متفرق مضامین

حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ

(ایم۔ اے۔ شادؔ)

آنحضرت ﷺ کے ایک صحابی حضرت سلمان فارسیؓ تھے۔ آپ ملک ایران کے صوبہ اصفہان میں واقع ایک گاؤں جئی میں پیدا ہوئے۔آپ کے والد محترم کاشت کاری کیا کرتے تھے اور بہت بڑی جاگیر کے مالک تھے۔ آپ کے والد مجوسی مذہب کے پیرو کار تھے۔ آپ بھی اِن کے ساتھ آگ کی پوجا کرنے لگے۔ یہاں تک کہ آپ آگ کے ناظم بن گئے۔یہ بات آپ کے والد صاحب کو بڑی اچھی لگی۔ وہ آپ سے بہت پیار کیا کرتے تھے۔ہر وقت اپنے ساتھ ساتھ رکھتے تھے۔آپؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن والد محترم کو ایک ضروری کام پر جانا پڑا اور مجھے بلا کر زمینوں کی دیکھ بھال کرنے کے لیے کہااور ساتھ یہ نصیحت فرمائی کہ کام ختم ہوتے ہی گھر جلدی واپس آ جانا۔

آپؓ بیان کرتے ہیں کہ جب میں اپنی جاگیر کی طرف جارہا تھا تو رستہ میں عیسائیوں کا ایک گرجا دیکھا جس میں لوگ عبادت میں مصروف تھے۔مجھے اُن کو دیکھنے کے شوق اندر لےگیا۔اُن کی عبادت کو دیکھتے دیکھتے مجھے وقت کا خیال نہ رہا حتٰی کہ شام ہوگئی۔اُدھر میرے والد کو میری فکر دامن گیر ہوئی اور میری تلاش میں اپنے چند آدمی روانہ کیے۔لیکن ان کو میں نہ مل سکا۔ چنانچہ میں جب گھر آیا تو والد صاحب مجھے دیکھ کرحیران ہوئے۔آپ نے پوچھا کہ سارا دن کہاں رہےاوربتایا کہ تلاش کرنے کے لیے آدمی بھی بھجوائے تھے۔حضرت سلمان فارسیؓ نے اپنے والد محترم کو تمام بات بتائی اور کہا کہ عیسائیوں کا مذہب ہمارے مذہب سے بہتر ہے۔ان کے منہ سے یہ الفاظ سن کروالد صاحب کو فکرلاحق ہوئی اور سمجھانے لگے کہ تمہارے آباء واجداداسی مجوسی مذہب کے پیرو کارتھےاورایک لمباعرصہ اسی طریق پر عبادت کرتے آئے ہیں۔ یہی اُن کا دین ہے۔لیکن حضرت سلمان فارسیؓ کو تسلی نہ ہوئی۔چنانچہ آپ سارا دن گرجا گھر میں رہےاور لوگوں کو عبادت کرتے ہوئے دیکھتے۔ آپ بیان کرتے ہیں کہ میں نے اُن گرجا والوں سے پوچھا آپ کے مذہب کا مرکز کس جگہ ہے؟اُنہوں نے ملک شام کی طرف اشارہ کرکے بتایا۔مَیں نے اُن سے کہا کہ اگر کوئی قافلہ شام کی طرف جانے والا ہو تو مجھے بتانا۔

حضرت سلمان فارسیؓ کے دل میں یہ بات سما گئی کہ ہمارے دین سے یہ مذہب بہتر ہے۔جب آپ کے والد صاحب کو خطرہ محسوس ہوا تو انہوں نے آپؓ کو گھر میں قید کر دیا اور باہر جانے کی اجازت تک نہیں تھی۔

حضرت سلمان فارسیؓ ایک مرتبہ جب ملک شام سے تجارت کی غرض سے آیا ہوا ایک قافلہ واپس جانے لگا تواُن کے ساتھ گھر سے بھاگ کر شام چلے گئے۔

