الفضل ڈائجسٹ

الفضل ڈائجسٹ

(محمود احمد ملک)

اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔

حضرت مسیح موعودؑ کا انقلاب انگیز لٹریچر

(حصہ دوم۔ آخر)

روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ 4اور5؍جنوری 2013ء میں مکرم مولاناعبدالسمیع خان صاحب کا ایک مضمون شائع ہوا ہے جس میں سیّدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے انقلاب انگیز لٹریچر کے سترہ پہلو تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں۔

14۔ حضرت مسیح موعودؑ کے آسمانی مائدہ کا ایک بڑا حصہ خدائی کلام اورعلم غیب پر مشتمل ہے جو قیامت تک آنے والے بڑے بڑے انقلابات کی کھلی خبریں دیتاہے۔ مثلاً یہ کہ جماعت احمدیہ پرابتلا آئیں گے،کفرکے فتوے لگیں گے، شہادتیں ہوں گی اور اس زمانے کے فرعون اور ہامان اور ابوجہل اور ابولہب اپنے انجام کو پہنچیں گے۔ اورخدانے یہ بھی کہا کہ میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا اور بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے۔ انہی کتب میں لندن کے منبر پرمدلّل تقریر کرنے اور سفید پرندے پکڑنے کی بشارت بھی ہے۔ اسی لٹریچر میں داغِ ہجرت اورایم ٹی اے کی پیشگوئی بھی ہے، صلحائے عرب اورابدال شام کی دعاؤں کا تذکرہ بھی ہے۔ سوسال پہلے اسی لٹریچر نے بتایا کہ برطانوی حکومت کا سورج غروب ہوجائے گا اور دین کا آفتاب مغرب سے طلوع ہوگا۔ زار روس کا حال زار ہوجائے گا۔ ایوان کسریٰ میں تزلزل برپا ہوگا۔ کوریا کی حالت نازک ہوجائے گی۔ افغانستان کا نادر شاہ اچانک موت کا شکار ہوجائے گا۔ زلزلے آئیں گے۔ امریکہ، ایشیا، یورپ اور جزائر کے رہنے والے امن کو ترسیں گے۔ بیماریاں پڑیں گی۔ موتا موتی لگے گی عالمی جنگیں ہوں گی۔ خون کی ندیاں بہیں گی اور ایٹمی ہتھیاروں سے زندگی ناپید ہوجائے گی۔ یہ لٹریچر بتاتاہے کہ دجال اوریاجوج ماجوج کا نظام ٹوٹے گا اور پھر دین کی طرف کثرت سے رجوع ہوگا۔ یہ پاک کلام بتاتا ہے کہ خدا مسرور کا ساتھ دے گا اور اُسے ہر میدان میں مظفر ومنصور کرے گا۔

15۔ حضورؑ کے بلند پایہ لٹریچر نے مسلمانوں کے اجتماعی شعور کی رائے ہی نہیںبدلی بلکہ ان مضامین کو بیان کرنے کے لیے ان کے پاس اس صاحب قلم کے الفاظ سے بہتر الفاظ بھی نہیں تھے۔ اس لیے بے شمار مخالفین نے آپ کی کتب اور کلام منظوم کو نقل کیا اور اسے اپنے یا کسی اَورنام سے شائع کیا ہے۔ مثلاً مولوی اشرف علی صاحب تھانوی نے اپنی کتاب ’’احکام اسلام عقل کی نظر میں ‘‘میں ’کشتی نوح‘، ’نسیم دعوت‘، ’اسلامی اصول کی فلاسفی‘، ’آریہ دھرم‘ اور ’برکات الدعا‘ کے کئی کئی صفحے نقل کیے ہیں۔ ممتاز بریلوی عالم محمدافضل شاہد صاحب نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا:

’’تھانوی صاحب نے قادیانی کی مذکورہ بالا کتاب سے پیراگراف اور صفحے درصفحے اپنی کتاب میں نقل کرڈالے لیکن کتاب و مصنف کا حوالہ تک نہ دیا۔ شاید تھانوی صاحب کو یہ خطرہ تھا کہ اگر حوالہ دیا توپیروکار اورمریدبھاگ نہ جائیں … اگر تھانوی صاحب کے اس طرز عمل پر غور کیا جائے توتھانوی صاحب قادیانی کے مذکورہ بالا دعووں کے مطابق کہ یہ الہامی مضمون ہے اورسب پر غالب آئے گا وغیرہ کی اپنے عمل سے تصدیق کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ یہ بات قابل غورہے کہ تھانوی صاحب کا اصل مقصد قادیانی کی تعبیروتشریح کو چوری کرناتھا۔ الفاظ کی چوری تو اس لیے کی گئی ہے کہ ان سے بہتر الفاظ کا انتخاب ممکن نہ تھا …۔‘‘

