متفرق شعراء

ایک ہنگامے پہ موقوف ہے گھر کی رونق

(آصف محمود باسط)

جلسۂ امنِ عالَم پر ایک نظم

 (بزبان  سیدنا حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام)

نوحۂ غم:

ہر طرف آفات اور آلام کا اک رقص ہے
یہ جہاں اب حشر کے میدان کا اِک عکس ہے

جب کہ انساں غربت و فاقہ کشی سے چُور ہے
یہ جہانِ نو، ترقی پر بہت مغرور ہے

آدمیت کی سبھی اقدار ہیں پستی میں گم
آدمی ہے نفرت و تفریق کی بستی میں گم

’’ایشیا و یورپ و امریکہ و افریقہ سب‘‘
کر کے بیٹھے ہیں فراموش اپنی ہستی کا سبب

رعب اب دجال کا ہے گشت پر دَرّانہ دَر
’’نیل کے ساحل سے لے کر تا بہ خاکِ کاشغر‘‘

مسجدوں کی شان و شوکت میں اذانیں کھو گئیں
سوز کے ترکش، دعاؤں کی کمانیں کھو گئیں

جنگجوئی سے جہاں سارا شکستہ تر ہوا
اور زلازل سے زمیں کا نقشہ خستہ تر ہوا

اسلحہ سے لیس ہیں اقوامِ عالم کی حدود
مٹ گئی ہیں جنگ کے آداب کی ساری قیود

رُوس نے مشرق سے مغرب کو جو للکارا ہے پھر
اتحادِ یورپ و امریکہ صف آراء ہے پھر

مستعد ہر سمت وہ ہتھیار ہیں جن کا شرر
ایک ہی جنبش میں کر دے گا زمیں زیر و زبر

بھوک ہے، افلاس ہے، امراض ہیں چاروں طرف
اور وباؤں کے نئے انداز ہیں چاروں طرف

ہائے! انساں بے خدا ہو کر کہاں پر آگیا
وقت کیسے خوف کا سارے جہاں پر آگیا

نغمۂ شادی:

دے رہا ہے آج میرا جا نشیں میرا پیام
اور مخاطب ہیں سبھی اقوام کے سب خاص و عام

اُس کے لفظوں میں چُھپی اقوام کی تقدیر ہے
جو قیامِ امن کی اب آخری تدبیر ہے

ہے ترقی میں ہوس کا بیج یوں بویا گیا
صنعت و حرفت کی چکی میں خدا کھویا گیا

وہ یہ کہتا ہے خدا کے ہاتھ کو پھر ڈھونڈ لو
گم شدہ ساتھی ہے، اُس کے ساتھ کو پھر ڈھونڈ لو

آدمی ہی آدمی کو کاٹ کر آگے بڑھا
دنیوی سبقت کا یوں اندھا سفر آگے بڑھا

طاقت و کثرت نے لوٹا جب غریبوں کا اناج
اقتصادی لالچوں کو مل گیا دنیا پہ راج

اِس نرالی دوڑ میں شرم و حیا جاتی رہی
جسم سے انسانیت کے ہر رِدا جاتی رہی

وہ بلاتا ہے جہاں کو امنِ عامہ کی طرف
اک نئے معجز نما قرطاس و خامہ کی طرف

قومِ احمدؐ کو وہ دیتا ہے پیامِ زندگی
اور یہ کہہ کر عطا کرتا ہے جامِ زندگی

شست باندھے، تاک میں بیٹھا ہوا اب غیر ہے
’’صدق سے میری طرف آؤ اِسی میں خیر ہے‘‘

’’اب اِسی گلشن میں لوگو راحت و آرام ہے‘‘
مہرباں ہم پر ہمیشہ چرخِ نیلی فام ہے

آگ سے کندن میں ڈھل کر ہم نکلتے ہیں مدام
آگ ہے میرے غلاموں کے غلاموں کی غلام

آؤ مل کر سرد کر دیں نفرتوں کی آگ کو
آؤ مل کر آج گائیں آسمانی راگ کو

شوکتِ پُر رعب سے نصرت عطا اُس کو  ہوئی
اور مسیحائی کی اک طاقت عطا اُس کو ہوئی

آج اُس کی بات پر دنیا ہمہ تن گوش ہے
اُس کا ہی مضمون بالا ہے، جہاں خاموش ہے


متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button