ملک شام پہنچ کر آپؓ اس بات کی تحقیق میں لگ گئے کہ یہاں کاسب سے بڑا عالم کون ہےتاکہ وہاں حاضر ہو کر مزید علم اور راہنمائی حاصل کرسکیں۔جس عالم کا پتا ملا اس کے پاس جاکر اُس کو علم حاصل کرنے کے بارے بتایا اور اُس کے ساتھ عبادت بھی کرتے۔آپؓ بیان کرتے ہیں کہ مجھے پتا چلا کہ وہ دین میں بُرا آدمی تھا۔ لوگوں کو صدقہ کا حکم دیتا تھالیکن جب لوگ اُس کو کچھ صدقہ دیتے تو وہ اُس کو اپنےپاس روک رکھتااور غریبوں کو نہ دیتا۔جب وہ فوت ہوا تو مَیں نے کہاکہ یہ اچھا آدمی نہیں ۔لوگوں نے حیران ہوکر پوچھا آپ یہ کیسے کہہ سکتے ہیں؟پھرآپ نے لوگوں کو ساتھ لےجاکر وہ خزانہ دکھایا جو اُس نے جمع کیا ہوا تھاجس میں سونے چاندی کا ڈھیر ذخیرہ چھپا رکھا تھا۔چنانچہ جو لوگ تدفین کے لیے آئے تھےاُنہوں نے اُسے لٹکا دیا اوردفن نہیں کیا۔

اُس شخص کی جگہ جو دوسرا عالم آیاوہ اچھا آدمی تھا۔ جب وہ بھی فوت ہونےلگا تو حضرت سلمان فارسیؓ بیان کرتے ہیں کہ مَیں نے اُس سے اپنی ساری داستان سنائی جس پرانہوں نے کہا کہ اللہ کی قسم! یہ لوگ اپنے دین پر قائم نہیں رہےجس پر اُن کے آباء وجداد تھے۔چنانچہ اس عالم نے حضرت سلمان فارسیؓ کو ایک شہر موصل جانے کی نصیحت کی اور بتایا کہ وہاں ایک عالم آدمی ہے جو ابھی تک مذہب پر قائم ہے۔

موصل شہر کی طرف روانگی

حضرت سلمان فارسیؓ بیان کرتے ہیں کہ مَیں سفر طے کرکے موصل پہنچا تو اُس آدمی کا پتا پوچھا اور اُس سے ملا۔چنانچہ آپؓ اُس کےپاس رہنے لگےاور اُس کے ساتھ عبادت بھی کرتے۔جب وہ عالم فوت ہونے لگا تو حضرت سلمانؓ وہاں ہی کسی دوسرے عالم کے پاس رہنے لگے ۔جب وہ بھی فوت ہونے لگے توانہوں نے اسے اپنی پوری داستان سنائی جس پر اس عالم نے آپؓ کو یہیں رہنے کا مشورہ دیا۔

جب حضرت سلمان ایک اور پادری کے پاس رہنے لگے اور اس کی موت کا وقت قریب آیا تو آپؓ نے ان سے عرض کی آپ تو فوت ہونے والے ہیں آپ میری راہنمائی فرما دیں۔ اس پر اُس عالم نے بھی اللہ کی قسم کھا کر کہا کہ یہ لوگ بے دین ہو چکے ہیں اور اپنا دین چھوڑ چکے ہیں۔ میں کسی اَورکوتو نہیں جانتا جس کے پاس بھجواؤں البتہ نصیبین میں ایک پادری عالم ہےاُس کے پاس چلے جانا۔

نصیین کاسفر

آپؓ بیان کرتے ہیں کہ مَیں سفرطے کرتا ہوا اُس پادری عالم کے پاس پہنچ گیااوراُس کے ہاں رہنے لگا۔ جب اس کی وفات قریب آئی تومیں نے عرض کی آپ مجھے کس کے سہارے پرچھوڑ کر جارہے ہیں؟اُس عالم نے نے کہا یہ تمام لوگ جو اس وقت میرے پاس موجود ہیں سب بے دین ہو چکے ہیں اوراپنے اصل مذہب پر قائم نہیں رہے۔ بہتر ہے کہ آپ شہر عموریہ چلے جائیں۔وہاں ایک پادری ہے جو ابھی تک اپنے دین پر قائم ہے ۔

