متفرق مضامین

اَناکوکبٌ یمانیٌّ ووابلٌ رُوحانیٌّ

(فرید احمد ریحان۔ جرمنی)

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے معرکہ آرا خطبہ الٰہامیہ میں مذکور اَناکوکبٌ یمانیٌّ ووابلٌ رُوحانیٌّ یعنی میں یمانی ستارہ ہوں اور روحانی بارش ہوں کے پوراہونے کے نظارے

کارخانہ قدرت میں مو جود ہر شے بشمول اجرام فلکی ہستی باری تعالیٰ کی نشا نیاں ہیں۔قرآن مجید فرقان حمیدمیں ارشاد خداوندی ہے کہ اِنَّ فِیۡ خَلۡقِ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ وَاخۡتِلَافِ الَّیۡلِ وَالنَّھَارِ لَاٰیٰتٍ لِّاُولِی الۡاَلۡبَابِ۔[1]ترجمہ: یقیناً آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں اور رات اور دن کے ادلنے بدلنے میں صاحبِ عقل لوگوں کے لئے نشانیاں ہیں۔ حضرت اقدس مسیح موعودؑ مندرجہ بالا آیت کریمہ کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ’’آسمانوں کی بناوٹ اورزمین کی بناوٹ اوررات اور دن کا آگے پیچھے آنادانشمندوں کو اس اللہ کا صاف پتہ دیتے ہیں جس کی طرف مذہب اسلام دعوت کرتا ہے۔اس آیت میں کس قدر صاف حکم ہے کہ دانشمند اپنی دانشوں اور مغزوں سے بھی کام لیں اور جان لیں کہ اسلام کا خدا ایسا گورکھ دھندا نہیں کہ اسے عقل پر پتھر مار کربجبر منوایا جائے اور صحیفۂ فطرت میں کوئی بھی ثبوت اس کے لئے نہ ہوبلکہ فطرت کے وسیع اوراق میں اس کے اس قدر نشانات ہیں جو صاف بتلاتے ہیں کہ وہ ہے۔ایک ایک چیز اس کائنات میں اس نشان اور تختہ کی طرح ہےجو ہر سڑک یا گلی کے سر پراس سڑک یا محلہ یا شہر کا نام معلوم کرنے کےلئے لگائے جاتے ہیں،خدا کی طرف راہنمائی کرتی ہے اور اس مو جود ہستی کا پتہ ہی نہیں بلکہ مطمئن کردینے والا ثبوت دیتی ہے۔زمین وآسمان کی شہادتیں کسی مصنوعی اوربنا وٹی خدا کی ہستی کا ثبوت نہیں دیتیں بلکہ اس خدائے اَحد الصَّمَدُ لَمۡ یَلِدۡوَلَمۡ یُوۡلَدۡ کی ہستی کو دکھاتی ہیں جو زندہ اور قائم خدا ہے اور جسے اسلام پیش کر تا ہے۔طبعی تحقیقا تیں جہاں تک ہوتی چلی جائیں گی وہاں توحید ہی توحید نکلتی چلی جائے گی۔اللہ تعالیٰ اس آیت اِنَّ فِیۡ خَلۡقِ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ الآیۃمیں بتلاتا ہے کہ جس خدا کو قرآن پیش کرتاہے اس کے لئےزمین آسمان دلائل سے بھرے پڑے ہیں۔‘‘[2]

ایک اور موقع پر حضرت اقدس مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ’’…قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی قولی کتاب ہے اور قانون قدرت اس کی فعلی کتاب ہے۔‘‘[3]

قرآن مجید فرقان حمید میں ارشاد خداوندی ہے کہ وَالشَّمۡسَ وَالۡقَمَرَ وَالنُّجُوۡمَ مُسَخَّرٰتٍۭ بِاَمۡرِہٖ[4]۔ترجمہ: اور سورج اور چاند اور ستارے (پیدا کئے) جو اس(یعنی اللہ تعالیٰ ) کے حکم سے مسخر کئے گئے ہیں‘‘۔ چونکہ سارے کا سارا کارخانہ قدرت مالکِ کائنات کی زیر نگرانی چل رہا ہے لہٰذا صنعتِ زمین و آسمان میں موجود اشیاء اوراجرام فلکی کی قدرتی حرکات وسکنات اور بعض تغیرات جوخاص اوقات میں ظاہر ہو تے ہیں قا در مطلق خداکے منشا ء سے دنیا میں ظہور پذیر ہونےوالے واقعات کا پتہ بھی دیتے ہیں۔جیسا کہ آنحضرتؐ کی پیشگوئی کے مطابق مہدی موعودؑ کی صداقت کے نشان کے طورپر،غیر معمولی اور معین طورپررمضان کے مہینہ میں چاند اور سورج کو گرہن لگنا(حدیث کسوف وخسوف) [5]قرآن مجید فرقان حمید میں ارشاد خداوندی ہے کہ فَلَاۤ اُقۡسِمُ بِمَوٰقِعِ النُّجُوۡمِ[6]۔ترجمہ: پس میں ضرور ستاروں کے جھرمٹوں کو گواہ کے طور پر پیش کرتا ہوں۔یعنی اللہ تعالیٰ فرما رہے ہیں کہ میں مواقع النجوم کی قسم کھاتا ہوں۔‘‘[7]

حضرت اقدس مسیح موعودؑ مندرجہ بالا آیت کریمہ کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ’’اس جگہ اللہ جلّ شانہ نےمواقع النجوم کی قسم کھاکر اِس طرف اشارہ کیا کہ جیسے ستارے نہایت بلندی کی وجہ سےنقطوں کی طرح نظر آتے ہیں مگر وہ اصل میں نقطوں کی طرح نہیں بلکہ بہت بڑے ہیں ایسا ہی قرآن کریم اپنی نہایت بلندی اور علو شان کی وجہ سے کم نظروں کے آنکھوں سے مخفی ہے اور جن کی غبار دور ہو جاوے وہ اُن کو دیکھتے ہیں…‘‘۔آپؑ مزید فرماتے ہیں کہ ’’فَلَاۤ اُقۡسِمُ بِمَوٰقِعِ النُّجُوۡمِ تو سمجھتا ہے کہ اس قول میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ستاروں اور ان کے مواقع کوزمانِ نبوت اور نزول وحی کے تجسّس سے ایک تعلق ہے۔اسی لئے کہا گیا ہے کہ بعض ستارے صرف کسی نبی کے وقت میں ہی نکلتے ہیں۔پس مبارک ہیں وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کے اشاروں کو سمجھتے ہیں پھر انہیں متقیوں کی طرح قبول کرتے ہیں‘‘[7]۔

انسانی زندگی میں ستاروں کی اہمیت

اللہ تعا لیٰ نے سورج،چاند اورستارےانسان کے فائدہ کے لیےپیدا فر مائے ہیں۔مثلاًستاروں کو دیکھ کر انسان اندھیروں میں راستہ کا تعین کرتا ہے۔اللہ تعالیٰ قرآن مجیدفرقان حمید میں فرماتا ہے:وَ هُوَ الَّذِیۡ جَعَلَ لَکُمُ النُّجُوۡمَ لِتَهۡتَدُوۡا بِهَا فِیۡ ظُلُمٰتِ الۡبَرِّ وَ الۡبَحۡرِ ؕ قَدۡ فَصَّلۡنَا الۡاٰیٰتِ لِقَوۡمٍ یَّعۡلَمُوۡنَ۔[8] ترجمہ: اور وہی ہے جس نےتمھارے لئے ستاروں کو پیدا کیا ہےتا کہ تم اُن کےذریعہ سے خشکی اور تَری کی مشکلات میں راہ معلوم کرو۔ہم نے علم والی قوم کے لئے نشانات کھول کر بیان کر دیئے ہیں۔‘‘ [9]

