حضور انور کے ساتھ ملاقات

امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ طالبات لجنہ اماء اللہ بنگلہ دیش کی (آن لائن) ملاقات

امام جماعت احمدیہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ مورخہ۲۶؍فروری۲۰۲۳ء کو لجنہ اماء اللہ بنگلہ دیش کی کالجز اور یونیورسٹی کی طالبات کی آن لائن ملاقات ہوئی۔

حضورِ انور نے اس ملاقات کو اسلام آباد (ٹلفورڈ) ميں قائم ايم ٹي اے سٹوڈيوز سے رونق بخشي جبکہ بخشی بازار ڈھاکہ کی مسجد دارالتبلیغ سےطالبات نے آن لائن شرکت کی۔

پروگرام کا آغاز تلاوت قرآن کریم مع انگریزی ترجمہ سے ہوا۔ اس کے بعد حدیث مع انگریزی ترجمہ پیش کی گئی۔بعد ازاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک اقتباس اردو اورانگریزی زبان میں پیش کیا گیا۔

حضور انور کے استفسار پر سیکرٹری صاحبہ امور طالبات نے بتایا کہ یونیورسٹی اور کالجز میں زیر تعلیم ۱۲۲؍طالبات اس ملاقات میں شامل ہیں۔

بعد ازاںحضرت مسیح موعودؑ کا منظوم کلام پیش کیا گیا۔

اس کے بعد شاملین ملاقات کومختلف امور پر حضور انور سے سوالات کرنے کا موقع ملا۔

زوآلوجی میں بیچلرز آف سائنس کر نے والی ایک طالبہ نے سوال کیا کہ ایک طالبہ اپنی دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ قرآن کریم کا کیسے مطالعہ کر سکتی ہے اور ہم قرآن کریم اور سائنس کو ایک دوسرے کے ساتھ رکھتے ہوئے کیسے تحقیق کر سکتے ہیں؟

اس پر حضور انورنے فرمایا کہ ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے آپ کو روزانہ قرآن کریم پڑھنا چاہیے اور تلاوت کرتے ہوئے آپ کو ساتھ ساتھ ترجمہ بھی پڑھنا چاہیے۔ پھر آپ کو معلوم ہو گا کہ آپ قرآن کریم میں کیا پڑھ رہی ہیں۔ علاوہ ازیں آپ اگر زوآلوجی پڑھ رہی ہیں تو آپ کو قرآن کریم کی وہ آیات تلاش کرنی چاہئیں جن کا تعلق سائنس، انسان کے وجود اور زمین پر زندگی سے ہو۔پھر آپ ان کا مطالعہ کر سکتی ہیں اور ان آیات کو اپنے مضمون کے ساتھ جوڑ سکتی ہیں اور اس طرح آپ کو قرآن کریم سے اپنے مضمون کے متعلق مزید آگاہی حاصل ہو سکتی ہے۔ آپ کو اس کے لیے کچھ وقت دینا پڑے گا۔ اس بارے میں تفاسیر پڑھیں۔ اگر آپ اردو نہیں پڑھ سکتیں تو انگریزی زبان میں پانچ جلدوں پر مشتمل کسی حد تک تفسیر ہے۔تو آپ قرآن کریم کی پانچ جلدوں پر مشتمل تفسیر پڑھ سکتی ہیں۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کئی مضامین اور خطبات اور خطابات ہیں جن کا انگریزی میں ترجمہ ہو چکا ہے۔ آپ وہ بھی پڑھ سکتی ہیں۔ پھر آپ کو خلفاء کے خطبات اور ان کی تقاریر بھی سننی چاہئیں ۔ ان میں بھی آپ کو اپنے مضمون کے متعلق معلومات مل سکتی ہیں۔

ایک طالبہ نے سوال کیا کہ کسی مقصد کے حصول پر مستقل توجہ مرکوز رکھنا کس طرح ممکن ہے نیز یہ کہ کیا یہ عقلمندی ہے کہ انسان اپنے اصل مقصد کے حصول میں ناکامی کے خطرے سے متبادل انتظام سوچ رکھے؟