عموریہ کا سفر

چنانچہ حضرت سلمان فارسیؓ وہاں چلے گئے اور پادری کو ساری بات سنائی جس پر انہوں نے کہا کہ میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں میں کسی ایسے عالم یا پادری کو نہیں جانتا جو اپنے اصل مذہب پر قائم ہو البتہ میں آپ کو ایک بات بتاتا ہوں ابھی نبی آخرالزمان کا دور شروع ہونے والا ہےجو ابراہیمی دین کا پیرو کار ہوگا اور وہ عرب کی سرزمین میں ظاہر ہوگا۔ وہ ہجرت کرے گا اور ایسے علاقے میں آباد ہوگاجس میں بہت زیادہ نخلستان ہوں گے۔اُس نے یہ بھی بتایا کہ اُس کی علامتیں کبھی بھی مخفی نہیں رہ سکیں گی۔اُس کے دونوں مونڈھوں(کندھوں) کے درمیان مہرنبوت ہوگی وہ ہدیہ کھاتا ہے اور صدقہ نہیں کھاتا۔اگر ہوسکے تو اُس کے پاس چلے جانا اور اسے شناخت کرنا۔یہ بات بتاکر وہ فوت ہوگیا۔

عرب سرزمین کا سفر

حضرت سلمان فارسی بیان کرتے ہیں کہ اتفاقاً بنو کلب کا ایک قافلہ جوعرب کی طرف جارہا تھا میرے پاس سےہوکر گذرا ۔میں نے اُن سے کہا کہ مَیں تمہارے ساتھ چلوں گا اور تم کو اس کے عوض اپنی گائیں اور بکریاں دے دوںگا۔ تم مجھے اپنے ساتھ عرب لے چلو۔ابتدائی طور پر تو وہ راضی ہوگئےلیکن بعد میں اُن کی نیت بدل گئی اور وادی القریٰ کی طرف ایک یہودی کے ہاتھ آپؓ کو فروخت کردیا۔ حضرت سلمان فارسیؓ اُس یہود کے پاس رہنے لگے۔جب وہاں موجود نخلستان دیکھتے تو سوچتے کہ شاید یہی وہ شہر ہےجس کا پادری نے ذکر کیا تھا لیکن آپؓ کا دل اس بات کو نہ مانتا تھا۔

مدینہ منورہ آمد

حضرت سلمان فارسیؓ اُس یہودی کے پاس رہتے تھے کہ ایک دن اُس کا چچازاد بھائی جو مدینہ کا رہنے والا تھا اُسے ملنے کے لیے آیا۔اُس کا تعلق قبیلہ بنو قریظہ سے تھا۔اُس نے حضرت سلمان فارسیؓ کو خرید لیا اور مدینہ لے گیا۔

آپؓ بیان کرتے ہیں کہ جس وقت میں نے یہ شہر دیکھا تو اللہ کی قسم !اسی وقت میں نے پہچان لیا کہ یہ وہی شہر ہے جس کا پادری نے مجھے بتایا تھا۔ میں خوشی خوشی اُس یہودی کےپاس رہنے لگاکہ اِسی دوران رسول کریمﷺکی نبوت کا چرچاہونے لگا۔اُس وقت آپﷺمکہ مکرمہ میں رہتے تھےاورمَیں غلامی کی زندگی بسر کر رہا تھا۔پھر آپؐ ہجرت کرکے مدینہ تشریف لائے۔

حضرت سلیمان فارسیؓ بتاتے ہیں کہ میں اپنے مالک کی سر زمین میں ایک درخت پر چڑھا ہوا کام کرنے میں مصروف تھا کہ اچانک آپؓ کے مالک آکر کہنےلگاکہ اللہ اوس اور بنو خزرج قبیلےکو ہلاک کرے۔وہ ایک وادی میں اکٹھے ہو رہے ہیںاور جوشخص مکہ سے ہجرت کرکے آیا ہےاُسے وہی نبی کہتے ہیں۔یہ بات سن کر میرا ساراجسم کانپنے لگا۔میرے جسم پر جھرجھری کی سی کیفیت طاری ہوگئی۔ میں نے اپنے مالک سے پو چھا آپ کیا کہہ رہے ہیں؟اس پر میرے مالک نے مجھے تھپڑ مارا اور بولا کہ اپنے کام سے کام رکھو اور یہاں سے چلے جاؤ۔

