تعارف کتاب

’’تصدیق براہین احمدیہ‘‘

(فرخ سلطان محمود)

حضرت حکیم مولانا نورالدین صاحبؓ کی معرکہ آراکتاب کا پس منظر اور مختصر تعارف

حضرت مولوی صاحبؓ نے اپنے امام کی اطاعت میں سرتسلیم خم کرتے ہوئے قلم اٹھایا اور حضورعلیہ السلام کی دعاؤں کے طفیل لیکھرام کی ’’تکذیب براہین احمدیہ‘‘ کا زبردست علمی جواب ’’تصدیق براہین احمدیہ‘‘ کے نام سے تحریر فرمادیا

خداتعالیٰ کے مامورین جب بھی دنیا میں مبعوث ہوتے ہیں تو جہاں اشرارالناس اُن کی مذمّت، تکفیر اور تکذیب پر کمربستہ ہوجاتے ہیں وہاں روح القدس کے اسرار و رموز سے آشنا پاکیزہ روحیں بھی اُن مامورین من اللہ کی تصدیق اور تائید میں صف آرا ہونے لگتی ہیں۔ کچھ ایسا ہی نظارہ ہمیں حضرت اقدس مسیح الزمان علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کے وقت نظر آتا ہے جب ایک طرف توعلمائے سو نے کِبر و اناپرستی کا مظاہرہ کیا اور ہرممکن طریق پر فتنہ و فساد برپا کرتے ہوئے عَلَم بغاوت بلند کیا تو دوسری طرف منتظر نگاہوں کی تسکین اور بےقرار دلوں کی تقویت کے نتیجے میں چشمِ بصیرت رکھنے والوں نے دین العجائز اختیار کرتے ہوئے سر تسلیم خم کردیا۔ مہدی معہود علیہ السلام پر ایمان لانے کی سعادت پانے کے بعد یہ پاک روحیں اُس بابرکت وجود کی محبت کی ایسی اسیر ہوگئیں کہ گویا سراپا عشق ہوکر اپنے امام کے اشارۂ ابرو کی منتظر رہنے لگیں۔ خدا تعالیٰ کی محبت اور رسول کریمﷺ کی محبت اور اطاعت میں ارادت مندی کا بےمثال اظہار کرتے ہوئے موعودِ زمانہ کی زبان اور قلم سے جاری ہونے والے ارشادات پر صمیم قلب سے لبّیک کہنے کو اپنی سعادت سمجھنے لگیں۔ راہ وفا میں ہر قسم کی قربانی پیش کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار ہزاروں عشاق دیوانہ وار قادیان آکر اپنے قلب و روح کی سیرابی کے سامان کرنے لگے۔

تاریخ گواہ ہے کہ ’’جری اللہ فی حلل الانبیاء‘‘ کے لقب سے سرفراز ہونے والا وجود دین اسلام کے دفاع میں اور اپنے آقا و مولیٰ حضرت اقدس محمد رسول اللہﷺ سے عشق کے اظہار میں بھرپور لسانی و قلمی کاوشوں سے ہر طرف برسرپیکار تھا۔اس کے عزم، حوصلے اور جرأت و استقلال کی نظیر کہیں اَور نہ پاکر بےشمار خادمانِ اسلام مسلسل آپؑ کے حلقۂ ارادت میں شامل ہوکر آپؑ کی اطاعت کی برکت سے جذبۂ محبت اور شوقِ قربانی کی راہوں میں اپنے قدم تیزی سے بڑھانے لگے۔ مسیح پاک کے انہی عشاق میں آپؑ کے دست مبارک پر اوّلیں طور پر بیعت صداقت کرنے والے حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ کا اسم گرامی سرفہرست ہے۔

حضرت حکیم مولوی نورالدین صاحبؓ اپنے علم، تفقّہ فی الدین اور تقویٰ کی بدولت پہلے سے ہی مسلمان علماء کی نگاہوں کا مرکز تھے۔ مہدیٔ دوراں کے حلقۂ بیعت میں آنے سے گویا نورٌ علیٰ نُور کی سی کیفیت ہوگئی۔ بیان کیا جاتا ہے کہ ریاست جمّوں میں ملازمت کے دوران جب ایک اشتہار آپؓ کی نظر سے گزرا تو اشتیاقِ ملاقات میں قادیان پہنچے اور حضور علیہ السلام کو دیکھتے ہی دل میں کہا کہ یہی مرزا ہے تو اس پر مَیں سارا ہی قربان ہوجاؤں۔ پھر بیعت لینے کے لیے عرض کیا تو حضرت اقدسؑ نے فرمایا کہ مَیں اللہ کے حکم کے بغیر اس معاملہ میں کوئی قدم نہیں اُٹھاسکتا۔ اس پر آپؓ نے عرض کیا کہ پھر حضورؑ وعدہ فرمائیں کہ جب بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے بیعت لینے کا حکم آجائے سب سے پہلے میری بیعت لی جائے۔ حضورؑ نے فرمایا: ٹھیک ہے۔ چنانچہ 23؍مارچ 1889ء کو لدھیانہ میں حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ نے سب سے پہلے آپؑ کے دست مبارک پر بیعت کی سعادت حاصل کی۔ حضورؑ نے آپؓ کے بارہ میں ’’ازالہ اَوہام‘‘ میں فرمایا: ’’انہوں نے ایسے وقت میں بلاتردّد مجھے قبول کیا کہ جب ہر طرف سے تکفیر کی صدائیں بلند ہونے کو تھیں…۔‘‘

