امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ لجنہ اماء اللہ اور ناصرات الاحمدیہ ڈنمارک کی (آن لائن) ملاقات
امام جماعت احمدیہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ مورخہ۱۹؍فروری۲۰۲۳ء کو جماعت احمدیہ ڈنمارک کی لجنہ اماء اللہ اور ناصرات الاحمدیہ کی آن لائن ملاقات ہوئی۔
حضورِ انور نے اس ملاقات کو اسلام آباد (ٹلفورڈ) ميں قائم ايم ٹي اے سٹوڈيوز سے رونق بخشي جبکہ مسجد نصرت جہاں کوپن ہیگن ڈنمارک سےلجنہ اماء اللہ اور ناصرات نے آن لائن شرکت کی۔
پروگرام کا آغاز تلاوت قرآن کریم مع اردو ترجمہ سے ہوا۔ اس کے بعد حدیث مع اردو ترجمہ پیش کی گئی۔بعد ازاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک اقتباس پیش کیا گیا۔
اس کے بعد مختلف امور پر لجنہ اماء اللہ اور ناصرات کو حضور انور سے سوال کرنے کا موقع ملا۔
ایک ناصرہ نے سوال کیا کہ ایک حدیث میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اگر میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو نہ پیدا کرتا تو پھر میں اس دنیا کو نہ پیدا کرتا۔ اس کا کیا مطلب ہے اور ایسا کیوں فرمایا گیا ہے؟
اس پر حضور انورنے فرمایا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بہت پیارے تھے اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو کامل انسان بنایا۔ اللہ نے کہا کہ دنیا میں کوئی بھی perfectانسان نہیں سوائے ایک کے جو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور انسان کے لحاظ سے بھی آپؐ کو کامل بنایا۔شریعت کے لحاظ سے بھی آپؐ کو کامل بنایا اور دنیا کی ہدایت کے لیے بھی آپؐ کی ہدایت کو کامل بنایا۔ تو اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کا نمونہ دکھانا چاہتا تھا کہ یہ میری قدرت ہے کہ میں اس انسان کو کامل اور مکمل بنا دوں ۔
کسی بھی چیز کو بنانے کا مقصد بے فائدہ نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ نے مخلوق بنائی اور پھر انسان کو بنایا اور ساری مخلوق کو اس کے تابع کر دیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اتنا پیار تھا کہ اس نے اپنے پیار کا اظہار کیا کہ مَیں نے دنیا ہی اس لیے بنائی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جیسا انسان دنیا میں پیدا کروں ، پھر دنیا اس کو دیکھے،ان کی شریعت پہ عمل کرے،ان کے نقش قدم پہ چلے، ان کی سنت پہ عمل کرے۔یہ ایسا کامل اور مکمل انسان ہے جس کے پیچھے چل کے تم اللہ تعالیٰ کا پیار حاصل کر سکتے ہو۔ اگر یہ نہیں تو تمہارا اس دنیا میں آنا بھی بے فائدہ اور فضول ہے۔ پھر اس دنیا کا کوئی مقصد نہیں رہتا۔
دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس نے جن و انس کو عبادت کے لیے پیدا کیا۔ وَمَا خَلَقۡتُ الۡجِنَّ وَالۡاِنۡسَ اِلَّا لِیَعۡبُدُوۡنِ۔ انسان کو عبادت کے لیے پیدا کیا ،جنوں کو عبادت کے لیے پیدا کیا اور اس کے اعلیٰ ترین معیار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قائم فرمائےاورآپؐ نے ہمیں بتائے۔
دنیا کی پیدائش کا مقصد ہمیشہ سامنے رکھو۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ پر چلو،ان کی شریعت پر عمل کرو۔اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ دیکھو! مَیں نے کیسا کامل انسان بنا کے تمہارے سامنے نمونے کے طور پر پیش کر دیا۔ اگر تم یہ سمجھ جاؤ تبھی تمہاری زندگی کامیاب ہے نہیں تو تمہاری زندگی بے فائدہ ہے ۔ میں اس دنیا کو پیدا ہی نہ کرتا اگر میرا یہ مقصد نہ ہوتا کہ انسان اپنے اعلیٰ معیار کو حاصل کرے۔
ایک سوال کرنے والی نے عرض کیا کہ رات کو اکثر مجھے خوف آتا ہےاور اس حوالے سے حضور انورسے دریافت کیا کہ وہ کونسی دعا پڑھاکریں؟
اس پر حضور انور نے فرمایا کہ سونے سے پہلے کی دعا یاد کرواور اللہ تعالیٰ سے دعا کرو کہ مجھے اپنی حفاظت میں رکھ۔
حضور انور نے استفسار فرمایا کہ کیا آیت الکرسی یاد ہے؟ جس پر موصوفہ نے عرض کی کہ وہ ابھی وہ یادکر رہی ہیں۔اس پر حضور انور نے فرمایا کہ اسے یاد کر کے رات کو پڑھا کرو۔
ایک سوال میں حضور انور سے سورۃ الطارق کی ابتدائی چار آیات کا مطلب دریافت کیا گیا جس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’’میں آسمان کو اور صبح کے ستارے کو شہادت کے طور پر پیش کرتا ہوں۔ اور کس چیز نے تجھے علم دیا ہے کہ صبح کا ستارہ کیا ہے۔ وہ ستارہ (وہ ہے) جو بہت چمکتا ہے۔‘‘
اس پر حضور انور نے فرمایا کہ اس کا جواب جماعتی تفاسیر کی کتب سے مل سکتا ہے۔
مختصراً یہ کہ آنحضرتﷺ کی بعثت ایسے وقت میں ہوئی جب دنیا میں روحانی اندھیرا چھایا ہوا تھا اور لوگ مذہب اور خدا سے دور جا چکے تھے۔چنانچہ روحانی اندھیروں کو دور کرنے اورانسانیت کو بچانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے’’صبح کے ستارے‘‘کو مبعوث فرمایا۔
آنحضرتﷺ کی پیشگوئیوں کے مطابق مسلمانوں پر ایک اندھیرا زمانہ آنا تھا جس کے بعد مسیح موعود کی بعثت ہونی تھی۔ آپ کی بعثت بھی ’’صبح کے ستارے‘‘ کی مانند تھی۔
حضور انور نے فرمایا کہ ان آیات کی مختلف تفاسیر کی جاتی ہیں اور ان سے مراد آنحضرت ﷺ اور حضرت مسیح موعودؑدونوں ہو سکتے ہیں۔
ایک ممبر لجنہ اماء اللہ نے سوال کیا کہ ہمارے بچے دو معاشروں کے درمیان پرورش پاتے ہیں جہاں دن کا ایک بڑا حصہ مغربی ماحول یعنی سکول کالجز میں گزار کر آتے ہیں اور باقی گھر پر۔ دیکھا گیا ہے کہ اکثر اوقات نوجوانی میں کچھ بچے identityکی problemکا شکار ہو جاتے ہیں۔ پیارے حضور،میرا سوال یہ ہے کہ ماں باپ بچپن سے کس طرح اپنے بچوں کی تربیت کریں کہ وہ ان complexesمیں نہ پڑیں؟