قرآن مجید کی انگریزی زبان میں پانچ جلدوں میں شائع ہونےوالی تفسیر کے مطابق: ’’جب اللہ تعالیٰ نے جسمانی دنیا میں رات کے اوقات میں راہنمائی کے لیے ستارے بنائے ہیں تو کیا وہ روحانی دنیا میں انسان کی راہنمائی کے لیے کوئی ستارے نہیں بنائے گا؟ انسان کی روحانی بہبود اس کی جسمانی بہبود سے بہت زیادہ اہم ہے۔ جب انسان کی دنیاوی بھلائی کے لیے راہنمائی کے اسباب پیدا کئے ہیں توکیا یہ اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ کو گمراہ انسانیت کی روحانی راہنمائی کے لیے بھی اسباب مہیّا کرنے چاہئیں؟ پس ستاروں کی طرح جو رات کی تاریکی میں مسافروں کی راہنمائی کرتے ہیں، اسی طرح انبیاء اور مرسلین گمراہ لوگوں کی روحانی تاریکی میں راہنمائی کرتے ہیں۔‘‘[10]

مندرجہ بالا آیت کریمہ پر روشنی ڈالتےہوئےحضرت الحاج حکیم مولوی نورالدین خلیفۃ المسیح الاوّلؓ فرماتے ہیں کہ’’جَعَلَ النُّجُوۡمَ لِتَهۡتَدُوۡا بِهَا: ایک ستارہ تو وہ ہےجس پرتمام جہازرانی موقوف ہےیعنی قطب۔قطب نما ایسی چیز ہے کہ آج کل تمام جہاز اسی پر چلتےہیں[یعنی اُس زمانے میں]۔عرب دوسرے ستاروں سے بھی بہت کام لیتےاور راہ پاتے۔خدا تعالیٰ یہ تمام نظارےاپنی قدرت کےبیان فر ما کر سمجھاتا ہےکہ بڑا ہی نادان ہےجو مسئلہ نبوّت کا منکرہے۔ان معمولی پڑاؤں اورمنزلوںکےلئے تو اس نےراہنمائی کا اتنابڑاسامان مہیّا کیااور اس کی سنّت ہو کہ ظلمت کے بعد روشنی عطا کرےلیکن اپنےحضور پہنچنے کےلئےکوئی شمس کوئی قمرکوئی ستارہ نہ ہو یہ ہر گز نہیں ہو سکتا۔اے منکرانِ نبوّت جب تم فعلِ الٰہی سے نفع اٹھا رہے ہوتو قول الٰہی سے بھی اٹھاؤ۔‘‘[11]

حضرت الحاج مرزا بشیرالدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی و مصلح مو عودؓ فرماتے ہیں کہ’’…دنیا بھر میں سطح زمین یکساں اور مشابہ نہیں۔بلکہ نشیب و فراز،پانی، خشکی،جنگل اور بیابان زمینوں کی مٹی کے فرق اس قدر ہیں کہ ان کے ذریعہ سے انسان راستہ معلوم کر لیتا ہے…ایک آسمانی ذریعہ بھی ہےجو رات کی تاریکی اور سمندر میں کا م آ تا ہے اور وہ ستارے ہیں۔ان کو دیکھ کر انسان اپنے راستے کو معلوم کر تا ہے۔یہی حال روحانی سفر کا ہے…اسی طرح ستاروں کی طرح انبیاء کا وجود ہےکہ ان کے مقام سے بھی انسان روحانی سیر میں راستہ پاتا ہے۔‘‘ [12]

اسی طرح ظاہری طور پرآسمان پر ستاروں کا ٹوٹنا کسی مصلح یانبی کی آمد کی پیش خبری کے طور پرلیا جاتا ہے۔ اس سلسلہ میں حضرت اقدس مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ’’جہاں تک پتہ لگ سکتا ہے۔مفسرین بھی لکھتے ہیں کہ پیغمبرخدا ﷺکے دعویٰ سے پہلےبہت ستا رے ٹوٹے تھےاور یہاں بھی شاید 1885ءمیں ہمارے دعویٰ سے پہلےبہت سےستا رے ٹوٹے تھے۔ایک لشکر کا لشکراس طرف سے اُس طرف چلا جاتا تھا اور اُس طرف سے اس طرف چلا آتا تھا۔‘‘[13]ایک اور مو قع پرحضرت اقدس مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ’’… آنحضرتؐ کی بعثت کے وقت حد سے زیادہ سقوط شہب ہواجیسا کہ سورۃ الجنّ میں خدا تعالیٰ نے اس واقعہ کی شہادت دی ہےاور حکا یتاً عن الجنّات فرماتا ہے وَاَنَّا لَمَسۡنَا السَّمَآءَ فَوَجَدۡنٰھَا مُلِئَتۡ حَرَسًا شَدِیۡدًا وَّشُھُبًا۔ وَّاَنَّا کُنَّا نَقۡعُدُ مِنۡھَا مَقَاعِدَ لِلسَّمۡعِ ؕ فَمَنۡ یَّسۡتَمِعِ الۡاٰنَ یَجِدۡ لَہٗ شِھَابًا رَّصَدًا یعنی ہم نے آسمان کو ٹٹولا تواُس کو چوکیداروں سےیعنی فر شتوں سےاور شعلوں سے بھرا ہوا پایااور ہم پہلے اِس سےامور غیبیہ کے سننے کے لئے آسمان میں گھات میں بیٹھا کرتے تھےاور اب جب ہم سننا چاہتے ہیں تو گھات میں ایک شعلے کو پاتے ہیں جو ہم پر گرتا ہے۔ان آیات کی تائید میں کثرت سے احادیث پائی جاتی ہیں۔بخاری،مسلم،ابو داؤد،ترمذی،ابن ما جہ وغیرہ سب اِس قسم کی حدیثیں اپنی تا لیفات میں لا ئے ہیں کہ شہب کا گرناشیاطین کے ردّ کر نے کے لئے ہوتا ہےاور امام احمد ابن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ شہب جاہلیت کے زما نہ میں بھی گرتے تھےلیکن ان کی کثرت اور غلظت بعثت کے وقت میں ہوئی چنانچہ تفسیر ابن کثیر میں لکھا ہےکہ آنحضرتﷺ کے وقت میں جب کثرت سے شہب گرے تو اہلِ طائف بہت ہی ڈر گئے اور کہنے لگے کہ شایدآسمان کے لوگوں میں تہلکہ پڑ گیا تب ایک نے ان میں سے کہاکہ ستاروں کی قرار گاہوں کو دیکھواگر وہ اپنے محل اور موقعہ سے ٹل گئے ہیں توآسمان کے لوگوں پر کوئی تباہی آئی ورنہ یہ نشان جو آسمان پر ظاہر ہوا ہےابن ابی کبشہ کی وجہ سے ہے ( وہ لوگ شرارت کے طور پر آنحضرتؐ کو ابن ابی کبشہ کہتے تھے)غرض عرب کے لوگوں کے دلوں میں یہ بات جمی ہوئی تھی کہ جب کوئی نبی دنیا میں آتا ہےیا کوئی اورعظیم الشان آدمی پیدا ہوتا ہے تو کثرت سے تارے ٹوٹتے ہیں۔‘‘ [14]

پس ستاروں کا تعلق انسان کی جسمانی اورروحانی زندگی دونوں سے ہے۔روحانی دنیا میں انبیاء کے وجود ستاروں کی ما نند ہو تے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مخلوق کی راہنمائی کے لیے مبعوث ہوتے ہیں اور مخلوق کو ظلمت وگمراہی سے نکال کر روشنی اور ہدایت کا راستہ دکھاتے ہیں۔ اسی طرح آسمان پرکثرت سے ستاروں کا ٹوٹنا کسی نبی یا مرسل کی آمد کی پیش خبری کے طورپر لیا جاتا ہے جیسا کہ جزیرہ نما عرب میں یہ بات مشہور تھی کہ جب کوئی نبی دنیا میں آتا ہےیا کوئی عظیم الشان آدمی پیدا ہوتا ہے تو کثرت سے ستارے ٹوٹتے ہیں۔مزید یہ کہ زمانہ قدیم سے یہ بات بھی دنیا میں رائج ہے کہ بعض ستاروں کا سال کے کسی حصہ میں طلوع ہونا یا ظاہر ہونا مستقبل قریب یا بعید میں پیش آنے والےواقعات کی پیش خبری کے طور پر لیا جاتا ہے۔مثال کے طورپر’’شعریٰ ستارہ‘‘ (جو کہ ایک یمانی ستارہے)جس کا ذکر قرآن مجید فرقان حمید کی سورۃ النّجم میں ہے ۔[15]