حضرت حکیم مولوی نورالدین صاحبؓ کی مامور زمانہ سے للّٰہی محبت اور حضرت اقدس علیہ السلام کی غلامی میں ہر قربانی پیش کرنے کی دلی آرزو اس شدّت سے ظاہر ہوتی رہی کہ آپؓ کی زبان اور قلم سے ادا ہونے والے رشحات بھی آئندہ نسلوں کے لیے مشعل راہ قرار پائے۔ چنانچہ آپؓ کا ایک خط حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے اپنی کتاب ’’فتح اسلام‘‘ میں درج فرمایا جو اپنے الفاظ اور انداز میں ایسی فدائیانہ روح رکھتا ہے جس کی نظیر قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں میں تو نظر آتی ہے مگر بعد کے زمانے میں عشاق کے ایسے نمونے اگر ظہور پذیر ہوئے بھی تو محفوظ نہیں رہ سکے۔ آپؓ کے حوالے سے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام فرماتے ہیں کہ ’’اگر مَیں اجازت دیتا تو وہ سب کچھ اس راہ میں فدا کرکے اپنی روحانی رفاقت کی طرح جسمانی رفاقت اور ہر دم صحبت میں رہنے کاحق ادا کرتے۔ ان کے بعض خطوط کی چند سطریں بطور نمونہ ناظرین کو دکھلاتا ہوں : ’’مَیں آ پ کی راہ میں قربان ہوں۔ میرا جو کچھ ہے میرانہیں آ پ کا ہے۔ حضرت پیرومرشد میں کما ل راستی سے عرض کرتاہوں کہ میرا سارا مال و دولت اگر دینی اشاعت میں خرچ ہوجائے تو مَیں مراد کو پہنچ گیا۔ اگر خریدار براہین کے توقف طبع کتاب سے مضطرب ہوں تو مجھے اجازت فرمائیے کہ یہ ادنیٰ خدمت بجا لاؤں کہ ان کی تمام قیمت ادا کردہ اپنے پاس سے واپس کردوں۔حضر ت پیرو مرشد نابکار شرمسار عرض کرتاہے اگر منظور ہو تو میری سعادت ہے۔ میرا منشاء ہے کہ براہین کے طبع کا تمام خرچ میرے پر ڈال دیا جائے۔ پھرجو کچھ قیمت میں وصول ہو وہ روپیہ آپ کی ضروریات میں خرچ ہو۔ مجھے آپ سے نسبت فاروقی ہے اور سب کچھ اس راہ میں فدا کرنے کے لئے تیار ہوں۔ دعافرماویں کہ میری موت صدیقوں کی موت ہو۔‘‘ (فتح اسلام روحانی خزائن جلد 3صفحہ35تا36)