اگر کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت سلمان فارسیؓ کی فطرت میں سچائی کو پہچاننے کا خاص ملکہ رکھا ہوا تھا تو یہ بات غلط نہ ہو گی۔اگر آپؓ کے حالات زندگی کو ایک معجزہ قرار دیا جائے تو بھی مبالغہ نہ ہو گا۔کہاں آپؓ کامجوسی مذہب کے ماننے والوں کے گھر پیدا ہوئے اور پھر حق کے متلاشی بن کر اللہ تعالیٰ نے آپ کو کہاں سےکہاں پہنچا دیا۔کس ملک میں آپ کی جائے پیدائش ہوئی اور کہاں آپؓ نے محبوب خداﷺکے پاس رہ کر وہ مقام حاصل کیا جو دنیا کی بادشاہی سے بھی بڑا ہے۔جس کی تمنا کرتے لاکھوں اس جہان سے کوچ کر گئے لیکن اللہ یہ سعادت انہیں ہی عطا فرماتا ہے جو خالصتاً اُسی کے ہو کر رہتے ہیں۔آنحضرتﷺ نے ایک مرتبہ فرمایا کہ سلمان اہل بیت میں سے ہے۔کیا شان تھی حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی۔آپؓ پر اللہ تعالیٰ کا خاص فضل ہوا کہ آپﷺ کی صحبت میں رہ کرنہ صرف علم حاصل کیا بلکہ صحابہ میں ایک خاص مقام حاصل کیا۔ آپؓ کے علم کے بارے آپﷺنے بھی کہا کہ اے ابو درداء! سلمان تم سے زیادہ علم والا ہے۔

حضرت سلمان فارسیؓ نے آپﷺ کی تصدیق کرنے کے لیے پوری تگ و دَو کرنی شروع کر دی۔آپؓ نےکچھ مال جمع کر کے رکھا ہوا تھا۔اُسے ساتھ لے کر آپؓ آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی اے اللہ کے رسول!ﷺ میں کچھ صدقہ لےکر آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں۔آپ اسے قبول فرمالیں۔آپؐ نے وہ صدقہ قبول کر کے اپنے ساتھیوں میں تقسیم کر دیااور خوداُس میں سے کچھ نہ لیا۔حضرت سلمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیںکہ میں نے یہ واقعہ دیکھا تو میرے دل کو یقین ہو گیاکہ آپؐ ہی وہ نبی ہیں۔لیکن ابھی دو اور نشانیاں اور پوری ہونے والی تھیںجو پادری نے بتائی تھیں۔

کچھ وقت گذرنے کےبعد حضرت سلمانؓ نے کچھ تحفے اکٹھے کرکے آپﷺ کی خدمت میں لے کرحاضر ہوئےت۔اُس وقت آپﷺ مدینہ تشریف لا چکے تھے۔آپؐ نے خود بھی اس میں سے کھایا اور اپنے ساتھیوں کو بھی کھانے کو دیا۔ حضرت سلمانؓ بیان کرتے ہیں کہ مَیں یہ سارا ماجرا دیکھ کر دل ہی دل میں بہت خوش ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے دوسری نشانی بھی پوری کر دکھائی۔

کچھ وقت کے بعد سہ بار حضرت سلمان فارسیؓ آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔اس وقت آپؐ صحابہؓ کےساتھ ایک جنازے کے لیےالبقیع الغرقد میں تشریف رکھتے تھے۔اۤپؐ نے دو چادریں پہنی ہوئی تھیں۔حضرت سلمان فارسیؓ نے آپؐ کو سلام کیا اور آپؐ کی پشت پر مہرنبوت دیکھنے کے لیے آپؐ کے پچھلی طرف گیا۔جب آنحضرتﷺنے آپؓ کو پیچھے جاتے ہوئے دیکھا تو سمجھ گئے یہ نشانی دیکھنے کا خواہش مند ہے۔چنانچہ آپؐ نے اپنے دست مبارک سے چادر کا پہلو تھوڑا سا سرکایا تاکہ مہرنبوت دیکھی جا سکے۔اس پر حضرت سلمان فارسیؓ کو مکمل تسلی ہوئی اور بے اختیار مہر نبوت کو چوم کر رونے لگے۔آپؐ نے فرمایا اِدھر آؤاورآپؓ کو اپنے سامنے بٹھایا۔آپؓ حضورﷺ کے سامنے دوزانو بیٹھ گئے اور اپنی داستان سنائی۔آپؐ نے فرمایا اپنے مالک سے آزادی کا معاہدہ کرو۔ چنانچہ حضرت سلمانؓ نے اپنے مالک سے کھجور کے تین سو درختوں کے باغ اور چالیس اوقیہ سونےپر معاہدہ کرلیا۔نبی کریمﷺ نے صحابہ ؓکوفرمایا کہ اپنے بھائی کی کھجوروں کےدرختوں کے ساتھ مدد کرو۔چنانچہ صحابہؓ نےپانچ پانچ اور دس دس کھجوروں کےپودوں سے مدد کی یہاں تک کہ کھجور کےتین سو درخت جمع ہوگئے۔آپﷺ نے فرمایا اس کے واسطے کھالے کھودو مگر ان کو لگاؤ نہیںیہاں تک کہ میں خود ان کو لگاؤ ں۔چنانچہ صحابہؓ نے مل کر کھالوں کو کھودا ۔پھر حضرت سلمان فارسیؓ آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوئےتوآپﷺ تشریف لائے اور اپنے دستِ مبارک سے پودے لگاتے جاتے اور مٹی برابر کرتے جاتے۔پھر آپؐ واپس تشریف لے گئے۔حضرت سلمان فارسیؓ بیان کرتے ہیں کہ خدا کی قسم! اِن درختوں میں سے ایک بھی ضائع نہیں ہوا۔