حضرت مسیح موعودؑ کے شہرۂ آفاق عربی قصیدہ

’’یَاعَیْنَ فَیْضِ اللّٰہِ وَالْعِرْفَانٖ‘‘

کے 70؍میں سے 58؍اشعار مولوی جان محمد صاحب (ایم اے، ایم اوایل ،منشی فاضل، مولوی فاضل) کی کتاب ’اصلی عربی بول چال مکمل کلام ہے‘ کے آخر میں نقل کیے گئے ہیں۔

مولوی سید نذیرالحق صاحب قادری نے اپنی کتاب ’’کتاب اسلام‘‘ میں ’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘ قریباًپوری نقل کرلی نیز ’’آئینہ کمالات اسلام‘‘، ’’چشمہ معرفت‘‘ اور ’’کشتی نوح‘‘ سے جابجا مضامین نقل کیے۔

پیرکرم شاہ الازھری (جن کو عصر حاضر کا مجدد کہا جاتا ہے) انہوں نے حضرت مسیح موعودؑ کی مشہور فارسی نعت

’’جان و دلم فدائے جمال محمد است‘‘

اپنے رسالہ ضیائے حرم میں بغیر نام کے شائع فرمائی۔

معاند سلسلہ مولانا ثناء اللہ صاحب امرتسری نے 4جنوری 1924ء کو لاہورکے جلسہ میں تقریر یوں ختم کی: چونکہ مَیں قرآن مجید کواپنا بلکہ جملہ انسانوں کا کامل ہدایت نامہ جانتا ہوں اس لیے اپنا اعتقاد دو شعروں میں ظاہر کرکے بعد سلام رخصت ہوتا ہوں۔ ؎

جمال و حسن قرآں نور جان ہر مسلماں ہے

قمر ہے چاند اوروں کا ہمارا چاند قرآں ہے

نظیر اس کی نہیں جمتی نظر میں فکر کر دیکھا

بھلا کیوں کر نہ ہو یکتا کلام پاک رحماں ہے

مولانا حافظ عطاء اللہ صاحب کے رسالہ ’’اعجاز قرآن‘‘ کے سرورق پر درج ہے:’’اس رسالہ میں بحمدہ تعالیٰ دہریت، آریت، عیسائیت، بہائیت اور قادیانیت کے خیالی قلعوں کو اعجاز قرآن کی تین اقسام سے بمباری کرکے بکلّی مسمار کردیا گیاہے ۔‘‘ مولانا نے اس بمباری کے لیے یہ دلچسپ طریق اختیار کیا کہ رسالہ کے صفحہ104پر ’’درمدح قرآن‘‘ کے زیرعنوان حضرت مسیح موعود ؑکی یہ نظم شائع کی ؎

جمال و حسن قرآں نور جان ہر مسلماں ہے

قمر ہے چاند اوروں کا ہمارا چاند قرآں ہے

اوربعض شعروں میں تصرف بھی کردیا۔

’’مجلس ختم نبوت پاکستان‘‘کے راہنماؤں نے فروری 1971ء میں انگریزی زبان میں ایک رسالہ ارکان اسمبلی میں تقسیم کے لیے شائع کیا جس کا نام تھا: An Appeal to the Members of National Assembly of Pakistan ۔ اس میں احمدیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کا مطالبہ کیا اورحضرت مسیح موعودؑ کے درج ذیل 2اشعار بھی لکھے جن کو ڈاکٹر اقبال سے منسوب کر دیا۔ ؎

ھست او خیرالرسل خیرالانام

ہر نبوت را برو شد اختتام

ختم شد ہر نفس پاکش ہر کمال

لا جرم شد ختم ہر پیغمبرے

16۔حضرت مسیح موعودؑ کے آب حیات نے اردو زبان کو بھی نئی زندگی سے ہمکنار کیا۔ چنانچہ ماہ دسمبر1913ء میں آل انڈیا محمڈن اینگلو اورینٹیل ایجوکیشنل کانفرنس کا ستائیسواں اجلاس آگرہ میں منعقد ہوا۔ جہاں خواجہ غلام الثقلین نے اپنے خطبہ صدارت میں خاص طورپر ان مشاہیر کا ذکرکیا جنہوں نے اردو کی ترقی میں نمایاں حصہ لیا۔ آپ نے حضورؑ کو بھی ان مایہ ناز ہستیوں کی صف میں شمار کیاجن کو آج اردو زبان میں بطور سند پیش کیا جاتاہے۔

کرزن گزٹ کے ایڈیٹر جناب مرزا حیرتؔ صاحب دہلوی نے تحریر فرمایا: ’’مرحوم کی وہ اعلیٰ خدمات جواس نے آریوں اورعیسائیوں کے مقابلہ میں اسلام کی کی ہیں وہ واقعی بہت ہی تعریف کی مستحق ہیں۔ اس نے مناظرہ کا بالکل رنگ ہی بدل دیا اورایک جدید لٹریچر کی بنیاد ہندوستان میں قائم کردی بحیثیت ایک مسلمان ہونے کے ہم اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ کسی بڑے سے بڑے آریہ اور بڑے سے بڑے پادری کویہ مجال نہ تھی کہ وہ مرحوم کے مقابلہ میں زبان کھول سکتا…اگرچہ مرحوم پنجابی تھامگراس کے قلم میں اس قدر قوت تھی کہ آج سارے پنجاب بلکہ بلندیٔ ہند میں بھی اس قوت کا کوئی لکھنے والا نہیں …اس کا پُرزور لٹریچر اپنی شان میں بالکل نرالا ہے۔ اورواقعی اس کی بعض عبارتیں پڑھنے سے ایک وجدکی سی حالت طاری ہو جاتی ہے۔ اس نے ہلاکت کی پیشگوئیوں مخالفتوں اور نکتہ چینیوں کی آگ میں سے ہو کر اپنا راستہ صاف کیا اور ترقی کے انتہائی عروج تک پہنچ گیا ۔‘‘