حکیم الامّت حضرت مولانا نورالدین صاحبؓ کے مذکورہ بالا خط میں حضورعلیہ السلام کی تصنیف لطیف ’’براہین احمدیہ‘‘ کی طباعت پر ہونے والے اعتراضات کے حوالے سے عظیم الشان مالی قربانی پیش کرنے کی قلبی تمنّا کا اظہار ہے۔ دراصل اس عظیم الشان ہستی کے ’’براہین احمدیہ‘‘ جیسی معرکہ آرا کتاب کے ساتھ تعلق کے کئی منفرد زاویے نظر آتے ہیں۔ جن میں سے ایک آپؓ کی وہ عظیم الشان قلمی خدمت بھی ہے جو ’’تصدیق براہین احمدیہ‘‘ کے نام سے منصّہ شہود پر آئی۔ اس تصنیف کے ظہور میں آنے کا پس منظر یہ تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی لاجواب کتاب ’’براہین احمدیہ‘‘ پر پنڈت لیکھرام اوربعض دوسرے آریوں نے جو اعتراضات کیے تھے وہ ’’تکذیب براہین احمدیہ‘‘ اور ’’نسخہ خبط احمدیہ‘‘ وغیرہ کے ذریعے لوگوں تک پہنچ گئے تھے۔ چنانچہ حضرت حکیم مولوی نورالدین صاحبؓ نے اس جوابی تصنیف میں ان تمام اعتراضات کا ردّ بڑی عمدگی سے کرتے ہوئے اسلام کی صداقت بڑے زور اور تحدّی سے ثابت کی اور قرآن کریم کی بڑی لطیف تفسیر اپنی کتاب میں بیان فرمائی۔ پہلی بار یہ کتاب 1307ہجری بمطابق 1890ء میں شائع ہوئی۔ بعدازاں نومبر 1923ء میں مہتمم کتاب گھر قادیان نے اسے دوبارہ شائع کیاتھا۔ ایک لمبے عرصے کے بعد اب حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کی اجازت سے نظارت اشاعت صدر انجمن احمدیہ پاکستان نے اس کتاب کو ٹائپ کرواکر 306 صفحات پر شائع کیا ہے۔ چونکہ اس کتاب کی زبان اپنی ذات میں نہایت عالمانہ ہونے کے علاوہ ہندو مذہب میں مستعمل پرانی زبان کے الفاظ نیز قرآن کریم کی آیات اور عربی محاوروں وغیرہ سے مزیّن ہے اس لیے جدید ایڈیشن میں قارئین کی سہولت کے لیے ایسے تمام مشکل الفاظ اور محاوروں کے تراجم اور مفہوم افادۂ عام کی خاطر شامل کردیے گئے ہیں۔

یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ حضرت مولوی صاحبؓ نے یہ قلمی خدمت حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے ارشاد کی تعمیل میں کی تھی۔ چنانچہ حضرت مولوی صاحبؓ کی اس تصنیف کا پس منظر یہ ہے کہ لیکھرام نے آریہ مذہب کے دفاع میں قلم اٹھائی اور قریباً تینتیس (33)کتب لکھیں جو بعد میں ’’کلیات آریہ مسافر‘‘ کے نام سے مجموعی طور پر شائع کی گئیں۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا لیکھرام سے پہلے پہل تعارف کچھ اس طرح سے ہوا تھا کہ یہ حضور علیہ السلام کو گالیوں سے بھرے خطوط لکھا کرتا تھا۔ اس نے ’’تکذیب براہین احمدیہ‘‘ لکھنے سے پہلے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سخت مخالفت کرتے ہوئے اسلام، قرآن حکیم اور نبی کریمﷺ کی شان میں انتہائی گستاخیاں شروع کر دی تھیں۔ اس کے انداز کے متعلق حضور علیہ السلام نے آریہ سماج کے ذمہ داروں کو مطلع فرمایا اور اپنی چند کتب بشمول ’’شحنہ حق‘‘ اور ’’سرمہ چشم آریہ‘‘ میں بدزبانی کرنے والوں کو عمومی طور پر اور لیکھرام کو خصوصاً سخت تنبیہ فرمائی۔

لیکھرام نے اپنی کتاب ’’تکذیب براہین احمدیہ‘‘ کی تصنیف اور اشاعت کے لیے جموں میں رہنے والے پنڈت نراین کول سے بھرپور مدد لی تھی جن کو فارسی اور عربی میں بھی لیاقت حاصل تھی۔ انہوں نے بھی ’’براہین احمدیہ‘‘ کا جواب لکھنے کے لیے لیکھرام کی مدد کرنے کی اس کی درخواست بخوشی منظور کرلی۔ چنانچہ لیکھرام پنڈت نراین کول کے پاس کئی بار جاتا رہا اور اکثر چند روز ٹھہر کر اس ’تکذیب‘ کا مواد جمع کرتا رہا۔ جب اُس کی کتاب ’’تکذیب براہین احمدیہ‘‘ تیار ہو گئی تو پنڈت لیکھرام نے پہلی مرتبہ یکم اکتوبر 1884ء کو آریہ سماج گورداسپور کے ایک جلسے میں اس کو سنایا۔ مقصد یہ تھا کہ اگر کتاب تاخیر سے بھی شائع ہو تو بھی اس کی خبر دیگر ذرائع سے آریوں اور دیگر مذاہب تک پہنچ جائے۔

تکذیب براہین احمدیہ کی تکمیل کے بعد 1884ء میں لیکھرام نے پولیس کی نوکری کو خیرباد کہہ دیا اور اسلام دشمنی کو ہی اپنی زندگی کا مشن قرار دے کر سرگرم عمل ہوگیا۔بعدازاں اُس کی یہ کتاب گورداسپور، امرتسر اور قادیان وغیرہ میں منعقد ہونے والے مزید جلسوں میں بھی پڑھ کر سنائی گئی۔ جولائی 1887ء میں اس کتاب کی پہلی بار اشاعت ہوئی۔