اب سونا باقی رہ گیا۔آپﷺ کے ساتھیوں میں سے ایک انڈہ برابر سونا لایا جو اُسے کسی کان سے ملا تھا۔ابوطفیل نے سلمان سے روایت کی ہے کہ رسول اللہﷺ نے میری سونے سے مدد کی ۔آپؐ نےصحابہؓ سے فرمایا کہ اپنے اس بھائی کی اور بھی مدد کرو۔ سب نے میری بھرپور مدد فرمائی اور میں آزاد ہو گیا۔مَیں ہر وقت آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر دلی پیاس بجھاتا اور دلی سکون محسوس کرتا۔

آپﷺ نے جنگ خندق سے قبل صحابہؓ سے دفاع کرنے کے حوالے سے مشورہ کررہے تھے توآپﷺ نے حضرت سلمان فارسی ؓسے بھی پوچھا جس پر آپؓ نے خندق کھودنے کا مشورہ دیا۔ آنحضورﷺنے اس مشورے کوقبول فرمایا اور خندق کھودنے کا حکم دیا۔

حضورﷺ خود بھی اِس کام میں شامل ہوئے۔ایک دفعہ کھدائی کے دوران ایک سخت چٹان آگئی جو کسی صورت میں نہ ٹوٹتی تھی۔ جب آپﷺکی خدمت میں عرض کی گئی تو آپﷺ تشریف لاکر ضرب لگاکر اُسے ٹکڑےٹکڑے کر دیا۔

اس موقع پر صحابہؓ بھوک کی وجہ سے پیٹ پر پتھر باندھتے تھے۔ جب آپؐ کی خدمت میں صحابہؓ نے عرض کی تو آپؐ نے اپنے پیٹ سے کپڑا ہٹاکر دکھایا کہ آپ نے بھی دو پتھر باندھے ہوئے تھے۔ اسے دیکھ کر صحابہؓ میں ایک نیا جوش پیدا ہوااورخندق کی کھدائی کا کام تیز ہو گیا۔

جنگ خندق میں حضرت سلمان فارسی ؓایک آزاد مسلمان کی حیثیت سے شامل ہوئے اور اس کے بعد آپؓ کسی جنگ میں پیچھے نہ رہے۔جنگ بدر اور جنگ احد میں غلامی کی وجہ سے آپؓ شامل نہیں ہوسکے۔

آپ کا نام حضرت سلمان فارسیؓ اور کنیت ابو عبداللہ اور آپ سلمان الخیر کے لقب سے مشہور تھے۔آپؓ عبادت گذار تھے اور آپؓ کا شمار کبار صحابہ میں ہوتا ہے۔

جب آپؓ سے کوئی حسب و نسب پوچھتا تو فرماتے کہ میں سلمان بن اسلام ہوں۔ مہاجر کہتے کہ یہ ہم میں سے ہیں اور انصار کہتےکہ سلمان ہم میں سے ہیں ۔لیکن آپﷺ نے فرمایا سلمان ہم اہل بیت میں سے ہیں۔

