حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

قرآن کریم اور سفروں کے بارے میں مختلف مضامین

(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۱۱؍ اپریل۲۰۰۸ء)

تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:

اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں سفر کے بارے میں مختلف جگہ مختلف مضامین اور حوالوں کے ساتھ توجہ دلائی ہے۔ انبیاء کا انکار کرنے والوں کو کہا کہ پھرو اور دیکھو انکار کرنے والی قوموں کا کیا انجام اور حشر ہوا۔ مصر میں فرعون کی لاش کو آج تک محفوظ رکھ کر ہمیشہ کے لئے انکار کرنے والوں اور حد سے تجاوز کرنے والوں کے لئے ایک عبرت کا سامان پیدا فرما دیا۔ ہزاروں لاکھوں سیاح اسے دیکھتے ہیں۔ پھر معلومات ویسے بھی مل جاتی ہیں آجکل تو انٹرنیٹ پر بھی مل جاتی ہیں۔ دیکھنے والوں میں مسلمان بھی ہیں، عیسائی بھی ہیں، دوسرے مذاہب کے لوگ بھی ہیں، لامذہب بھی ہیں۔ اگر خداتعالیٰ کا خوف ہو تو دیکھیں کہ کس طرح فرعون کا عبرتناک انجام ہوا۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانے میں اس خبر کی سچائی کا ظہور ہوا جو فرعون کے بارے میں قرآن کریم نے حقیقی رنگ میں بیان فرمائی ہے۔ بائیبل میں بھی اس کا ذکرملتاہے۔ اس کو دیکھنے کے لئے اس زمانہ میں سفر اور دوسرے ذریعوں کی سہولتیں زیادہ میسر ہیں۔ قرآن کریم کی پیشگوئیوں کے مطابق بہت اعلیٰ رنگ میں اس زمانے میں وسائل میسر ہیں جن سے پرانی چیزوں کو دیکھا جاسکتا ہے۔ بہرحال سبق بھی وہی حاصل کرتے ہیں جن کے دل میں نیکی کی چنگاری ہو اور جنہیں اللہ تعالیٰ ہدایت دینا چاہتا ہو۔ یہ تو ہے ایک نبی کا مقابلہ اور انکار کرنے والے کے انجام کا ایک واقعہ جو مَیں نے فرعون کا بیان کیا ہے۔

قرآن کریم میں کئی انبیاء کا ذکر کرکے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جو انکار کرنے والے ہیں پھریں اور دیکھیں، آثار قدیمہ کے کھوج لگائیں تاکہ پتہ لگے کہ تکبر اور فخر کوئی چیز نہیں ہے۔ بڑی بڑی قوموں کے بھی نشان مٹ جایا کرتے ہیں۔ پھرقرآ ن کریم میں اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو بھی مختلف نوعیت کے سفروں کی طرف توجہ دلائی ہے۔ مومن ایک تو قوموں کے عبرتناک انجام دیکھ کر، پڑھ کر، سن کر، اللہ تعالیٰ سے زیادہ لَو لگاتے ہیں۔ ایک مومن ایسے واقعات دیکھ کر اللہ تعالیٰ کی طرف زیادہ جھکتا ہے۔ شیطان سے اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آنے کی کوشش کرتا ہے تاکہ بد انجام اور آفات سے محفوظ رہے۔ دوسرے ایک مومن کے سفر اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی شکر گزاری کے طور پر ہوتے ہیں۔ ان دعاؤں سے ایک مومن اپنا سفر شروع کرتا ہے اور اس کا اختتام کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے اسے قرآن کریم میں سکھائی ہیں۔ اس اُسوہ پر ایک مومن چلنے کی کوشش کرتا ہے جو آنحضرتﷺ نے قائم فرمایا۔ اُن نصائح پر عمل کرنے کی کوشش کرتا ہے جس کی ایک حقیقی مسلمان سے آنحضرتﷺ نے توقع رکھتے ہوئے نصیحت کی ہے۔ پس ایک مومن کے ہر دوسرے عمل کی طرح اس کا سفر بھی خداتعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ہوتا ہے اور نیکیوں کو قائم رکھنے اور قائم کرنے کے لئے ہوتا ہے۔