حضرت مسیح موعودؑ کو اس کتاب کی اشاعت سے سخت تکلیف پہنچی کیونکہ اس کتاب میں کذب اور استہزاء سے بھری ہوئی زبان کا استعمال کیا گیا تھا۔ اور اس لیے بھی کیونکہ اس کی اشاعت سے قبل حضورؑ براہ راست کئی بار آریوں اور خصوصاً لیکھرام کو بدزبانی کرنے سے منع فرماچکے تھے اور اس خبیثانہ فعل کے بداثرات سے متنبہ بھی فرماچکے تھے۔

یاد رہے کہ اس کتاب کی باقاعدہ اشاعت سے قریباً دو سال قبل صرف 1885ء میں حضور علیہ السلام نے دنیا کے مذہبی لیڈران، فرمانرواؤں، مہاراجوں، علماء و فضلاء وغیرہ کو اسلام کی تبلیغ کے لیے بیس ہزار کی تعداد میں اشتہارات اردو اور انگریزی زبانوں میں بھجوائے۔ اور ان میں یہ یقین دہانی بھی کروائی کہ جو لوگ اس دعوت کو قبول کرکے قادیان آئیں گے، حضورؑ کے خرچ پر اُن کے قیام و طعام اور دیگر ضروریات کا انتظام کیا جائےگا۔ اس دعوت کا صرف ایک ہی مقصد تھا تاکہ وہ لوگ اللہ تعالیٰ کے نشانات کو بچشم خود ملاحظہ کرسکیں اور واپس اپنی قوموں میں جاکر اس کا اظہار کریں کہ اسلام کا ایک زندہ خدا ہے جو انسانوں کی آہ و زاری کو سنتا، قبول فرماتا اور جواب بھی دیتا ہے۔ ہندوستان میں جن تین لوگوں نے حضورعلیہ السلام کی اس پُرخلوص دعوت کو قبول کیا اُن میں پنڈت لیکھرام بھی شامل تھا۔

لیکھرام 19؍نومبر 1885ء کو قادیان آیا اور قریباً دو ماہ یہاں ٹھہرا رہا۔ لیکن بدقسمتی سے اس دوران حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے جدی بھائیوں اور اشد معاندین مرزا امام الدین وغیرہ کے ہاتھ چڑھ گیا۔ اس کا ذکر کرتے ہوئے حضور علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’ہمیں اُس بدقسمت لیکھرام کی حالت پر نہایت افسوس آتا ہے کہ چند دن اسلام پر زبان درازی کرکے آخر اُس نے جواناں مرگ جان دی۔ اور وہ قریباً دو ماہ تک قادیان میں بھی میرے پاس رہا تھا اور پہلے اس کی ایسی طبیعت نہیں تھی مگر شریر لوگوں نے اس کی طبیعت کو خراب کر دیا۔ اُس نے بڑی خواہش کے ساتھ یہ قبول کیا تھا کہ اگر مجھے معلوم ہوا کہ اسلام ایک ایسا مذہب ہے کہ اس میں خدا تعالیٰ کے نشان ظاہر ہوتے ہیں اور امور غیبیہ کھلتے ہیں تو میں اسلام قبول کر لوں گا مگر قادیان کے بعض شریر الطبع لوگوں نے اُس کے دل کو خراب کر دیا اور میری نسبت بھی اُن نالائق ہندوؤں نے بہت کچھ جھوٹی باتیں اُس کو سنائیں تا وہ میری صحبت سے متنفر ہو جائے پس ان بد صحبتوں کی وجہ سے روز بروز وہ ردّی حالت کی طرف گرتا گیا۔‘‘ (حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد22 صفحہ301)

چنانچہ لیکھرام کے قادیان میں قیام کے دوران ہی حضورعلیہ السلام نے اُس کے بارے میں بعض انذاری خبریں بھی پائیں۔ مثلاً ایک کشف یوں بیان فرمایا: ’’مَیں نے اسی لیکھرام کے متعلق‬ ‫دیکھا کہ ایک نیزہ ہے اس کا پھل بڑا چمکتا ہے اور لیکھرام کا سر پڑا ہوا ہے۔ اُسے‬ ‫اس نیزے سے پرودیا گیا ہے اور کہا گیا کہ پھر قادیان میں نہ آوے گا۔‘‘ (تذکرہ صفحہ 246)