آنحضرتﷺ نے آپؓ کو حضرت ابو دراءؓ کا بھائی بنایا تھا۔ایک دفعہ آپ ان کے گھر تشریف فرما ہوئے تو حضرت ابو درداءؓ کی بیوی کی حالت دیکھی کہ وہ پرانے کپڑے پہنے بیٹھی تھی۔حضرت سلمانؓ نےپوچھا کہ یہ آپ نے کیا حال بنایا ہوا ہے؟اس پر حضرت ابو درداءؓ کی بیوی نے کہا کہ آپ کے بھائی کو دنیا کی ضرورت نہیں۔میں کس کے لیے تیار ہوا کرں؟آپ کے بھائی کوعبادت سے فرصت ہی نہیں ملتی۔وہ سارا دن روزہ رکھتا ہے اور پوری رات عبادت کرتا ہے۔میری طرف توجہ ہی نہیں دیتا۔

ایک مرتبہ جب حضرت سلمان فارسی ؓگھر آئے تو حضرت ابو درداءؓ کو دسترخوان پر نہ پا کر دریافت کیا کہ وہ کہاں ہیں۔ آپؓ کو بتایا گیا کہ وہ روزے سے ہیں۔ اس پر آپؓ نے فرمایا کہ میں بھی اُس وقت تک کھانا نہیں کھاؤں گا جب تک ابو درداءؓ نہ کھائیں گئے۔ پھر دونوں نے مل کر کھانا کھایا۔

ایک مرتبہ حضرت سلمان فارسیؓ نے حضرت ابو درداءؓ کے ہاں ایک رات گذاری۔جب رات کا کچھ حصہ گزر گیا تو حضرت ابو درداءؓ تہجدادا کرنے کے لیے اٹھنے لگے جس پر حضرت سلمانؓ نے منع کر دیا۔ کچھ دیر بعد پھر اُٹھنے کے لیے تیار ہوئے توحضرت سلمان ؓنے پھر منع کر دیا۔ جب آدھی رات سے زیادہ کا وقت گذر گیا تو حضرت سلمانؓ نےاٹھنے دیااور کہا تمہارے جسم کا بھی تم پر حق ہے اور تمہاری بیوی کا بھی تم پر حق ہے۔ان کو پورا کرنا فرض ہے۔

ایک دفعہ کچھ صحابہؓ نےاۤنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکرحضرت سلمان کی طرف اشارہ کرکے عرض کی کہ یہ کہتا ہے کہ ساری رات عبادت نہیں کرنی چاہیے۔ توآپﷺ نے فرمایا سچ کہا ہے۔

ایک دن حضرت سلمان فارسی ؓجمعہ کے دن حضرت ابو درداءؓ کے ہاں تشریف لے گئے تو آپ کو بتایا گیاکہ وہ سو رہےہیں۔آپؓ نے وجہ پوچھی تو،معلوم ہوا کہ جمعہ کی رات ساری رات عبادت کرتے ہیں اور پھر جمعہ کو روزہ رکھتےہیں۔ حضرت سلمان فارسیؓ نے جمعہ کے دن کھانا تیار کروا کر حضرت ابو درداءؓ سے کہا کہ کھاؤ۔اُنہوں نے کہا میں روزے سے ہوں۔ لیکن زور دینے سے بالآخر اُنہوں نے کھا لیا۔پھر دونوں نبی کریمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سارا واقعہ سنایا جس پر آنحضرتﷺ نے حضرت سلمان فارسیؓ کی ران پر ہاتھ مار کر فرمایا کہ اے ابو درداء! سلمان تم سے زیادہ علم والا ہے۔آپ نے تین مرتبہ یہ فرمایا۔ اورفرمایا آئندہ سے جمعہ کی رات عبادات کے لیے مقرر نہ کیا کرو اور نہ ہی جمعہ کا دن (نفلی)روزہ رکھا کرو۔

حضرت سلمان فارسیؓ بڑے نرم دل اور عبادت گذار تھے۔آپ نے لمبی عمر پائی اور ۳۵؍ہجری میں اللہ کو پیارے ہوئے۔(اس مضمون میں معلومات درج ذیل کتب سے ماخوذ کی گئی ہیں:اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ جلد اوّل صفحہ۹۴۹،حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ از مولانا عبد الحلیم شرر،بک کارنر جہلم)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button