حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

یہ دیکھو کہ سزا دینے میں اصلاح ہو سکتی ہے یا معاف کرنے میں

عموماً جو عادی مجرم نہیں ہوتے وہ درگزر کے سلوک سے عام طور پر شرمندہ ہو جاتے ہیں اور اپنی اصلاح بھی کرتے ہیں اور معافی بھی مانگ لیتے ہیں۔ اس ضمن میں حضرت مصلح موعودؓ نے بھی تفصیل سے ذکر کیا ہے فرماتے ہیں کہ مومنون کو یہ عام ہدایت دی ہے کہ انہیں دوسروں کی خطاؤں کو معاف کرنا اور ان کے قصوروں سے درگزر کرنا چاہئے مگر معاف کرنے کا مسئلہ بہت پیچیدہ ہے۔ بعض لو گ نادانی سے ایک طرف نکل گئے ہیں اور بعض دوسری طرف۔وہ لوگ جن کا کوئی قصور کرتا ہے وہ کہتے ہیں کہ مجرم کو سزا دینی چاہئے تاکہ دوسروں کو عبرت ہو اور جو قصور کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ معاف کرنا چاہئے خدا خود بھی بندے کو معاف کرتا ہے۔ تو جب خدابندے کو معاف کرتا ہے تم بھی بندوں کے حقوق ادا کرو ناں۔ وہی سلوک تمہارا بھی بندوں کے ساتھ ہونا چاہئے۔ مگر یہ سب خود غرضی کے فتوے ہیں۔ جو شخص یہ کہتا ہے کہ خدا معاف کرتا ہے تو بندے کو بھی معاف کرنا چاہئے وہ اس قسم کی بات اسی وقت کہتا ہے جب وہ خود مجرم ہوتا ہے۔ اگر مجرم نہ ہوتا تو ہم اس کی بات مان لیتے لیکن جب اس کا کوئی قصور کرتا ہے تب وہ یہ بات نہیں کہتا، اسی طرح جو شخص اس بات پر زور دیتا ہے کہ معاف نہیں کرنا چاہئے بلکہ سزا دینی چاہئے وہ بھی اسی وقت یہ بات کہتا ہے جب کوئی دوسرا شخص اس کا قصور کرتاہے لیکن جب وہ خود کسی کا قصور کرتا ہے تب یہ بات اس کے منہ سے نہیں نکلتی۔ اس وقت وہ یہی کہتا ہے کہ خدا جب معاف کرتا ہے تو بندہ کیوں معاف نہ کرے۔ پس یہ دونوں فتوے خود غرضی پر مشتمل ہیں۔ اصل فتویٰ وہی ہو سکتاہے جس میں کوئی اپنی غرض شامل نہ ہو اور وہ وہی ہے جو قرآن کریم نے دیا ہے کہ جب کسی شخص سے کوئی جرم سرزد ہوتو تم یہ دیکھو کہ سزا دینے میں اس کی اصلاح ہو سکتی ہے یا معاف کرنے میں۔ (تفسیر کبیر جلد ۶ صفحہ ۲۸۵)

(خطبہ جمعہ ۲۰؍ فروری ۲۰۰۴ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۵؍مارچ۲۰۰۴ء)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button