الغرض قادیان میں اپنے مختصر قیام کے دوران بھی لیکھرام نے حضور علیہ السلام پر نہایت دریدہ دہنی کے ساتھ حملے جاری رکھے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے 20فروری 1886ء کو پیشگوئی پسر موعود پر مبنی اشتہار شائع کیا۔ ابھی آپ ؑ ہوشیار پور میں ہی مقیم تھے کہ ماسٹر مرلی دھر نے،جو آریہ سماج ہوشیارپور کے سرگرم رکن تھے، مارچ 1886ء میں دو دن کے ایک مباحثہ کا انعقاد کیا جس کی تفصیل حضورؑ نے کتاب ’’سرمہ چشم آریہ‘‘ میں بیان فرمائی ہے۔ اس کتاب کا جواب لکھنے کی کوشش بھی لیکھرام نے کی اور اپنی کتاب کا نام اس نے ’’خبط احمدیہ‘‘ رکھا۔ جبکہ اس دوران وہ ’’تکذیب براہین احمدیہ‘‘ کی اشاعت کے لیے بھی سرگرمی سے کوشش کرتا رہا اور اس میں کامیابی حاصل کرلی۔

1888ء میں شائع کی جانے والی ’’خبط احمدیہ‘‘ میں لیکھرام نے حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی طرف سے دیے گئے مباہلہ کے چیلنج کو قبول کرلیا۔ اس سے قبل چونکہ ’’تکذیب براہین احمدیہ‘‘ بھی شائع ہوچکی تھی۔ دونوں کتابوں میں استعمال ہونے والی زبان نہایت گھٹیا اور استہزائیہ تھی چنانچہ دونوں کتب کی اشاعت کے نتیجے میں مسلمانوں کے زخمی دل مزید مجروح ہوئے۔اس تکلیف کا احساس کرتے ہوئے سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے 26؍جولائی 1887ء کو حضرت حکیم مولوی نورالدین صاحب بھیروی رضی اللہ عنہ کو ایک خط تحریر فرمایا جس میں آپؑ نے ’’تکذیب‘‘ پر ایک عمدہ تبصرہ کیا اور ساتھ ہی حضرت مولوی صاحب کو اس کتاب کا ردّ لکھنے کا ارشاد فرمایا۔ حضرت اقدسؑ اپنے اس مکتوب میں فرماتے ہیں:

’’حال میں لیکھرام نامی نے میری کتاب براہین کے ردّ میں بہت کچھ بکواس کی ہے اور اپنی کتاب کا نام ’تکذیب براہین احمدیہ‘ رکھا ہے۔ یہ شخص اصل میں غبی اور جاہل مطلق ہے اور بجز گندی زبان کے اس کے پاس کچھ نہیں۔ مگر معلوم ہوا ہے کہ اس کتاب کی تالیف میں بعض انگریزی خوان اور دنی الطبع ہندوؤں نے اس کی مدد کی ہے۔کتاب میں دو رنگ کی عبارتیں پائی جاتی ہیں۔ جو عبارتیں دشنام دہی اور تمسخر اور ہنسی اور ٹھٹھے سے بھری ہوئی ہیں اور لفظ لفظ میں توہین اور ٹوٹی پھوٹی عبارت اور گندی اور بدشکل ہیں وہ عبارتیں تو خاص لیکھرام کی ہیں اور جو عبارت کسی قدر تہذیب رکھتی ہے اور کسی علمی طور سے متعلق ہے وہ کسی دوسرے خواندہ آدمی کی ہے۔ اس پُر افتراء کا تدارک بہت جلد از بس ضروری ہے ۔…… آپ اوّل سے آخر تک اس کتاب کو دیکھیں اور جس قدر اس شخص نے اعتراضات اسلام پر کئے ہیں ان سب کو ایک پرچہ بیادداشت صفحہ کتاب نقل کریں اور پھر ان کی نسبت معقول جواب سوچیں ۔…غرض یہ کام نہایت ضروری ہےاور میں بہت تاکید سے آپ کی خدمت میں عرض کرتا ہوں کہ آپ بہمہ جدوجہد جانفشانی اور مجاہدہ سے اس طرف متوجہ ہوں۔‘‘

یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ نے مذکورہ خط میں لیکھرام کی علمی حیثیت کے متعلق جو رائے قائم فرمائی تھی، چند سال بعد اللہ تعالیٰ نے بھی الہاماً اس کی تصدیق ان الفاظ میں فرماتے ہوئے لیکھرام کے بدانجام کی خبر بھی دے دی کہ عِجْلٌ‬ ‫جَسَدٌ لَّہٗ خُوَارٌ۔ لَہٗ نَصَبٌ وَّعَذَابٌ‫ یعنی یہ صرف ایک بے جان گو سالہ ہے جس کے‬ ‫اندر سے ایک مکروہ آواز نکل رہی ہے اور اُس کے لئے ان گستاخیوں اور بدزبانیوں کے عوض میں سزا اور رنج اور عذاب مقدّر ہے جو ضرور اس کو مل کر رہے گا۔