17۔ آج دنیا جنگ اورتباہی کے دہانے پر کھڑی ہے مگر حضرت مسیح موعود ؑکی مقدس کتب اور تعلیمات یہاں بھی انسان کو نجات اور صلح کا پیغام دیتی ہیں۔ فرماتے ہیں ؎

صدق سے میری طرف آؤ اسی میں خیر ہے

ہیں درندے ہر طرف میں عافیت کا ہوں حصار

یہ کتب تمام بانیان مذاہب اورقومی پیشواؤں کی تعظیم کی تعلیم دیتی ہیں۔ یہ کتب ہر قسم کے جبرواکراہ کی نفی کرکے آزادی ضمیر ومذہب کا اعلان کرتی ہیں یہ کتب انسان کو اولی الامر کی اطاعت اورقانون کی پابندی اوراعلیٰ اخلاق کی تعلیم دیتی ہیں۔ حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں: ’’دنیا کی بھلائی اور امن اور صلح کاری اور تقویٰ اور خداترسی اسی اصول میں ہے کہ ہم ان نبیوں کوہرگز کاذب قرار نہ دیں جن کی سچائی کی نسبت کروڑہا انسانوں کی صدہا برسوں سے رائے قائم ہوچکی ہو اورخدا کی تائیدیں قدیم سے ان کے شامل حال ہوں اورمیں یقین رکھتاہوں کہ ایک حق کا طالب خواہ وہ ایشیائی ہوخواہ یورپین ہمارے اس اصول کو پسند کرے گا اورآہ کھینچ کر کہے گا کہ افسوس ہمارااصول ایسا کیوں نہ ہوا۔‘‘(تحفہ قیصریہ)

آپؑ نے اپنی آخری کتاب کا نام ہی پیغام صلح رکھاہے۔

آج واحد جماعت جو یوم پیشوایان مذاہب مناتی ہے اور جس کا ہر فرد اپنے اپنے ملک و قوم کا وفادارہے اوراس کے دامن پر ظلم برداشت کرنے کے زخم توہیں ظلم کرنے کاایک داغ بھی نہیں وہ جماعت احمدیہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مسیح موعود کے انقلاب انگیز لٹریچر نے دنیا میں تبدیلی کی وسیع اور ٹھوس بنیاد رکھ دی ہے اور جمالی شان سے یہ انقلاب دلوں اور سینوں میں دھڑکن بن رہاہے اوروہ وقت دور نہیں جب یہ انقلاب اپنی معراج کو پہنچے گا اور انسانیت کا پورا وجود ایک نئے لبادہ میں نظر آئے گا اور وہ نئی اقوام متحدہ نظر آئے گی۔ جس کا چارٹر سلامتی کے شہزادے کے ہاتھ سے لکھا گیا ہے۔

آپؑ فرماتے ہیں: ’’میں بڑے دعوے اوراستقلال سے کہتا ہوں کہ میں سچ پر ہوں خدائے تعالیٰ کے فضل سے اس میدان میں میری ہی فتح ہے اورجہاں تک میں دُوربین نظر سے کام لیتا ہوں تمام دنیا اپنی سچائی کے تحت اقدام دیکھتا ہوں اور قریب ہے کہ میں ایک عظیم الشان فتح پاؤں کیونکہ میری زبان کی تائید میں ایک اورزبان بول رہی ہے اور میرے ہاتھ کی تقویت کے لیے ایک اور ہاتھ چل رہا ہے جس کو دنیا نہیں دیکھتی مگر میں دیکھ رہا ہوں۔ میرے اندر ایک آسمانی روح بول رہی ہے۔ جو میرے لفظ لفظ اور حرف حرف کو زندگی بخشتی ہے اور آسمان پر ایک جوش اور اُبال پیدا ہوا ہے جس نے ایک پُتلی کی طرح اس مشت خاک کو کھڑا کر دیا ہے۔ ہر یک وہ شخص جس پر توبہ کا دروازہ بند نہیں عنقریب دیکھ لے گا کہ میں اپنی طرف سے نہیں ہوں۔ کیا وہ آنکھیں بینا ہیں جو صادق کو شناخت نہیں کرسکتیں کیاوہ بھی زندہ ہے جس کو اس آسمانی صد اکا احساس نہیں‘‘۔ (ازالہ اوہام۔روحانی خزائن جلد3صفحہ403)

………٭………٭………٭………

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button