حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

اسلام ہی زندہ خدا کا تصور پیش کرتا ہے

(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۲؍ اپریل ۲۰۱۰ء)

آج اسلام ہی ہے جو زندہ خدا کا تصور پیش کرتا ہے۔ اسلام ہی ہے جو قیامت تک دائمی نجات کا راستہ دکھانے والا مذہب ہے۔ اسلام کا خدا ہی ہے جو اسلام کی زوال کی حالت میں بھی تجدید دین کے لئے اپنے فرستادے بھیجنے کا وعدہ فرماتا ہے، تسلی دلاتا ہے اور بھیجتا ہے۔

آج اسلام کا خدا ہی ہے جس نے ایمان کوثریا سے زمین پر لانے کے لئے مسیح موعود اور مہدی ٴموعود کو بھیجا ہے اور آج اسلام کا خدا ہی ہے جس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے بعد آپؑ کی خلافت کے نظام کو جاری فرمایا۔ وہ نظام جو دائمی نظام ہے اور جو مومنین کی جماعت کو ایک لڑی میں پرونے کے لئے جاری کیا گیا ہے تاکہ ہر فرد کی روحانی خوبصورتی نظر آئے۔ تاکہ دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کے لئے ہر وقت راہنمائی کی کوشش ہوتی رہے۔ پس مسلمانوں کا دین تو زندہ دین ہے۔ ہمیشہ قائم رہنے والا دین ہے اور اس کی حفاظت کا اللہ تعالیٰ نے وعدہ بھی فرمایا ہے۔ یہ وہ زندہ دین ہے جس کے غلبہ کا خداتعالیٰ کا وعدہ ہے۔ پس اگر کوئی مسلمان دین سے دُور جاتا ہے تو وہ اپنی دنیا و عاقبت خراب کرتا ہے۔ احمدیت یعنی حقیقی اسلام نے ترقی کرنی ہے انشاء اللہ اور کوئی طاقت اس کو روک نہیں سکتی۔ پس ہم جو احمدی کہلاتے ہیں، ہم جو آنحضرتﷺ کے عاشق صادق اور امام الزمان کے ساتھ کئے گئے عہد بیعت کے مطابق اپنی زندگیوں کو گزارنے کا دعویٰ کرتے ہیں، ان کا مقصود دنیا نہیں بلکہ دین ہے اور ہونا چاہئے ورنہ تو اس بیعت کا کوئی فائدہ نہیں۔ اور جیسا کہ مَیں نے کہا اس دین نے، اسلام نے تو ترقی کرنی ہے۔ احمدیت نے تو انشاء اللہ تعالیٰ غلبہ کے دن دیکھنے ہیں۔ اسلام تو زندہ دین ہے۔ اس نے تو کبھی نہیں مرنا۔ لیکن جیسا کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا جو اس دین کی تعلیم کو بھولے گا وہ ہلاک ہوگا۔ وہ اپنی بربادی کی طرف جائے گا۔ آنحضرتﷺ نے یہ نہیں فرمایا تھا کہ مجھے اسلام کی فکر ہے۔ بلکہ آپ کواس آخری دین کی یہ فکر تھی کہ یہ تمہارے عملوں کی وجہ سے دنیا سے نابودنہ ہو جائے۔ یہ تو الٰہی وعدہ ہے اور اس پر آپﷺ کو کامل یقین تھا کہ جو بھی حالات ہوں آخری فتح انشاء اللہ تعالیٰ اسلام کی ہی ہے۔ اس لئے آنحضرتﷺ نے مسلمانوں کو، اُمّت کے افراد کو یہ تنبیہ فرمائی کہ تم کہیں آسائش اور آرام اور دولت دیکھ کر دین سے دُور ہو کر اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈال دینا۔

آنحضرتﷺ کے صحابہ تو دولتمند ہوتے ہوئے بھی دین کو مقدم رکھتے تھے۔ دنیا کمانے کے باوجود بھی دین مقدم ہوتا تھا۔ اپنی دولت دین کی راہ میں بے انتہاء خرچ کرتے تھے۔ انہوں نے انتہائی تنگی اور کسمپرسی کی حالت بھی دیکھی اور ایسی کشائش بھی دیکھی کہ جب فوت ہوتے تھے تو کروڑوں کی جائیدادیں ان کی ہوتی تھیں اور ان کے پاس اتنا مال ہوتا تھا کہ وہ ان کے ورثاء میں بھی کروڑوں میں تقسیم ہوتا تھا۔ انہوں نے اسلام کی ترقی کے لئے اپنے مالوں کو بے دریغ خرچ کیا۔ انہوں نے بخل اور کنجوسی کے ساتھ اور پیسے جوڑ کریہ جائیدادیں نہیں بنائی تھیں بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرنے والے تھے۔ ان کی تجارتوں میں برکتیں پڑیں۔ انہوں نے دین کا خوب خوب حق ادا کیا پس ہمیں یہ نمونے اپنے سامنے رکھنے چاہئیں۔ ہمیں بھی یہ نمونے دکھانے کی طرف توجہ ہونی چاہئے۔ تبھی ہم اوّلین سے ملنے کے انعام کے تسلسل کو قائم رکھ سکتے ہیں، تبھی ہم خداتعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنے والے بن سکتے ہیں۔ سپین میں رہنے والے احمدی یاد رکھیں کہ آپ اس ملک میں رہتے ہیں جہاں ایک زمانے میں مسلمان حکومت بھی تھی اور مسلمانوں کی اکثریت بھی تھی۔ جہاں آج بھی سینکڑوں سال گزرنے کے بعد بھی عظیم الشان عمارات محلات اور مساجد میں لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہکے الفاظ کندہ نظر آتے ہیں۔ لیکن یہی وہ ملک ہے جہاں مسلمانوں کے دنیا میں پڑنے اور دین کی اصل بھلا دینے اور اس سے غافل ہو جانے کی وجہ سے قدم قدم پر ان کی داستان عبرت بکھری پڑی ہے۔ ایک وقت تھا کہ عیسائی بادشاہ اور شہزادے اپنی حکومتوں کے استحکام کے لئے مسلمانوں سے مدد کے خواہاں ہوتے تھے۔ باوجود مسلمانوں کے لئے دلوں میں بغض اور کینے اور دشمنیاں رکھنے کے اپنے مقصد کے حصول کے لئے اپنی تمام تر عزتوں کو بالائے طاق رکھ کر مسلمان بادشاہوں کے دربار میں حاضر ہو جاتے تھے۔ عیسائی موٴرخین بھی یہ لکھنے پر مجبور ہیں۔ دنیاوی لحاظ سے بھی مسلمان بادشاہ اس کرّوفر سے رہتے تھے کہ عیسائی بادشاہ، شہزادے ان کے تخت و تاج اور جاہ و حشمت کو دیکھ کر متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتے تھے۔ لیکن جب یہ سب کچھ آپس کی لڑائیوں میں بدل گیا جب مقصود صرف اور صرف دولت بن گیا اور اقتدار اور لہو ولعب ہو گیا تو یہ سب کچھ الٹ ہو گیا۔ اور مسلمان بادشاہ عیسائی بادشاہوں کی پناہ گاہیں تلاش کرنے لگ گئے اور پھر دنیا نے یورپ کے اس مسلمان ملک سے مسلمانوں کا خاتمہ اور ان کی ذلت اور رسوائی بھی دیکھی۔