بہرحال حضرت مولوی صاحبؓ نے اپنے امام کی اطاعت میں سرتسلیم خم کرتے ہوئے قلم اٹھایا اور حضورعلیہ السلام کی دعاؤں کے طفیل لیکھرام کی ’’تکذیب براہین احمدیہ‘‘ کا زبردست علمی جواب ’’تصدیق براہین احمدیہ‘‘ کے نام سے تحریر فرمادیا۔ اگرچہ تاریخی شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مولوی نورالدین صاحب رضی اللہ عنہ کے علاوہ بھی لیکھرام کی کتاب کے جوابات بعض اہل علم حضرات کی طرف سے لکھے گئے تھے۔ مثلاً نکودار ضلع جالندھر کے ایک عرائض نویس شہاب الدین چشتی نے ایک کتاب بعنوان ’’تائید براہین احمدیہ‘‘ لکھی تھی جو کہ قیصری پریس جالندھر سے 1891ء میں شائع ہوئی تھی۔

بہرحال ایک طرف تو لیکھرام مسیح آخرالزمانؑ کی اس دعائے مباہلہ کا نشانہ بنا اور اپنے بدانجام کو پہنچا:

اَلَا اے دشمنِ نادان و بے راہ

بِتَرس از تیغِ بُرّانِ محمدؐ‬

یعنی اے لیکھرام تُو کیوں حضرت محمد ﷺ کو گالیاں دیتا ہے۔ تُو حضرت محمد ﷺ ‬ کی اُس تلوار سے کیوں نہیں ڈرتا جو تجھے ٹکڑے ٹکڑے کردے گی۔(تذکرہ صفحہ187-186 مطبوعہ قادیان 2008ء)

اور دوسری طرف روح القدس کی تائید سے لکھا جانے والا یہ مضمون ایسی عظیم الشان کتاب کی اشاعت کا سبب بنا جو قیامت تک مسلمانوں کے لیے دین اسلام کی سربلندی اور آنحضورﷺ کی رسالت اور آپؐ کے غلام صادق کی سچائی پر مہر صداقت ثبت کرتی چلی جائے گی۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ قرآن کریم کی تعلیم کے مطابق ہر نبی کی صداقت کے زندہ ثبوت اس کتاب میں بدرجہ اتم مہیا کیے گئے ہیں۔ چنانچہ کتاب کے ابتدائی صفحات میں قرآن کریم میں بیان ہونے والے انبیاء علیہم السلام کے حالات، اُن کے دشمنوں کی طرف سے کی جانے والی شدید مخالفت اور نتیجۃً دشمنوں کی ہلاکت کے بعد کَتَبَ اللّٰہُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَ رُسُلِیْ کے عظیم الشان وعدے کے ظہور کے نتیجے میں انبیائے کرام کی بالآخر کامیابی و کامرانی کا بیان نہایت پُراثر انداز میں ’’تصدیق براہین احمدیہ‘‘ میں شامل ہے۔ متعلقہ آیاتِ قرآنی کی لطیف تفسیر کرتے ہوئے آپؓ نے تمام انبیاء کے لیے اس وعدے کے ایفاء ہونے کو ہستی باری تعالیٰ کی عظیم الشان دلیل قرار دیا ہے۔ اسی حوالے سے حضورؓ بیان فرماتے ہیں کہ یہ سارے انبیائے کرام توحید کے قیام اور شرک کی تمام اقسام کو زائل کرنے کے لیے ہر قربانی کے لیے سراپا کوشاں رہے اور اس راہ میں اس لیے اپنی جان و اموال کی پروا نہیں کی کیونکہ انہیں یوم آخرت پر اور قیامت کے بعد جزا سزا کے نظام پر غیرمتزلزل ایمان تھا۔ لیکن خداتعالیٰ نے بظاہر متموّل اور طاقتور کفّار کے بالمقابل کمزور اور مفلس مگر عاقبت اندیش اہلِ ایمان کو اس دنیا میں بھی سرخرو فرماکر اپنی ہستی کے قادر، متصرف اور مالک ہونے کا ثبوت دیا وَالْاٰخِرَۃُ عِنْدَ رَبِّکَ لِلْمُتَّقِیْنَ (الزخرف:۳۶) اور آخرکار کامیابی خدا کے پاس پرہیزگاروں ہی کا حصہ ہے۔

حضورؓ فرماتے ہیں کہ یہ عجیب و غریب راستی اور راستبازی کا معیار ہے۔ یہی ہمیشہ ہر ملک میں تعجب انگیز اور راحت بخش معجزہ اور الٰہی نشان ہے! اور یہی بھلوں کو بروں سے مقابلہ کرتے وقت یقیناً تسلّی دِہ رہا ہے، ہے اور رہے گا۔