انسانی زندگی میں بارش کی اہمیت

اللہ تعالیٰ بارش کی صورت میں آسمان سے میٹھا پانی نازل فرماتا ہے تا کہ انسان زندہ رہ سکیں۔ قرآن مجید میں ارشادخداوندی ہے کہ’’اَمَّنۡ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضَ وَاَنۡزَلَ لَکُمۡ مِّنَ السَّمَآءِ مَآءً ۚ فَاَنۡۢبَتۡنَا بِہٖ حَدَآئِقَ ذَاتَ بَھۡجَۃٍ ۚ مَا کَانَ لَکُمۡ اَنۡ تُنۡۢبِتُوۡا شَجَرَھَا ؕ ءَاِلٰہٌ مَّعَ اللّٰہِ ؕ بَلۡ ھُمۡ قَوۡمٌ یَّعۡدِلُوۡنَ۔[16]ترجمہ: یا (یہ بتاؤ کہ) کون ہے وہ جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور تمہارے لیے آسمان سے پانی اُتارا اور اس کے ذریعہ ہم نے پُررونق باغات اُگائے۔ تمہارے بس میں تو نہ تھا کہ تم ان کے درخت پروان چڑھاتے۔ (پس) کیا اللہ کے ساتھ کوئی (اور) معبود ہے؟ (نہیں نہیں ) بلکہ وہ ناانصافی کرنے والے لوگ ہیں۔‘‘

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓمندرجہ بالا آیت کریمہ کی تفسیر کرتے ہوئےفرماتے ہیں کہ’’پھر اس جگہ اللہ تعالیٰ نے ظاہری پیدائشِ عالم کو پیش کر کے روحانی پیدائش کی طرف بھی اشارہ کیا ہے۔اور بتایا ہے کہ جس طرح مادی دنیا میں زمین وآسمان کی پیدائش اوربادلوں سے بارش نازل ہونے کا سلسلہ جاری ہےاِسی طرح روحانی دنیا میں بھی ایسا ہی قانون جاری ہے۔اور انبیاء کی آمد بھی ایک بارش سے مشابہت رکھتی ہےجس طرح وہ بادل جو ضرورت کے مطابق اور لمبے انتظار کے بعدخشک زمین پر برستا ہےجب لوگ گرمی کی شدّت اور حبس کی تکلیف کی وجہ سے بے کل ہو رہے ہوتے ہیں۔‘‘[17]

حضرت خلیفۃا لمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرماتے ہیں کہ ’’اگر انصاف اورعقل کو استعمال کرو گے تواس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتاکہ زمین وآسمان کو پیدا کرنے والا ایک خدا ہے۔اور پھر پیدا کرکے چھوڑ نہیں دیابلکہ فرمایا کہ وَاَنْزَلَ لَکُمْ مِّنَ السَّمَآءِ مَآءً [16]کہ تمہارے لئے آسمان سے پانی اتارہ ہے تاکہ تمہاری زندگی قائم رہ سکے۔ …اگرخدا تعالیٰ نے جسمانی ضروریات کے لئے سامان مہیا فرمائے ہیں اور اپنی صفت ربوبیت کے تحت ہماری پیدائش کے سامان مہیا فرما رہا ہے تو انسانی پیدائش کا جو یہ مقصد ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی عبادت کرنے والا بنے،اس کے لئے کیوں انتظام نہ فرماتا۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس مقصد کی یاد دہانی کے لئے انبیاء کانظام ہے جو اس طرف توجہ کرواتا ہے۔وہ روحانی پانی انبیاء کے ذریعے نازل ہوتا ہے۔‘‘[18]’’پس اب قرآنی فیض کے چشمے جوہیں وہ بھی اسی عاشق صادقؑ(یعنی حضرت اقدس مسیح مو عودؑجو آنحضرت ؐ کے عاشق صادق ہیں)کی صحبت سے جاری ہونے ہیں۔پس عقل والوں کے لئے غور اورفکر کا مقام ہے۔ کان رکھنے والوں کے لئے سننے کا پیغام ہے۔پس توجہ کریں اور سنیں ۔‘‘[19]

میں وہ پانی ہوں کہ آیا آسماں سے وقت پر

میں وہ ہوں نور ِخدا جس سے ہوا دن آشکار[20]

حضرت اقدس مسیح مو عودؑ فرماتے ہیں کہ’’قرآن شریف نے انبیاء رسل کی بعث کی مثال مینہ سے دی ہے: وَالۡبَلَدُ الطَّیِّبُ یَخۡرُجُ نَبَاتُہٗ بِاِذۡنِ رَبِّہٖ ۚ وَالَّذِیۡ خَبُثَ لَا یَخۡرُجُ اِلَّا نَکِدًا۔یہ تمثیل اسلام کی ہےجب کوئی رسول آتا ہے توانسانی فطرتوں کے سارےخواص ظاہر ہو جاتے ہیں۔ان کے ظہور کا یہ خاصہ اور علامات ہیں کہ مخلص سعیدالفطرت اورمستعد طبیعت کے لوگ اپنے اخلاص اور ارادت میں ترقی کر تے ہیں اور شریر شرارت میں بڑھ جاتے ہیں۔‘‘[21]

پس انبیاء کا ظہور سعید فطرت لوگوں کے لیے روحا نی با رش یا روحانی پانی کی ما نند ہوتاہے جو عین اس وقت نازل ہوتا ہےجب اس کی ضرورت ہوتی ہے۔شرارت میں بڑھے ہوئے شریر لوگوں کی شرارتوں کے مقابلہ کے لیےبھی اللہ تعالیٰ اپنے انبیاء اور رسل کو خاص طاقت وقوت اور نصرت عطا فرماتا ہے۔

مندرجہ بالا تفصیلی تمہید بیان کرنے کامقصد یہ ہے کہ قرآنی اصول کے مطابق اللہ تعالیٰ نے حضرت اقدس مسیح موعودؑ کوالہامی طور پر براہ راست میٹھا پانی اورروحانی بارش قرار دیا ہے۔اسی طرح آنحضرتؐ کی نیابت میں ربّ کائنات نے حضرت اقدس مسیح مو عودؑ کو وہ طاقتیں اورقوتیں بھی عطا فرمائی ہیں جو اس زمانہ میں اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے لیے درکار ہیں۔ان باتوں اورطاقتوں کا ذکرحضرت اقدس مسیح مو عودؑ کے عربی خطبہ الہامیہ میں بڑی وضاحت کے ساتھ موجود ہےجو نہ صرف دنیا میں بسنے والے عام انسانوں کےلیے مقام فکر ہے بلکہ سائنسی دنیا کے بڑے بڑے ماہر فلکیات کے لیے بھی سوچنے کا مقام ہے کہ طاقتوں کا مالک خدا کس طرح اپنے کارخانہ قدرت سے لیس مسیح محمدیؑ کی حمایت میں کھڑا ہے۔وہ دن دور نہیں جب دنیا کے سائنسی علوم پکار پکار کر گواہی دیں گے کہ حضرت اقدس مسیح مو عودؑ سچے ہیں اورآپؑ کو اللہ تعالیٰ نے وہ طاقتیں عطا فرمائی ہیں جن کے سامنے دنیا کی بڑی بڑی طاقتیں ہیچ ہیں۔

حضرت اقدس مسیح موعودؑ کاخطبہ الہامیہ

مورخہ 11؍اپریل 1900ء کو عیدالاضحى کی نماز ادا کرنے کے بعدحضرت اقدس مسیح موعودؑ نےخدائے بزرگ وبرتر کے حکم سے ’’عربی زبان‘‘ میں ایک خطبہ ارشاد فرمایاجو خطبہ الہامیہ کے نام سے مشہورومعروف ہے۔اس خطبہ کی اشاعت اکتوبر 1902ء کے بعد ہوئی۔

