۔ ایک مستقل رسالہ لکھا گیا ہے جس کا نام سراجِ منیر ہے۔‘‘ (مکتوباتِ احمدؑ جلد اول صفحہ407)

براہینِ احمدیہ سے متعلق میر عباس علی صاحب لدھیانوی سے خط و کتابت

میر عباس علی صاحب براہینِ احمدیہ کے زمانہ سے حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے معتقدین میں شامل تھے۔23؍مارچ 1889ء کے روز یہ بیعت کرنے والے دوسرے شخص تھے۔لیکن کچھ عرصہ کے بعد دعویٰ مسیحیت بدقسمتی سےان کی ٹھوکر کا باعث بنا اور صد افسوس کہ ان کاا نجام اخلاص پر نہ ہو سکا۔ان کے متعلق ان کے حقیقی بھتیجے اور داماد حضرت میر عنایت علی شاہ صاحب نے لکھا ہے کہ جب انہوں نے پہلی مرتبہ براہینِ احمدیہ حصہ اول دیکھا تو کہا کہ ’’میں ایک کتاب دیکھ کر آیا ہوں کہ کسی شخص نے قادیان سے دعویٰ مجدد کیا ہے۔اس کتاب کی عبارت سے شانِ نبوت کی بُو آتی ہے۔‘‘ (الحکم 14؍فروری1935ء صفحہ3کالم1)

براہین احمدیہ کے خریداروں کے پیدا کرنے میں جس شخص نے سب سے زیادہ سعی کی وہ میر عباس علی لدھیانوی ہی تھے۔زمانۂ براہین میں حضورؑ کی اس بابت میر صاحب سے کثرت سے خط و کتابت ہوئی۔مکتوباتِ احمدؑ میں 62 خطوط ایسے ملتے ہیں جو حضورؑ نے میر صاحب کو تحریر فرمائے۔ذیل میں بعض ایسے مکتوبات درج کیے جاتے ہیں جو حضرت مسیح موعودؑ نے براہینِ احمدیہ کے حوالہ سے تحریر فرمائے۔

28؍اکتوبر1882ء کو حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے میر عباس علی صاحب کو تحریر فرمایا: ’’مکرمی مخدومی میر عباس علی صاحب زادَ عِنایتُہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ آپ کا عنایت نامہ پہنچ کر باعث خوشی ہوا۔جَزَاکُمُ اللّٰہ خَیْراً۔ آپ اللہ اور رسول کی محبت میں جس قدر کوشش کریں وہ جوش خود آپ کی ذات میں پایا جاتا ہے۔ حاجت تاکید نہیں چونکہ یہ کام خالصاً خدا کے لئے اور خود حضرت احدیت کے ارادہ خاص سے ہے اس لیےآپ اس کے خریداروں کی فراہمی میں یہ ملحوظ خاطر شریف رکھیں کہ کوئی ایسا خریدار شامل نہ ہو جس کی محض خریدو فروخت پر نظر ہو۔ بلکہ جو لوگ دینی محبت سے مدد کرنا چاہتے ہیں اُنہیں کی خریداری مبارک اور بہتر ہے کیونکہ درحقیقت یہ کوئی خرید فروخت کا کام نہیں بلکہ سرمایہ جمع کرنے کے لئے یہ ایک تجویز ہے۔ مگر جن کا اصول محض خریداری ہے۔ اُن سے تکلیف پہنچتی ہے اور اپنے روپیہ کو یاد دلا کر تقاضا کرتے رہتے ہیں۔ سو ایسے صاحب اگر خریداری کے سلسلہ میں داخل نہ ہوں اور نہ وہ روپیہ بھیجیں اور نہ کچھ مدد کریں تو یہ اُن کے لئے اس حالت سے بہتر ہے کہ کسی وقت بدگمانی اور شتاب کاری سے پیش آویں۔ اس کام میں جیسے جیسے عرصہ میں خداوندکریم سرمایۂ کافی کسی حصہ کے چھپنے کے لیے حسبِ حکمتِ کاملہ خود میسر کرتا ہے اُسی عرصہ میں یہ کتاب چھپتی ہے۔ پس کسی وقت کچھ دیر ہوتی ہے تو بعض صاحب جن کی خریداری پر نظر ہے۔ طرح طرح کی باتیں لکھتے ہیں جن سے رنج پہنچتا ہے۔ غرض آن مخدوم اسی سعی اور کوشش میں خداوند کریم پر توکّل کر کے صادق الارادت لوگوں سے مدد لیں اور اگر ایسے نہ ملیں تو آپ کی طرف سے دعا ہی مدد ہے۔ ہم عاجز اور ذلیل بندے کیا حیثیت اور کیا قدر رکھتے ہیں۔ وہ جو قادر مطلق ہے۔ وہ جب چاہے گا تو اسبابِ کاملہ خود بخود میسر کر دے گا۔ کون سی بات ہے جو اُس کے آگے آسان نہ ہوئی ہو۔‘‘ (مکتوباتِ احمدؑ جلد اول صفحہ507)