اس پر حضور انورنے فرمایاکہ آپ کے بچے پانچ چھ سال کی عمر میں یابعض جگہ چھ سات سال کی عمر میں سکول جاتے ہیں۔ تو پانچ سے لے کر سات سال کی عمر تک تو وہ آپ کے پاس رہتے ہیں۔ اس وقت آپ ان کو بچہ سمجھتی ہیں، کہتی ہیں کوئی بات نہیں بس کھیلتے رہو۔ حالانکہ اس وقت ان کو نیکی کی چھوٹی چھوٹی باتیں سکھایا کریں،دعائیں سکھایا کریں۔
بعض ماں باپ ایسے ہیں جو چار پانچ سال کی عمر میں بچے کو قرآن شریف تو ختم کروا لیتے ہیں اورپھر کہتے ہیں کہ ہمارے بچے نے پانچ سال کی عمر میں قرآن کریم ختم کر لیا ہے اس کی آمین کروا دو ۔لیکن اس کو دین کی باقی باتیں نہیں سکھاتے۔ ان کو پتا ہی نہیں لگتا کہ قرآن ہم نے پڑھ لیا تو اس میں ہے کیا۔ تو یہ چھوٹی چھوٹی باتیں بچوں کے ذہنوں میں ڈالنی چاہئیں۔
بچہ تو نیکی کی باتیں سیکھتا ہے۔اس لیے اسلام میں حکم ہے کہ جب بچہ پیدا ہو تو اس کے دائیں کان میں اذان دو اوربائیں کان میں تکبیر کہو۔ اس وقت تو وہ عقل نہیں رکھتا لیکن اس کے باوجود اللہ اور رسول کا نام اورخدا تعالیٰ کی وحدانیت کی تعلیم اس کے کانوں میں ڈالی جاتی ہے۔
اس کے بعد آپ کہتی ہیں کہ ہمارے بچے سکول میں جاتے ہیں اوروہاں سے متاثر ہوتے ہیں۔بالکل ٹھیک ہے۔ لیکن میں نے تو حساب لگایا ہے کہ مغربی ممالک میں سال کے تین سو پینسٹھ(۳۶۵)دنوں میں سے ایک سو اسّی (۱۸۰)سے ایک سو نوّے(۱۹۰)دن سکول کے ہوتے ہیں اور ایک سو اسّی (۱۸۰)دن ان کے چھٹیوں کے ہوتے ہیں۔ اب آدھا سال بچے آپ کے پاس رہتے ہیں۔ اس وقت آپ ان کو کہتی ہیں کہ سیر کرواور میرا دماغ نہ کھاؤ۔ اگر ماں کہیں کام کر رہی ہے تو وہ اپنے کام پہ چلی جاتی ہے،باپ اپنے کام پہ چلا جاتا ہے اوربچے ٹی وی کے اوپر بیٹھ کرکھیل رہے ہوتے ہیں۔ تو وہی اثر جو وہ ایک سو اسّی (۱۸۰)دن سکول سے سیکھتے ہیں وہ بقایا ایک سو اسّی (۱۸۰)دن گھر میں بیٹھ کے گیمز اورانٹرنیٹ پہ playکرتے ہوئے ،ٹی وی دیکھتے ہوئے گزارتے ہیں۔پھر کوئی نیکی کی بات ان میں نہیں پڑ رہی ہوتی۔اس لیے اس میں بھی ایسا planبنائیں کہ کم از کم ۱۸۰؍دنوں میں سے نوّے دن ہی آپ بچوں کو دے دیں تو ۳/۱حصہ تو دین کی تعلیم سکھانے کے لیےآ جائے گا ۔ ان کو بتائیں کہ دین کی اہمیت کیا ہے؟ ہم کون ہیں؟ ہم احمدی مسلمان ہیں ،اسلام کیا چیز ہے؟ اللہ تعالیٰ ہم سے کیا چاہتا ہے؟
آج کل سکول میں جو پڑھاتے ہیں مثلاً جینڈر (gender)کی تعلیم یا اس طرح کی اَورباتیں بتاتے ہیںتو ان کو بتائیں کہ تم سکول میں تو یہ باتیں سیکھتے ہو لیکن اللہ تعالیٰ جس نے ہمیں پیدا کیا ،اس کو ہمارا سب کچھ پتا تھا اور اس نے ہمیں بتایا کہ تم لوگ کس طرح صحیح رہ سکتے ہو۔یہ باتیں آزادی نہیں ہے بلکہ آزادی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو باتیں کہی ہیں ان کو ہم مانیں اس سے تعلق پیدا کریں اور دین کو سیکھیں۔