خطبہ الہامیہ خدا کے نشانوں میں سے ایک عظیم نشان ہے۔اس عظیم الشان خطبہ کے ٹائیٹل پیج پر حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے تحریر فرمایا ہے کہ’’یہ وہ کتاب ہے جس کا ایک حصہ ربّ العباد کی طرف سے ایک عید کے روز مجھے الہام ہواتو میں نے اسے روح الامین کے قوت گو یائی بخشنے سے حاضرین پر پڑھا۔بغیر کسی تحریروتدوین کی مدد سے۔یہ خدا کے نشانوں میں سے ایک عظیم نشان ہے‘‘(اردوترجمہ)[22]

حضرت اقدس مسیح مو عودؑ کے صحابی حضرت میاں امیرالدین صاحب ؓبیان کر تے ہیں کہ’’حضرت صاحبؑ جو خطبہ سنا کر نکلے توراستے میں فرمایا ’’جب میں ایک فقرہ کہہ رہا ہوتا تھا تو مجھے پتہ نہیں ہوتا تھا کہ دوسرا فقرہ کیا ہوگا۔لکھا ہوا سامنے آجاتا تھا اور میں پڑھ دیتا تھا‘‘۔حضرت میاں امیرالدین صاحب ؓبیان کرتے ہیں کہ حضوربہت ٹھہر ٹھہر کر اور آہستہ آہستہ پڑھ رہے تھے۔‘‘[23]

حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ فرماتے ہیں کہ’’یہ علمی معجزہ آپؑ کانہایت زبر دست معجزات میں سے ہے کیونکہ ایک تو اُن معجزات پر اسے فوقیت حاصل ہے جو زیادہ اثر صرف اس وقت کے لو گوں پر کرتے ہیں جو دیکھنے والے ہوں۔ دوم اس معجزہ کا اقراردشمنوں کی زبانوں سے بھی کرادیا گیا ہے[دشمنوں کی زبانوں سے اقرارکی تفصیل کے لیے دیکھیےحوالہ [24]]اب جب تک دنیا قائم ہے یہ معجزہ آپؑ کابھی قائم رہے گا اور قرآن کریم کی طرح آپؑ کے دشمنوں کے خلاف حجّت رہے گااورروشن نشان کی طرح چمکتا رہے گا۔‘‘[25]

عربی خطبہ الہامیہ کے چند جملے مع اردو ترجمہ

اس عربی الہامی خطبہ میں حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی زبان مبارک سے یہ الفاظ بھی جاری ہوئے کہ’’…أَیُّھَا النَّاسُ اِنِّیْ اَنَا الْمَسِیْحُ الْمُحَمَّدِیُّ۔ وَاِنِّیْ اَنَا أَحْمَدُ الْمَھْدِیُّ وَاِنَّ رَبِّیْ مَعِیَ اِلٰی یَوْمِ لَحْدِیْ مِنْ یَّوْمِ مَھْدِیْ۔ وَاِنِّیْ أُعْطِیْتُ ضِرَامًا اَکَّالًا۔ وَمَاءً زُلَالًا وَاَنَا کَوْکَبٌ یَمَانِیٌّ۔ وَوَابِلٌ رُوْحَانِیٌّ۔ اِیْذَائِیْ سِنَانٌ مُذَرَّبٌ۔ وَدُعَائِیْ دَوَاءٌ مُجَرَّبٌ۔ ترجمہ:…اے لوگو!میں وہ مسیح ؑہوں جو محمدیؐ سلسلہ میں سے ہے۔اور میں احمد مہدیؑ ہوں۔اور سچ مچ میرا ربّ میرے ساتھ ہےمیرے بچپن سے لے کر میری لحد تک۔ اور مجھ کو وہ آگ ملی ہے جو کھا جانے والی ہے۔ اور وہ پانی جو میٹھا ہے۔ اور میں یمانی ستارہ ہوں۔اور روحانی بارش ہوں۔میرا رنج دینا تیز نیزہ ہے۔اور میری دعا مجرب دوا ہے…۔‘‘[26]

اللہ تعالیٰ نے حضرت اقدس مسیح مو عود ؑکواِس زمانے کے لیے زندگی بخش میٹھا پانی اور روحانی بارش قرار دیا ہے۔چنانچہ خطبہ الہامیہ کے عربی الفاظ مع اردو ترجمہ درج ذیل ہیں: ’’وماءًا زُلالًا۔… ووابلٌ روحانیٌّ۔ترجمہ:اور(مجھے)وہ پانی (ملا ہے) جو میٹھاہے …اور(میں) روحانی بارش ہوں۔‘‘[26]روحانی طور پر انبیاءکا ظہور زندگی بخش آسمانی پانی اور روحانی بارش سے مشابہ ہوتا ہے۔قرآن شریف نے بھی انبیاء اور رسل کی بعثت کی مثال مینہ سے دی ہے۔[16-21]لہٰذا خطبہ الہامیہ میں اللہ تعالیٰ نے براہ راست حضرت اقدس مسیح موعودؑ کو ’’میٹھا پانی‘‘ اور’’ روحانی بارش ‘‘قرار دیا ہے۔

عربی خطبہ الہامیہ میں اللہ تعالیٰ نے حضرت اقدس مسیح موعودؑ کو’’یمانی ستارہ ‘‘قرار دیا ہے۔ عربی کے الفاظ مع اردو ترجمہ درج ذیل ہیں:’’وانا کوکبٌ یمانیٌ۔ترجمہ: اور میں یمانی ستارہ ہوں۔‘‘[26]ظا ہری طور پر تمام دنیا میں اورخصوصاًعرب دنیا میں یمانی ستارےکو بہت اہمیت حاصل ہے۔ یمانی ستارے کا ظا ہر یا طلوع ہوناخوشگوارموسم اورزندگی بخش بارش کی نوید سمجھا جاتا ہے۔ اگرتاریخی طور پرعر بوں میں زمانہ قدیم سے رائج علم فلکیات پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ دو مشہور ستارے ایسے ہیں جو ’’یمانی ستارے‘‘ کہلاتے ہیں۔

۱۔ البشیرالیمانی جس کامروجہ نام سھیل (Canopus)ہے

سھیل فارسی زبان کا لفظ ہے۔سھیل خوبصورت یا نظروں کوبھانے والى چیز کوبھی کہا جاتا ہے۔ اسی طرح سھیل کا مطلب خوشگواراور خوش قسمت بھی لیا جاتاہے۔ سھیل ستارےکا دوسرا نام البشیرالیمانی ہے جو جنوب یعنی یمن کا ستارہ ہے(یعنی ایک یمانی ستارہ ہے)۔ عربوں ميں مشہور ہےکہ اس کا ظا ہر یا طلوع ہونا بشریٰ یعنی خوشخبری لاتا ہے۔قدیم عربی کیلنڈر کے مطابق یہ ستارہ بہتر وقت، اور خوشگوارموسم،نئی فصلوں اور ایک نئے دور کے آغاز کا شگون ہے۔یہ سفر کے آغاز کا اشارہ بھی دیتا ہے۔موسم میں تبدیلی تازہ ہواؤں کے ساتھ ساتھ بارش کی نوید بھی لاتی ہے۔ البشیرالیمانی یا سھیل(Canopus) کے نظر آنے کا مطلب ہے کہ پگھلا دینے والی گرمی،گھٹن اور حبس کے موسم کا اختتام ہوگیا ہے۔[27]

۲۔الشِّعریٰ الیمانیہ(Sirius)

اس ستارے کا ذکرسورۃ النّجم کی مندرجہ ذیل آیت کریمہ میں ہے:وَاَنَّہٗ ھُوَرَبُّ الْشِّعریٰ [15]ترجمہ: اور وہی ہے جو الشعریٰ (ستارے) کا ربّ ہے۔