لیکن اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ آخری فتح اسلام کی ہے اور اس کام کی تکمیل کے لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کو مبعوث فرمایا اور یہی کام آج حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے ماننے والوں کے سپرد ہے۔ یہ احیائے دین کا کام ہی ہے جس نے ہمیں بھی ہمیشہ کی زندگی بخشنی ہے۔ اگر ہم دنیا کی ہوا و ہوس میں پڑ گئے اور ان ملکوں میں آکر ہمارا کام صرف دنیا ہی رہ گیا تو یہ اس عہدِ بیعت کے بھی خلاف ہے جو ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام سے کیا ہے۔ ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ ہم نے جو عہد کیا ہے اللہ تعالیٰ اس کے بارہ میں ہم سے پوچھے گا۔ جیسا کہ وہ خود فرماتا ہے وَ اَوۡفُوۡا بِالۡعَہۡدِ ۚ اِنَّ الۡعَہۡدَ کَانَ مَسۡـُٔوۡلًا (بنی اسرائیل:35) اور اپنے عہد کو پورا کرو کیونکہ ہر عہد کے متعلق یقیناً جواب طلبی ہوگی۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت بیشک وسیع تر ہے اور اس کے تحت وہ جس سے چاہے رحم کا سلوک فرماتا ہے، فرماسکتا ہے۔ لیکن یہ بات ہمیشہ یاد رکھنی چاہئے کہ خداتعالیٰ کو کبھی دھوکہ نہیں دیا جاسکتا۔ اگر وہ چاہے تو ہر ہر عہد کے بارہ میں سوال کرے گا کہ کیوں اسے پورا نہیں کیا گیا۔ اگر ہم اپنے جائزے لیں تو انسان خوفزدہ ہو جاتا ہے کہ کیا ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام سے جوعہد بیعت باندھا ہے اس کو پورا کرنے والے بھی ہیں؟ اگر شرائط بیعت کو دیکھیں تو ان کا خلاصہ یہی نکلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے تمام حقوق کی ادائیگی کرنی ہے اور اس کے بندوں کے حقوق کی ادائیگی کرنی ہے۔ ہمیشہ یہ باتیں ہمارے پیش نظر رہنی چاہئیں۔ اسی طرح آنحضرتﷺ پر درُود بھیجنا ہے اور آپ کے غلام صادق کے ساتھ کامل اطاعت کا تعلق رکھنے کی طرف توجہ رکھنی ہے اور ہمیشہ دین کو دنیا پر مقدم رکھنا ہے۔ پس اس عہدِ بیعت کو جس کی دس شرائط ہیں ہر احمدی کو اپنے سامنے رکھنا چاہئے۔ تبھی ہم اپنی روحانی زندگی کے سامان کرسکتے ہیں اور تبھی ہم احیاء دین کے کام میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ممد و معاون بن سکتے ہیں۔ بعض دفعہ انسان اپنی ذاتی مصروفیات میں پڑ کر اپنی ترجیحات اور ضروریات کی وجہ سے مستقل مزاجی سے دین کے معاملات کی طرف اس طرح توجہ نہیں دے سکتا جس طرح اس کا حق ہے۔ اور یہ انسانی فطرت بھی ہے۔ اس لئے وقتاً فوقتاً اس عہد کی جگالی کرتے رہنا چاہئے۔

…آنحضرتﷺ کے حقیقی غلام بن کر دکھانے کی ضرورت ہے۔ اسلام کی تعلیم کی عملی تصویر بننے کی ضرورت ہے جو محبت، پیار اور بھائی چارے کے سوا کچھ نہیں ہے۔ جو حقوق اللہ اور حقوق العباد کے ادا کرنے کے سوا کچھ نہیں ہے اور یہ حالت اس وقت پیدا ہوسکتی ہے جب اپنے مقصد پیدائش کو سمجھیں گے۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button