اس پر حضور انور نے فرمایا کہ آپ کو اپنی ترجیحات بالترتیب اپنے سامنے رکھنی چاہئیں کہ یہ مضمون مجھے زیادہ پسند ہے۔ اگر اس میں داخلہ مل گیا تو بہت اچھا ہےورنہ اس کے بعد یہ optionہے۔آپ کے سامنے مختلفoptionsہونی چاہئیں۔

حضور انور نے اس طالبہ سے استفسار فرمایا کہ وہ اپنی پڑھائی سے مزید کیا حاصل کرنا چاہتی ہیں کیونکہ وہ پہلے سے ہی فنانس پڑھ رہی ہیں؟ اس پر اس طالبہ نے جواب دیا کہ وہ اپنی پڑھائی سے کلی طور پر مطمئن نہیں۔ حضور انور کے استفسار فرمانے پر انہوں نے مزید بتایا کہ وہ ابتدائی طور پر سرکاری نوکری کرنا چاہتی تھیں۔

اس پر حضور انور نے فرمایا کہ ماسٹرز کی ڈگری مکمل کرنے سے ہی وہ public service examمیں بیٹھ سکیں گی اور اعلیٰ سرکاری نوکری مل سکے گی ورنہ صرف کلرک کے طور پر نوکری ملےگی، افسر نہیں بن سکیں گی۔لہٰذا افسرکا گریڈ حاصل کرنے کے لیے محنت کرنی پڑے گی اور پہلے بیچلرز اور بعد میں ماسٹر زکی ڈگری مکمل کرنی پڑے گی۔

حضور انور نے فرمایا کہ دو یا تین optionsرکھنے کا یہ فائدہ ہے کہ انسان کے پاس اس صورت میں متبادل انتظام ہوتا ہے اگر پہلا optionکسی وجہ سے کامیاب نہ ہو۔لیکن انسان کو بہرحال ایک سمت میں اپنی توجہ مرکوز رکھنی چاہیے کیونکہ بسا اوقات زیادہ optionsبھی ایک چیز پر توجہ مرکوزرکھنے میں رکاوٹ بن سکتے ہیں۔

ایک لجنہ ممبر نے سوال کیا کہ ہم اکثر بذریعہ خط مختلف امور پر حضور کے قیمتی اور قابل قدر نصائح ،رائے اور فیصلہ جات دریافت کرتے ہیں لیکن ہمیں ایسی صورت میں کیا کرنا چاہیے اگر ہمارے خط کا جواب جس میں حضورکے قیمتی نصائح درج ہوں معین یا مقررہ وقت میں نہ ملیں؟

اس پر حضور انورنے فرمایا کہ ایسی صورت میں آپ کو وہ کام کرنا چاہیے جو آپ کو ٹھیک اور مناسب لگے۔اگر کسی معین مضمون میں داخلہ لینے کا معاملہ ہو اور آپ خط میں یہ دریافت کر رہی ہوں کہ کیا مجھے فلاں مضمون میں داخلہ لینا چاہیے یانہیں؟ یا کیا مجھے اپنے بیچلرز یا ماسٹرز میں فلاں فلاں مضامین اپنے کورس کے طور پر لینے چاہئیں یانہیں؟ اور آپ کو ایسے خط کا جواب بروقت نہ موصول ہو پھر آپ کو چاہیے کہ آپ اپنی مرضی سے اپنا فیصلہ خود کر لیں اور داخلہ کروا لیں بجائے اس کے کہ آپ وقت ضائع کریں اور میرے خط کے جواب کا انتظار کریں۔ اگر بعد میں آپ کو میرے خط کا جواب مل جاتا ہے اور میری رائے یا نصیحت اس فیصلے سے مختلف ہو جو (داخلہ) لے چکی ہوں تو پھر فکر نہ کریں۔ مجھے لکھ دیں کہ چونکہ آپ کا جواب مجھے تاخیر سے ملا اور فیصلہ کرنے کے لیے وقت محدود تھا اس لیے مَیں نے فلاں مضمون چن لیا ہے اور اب مَیں فلاں کام کر رہی ہوں۔ تو میں پھر جواباً یہی کہوں گا کہ ٹھیک ہے کوئی بات نہیں آپ اپنا کام جاری رکھیں۔

پی ایچ ڈی کرنے والی ایک شادی شدہ خاتون جن کا ایک بچہ بھی ہے نے سوال کیا کہ اگر کسی شادی شدہ خاتون کو بیرون ملک پڑھنے کا موقع ملے اور اس کا خاوند اس کے ساتھ نہ جا سکے توا یسی صورت میں کیا کرنا چاہیے؟