الشِّعریٰ الیمانیہ(Sirius)بھی جنوب یعنی یمن کا ستارہ ہے (یعنی ایک یمانی ستارہ ہے)۔ یہ ستارہ زمانہ قدیم سے ایک ’’لیڈر‘‘یا ’’طاقتور‘‘ستارےکے طور پر جانا جاتا ہے۔قدیم زمانہ میں اس ستارے کا ظاہر ہونا بھی زندگی بخش بارش اورپانی کے میسّر آنے سے جوڑا جاتا تھا۔ اوراس کا ظاہر ہونا ایک نئے موسم کے آغاز کا پیش خیمہ سمجھا جاتا تھا۔ اس ستارہ کو دنیا کےکم و بیش تمام مذاہب اور تہذیبوں میں ایک خاص مقام حا صل رہا ہے۔[28-31]

لہٰذا اللہ تعالیٰ کا حضرت اقدس مسیح موعودؑ کو ایک ’’یمانی ستارہ‘‘ قرار دیناساری دنیا کے مذاہب اور تہذیبوں کے لیے پیغام ہے کہ اس آخری زمانہ کے لیے مسیح اور مہدی آپؑ ہی ہیں۔ جس طرح ’’یمانی ستارے ‘‘کا ظاہر ہوناشدّت اور حبس کے بعدبارش اور خوشگوار موسم کی نوید لاتا ہے اسی طرح لمبے انتظار کے بعدحضرت اقدس مسیح موعودؑکا آنا حق کے طالبوں کے لیے ایک نوید ہےتا سعیدفطرت لوگ ایک خدا اور آنحضرتؐ کے جھنڈے کے نیچےجمع ہوں اور توحید کا بول بالا ہو۔حضرت اقدس مسیح مو عودؑکے ظہور سےروحانی آب حیات الٰہی منشاء کےمطابق آسمان سےعین اُس وقت اترا ہےجب روحانی مر یضو ں کوا س کی شدیدضرورت تھی جیسا کہ عرب ’’یمانی ستارے‘‘ کے ظاہر ہو نے کا انتظار کیا کر تے تھےجو زندگی بخش بارش اورمیٹھِے پا نی کی نوید اپنے ساتھ لاتا ہے۔حضرت اقدس مسیح مو عودؑ کا ایک اورالہام ہے کہ’’اگر خدا ایسا نہ کرتا تو دُنیا میں اند ھیر پڑجاتا‘‘[32]حضرت اقدس مسیح مو عودؑ فرماتےہیں’’یہ اِس بات کی طرف اشارہ ہے جو دُنیا کوان آیاتِ بیّنات کی نہا یت ضرورت تھی اوردُنیا کے لوگ جو اپنے کُفر اور خُبث کی بیماری سےمجذوم کی طرح گداز ہو گئےہیں وہ بجُز اِس آسمانی دوا کےجو حقیقت میں حق کےطالبوں کے لئے آبِ حیات تھی تندرستی حا صل نہیں کر سکتے تھے …یعنی یہ زمانہ اپنے فساد عظیم کی رُو سےاندھیری رات کی مانند ہے۔سو الٰہی قوتیں اور طاقتیں اس زمانہ کی تنویر کے لئے درکار ہیں۔انسانی طاقتوں سےیہ کام انجام ہونا محال ہے۔‘‘[33] پس ایک طرف حضرت اقدس مسیح مو عودؑ کی بعثت حق کےطالبوں اورروحانی مریضوں کے لیے آبِ حیات اورآسمانی دوا ہےتو دوسری طرف دشمنوں اور مخالفین کے لیے آپؑ کو مثل ’’یمانی ستارہ‘‘ وہ آگ ملی ہے جو کھا جانے والی ہےیعنی اللہ تعالیٰ کی زبر دست تائیدونصرت آپؑ کو حاصل ہےجو دشمنوں کےمقابلہ پر آپؑ کی حفاظت اور فتح ونصرت کی ضمانت ہے۔حضرت اقدس مسیح مو عودؑ کو وہ آگ ملی ہے جو کھا جانے والی ہے۔ خطبہ الہامیہ کے عربی الفاظ مع اردو ترجمہ درج ذیل ہیں:وانی اعطیت ضرامًا اَکَّالًا۔ترجمہ: اور مجھ کو وہ آگ ملی ہے جو کھا جانے والی ہے۔‘‘[26]لہٰذا جو لوگ آپؑ سےدشمنی رکھتے ہےاور مخالفت اور استہزا کرتےہیں ایسے لوگوں کے حصہ میں وہ آگ ہے جو کھا جانے والی ہےیعنی قادرِمطلق اللہ کی پکڑ۔سائنسی لحاظ سےتمام ستارے گیس اور توانائی کے بھڑکتے ہوئے گولے تصور کیے جاتے ہیں۔ دونوں یمانی ستاروں البشیر الیمانی یا سھیل (Canopus)اورالشِّعریٰ الیمانیہ (Sirius) کی سطح کا اوسط درجہ حرارت سورج کے درجہ حرارت سے بہت زیادہوتا ہے اور بھڑکتی ہوئی آگ کی وجہ سے سورج سے کہیں زیادہ روشنی پیداکرتے ہیں۔جسامت کے لحاظ سے بھی دونوں ستارے سورج سے بڑے ہیں۔ زمین سے زیادہ قریب ہونے کی وجہ سے الشِّعریٰ الیمانیہ (Sirius)آسمان پر نظر آنے والا سب سےزیادہ چمکدار ستارہ ہے جو زمین سے تقریباً 8 اعشاریہ 6نوری سال کی دوری پر واقع ہے[34]اورسورج سےجسامت میں تقریباً دو گنا اورسورج سےتقریباً22گنازیادہ چمکدارہے[35]۔دوسرے نمبر پر چمکدارستارہ البشیرالیمانی یا سھیل (Canopus )ہے۔ اس ستارہ کوتوانائی اورآگ کاپاور ہاؤس کہا جا تا ہےاور اس کی اندرونی چمک سورج سے تقریباً 10000گنا زیادہ ہے۔[36]لیکن زمین سے تقریباً 310نوری سال[37]اورالشِّعریٰ الیمانیہ(Sirius) کی نسبت زمین سےتقریباً 37گنا دور ہونے کی وجہ سےآسمان پرالشِّعریٰ الیمانیہ(Sirius) کے بعددوسرے نمبر پر چمکدارنظر آنے والا ستارہ ہے جو جسامت میں سورج سےتقریباً 65گنا بڑا ہے۔ان دونوں ستاروں کو ایک ہی وقت میں آسمان پر دیکھا جا سکتا ہے(دیکھیے تصویر نیچے)۔

اس تصویر کے بائیں جانب دونوں یمانی ستاروں البشیرالیمانی یا سھیل (Canopus) اورالشِّعریٰ الیمانیہ (Sirius)کو دیکھا جا سکتا ہے

(Source: www.google.de )

اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ خطبہ الہامیہ میں ظاہری طور پرکس ’’یمانی ستارہ‘‘ کی طرف اشارہ ہے،اس لیےکہ اللہ تعالیٰ کےعلم کے مقابل پرانسانی علم کی کوئی حیثیت نہیں۔لیکن چونکہ خطبہ الہامیہ عربی زبان میں ہےاور جہاں تک انسانی علم،عقل اور سوچ اجازت دیتی ہےزیادہ امکان یہی ہے کہ مراد وہ ’’یمانی ستارہ ‘‘ ہے جس کو عرب دنیا میں بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے یعنی البشیرالیمانی یا سھیل (Canopus)۔وَاللّٰہُ اَعلَمُ بِالصَّواب۔ لیکن قابل ذکر بات یہ ہے کہ مندرجہ بالا دونوں یمانی ستاروں کا انسانی تہذیب سے گہرا تعلق رہا ہے۔تاریخی طورپرالشِّعریٰ الیمانیہ(Sirius) کو پتھرکےزمانہ کی تہذیب، قدیم مصری تہذیب،ایرانی وہندو تہذیب، یونانی و رومی تہذیب اورقدیم عرب تہذیب میں اہمیت حا صل رہی ہے۔[28-31]جبکہ البشیرالیمانی یا سھیل (Canopus) خاص طور پرعرب اور خلیجی ممالک میں نہایت اہم تصور کیا جا تا ہے۔[27]دونوں صورتوں میں خد ائےبزرگ و بر تر کی بات سچی ثابت ہو تی ہے۔حضرت اقدس مسیح مو عودؑکو اللہ تعالیٰ نےتمام دنیا کی ہدایت کے لیےمبعوث فرمایا ہےلہٰذاآپؑ اللہ تعالیٰ کی طرف سے دنیا کےہرخطہ میں بسنے والے انسانوں کےلیے ’’یمانی ستارہ‘‘ ہیں جو زندگی بخش بارش اورمیٹھِے پا نی کی نوید اپنےساتھ لےکرآتا ہے۔