8؍نومبر1882ء کو حضورؑ نے میر صاحب کو تحریر فرمایا: ’’امورِ خمسہ کی بابت جو آپ نے حسب الارشادمنشی احمد جان صاحب تاکید لکھی ہے۔ مناسب ہے۔ جو آپ بعد سلام مسنون منشی صاحب مخدوم کی خدمت میں اس عاجز کی طرف سے عرض کر دیں کہ حتی الوسع آپ کے فرمودہ پر تعمیل ہوگی۔ اور آپ کو خدا جزاءِخیر بخشے۔ یہ بھی گزارش کی جاتی ہے کہ حصہ سوم کتاب براہین احمدیہ میں جو دس وسوسوں کا بیان ہے وہ آریہ سماج والوں کے متعلق نہیں۔ آریہ سماج ایک اور فرقہ ہے جو وید کو خدا کا کلام جانتے ہیں اور دوسری کتابوں کو نَعُوْذُبِاللّٰہ انسان کا اختراع سمجھتے ہیں۔ اس فرقہ کے ردّ کے لئے کتاب براہین احمدیہ میں دوسرا مقام ہے۔ لیکن دس وساوس جو حصہ سوم میں لکھے گئے ہیں۔ وہ برہموسماج والوں کا ردّ ہے۔…‘‘(مکتوباتِ احمدؑ جلد اول صفحہ508)

براہینِ احمدیہ جلد سوم کی اشاعت کے بعدحضرت مسیح موعودؑ نےایک مکتوب مبارک میر صاحب کو تحریر فرمایا جس میں آپؑ نے لکھا: ’’آج ہر سہ حصہ کتاب آپ کی خدمت میں روانہ کرتا ہوں۔ چند ہندو اور بعض پادری عناد قدیم کی وجہ سے ردِّ کتاب کے لیے ہاتھ پاؤں ماررہے ہیں مگر آپ تسلی رکھیں اور مسلمانوں کو بھی تسلی دیں کہ یہ حرکت اُن کی خالی از حکمت نہیں۔ میں امید رکھتا ہوں کہ ان کی اس حرکت اور شوخی کی وجہ سے خداوند کریم حصہ چہارم میں کوئی ایسا سامان میسر کر دے گا کہ مخالفین کی بدرجہ غایت رسوائی کا موجب ہوگا۔ آسمانی سامان شیطانی حرکات سے رک نہیں سکتے بلکہ اور بھی زیادہ چمکتے ہیں اور مخالفین کے اٹھنے کی یہی حکمت سمجھتا ہوں کہ تا آسمانی باتیں زیادہ چمکیں اور جو کچھ خدا نے ابتدا سے مقدر کر رکھا ہے وہ ظہور میں آ جائے۔ آپ مومنین کو جو آپ سے متنفر ہوں سمجھا ویں کہ آپ کچھ عرصہ تو قف کریں۔ زیادہ تر دیر اسی سے ہے کہ تا خیالاتِ معاندانہ مخالفین کے چھپ کر شائع ہو جاویں۔ سو آپ براہ مہربانی کبھی کبھی حالات خیر یت آیات سے یا دوشا دفرماتے رہیں۔‘‘ (مکتوباتِ احمدؑ جلد اول صفحہ525)