قرآن کریم کے مضامین پر جو دسترس خداتعالیٰ نے اپنے فضل سے حضورؓ کو عطا فرمائی تھی اس کتاب کے مطالعہ کے دوران یہی احساس جاگزیں رہتا ہے کہ حضورؓ نہایت روانی سے قرآن کریم کی متعلقہ آیات پیش کرکے اُن کی لطیف تفسیر ارشاد فرمارہے ہیں اور پھر اپنے تفسیری نکات کی تائید میں دیگر قرآنی آیات کے علاوہ یہودیوں، عیسائیوں اور ہندوؤں کی مذہبی کتب (خصوصاً وید اور اناجیل) سے اخذ کردہ حوالے بھی ایک تسلسل کے ساتھ پیش فرماتے چلے جاتے ہیں۔ اس طرح جہاں اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ حضورؓ کو دیگر عالمگیر مذاہب کی تعلیم اور اُن کی تاریخ پر عبور حاصل ہے وہاں موازنہ مذاہب پر بھی آپؓ کی دسترس دیکھ کر دل عش عش کراٹھتا ہے۔ پھر ہر مضمون کو بیان فرمانے کے بعد آپؓ یہ اظہار بھی فرماتے چلے جاتے ہیں کہ جس خداوند نے صحفِ سابقہ کو نازل کیا تھا اُسی نے خاتم الکتب قرآن کریم کو نازل فرمایا ہے۔ ہاں صرف ایک فرق ہے کہ پرانے آسمانی صحیفے تو وقت کے ساتھ ساتھ انسانی دست برد سے محفوظ نہیں رہ سکے لیکن قادر مطلق نے قرآن کریم کی حفاظت کی ذمہ داری قیامت تک کے لیے خود لے لی ہے اس لیے اگر کسی بھی معاملے میں دو کتب سماوی میں اختلاف نظر آئے گا تو اس کا بہرحال فیصلہ قرآن کریم کی تعلیم کے مطابق ہی کیا جائےگا۔

حضورؓ کے عظیم الشان علمی معیار کا اندازہ کرنے کے لیے بھی یہ کتاب ایک بھرپور پیمانہ ہے۔ نیز قارئین کے اذہان کو جھنجوڑنے اور حقائق سے روشناس کرنے کے لیے حضورؓ وقفے وقفے سے سوال بھی اٹھاتے ہیں جن سے ہر قاری کا ذہن اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ جو بھی خداتعالیٰ کی خاطر قربانیاں پیش کرتے ہیں تو اُن کے نام عزت اور محبت کے ساتھ زندہ رکھے جاتے ہیں۔ چنانچہ انبیائے کرام اور اُن کی طرف منسوب ہونے والے دین کے جان نثاروں کے اسماء ہی تاریخ میں عزت کے ساتھ یاد رکھے جاتے ہیں لیکن انبیائے کرام کی مخالفت کرنے والوں اور اُن کے مدّمقابل آکر ظلم کرنے والوں کے نام اور اُن کے واقعات محض عبرت دلانے کے لیے ہی محفوظ رکھے گئے ہیں۔

انسانی تاریخ کے زمانی ادوار کو ملحوظ رکھتے ہوئے قرآن کریم میں بیان فرمودہ قصص انبیاء کو بیان فرماتے ہوئے حضورؓ نے آنحضورﷺ کی عظیم الشان فتوحات اور فقیدالمثال کامیابیوں کو آپؐ کے من جانب اللہ ہونے کے دعویٰ کی صداقت کے ثبوت کے طور پر پیش فرمایا ہے۔ جس کے بعد حضورؓ اپنے قارئین سے دریافت فرماتے ہیں کہ کیا ایسی کامیابی کسی مُلہم، کسی مدعیٔ الہام، کسی ریفارمر، کسی مصلح، کسی رسول یا کسی بادشاہ کو کبھی ہوئی ہے؟ آپؐ نے نہ صرف اپنا ملک بلکہ اپنے مورث حضرت ابراہیم علیہ السلام کا موعود ملک بھی آزاد کرالیا۔ کس کے وسیلے سے ایسی عملی طاقت ظہور میں آئی؟ یاد رکھو یہی ایک راحت بخش قانون ہے جو سچائی کا معیار رہا ہے اور رہے گا۔ اور یہی تسلی دِہ معجزہ ہے جس سے بھلائی اور برائی کو عام نظر کا آدمی بھی امتیاز کرسکتا ہے۔ ہاں فتح مندی اور کامیابی کا تاج لینے کے واسطے استقامت، حسنِ ظن، وفاداری، راستی اور کوشش شرط ہے۔