حضرت اقدس مسیح مو عودؑفرماتے ہیں:’’اِس جگہ یہ بھی یاد رہےجبکہ مجھے تمام دنیا کی اصلاح کےلئےایک خدمت سپرد کی گئی ہے۔اِس وجہ سے کہ ہمارا آقا اور مخدوم تمام دنیا کےلئے آیا تھاتو اُس عظیم الشان خدمت کے لحاظ سے مجھے وہ طاقتیں اور قوتیں بھی دی گئی ہیں جو اس بوجھ کے اٹھا نے کےلئے ضروری تھیں اور وہ معارف اور نشان بھی دئیے گئےہیں جن کا دیا جانا اتمام حجت کےلئےمناسب وقت تھا۔‘‘[38] میرا رنج دینا تیز نیزہ ہےیعنی حضرت اقدس مسیح مو عودؑ کورنج دینا تیز نیزہ ہے۔ خطبہ الہامیہ کےعربی الفاظ مع اردو ترجمہ درج ذیل ہیں: ’’ایذائی سنانٌ مذرّبٌ۔ترجمہ: میرا رنج دینا تیز نیزہ ہے۔‘‘[26]یعنی جو کوئی بھی آپؑ کو دکھ اور تکلیف دینے کی کوشش کرے گا اس کی یہ حرکت ایک تیزنیزہ کی مانند اس پر لوٹا دی جائے گی۔ حضرت اقدس مسیح موعودؑ کا ایک اور الہام ہے کہ’’جو شخص تیری طرف تِیر چلائے گا میں اُسی تِیرسے اس کا کام تمام کروں گا‘‘[39]اس ضمن میں نمونہ کے طورپرحضرت اقدس مسیح مو عودؑ کی زندگی میں پیش آنے والا ایک واقعہ درج ذیل ہے:ایک مرتبہ ایک ہندو جو لاہور کے کسی دفتر میں اکاؤنٹنٹ تھا اور مسمریزم کا بڑا ماہر تھاوہ کسی بارات کے ساتھ قادیان اس ارادہ سے آیا کہ میں مرزا صاحبؑ پر مسمریزم کروں گا اور وہ مجلس میں بیٹھے ناچنے لگ جائیں گے(نعوذباللہ)اور لوگوں کے سامنے ان کی سبکی ہو گی۔وہ ہندو خود بیان کرتا ہے کہ قادیان میں مجلس منعقد تھی اور حضرت اقدس مسیح مو عودؑ کچھ وعظ ونصیحت کی باتیں کر رہے تھے۔کہتا ہے کہ میں نے توجہ ڈالی تو کچھ بھی اثر نہ ہوا۔میں نے سمجھا کہ ان کی قوت ارادی ذرا قوی ہے لہٰذا میں نےپہلے سے زیادہ توجہ ڈالنی شروع کی مگر پھر بھی ان پر کوئی اثر نہ ہوا اور وہ اسی طرح باتوں میں مشغول رہے۔میں نے سمجھا ان کی قوت ارادی اور بھی مضبوط ہے۔اس لئے جو کچھ میرے علم میں تھا اس سے کام لیا اور اپنی ساری قوت صَرف کر دی لیکن جب میں ساری قوت لگا بیٹھا تو میں نے دیکھا کہ ایک شیر میرے سامنے بیٹھا ہے اور مجھ پر حملہ کرنا چاہتا ہے۔میں ڈر کر وہاں سے جوتی اٹھا کر بھا گا۔جب میں دروازے پر پہنچا تو مرزا صاحبؑ نے اپنے مریدوں سےکہا دیکھنا یہ کون شخص ہے؟چنانچہ ایک شخص میرے پیچھے سیڑھیوں سے نیچے اترا اور اس نے مسجد کےساتھ والے چوک میں مجھے پکڑ لیا۔میں نے اس سے کہا کہ میں ابھی گھبرایا ہوا اور حواس باختہ ہوں،بعد میں سارا واقعہ مرزا صاحب کو لکھ دوں گا۔چنانچہ بعد میں اس ہندو نے حضرت اقدس مسیح مو عودؑ کو یہ تمام واقعہ لکھا اور کہا کہ مجھ سے گستاخی ہوئی۔[40] اسی طرح حضرت اقدس مسیح موعودؑ کو اللہ تعالیٰ نے 1880ءمیں ہی بتا دیا تھا کہ’’اِنّیْ مُھِیْنٌ مَّنْ اَرَادَ اِھَانَتَکَ‘‘[41]ترجمہ:یقیناً میں اُس کو ذلیل کروں گا جو تیری ذلّت کا ارادہ کرے گا۔حضرت اقدس مسیح مو عودؑفرماتے ہیں:’’خدا تعالیٰ نے ایک عام طور پر مجھے مخاطب کرکے فرمایا تھا کہ اِنّیْ مُھِیْنٌ مَّنْ اَرَادَ اِھَانَتَکَ یعنی میں اُس کو ذلیل کروں گا جو تیری ذلّت کا ارادہ کرے گا۔ صدہا دشمن اِس پیشگوئی کے مصداق ہو گئے ہیں اِس رسالہ میں مفصل لکھنے کی گنجائش نہیں…ایسا ہی مولوی غلام دستگیر قصوری بھی مجھے گالیاں دینے میں حد سے بڑھ گیا تھا جس نے مکہ سے میرے پر کفر کے فتوے منگوائے تھے وہ بھی بیٹھے اُٹھتے میرے پر بد دعا کرتا تھا اور لعنت اللّٰہ علی الکاذبین اُس کا وِرد تھا اور اِسی پر بس نہیں کی بلکہ جیسا کہ میں ابھی لکھ چکا ہوں اُس کو بھی شوق آیا کہ شیخ محمد طاہر صاحب مجمع البحار کی طرح میرے پر بد دعا کرے تا اس کی بھی کرامت ثابت ہو کیونکہ صاحب مجمع البحار کے زمانہ میں بعض ناپاک طبع لوگوں نے محض افترا کے طور پر مسیح اور مہدی ہونے کا دعویٰ کیا تھا اور چونکہ وہ ناراستی پر تھے اِس لیے خدا تعالیٰ نے محمد طاہر کی دعا منظور کرکے اُن کو محمد طاہر کی زندگی میں ہی ہلاک کر دیا پس اِس قصہ کو پڑھ کر غلام دستگیر کو بھی شوق اُٹھا کہ آؤ میں بھی اس جھوٹے مسیح اور جھوٹے مہدؔی پر دعا کروں تا اس کی موت سے میری کرامت بھی ثابت ہو مگر اس کو شیخ سعدی کا یہ شعر یاد نہ رہا:

ہر بیشہ گماں مبرکہ خالی است

شائد کہ پلنگ خفتہ باشد

اگر میں جھوٹا ہوتا تو بے شک ایسی دعا سے کہ جو نہایت توجہ اور دردِ دل سے کی گئی تھی ضرور ہلاک ہو جاتا اور میاں غلام دستگیر محمد طاہر ثانی سمجھا جاتا لیکن چونکہ میں صادق تھا اِس لیے غلام دستگیر خدا تعالیٰ کی وحی انّی مھینٌ من اراد اھانتک کا شکار ہو گیا اور وہ دائمی ذلّت جو میرے لیے اُس نے چاہی تھی اُسی پر پڑ گئی۔‘‘[42]ایک اور موقع پرحضرت اقدس مسیح موعودؑنے اس الہام کے متعلق فرمایا ہے کہ ’’اِنّیْ مُھِیْنٌ مَّنْ اَرَادَ اِھَانَتَکَ یعنی میں اس کی اہانت کروں گا جو تیری اہانت کا ارادہ کرے گا۔ یہ ایک نہایت پُر شوکت وحی اور پیشگوئی ہے جس کا ظہور مختلف پیرایوں اور مختلف قوموں میں ہوتا رہا ہے اور جس کسی نے اس سلسلہ کو ذلیل کرنے کی کوشش کی وہ خود ذلیل اور ناکام ہوا۔‘‘[43]میری دعا مجرب دوا ہے یعنی حضرت اقدس مسیح مو عودؑ کی دعامجرب دوا ہے۔عربی خطبہ الہامیہ کے الفاظ مع اردو ترجمہ درج ذیل ہیں:’’ودعائی دواءٌ مجرّبٌ۔ترجمہ: اور میری دعا مجرب دوا ہے۔‘‘[26]اس ضمن میں نمونہ کے طورپر ایک واقعہ درج ذیل ہے:ایک لڑکابنام عبدالکریم ولد عبدالرحمٰن ساکن حیدرآباد دکن مدرسہ احمدیہ قادیان میں طالب علم تھا۔اسےایک پاگل کتے نے کاٹ لیا اور علاج کے لئے اسے کسولی کے مشہور ہسپتال بھیج دیا گیا۔علاج کے بعد وہ دوبارہ قادیان آ گیا لیکن تھوڑے دن گزرنے کے بعدآثاردیوانگی ظاہر ہوئے اور اس کو پانی سے ڈرلگنا شروع ہو گیا۔لہٰذا کسولی کے انگریزڈاکٹروں سے بذریعہ تار مشورہ طلب کیا گیا کہ اس حالت میں اس کا کوئی علاج بھی ہے۔ کسولی سے جواب آیا کہ’’معذرت، عبدالکریم کے لیے کچھ نہیں ہو سکتا‘‘

(Sorry nothing can be done for Abdul Karim)

اس پر حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے اُس نوجوان کے لیے خلوص دل سے دعا فرمائی، خداتعالیٰ کی قدرت دیکھیں کہ وہ نوجوان جس کو دنیا کے ڈاکٹروں نے لاعلاج قرار دیا تھا، صحت مند ہو گیا اور لمبی عمر پائی۔[44]حضرت اقدس مسیح مو عودؑ محمدی سلسلہ کے وہ سچے مسیح ہیں جن کے ساتھ وہی طاقتوں والا ربّ ہےجو محمد عربی ؐکابھی ربّ ہے۔عربی خطبہ الہامیہ کے الفاظ مع اردو ترجمہ درج ذیل ہیں:’’ایھا النّاس انی انا المسیح المحمّدی۔وانّی انا احمد المھدی۔وان ربّی معی الٰی یوم لَھدی من یوم مَھدی۔ترجمہ: اے لوگو!میں وہ مسیحؑ ہوں جو محمدیؐ سلسلہ میں سے ہے۔ اور میں احمد مہدیؑ ہوں۔اور سچ مچ میرا ربّ میرے ساتھ ہےمیرے بچپن سے لے کر میری لحد تک۔‘‘[26]پس جس کے ساتھ ربّ کائنات ہے اس کے مقابل پردنیا کی بڑی بڑی طاقتیں کیا حیثیت رکھتی ہیں۔حضرت اقدس مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ’’اگر تمام دنیا میری مخالفت میں درندوں سے بد تر ہوجائےتب بھی وہ(یعنی اللہ تعالیٰ) میری حمایت کرے گا۔میں نامرادی کے ساتھ ہر گز قبر میں نہیں اتروں گاکیونکہ میرا خدامیرے ہرقدم میں میرے ساتھ ہے اور میں اس کے ساتھ ہوں میرے اندرون کا جو اس کو علم ہے کسی کو بھی علم نہیں …میرے خدا کے آگے زمین وآسمان کا نپتے ہیں…ہر ایک مخالف کو چاہئے کہ جہاں تک ممکن ہو اس سلسلہ کے نابود کرنے کے لئے کو شش کرے اور ناخنوں تک زور لگاوے اور پھر دیکھے کہ انجام کار وہ کامیاب ہوا یاخدا۔‘‘[45]؎

خدا کے پاک لوگوں کو خدا سے نصرت آتی ہے

جب آتی ہے تو پھر عالَم کو اِک عالَم دکھاتی ہے

غرض رُکتے نہیں ہر گزخدا کے کام بندوں سے

بھلا خا لِق کے آگے خَلق کی کچھ پیش جاتی ہے[46]

رائج الوقت سا ئنسی علم کی روشنی میں یمانی ستارے کی ظاہری قوت و توانائی کا ایک محتا ط اندازہ خطبہ الہامیہ کے ان الفاظ کہ ’’میں یمانی ستارہ ہوں‘‘پرہی اگر تھوڑا سا غور کیا جائے تو آپؑ کو حاصل ربّ کائنات کی بے پناہ حمایت وطاقت کی ایک ایسی جھلک نظر آتی ہےجس کاظاہری اندازہ دنیا کا ایک سائنسدان بھی بخوبی لگا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے پیارےمسیح محمدیؑ کی تا ئیدو نصرت کس زبر دست طریقے سےفرما رہا ہے۔آئیے ذرا عام فہم زبان میں اس کا اندازہ لگانے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ دنیا کو پتا چلے کہ اللہ تعالیٰ کی نظر میں مسیح محمدیؑ کا کیا مقام ہے۔سورج کا قطر زمین سے تقریباً 100 گنا ہےیعنی سورج اتنا بڑا ہے کہ تقریباً دس لاکھ زمینیں اس کے اندرسماجائیں۔[47] دونوں یمانی ستارے سورج سے بہت بڑے ہیں۔الشِّعریٰ الیمانیہ (Sirius) سورج کی جسامت کا دوگنا اور البشیرالیمانی یا سھیل (Canopus۔) 65 گنا ہے۔اسی طرح الشِّعریٰ الیمانیہ (Sirius) سورج سے 22گنا زیادہ چمکدار ہے اور البشیرالیمانی یا سھیل (Canopus) سورج سے تقریباً10000گنا زیادہ چمکدار ہے۔ سورج سےزیادہ چمکدارہو نے کا مطلب ہے کہ ستارے کے اندر موجودآگ اور توانائی سورج سے کہیں زیادہ ہے۔

پس ظاہری طورپر جو اس وقت دنیا کی بڑی بڑی طاقتیں ہیں ان کو اپنے پاس موجود ہتھیاروں پر بڑا ناز ہے۔ کبھی میڈیا میں ان بڑی طاقتوں کے پاس موجود ایٹم بموں کا موازنہ کیا جاتا ہے تو کبھی سپر یا ہائیڈروجن بموں کی بات کی جاتی ہے۔لیکن حضرت مسیح مو عودؑ جن کو ربّ کائنات نے ’’یمانی ستارہ ‘‘ قرار دیا ہے کے مقابل پر ان بڑی بڑی طاقتوں کی کوئی حیثیت نہیں۔اللہ تعالیٰ کے ’’یمانی ستارے‘‘ کا مقابلہ نہ کوئی ایٹم بم کر سکتا ہے اور نہ ہی کوئی سپر یا ہائیڈروجن بم۔ذرا تصور کریں اگر اللہ تعالیٰ کے حکم سے ظاہری طورپر’’یمانی ستارہ‘‘زمین پر آ پڑے توکیا ہوگا؟پس یہ سنت اللہ ہے کہ اللہ تعالیٰ مثالیں دے کر انسانوں کو سمجھاتے ہیں جیسا کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے متعدد بار پہلی قو موں کی مثالیں بیان کر کے بنی نوع انسان کو سمجھایا ہےتاکہ لوگ عبرت حاصل کریں اورگمراہی کا راستہ ترک کر دیں۔چنانچہ جہاں’’ یمانی ستارہ ‘‘زندگی بخش بارش اورمیٹھِے پانی کی نوید ہے وہیں بھڑکتی ہوئی آگ بھی اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہیں۔پس حضرت اقدس مسیح مو عودؑ کی مخا لفت میں حد سےبڑھنے والوں کے لیے انتہائی سوچ کا مقام ہےجو طاقتور وں سےبڑھ کر طا قتور اللہ تعالیٰ سے لڑا ئی کر رہے ہیں۔حضرت خلیفۃ المسیح الخامس اید ہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اُمّت کےہر فرد کونصیحت کرتےہوئے فرماتے ہیں کہ’’اللہ کرے کہ آنحضرتؐ کی اُمّت کاہر فرد،آپؐ سےمنصوب ہونے والاہر شخص اس حقیقت کو دل کی گہرائی سےسمجھنےوالا ہوکہ ظلم و تعدی اور حد سےبڑھی ہوئی نا فر مانی اور بغاوت اور اللہ تعالیٰ کےاحکامات کو توڑمروڑ کراپنے مقصد کےلئےبیان کرناخدا کےہاں قابل مؤاخذہ ہے۔اللہ تعالیٰ ہم احمدیوں کو بھی سب سے بڑھ کر ان باتوں کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے‘‘[19]آمین۔