26؍جولائی1887ء کو حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے میر صاحب موصوف کو مخاطب کرتے ہوئے تحریر فرمایا: ’’آج اگر ٹکٹ میسر آئے تو یقین ہے کہ ہرسہ حصہ بنام ہرسہ خریداران کے نام روانہ کیے جائیں گے۔ ان شاء اللہ …اگر کوئی ہندو فی الحقیقت طالبِ حق ہے تو اُس سے رعایت کرنا واجب ہے بلکہ اگر ایسا شخص بے استطاعت ہو تو اس کو مفت بلا قیمت کتاب دے سکتے ہیں۔ غرضِ اصلی اشاعتِ دین ہے۔ نہ خرید و فروخت۔ جیسی صورت ہو اس سے اطلاع بخشیں تا کتاب بھیجی جاوے۔‘‘ (مکتوباتِ احمدؑ جلد اول صفحہ527)

21؍جون 1883ء کو حضورؑ نے میر صاحب کو خط میں تحریر فرمایا: ’’آپ کی کوششوں سے بار بار دل خوش ہوتا ہے او ربار بار دعا آپ کے لئے اور آپ کے معاونوں کے لئے دل سے نکلتی ہے۔ خداوند کریم نہایت مہربان ہے۔ اُس کے تفضلات سے بہت سی امیدیں ہیں۔ اس کی راہ میں کوئی محنت ضائع نہیں ہوتی… بہرام خان صاحب کی کوشش سے طبیعت بہت خوش ہوئی۔ خدا اُن کو اجر بخشے۔ کتاب سات سو جلد چھپی ہے لیکن اب میں نے تجویز کی ہے کہ ہزار جلد چھپے تو بہتر…ابتدا میں جب یہ کتاب چھپنی شروع ہوئی تو اسلامی ریاستوں میں توجہ اور مدد کے لیے لکھا گیا تھا بلکہ کتابیں بھی ساتھ بھیجی گئی تھیں۔ سو اس میں سے صرف ابراہیم علی خان صاحب نواب مالیر کوٹلہ اور محمود علی خان صاحب رئیس چھتاری اور مدارالمہام جونا گڑھ نے کچھ مدد کی تھی۔ دوسروں نے اوّل توجہ ہی نہیں کی اور اگر کسی نے کچھ وعدہ بھی کیا تو اس کا ایفا نہیں کیا بلکہ نواب صدیق حسن خان صاحب نے بھوپال سے ایک نہایت مخالفانہ خط لکھا۔ آپ ان ریاستوں سے ناامید رہیں اور اس کام کی امداد کے لیے مولیٰ کریم کو کافی سمجھیں۔ الیس اللّٰہ بکاف عبدہ

اور میں آپ کو یہ بھی تحریر کرتا ہوں کہ جو شخص اپنی رائے کے موافق کتاب کو واپس کرے یا لینا منظور نہ کرے یا کتاب اور کتاب کے مؤلّف کی نسبت کچھ مخالفانہ رائے ظاہر کرے۔ اس کو یک دفعہ اپنے خلق سے محروم نہ کریں۔‘‘ (مکتوباتِ احمدؑ جلد اول صفحہ537۔539)

براہینِ احمدیہ سے متعلق نواب صدیق حسن خان صاحب کو خط

نواب صدیق حسن خان صاحب اہلِ حدیث فرقہ کے مشہور عالم تھے۔ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی ان کی تعریف اور شہرت کے لیے اپنے رسالہ اشاعۃ السنہ میں پروپیگنڈا کیا کرتے تھے اور بعض اوقات انہیں چودھویں صدی کا مجدد بھی کہتے۔چونکہ انہوں نےوالیۂ ریاست بھوپال نواب شاہجہاں بیگم سے شادی کر لی تھی لہٰذا ریاست کا جملہ انتظام و انصرام انہی کے سپرد تھا۔

حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے جہاں ہندوستان کے دیگر امراء و رؤساکوشانِ محمد یہ وفوقیتِ اسلام کو ثابت کرنے کی خاطر براہینِ احمدیہ کی اعانت کے لیے دعوت دی وہاں نواب صدیق حسن خان صاحب کو بھی اس کارِ خیر و عظیم میں شریک ہونے کے لیے بذریعہ خط تحریک فرمائی۔انہوں نے ابتدا میں وعدہ بھی کیا لیکن بعد میں سوءِ قسمت کہ حکومتِ وقت سرکارِ انگریزی کے خوف سے اس للّٰہی اعانت سے دستکش ہو گئے۔

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس امر کا ذکر براہینِ احمدیہ جلد چہارم میں یوں فرمایا ہے: ’’کچھ تھوڑا عرصہ گزرا ہے۔ اس خاکسار نے ایک نواب صاحب کی خدمت میں جو بہت پارسا طبع اور متقی فضائل علمیہ سے متّصف اور قال اللہ اور قال الرسول سے بدرجہ غایت خبر رکھتے ہیں، کتاب براہین احمدیہ کی اعانت کے لیے لکھا تھا۔ سو اگر نواب صاحب ممدوح اس کے جواب میں لکھتے کہ ہماری رائے میں کتاب ایسی عمدہ نہیں جس کے لیے کچھ مدد کی جائے تو کچھ جائے افسوس نہ تھا مگر صاحب موصوف نے پہلے تو یہ لکھا کہ پندرہ بیس کتابیں ضرور خرید لیں گے اور پھر دوبارہ یاد دہانی پر یہ جواب آیا کہ دینی مباحثات کی کتابوں کا خرید نایا انہیں کچھ مدد دینا خلافِ منشاءِ گورنمنٹ انگریزی ہے۔ اس لیے ریاست سے خرید وغیرہ کچھ امید نہ رکھیں۔ سو ہم بھی نواب صاحب کو امید گاہ نہیں بناتے بلکہ امید گاہ خدا وند کریم ہی ہے اور وہی کافی ہے (خدا کرے گورنمنٹ انگریزی نواب صاحب پر بہت راضی رہے) لیکن ہم بادب تمام عرض کرتے ہیں کہ ایسے ایسے خیالات میں گورنمنٹ کی ہجو ملیح ہے۔ گورنمنٹ انگریزی کا یہ اصول نہیں ہے کہ کسی قوم کو اپنے مذہب کی حقانیت ثابت کرنے سے رو کے یا دینی کتابوں کی اعانت کرنے سے منع کرے۔‘‘ (براہینِ احمدیہ حصہ چہارم،روحانی خزائن جلداول صفحہ320)

نواب صاحب نے جس دنیاوی سرکار کی خوشنودی کی خاطر ایک مامورمن اللہ کے ساتھ وعدہ شکنی کی۔ اُسی سرکار نے نہ صرف ان سے نوابی کا خطاب واپس لیا بلکہ نواب صاحب کوحالتِ بے کسی میں خداتعالیٰ کے اسی مامور کی جانب رجوع کرنا پڑا۔چونکہ موضوعِ محلِ نظر محض حضرت اقدس مسیحِ موعودؑ کے مکتوبات بابت براہینِ احمدیہ ہیں لہٰذا نواب صدیق حسن خان صاحب کے بارےمیں اسی پر اکتفا کیا جاتا ہے۔حضرت اقدس مسیحِ موعودؑ نے نواب صاحب کے راجع ہونے کوتتمہ حقیقۃ الوحی میں بیان فرمودہ نشانات میں چوتھےنمبرپر بیان فرمایا ہے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button