اس پر حضور انور نے فرمایا کہ پہلی ترجیح یہی ہونی چاہیے کہ بنگلہ دیش میں رہیں کیونکہ اگر آپ کے خاوند آپ کا وہاں جانا پسند نہیں کرتے یا آپ اپنے بچے کو وہاں نہیں لے کر جا سکتیں تو ایسی صورت میں بجائے یہ کہ باہر جائیںبہتر ہے کہ بنگلہ دیش میں رہیں ۔

بعد میں اگر موقع ملے تو کسی ترقی یافتہ ملک میںجا کر اپنا علم بڑھا سکتی ہیں لیکن فی الحال اگر آپ کے خاوند اجازت نہیں دیتے اور آپ کا بیرون ملک جانا آپ کی گھریلو زندگی کو disturbکرتا ہے توبہتر یہی ہے کہ بنگلہ دیش میں رہ کر اپنی تعلیم مکمل کریں۔ عورتوں کی پہلی ترجیح ان کا گھر ہوتا ہے۔

ایک لجنہ ممبر نے سوال کیا کہ اکثر ہمارے معاشرے میں دیکھا جاتا ہے کہ لڑکیاں شادی کے بعد اپنی پڑھائی جاری نہیں رکھ پاتیں جبکہ ان میں قابلیت بھی بہت زیادہ ہوتی ہے تو ان حالات میں لڑکیاں اگر کچھ دیر سے شادی کریں تو کیا یہ بات مناسب ہو گی کیونکہ کبھی کبھار دیکھا جاتا ہے کہ شادی سے پہلے لڑکے والے تو کہہ دیتے ہیں کہ شادی کے بعد لڑکی اپنی پڑھائی جاری رکھ سکتی ہے مگر شادی کے بعد وہ اجازت نہیں دیتے تو اس صورت حال میں کیا کرنا چاہیے؟

اس پر حضور انورنے فرمایاکہ اگر اچھا رشتہ مل جائے تو جلدی شادی کر لینی چاہیے اور اگر پڑھائی کی اجازت کو زیادہ پکا کرنا ہے تو لڑکے سے یا خاندان سے یہ bondلکھوا لیں کہ اگر ٹیلنٹ (talent)ہے تو شادی کے بعد پڑھائی کروں گی ۔لیکن صرف اس صورت میں اگر پڑھائی کسی ایسے subjectمیں کرنی ہے جس کا انسانیت کو کوئی benefitہے۔پھر ٹھیک ہے۔اگر simpleہسٹری میں ایم اے کرنا ہے یا کسی ایسے subjectمیں ایم اےکرنا ہے جس کی اس لحاظ سے کوئی ایسی valueنہیں کہ اس سے انسانیت کو کوئی benefitپہنچ رہا ہوسوائے اس کے کہ ٹیچر بن جانا ہے تو وہ تو کرنے کی ضرورت نہیں۔لیکن اگر کوئی ڈاکٹر یاانجنیئر بن رہا ہے اور میڈیکل یا انجنیئرنگ کورس کرتے ہوئے اس دوران میں کوئی اچھا رشتہ آ جاتا ہے تو پھر بہتر ہے کہ شادی کرلو اور ان سے bondلکھوا لو کہ ہمیں بعد میں پڑھائی کرنے دو گے۔

بعض دفعہ یہ بھی ہوتا ہے کہ اس دوران بچہ بھی پیدا ہو جاتا ہے اور بچہ پیدا ہو جائے تو پھر اس کو سنبھال نہیں سکتے۔ اس میں پھر یہ ہے کہ تھوڑا سا بریک (break)لے لیں اور بریک کے بعد پھر اپنا یونیورسٹی یا کالج continueکر لیں ۔یہاں یورپ میں تو اس طرح ہو جاتا ہے۔بنگلہ دیش میں پتانہیں اس طرح ہوتا ہے یا نہیںکہ بعد میں اپنی سٹڈیز continueکر سکتے ہو ۔

پہلی preferenceگھر ہے۔اگرکسی خاص پروفیشن میں جانا ہے جس کا انسانیت کو کوئی benefitہے تو پھرٹھیک ہےاپنی سٹڈیcontinueکرو نہیں تو گھر کو سنبھالو یہ زیادہ بہتر ہے۔