حوالہ جات:

1۔سورۃاٰل عمران:آیت191۔

2۔حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح مو عود و مہدی معہودؑ۔تفسیر القرآن۔سورۃاٰل عمران: آیت 191تا192۔

3۔حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح مو عود و مہدی معہودؑ۔ملفوظات جلد سوم، صفحہ 34ایڈیشن 1988ء

4۔سورۃ الاعراف:آیت 55۔

5۔ الامام الکبیرعلی بن عمر الدارقطنی۔ سنن الدارقطنی۔ الجزءالاول۔ باب صلوٰۃالکسوف و الخسوف۔مطبوعہ دارلمحاسن للطباعۃ،قاہرہ مصر۔ صفحہ65۔‍ (قندیل صداقت، صفحہ106اور 107)۔

6۔سورۃالواقعۃ:آیت 76۔

7۔حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح مو عود و مہدی معہودؑ۔تفسیر القرآن۔سورۃالواقعہ:آیت 76تا80۔

8۔ سورۃ الانعام: آیت98۔

9۔حضرت الحاج مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی و مصلح موعودؓ۔تفسیر صغیر،قرآن مجید کااردو با محاورہ ترجمہ مع مختصرتفسیر۔

10۔قرآن مجید انگریزی ترجمہ اور تفسیر کے ساتھ(Five Volume Commentary)۔ زیر آیت فَلَاۤ اُقۡسِمُ بِمَوٰقِعِ النُّجُوۡمِ

11۔حضرت الحاج حکیم مولوی نورالدین خلیفۃ المسیح الاوّلؓ۔حقائق الفرقان۔جلددوم،صفحہ173۔

12۔ حضرت الحاج مرزا بشیرالدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی و مصلح موعودؓ۔ تفسیر کبیر۔سورۃ النّحل آیت 17۔

13۔حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح مو عود و مہدی معہودؑ۔تفسیر القرآن۔سورۃالنّجم: آیت 2تا8۔

14۔حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح مو عود و مہدی معہودؑ۔تفسیر القرآن۔سورۃ ا لجنّ :آیت 9تا10۔

15۔سورۃالنّجم:آیت50۔

16۔سورۃالنمل:آیت61۔

17۔حضرت الحاج مرزا بشیرالدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی و مصلح موعودؓ۔ تفسیر کبیر۔سورۃ النمل :آیت 61۔

18۔حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس اید ہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز۔ خطبہ جمعہ فرمود ہ مورخہ 07؍مئی 2010ء

19۔حضرت مر ز ا مسر ور احمد خلیفۃ المسیح الخامس اید ہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز۔ خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 28؍دسمبر 2007ء

20۔حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح مو عودو مہدی معہودؑ،براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد 21صفحہ 145۔

21۔حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح مو عود و مہدی معہودؑ۔تفسیر القرآن۔سورۃالاعراف: آیت 59۔

22۔ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح مو عود و مہدی مو عودؑ۔ عربی خطبہ الہامیہ(اردوترجمہ ٹائٹل باراوّل) روحانی خزائن جلد 16ٹائیٹل پیج۔

23۔حضرت میاں امیرالدین صاحبؓ۔رجسٹر روایات صحابہؓ،غیر مطبوعہ رجسٹر 10،صفحہ 62، روایات حضرت میاں امیرالدین صاحبؓ۔

24۔حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس اید ہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز۔خطبہ جمعہ فرمودہ11؍اپریل 2014ء

25۔ حضرت الحاج مرزا بشیرالدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی و مصلح موعودؓ۔ دعوۃالامیر۔سن اشاعت جنوری 2017 ء۔مطبوعہ فضل عمر پرنٹنگ پریس قادیان۔صفحہ 252

26۔ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح مو عود و مہدی معہودؑ۔ عربی خطبہ الہامیہ (اردو اورفارسی ترجمہ کے ساتھ)، روحانی خزائن جلد 16،صفحہ61۔

27۔Switching seasons are written in the stars

دستیاب از

https://www.thenationalnews.com/arts/switching-seasons-are-written-in-the-stars-1.138558۔

28۔ Holberg JB. Sirius: Brightest diamond in the night sky. Germany: Springer and Praxis Publishing Ltd.; 2007۔

29۔ Brosch N. Sirius Matters (Astrophysics and Space Science Library series 354). W. B. Burton, editor. Germany: Springer Science & Business Media B. V. 2008

30۔ Ananthaswamy A. Stone Age temple tracked the dog star. New scientist. 2013 (2930):14

31۔ Magli G. Sirius and the project of the megalithic enclosures at Gobekli Tepe. Nexus Network Journal. 2016;18(2):337-46۔

32۔حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعودو مہدی معہودؑ۔ تذکرہ۔مجموعہ الہامات، کشوف ورؤیا۔ سن اشاعت 2004ءایڈیشن چہارم مطبوعہ ربوہ۔ صفحہ64۔

33۔حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعودو مہدی معہودؑ۔ تذکرہ۔مجموعہ الہامات، کشوف ورؤیا۔ سن اشاعت 2004ءایڈیشن چہارم مطبوعہ ربوہ۔ صفحہ64اور65۔

34۔Angelo JA Jr.. Encyclopedia of space and astronomy. New York, United States of America: Facts on File, Inc.2006, pp. 544.

35۔ Robinson LJ. Philip‘s astronomy encyclopedia. General editor Sir Patrick Moore. United States of America: Oxford University Press. 2002, pp. 367.

36۔ Robinson LJ. Philip‘s astronomy encyclopedia. General editor Sir Patrick Moore. United States of America: Oxford University Press. 2002, pp. 70.

37۔ Angelo JA Jr. Encyclopedia of space and astronomy. New York, United States of America: Facts on File, Inc.2006, pp. 107.

38۔حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعودو مہدی معہودؑ۔ حقیقتہ الوحی روحانی خزائن جلد 22 صفحہ155۔

39۔حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح مو عودو مہدی موعودؑ۔ براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد21صفحہ102(اور تذکرہ صفحہ460)

40۔حضرت الحاج مرزا بشیرالدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی و مصلح موعودؓ۔انوارلعلوم۔جلد 19۔ ماخوذ ازقومی ترقی کے دواہم اصول صفحہ92تا94۔

41۔حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعودو مہدی معہودؑ۔ تذکرہ۔مجموعہ الہامات، کشوف ورؤیا۔ سن اشاعت 2004ءایڈیشن چہارم مطبوعہ ربوہ صفحہ27۔

42۔حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعودو مہدی معہودؑ۔حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 353اور354۔

43۔ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعودو مہدی معہودؑ۔ نزول المسیح، روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 567۔

44۔حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعودو مہدی معہودؑ۔ حقیقۃالوحی، روحانی خزائن جلد 22صفحہ 480تا482۔

45۔حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعودو مہدی معہودؑ ۔ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم۔روحانی خزائن جلد21صفحہ294اور295۔

46۔حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعودو مہدی معہودؑ۔براہین احمدیہ حصہ دوم،روحانی خزائن جلد 1،صفحہ106۔

47۔Eddy JA.The sun, the earth, and near earth space: A guide to the sun-earth system. The sun as a star. National Aeronautics and Space Administration (NASA). 2009, pp.13.

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button