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَتَزَوَّدُوۡا فَاِنَّ خَیۡرَ الزَّادِ التَّقۡوٰی(البقرۃ:198) زا دِ راہ ساتھ لو اور بہترین زاد راہ تقویٰ ہے۔ قرآن کریم کے یہ الفاظ اس آیت میں ہیں جس میں حج کے حوالے سے بات کی گئی ہے کہ جب اس رکن اسلام کی ادائیگی کے لئے نکلو تو پھر ہمیشہ یاد رکھو کہ حقیقی مومن وہی ہے جو ہر قسم کی نفسانی بیماریوں سے اپنے آپ کو بچاتے ہوئے، نیکیوں پر قدم مارتے ہوئے، اس پاک فریضے کو سرانجام دینے کے لئے گھر سے نکلتا اور کوشش کرتا ہے۔ اور جو سفر کا سامان تم ساتھ لے کر نکلو، جو عمل تمہارے ہوں اس میں تقویٰ ہو گا تو حج بھی قبولیت کا درجہ پائے گا۔ لیکن یہ مومن کے لئے ایک عمومی حکم بھی ہے کہ ہمیشہ یاد رکھوکہ بہترین زادِ راہ تقویٰ ہے۔ مومنوں کے سفر اعلیٰ ترین نیکیاں کمانے کے مقصد کے لئے ہوں یا عام سفر۔ ہر صورت میں یاد رکھوکہ سفر وہی اللہ تعالیٰ کی برکات کا حامل بنائے گا جس میں تقویٰ مدنظر ہو گا، جس میں اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے نیک اعمال کی بجا آوری کی کوشش مدنظر ہو گی۔

پس اگر سفروں سے برکات حاصل کرنی ہیں تو تقویٰ بنیادی شرط ہے۔ اسے ہر وقت مومن کو مدنظر رکھنا چاہئے۔ اگر یہ مدنظر رہے گا تو دنیاوی فائدوں کے حصول کے لئے بھی جو سفر ہیں وہ بھی اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کا ذریعہ بن جائیں گے۔ پس یہی سفر ہیں جو مومن کی شان ہیں اور ہونے چاہئیں۔ جب ایک مسلمان زاد ِراہ کو حقیقت میں اپنے ساتھ رکھتا ہے یعنی تقویٰ کی زاد ِراہ کو توپھر وہ مومنین کی اس صف میں کھڑا ہو جاتا ہے جن کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے سچے مومن ہونے کی بشارت دی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اَلتَّآئِبُوۡنَ الۡعٰبِدُوۡنَ الۡحٰمِدُوۡنَ السَّآئِحُوۡنَ الرّٰکِعُوۡنَ السّٰجِدُوۡنَ الۡاٰمِرُوۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَالنَّاہُوۡنَ عَنِ الۡمُنۡکَرِ وَالۡحٰفِظُوۡنَ لِحُدُوۡدِ اللّٰہِ ؕ وَبَشِّرِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ(التوبۃ:112)کہ توبہ کرنے والے، عبادت کرنے والے، حمد کرنے والے، خدا کی راہ میں سفر کرنے والے، رکوع کرنے والے، سجدہ کرنے والے، نیک باتوں کا حکم دینے والے، بری باتوں سے روکنے والے اور اللہ تعالیٰ کی حدود کی حفاظت کرنے والے، سب سچے مومن ہیں اور تو مومنوں کو بشارت دے دے۔

تو تقویٰ پر چلنے کے لئے پہلی شرط توبہ کرنا ہے۔ ایسی سچی توبہ جو اس میں اور گناہوں میں یعنی ایک مومن میں اور گناہوں میں دُوری پیدا کرتی چلی جائے۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button