ایک لجنہ ممبر نے سوال کیا کہ وہ لڑکیاں جن کے خاوند واقفین زندگی ہیں ان کو کن مضامین میں پڑھائی کرنی چاہیے اور کس قسم کا پیشہ چننا چاہیے؟

اس پر حضور انورنے فرمایاکہ کسی کے اوپر زبردستی توامپوز (impose)نہیں کیا جا سکتا کہ تم نے ضرور یہ پڑھائی کرنی ہے۔ جس subjectمیں بھی انٹرسٹ ہے اس میں پڑھائی کریں۔ ساتھ یہ بھی یاد رکھیں کہ اگر خاوند واقف زندگی ہے ، مبلغ اور مربی ہے تو اس کے ساتھ مربی اور مبلغ کی بیوی کو بھی دینی علم حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اپنی نمازوں کی حفاظت کرنی چاہیے تا کہ بچوں کی صحیح تربیت بھی ہو اوران کے لیے دعا بھی ہو۔ پھر قرآن شریف باقاعدہ پڑھنا چاہیے۔اس کا ترجمہ پڑھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ پھر دینی علم سیکھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ پھر اعلیٰ اخلاق ہونے چاہئیں تا کہ اگر مربی کی بیوی ہے تو وہ جماعت کے ممبران کی تربیت کر سکے۔ اگر واقف زندگی کسی اور پیشہ میں ہے تو تب بھی دینی علم حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔اعلیٰ اخلاق ہونے چاہئیں۔ اصل چیز یہ ہے کہ پہلے صحیح احمدی مسلمان بنو اوراس کے لیے اپنی نمازوں کی حفاظت کرو، باقاعدہ قرآن کریم کی تلاوت کرو، اس کا ترجمہ سیکھو۔ پھر دینی علم سیکھو اور بچوں کی صحیح طرح تربیت کرو۔ آپ اچھے اخلاق دکھاؤ اور لوگوں کو اپنے اچھے اخلاق سے متاثر کرو۔ احمدیوں کو بھی اور غیروں کو بھی۔ تو یہ ایک واقف زندگی کی بیوی کا اصول ہے۔ایک اچھی احمدی عورت کا اصول ہے۔ بس پہلی چیز تو یہی ہے۔باقی کیریئر بنانے کااگر موقع ملتا ہے تو بنا لو۔ اگرنہیں ملتا تو سب سے بڑی چیز گھرہے وہاں رہ کر اپنے بچوں کو سنبھالو اور ان کی اعلیٰ تربیت کرو تا کہ ان کو اچھا احمدی مسلمان اور اچھا شہری بناؤ۔

اردو زبان اور ادب کی تعلیم حاصل کرنے والی ایک طالبہ نے سوال کیا کہ وہ اپنی مصروفیات اور یونیورسٹی کے پروگراموں میں شمولیت کی وجہ سے ظہر اور عصر کی نمازیں وقت پر ادا نہیں کر پاتیں اور مغرب کے ساتھ ملا کر ادا کرتی ہیں۔

اس پر حضور انور نے فرمایا کہ وہ ظہر کا وقت شروع ہوتے ہی دس پندرہ منٹ کا وقفہ لے کر ظہر اور عصر کی نماز ادا کیا کریں اور مغرب اور عشاء کی نمازیں گھر جا کر پڑھیں۔حضور انور نے فرمایا کہ یونیورسٹی کے پروگراموں میں شمولیت کی وجہ سے ظہر عصر کی نمازوں کو مغرب کی نماز کے ساتھ ادا کرنا مناسب نہیں۔

فزکس کی تعلیم حاصل کرنے والی ایک طالبہ نے سوال کیا کہ بسا اوقات کوئی مضمون انسان کا کیریئر (career)بنانے میں تو مفید ہو سکتا ہے لیکن جماعت کے لیے وہ مضمون مفید نہیں ہوتا۔ایسی صورت میں کیا کرنا چاہیے؟

حضور انور کے استفسار فرمانے پر موصوفہ نے بتایا کہ وہ تعلیم مکمل کر کے ٹیچنگ کے شعبے میں جانا چاہتی ہیں۔