اپنے ابتدائی مضمون کو اختتام کی طرف لے جاتے ہوئے حضورؓ نے بالتفصیل ہندوستان کی مذہبی تاریخ بیان فرمائی ہے۔ نیز یہاں کی مذہبی رسوم اور معاشرتی اقدار پر روشنی ڈالتے ہوئے شرک اور ایمان کے مختلف تقاضے بیان فرمائے ہیں۔ ہندوؤں کے مختلف فرقوں کے عقائد کی بنیاد پر اُن کا جائزہ لیتے ہیں اور پھر فرماتے ہیں مشرکوں سے نکلتے، توحید کی طرف آتے ہوئے گروہ، بلکہ یوں کہیے اسلام کے قریب آنے والے دیانندی پنتھ کو جب مختلف اسباب سے رکاوٹ ہوئی اور دھوکے میں مبتلا ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے اُن میں حضرت مرزا غلام احمد صاحبؑ مجدد کو پیدا کیااور انہیں توفیق دی کہ آریہ اور اُن کے سوا جس قدر اسلام کے مخالف ہیں ان سب کو موجہ اقوال سے سمجھاویں اور مغالطات کے مواقع سے انہیں آگاہ کریں۔ حضرت میرزا صاحب نے اس مقصداعلیٰ کی ابتدائی تحریک کے واسطے ایک کتاب لکھی اور اس کا نام ’’براہین احمدیہ‘‘ رکھا۔

اس کے بعد حضورؓ نے ’’تکذیب براہین احمدیہ‘‘ کا ذکر کرتے ہوئے اس میں بیان شدہ مضامین کا سوال و جواب کی طرز پر ایک مبسوط ردّ پیش فرمایا ہے۔ اپنی اس کاوش کی ایک وجہ آپؓ یوں بیان فرماتے ہیں کہ ’’حضرت مرزا صاحب خاتم الانبیاء اصفی الاصفیا ﷺ کے سچے خادم اور اسلام کے بااخلاص حامی، اس زمانہ کے مجدّد مُلہم ہیں۔ مَیں نے چاہا (اور خدا کے فضل سے یقین ہے کہ میری نیت کا ثمرہ مجھے ضرور ملے گا) کہ راستبازوں کا ساتھ دوں اور ان کے انصار سے بنوں۔ اس لیے براہین کی تصدیق پر کمرِ ہمّت کو چست باندھ کر اس رسالہ کو لکھا۔‘‘

الغرض اس کتاب میں حضورؓ نے علم کے جو دریا بہائے ہیں وہ خداتعالیٰ کی خاص تائید کے بغیر ممکن ہی نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے دینی و دنیاوی علوم پر جو دسترس آپؓ کو عطا فرمائی تھی اُس کا بیان الفاظ میں نہیں کیا جاسکتا۔ مختلف مضامین کو تفصیل سے بیان فرمانے کے بعد خداتعالیٰ کی توحید اور اُس کی صفاتِ کاملہ کا بیان کرتے ہوئے آپؓ نے اسلام کی دیگر مذاہب پر برتری اور قرآن کریم کی دیگر مذہبی کتب پر فوقیت کو جس شاندار طریق پر ثابت فرمایا ہے، بےشک یہ اندازِ بیان روح القدس کی تائید سے رونما ہوا ہے اور اس دَور میں ایسا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کسی غلام سے ہی ممکن تھا۔

کتاب کا حصہ دوم جو تناسخ کے حوالے سے لکھا گیا ہے وہ اپنے بیان کے لحاظ سے حرفِ آخر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس بے نظیر کتاب کو سند قبولیت عطا فرماتے ہوئے اس کے حوالے سے خوشنودی کا اظہار حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی تصنیف ’’فتح اسلام‘‘ میں بھی فرمایا ہے۔ حضورؑفرماتے ہیں: ’’حضرت مولوی صاحب علوم فقہ اور حدیث اور تفسیر میں اعلیٰ درجہ کے معلومات رکھتے ہیں۔ فلسفہ اور طبعی قدیم اور جدید پر نہایت عمدہ نظر ہے۔ فن طبابت میں ایک حاذق طبیب ہیں ہر ایک فن کی کتابیں بلاد مصر و عرب و شام و یورپ سے منگوا کر ایک نادر کتب خانہ طیار کیا ہے اور جیسے اور علوم میں فاضل جلیل ہیں مناظرات دینیہ میں بھی نہایت درجہ نظر وسیع رکھتے ہیں۔ بہت سی عمدہ کتابوں کے مؤلف ہیں۔ حال میں کتاب تصدیق براہین احمدیہ بھی حضرت ممدوح نے ہی تالیف فرمائی ہے جو ہر ایک محققانہ طبیعت کے آدمی کی نگاہ میں جواہرات سے بھی زیادہ بیش قیمت ہے۔‘‘ (فتح اسلام، روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 37 حاشیہ)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button