اس پر حضور انور نے فرمایا کہ اگر آپ ٹیچر بنیں تو یہ جماعت کے لیے بہت مفید ہو گا۔اگر آپ ایک مسلمان عورت کاحقیقی نمونہ دکھانے والی ہوں گی تودیگر سٹاف ممبران اور آپ کے طلبہ کو معلوم ہوگا کہ یہ خاتون اسلام کی تعلیمات کا حقیقی اظہار کرنے والی ہے ، اس کے ساتھ ایک اچھی استاد بھی ہے، اعلیٰ اخلاق کی مالک ہے،دینی علم بھی رکھتی ہے اور وقت پر نماز ادا کرتی ہے۔اس ذریعہ سےپھر تبلیغ کے نئے راستے کھلیں گے اور جماعت کا تعارف بھی مزیدبڑھے گا۔اس لیے ہر مضمون ہی جماعت کے لیے مفید ہے۔یہ نہ خیال کریں کہ فزکس کا مضمون جماعت کے لیے مفید نہیں۔انسان اپنے مضمون کو خود مفید یا غیر مفید بناتا ہے۔

حضور انور نے اس طالبہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ بیچلرز مکمل کرنے کے بعد MScکریں اور اگر ممکن ہو تو اس کے بعدPhDکریں۔ لیکن ساتھ یہ بھی یاد رکھیں،جیساکہ میں نے ابھی کہا کہ اگر مناسب رشتہ مل جائے تو آپ کی پہلی ترجیح یہی ہونی چاہیے کہ شادی کریں اور اپنے خاوند اور بچوں کو سنبھالیں۔اگر آپ کا خاوند پڑھائی جاری رکھنے یا یونیورسٹی یا کسی بھی فیلڈ میں کام کرنے کی اجازت دیتا ہے تو آپ ایسا کر سکتی ہیں۔ لیکن ہمیشہ یاد رکھیں کہ آپ کو اسلام کی تعلیمات کا حقیقی نمونہ دکھانا چاہیے جو کہ ایک احمدی خاتون اور لڑکی کا اصل کردار ہے۔

ایک لجنہ ممبر نے سوال کیا کہ میری حاملہ بہن کو ہسپتال میں داخل کیا گیا۔رسمی کارروائیوں میں تاخیر کی وجہ سے آخرکار اسے آئی سی یو میں منتقل کر دیا گیا۔افسوس کہ ان کارروائیوں کی وجہ سے اس کا حمل ضائع ہو گیا۔بطور ایک احمدی ہمیں طبی پیشہ میں اخلاقیات یا قانون میں سےکس کو ترجیح دینی چاہیے؟

اس پر حضور انورنے فرمایا کہ پہلے تو انسان کی جان بچانا ہے نہ کہ رسمی کارروائیاں۔ رسمی کارروائیاں تو بعد میں بھی کی جا سکتی ہیں۔ پہلی ترجیح انسان کی جان بچانا ہونی چاہیے۔ یہی اخلاقیات ہیں اور یہی ڈاکٹر کی ذمہ داری ہے اور یہی ایک ڈاکٹر کی طرف سے حقیقی کارروائی ہے جیسا میں نے کہا کہ اسے اچھے اخلاق کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ پہلی ترجیح اخلاق ہے۔ پیشہ ورانہ اخلاقیات پہلی ترجیح ہے۔ دونوں تقاضا کرتے ہیں کہ مریض کے علاج کو ترجیح دی جائے نہ کہ داخلہ کی رسمی کارروائیوں کو مکمل کرنے میں وقت لگایا جائے۔ یہ غلط ہے۔ ایسے ڈاکٹرز جو رسمی کارروائیوں کے پیچھے پڑے رہتے ہیں اور اپنے مریضوں کی فوری دیکھ بھال نہیں کرتے اپنے مریضوں سے ہمدردی نہیں کرتے وہ ڈاکٹر نہیں وہ قصائی ہیں۔ اس لیے انہوں نے جو بھی کیا غلط کیا۔ ڈاکٹر کی پہلی ترجیح انسانی جان کی قدر ہونی چاہیے نہ کہ انتظامیہ کی رسمی کارروائیاں۔

ملاقات کے اختتام پر حضور انور نے تمام شاملین کو فرمایا کہ اللہ حافظ۔السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button