یہ تو ایک محنت ہے۔جتنی محنت سکول والے آزادیاں دینے کے لیے کرتے ہیں، اتنی محنت گھر میں ماں اور باپ بھی کریں۔ماں کا اصل کام تو بچوں کی تربیت کرنا ہے۔اگر بچوںکوسنبھال لیں تواس کا مطلب ہے کہ اگلی نسل آپ نے سنبھال لی۔ سوائے اس کے کہ کوئی ماں ڈاکٹر یا ٹیچر ہے اور پروفیشن میں جاتی ہے تو جب وہ پانچ سے آٹھ گھنٹے کی ڈیوٹی دے کر واپس آتی ہے تو پھر اپنے بچوں کو بھی وقت دے۔ جو دوسری مجبوری کی خاطر نوکری کر رہی ہے تو وہ اَور بات ہے نہیں تو ایسی سٹیج (stage)پر جب بچوں کی تربیت کا مسئلہ ہو تواپنی نوکری کی قربانی کرنی چاہیے۔
اسی طرح باپوں کو بھی weekend بجائے ادھر ادھر گزارنے کے جب وہ کام سے واپس آتے ہیں تو اگر ان کے پاس وقت ہے تو گھنٹہ دو گھنٹے بچوں کے پاس بیٹھیں۔مائیں بھی وقت دیں۔ تو یہ دونوں ماں باپ کی مشترکہ کوشش ہو گی جس سے اس ماحول میں سیکھنے کے باوجود بھی بچوں کے کانوں میں دین کی باتیں بھی پڑتی رہیں گی۔ وہ ماں باپ کو دیکھیں گے کہ نمازیں پڑھ رہے ہیں، قرآن پڑھ رہے ہیں،دعائیں کر رہے ہیں،دین کی باتیں کر رہے ہیں تو عملی نمونہ بھی سامنے آ جائے گا۔ اگر بڑوں کا عملی نمونہ نہیں آئے گا تو بچوں نے کیا سیکھنا ہے؟ اگر بچوں کو آپ نے سکول میں کھلی چھٹی دے دی اور یہاں بھی کھلی چھٹی دے دیں گے تو اس کا کیا نتیجہ نکلے گا؟
اب یہاں بعض جگہ قانون پاس ہو رہے ہیں،سپین میں بھی ہو گیا،کہ اگر بچہ چاہے توسولہ سال کی عمر میں اپنا جینڈر (gender)بدل سکتا ہے۔ اس پر ان لوگوں نے سوال اٹھانا شروع کیا کہ بغیر نگرانی کے اٹھارہ سال سے پہلے شراب پینے کی تم اجازت نہیں دیتے لیکن اس با ت کی تم آزادی دے رہے ہو۔اس کا مطلب ہے کہ یہ دجالی چال ہے۔ یہ بہت خطرناک چال ہے تا کہ دنیا کو دین سے دور کیا جائے اور دہریت کو قائم کیا جائے۔ یہ دہریت کا ایجنڈا ہے جو کام کر رہا ہے۔ دجال کا ایجنڈا ہے جو کام کر رہا ہے۔ عیسائیت کو لوگ بھول چکے ہیں۔ مذہب کو لوگ بھول چکے ہیں۔ان کی طرف کوئی جاتا نہیں۔ابھی تک جو اعداد و شمار آتے ہیں،جو statisticsآتی ہے،اس کے مطابق یہی ہے کہ ابھی تک مذہب پہ زیادہ عمل کرنے والے صرف مسلمان ہی ہیں۔ بلکہ پچھلے دنوں میں تو ایک دہریہ نے لکھا کہ مَیں مذہب کے خلاف تو ہوں لیکن مجھے یہ پتا لگ گیا ہے کہ اگر کوئی مذہب سچا ہے تو اسلام ہی ہے کیونکہ عیسائیت تو اپنا سب کچھ چھوڑ بیٹھی ہے۔تو اگر ہم بھی اسی رَو میں بہ گئے، بچوں کو نہ سکھایا،اپنے آپ کو صحیح نہ کیا ، اپنی تربیت خود نہ کی،اپنے نمونے بچوں کے سامنے قائم نہ کیے تو ہمارے بچے بھی اسی رَو میں بہ جائیں گے۔ پھر وہ اسلام کو بھی کچھ نہیں سمجھیں گے۔ تو ہمیں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ ہمارے پاس ایک زندہ مذہب ہے،اس کی تعلیم ہمارے پاس ہے اور اس کی تعلیم ہر عقل کی بات ہمیں بتاتی ہے۔ موجودہ زمانے کے لحاظ سے ہمیں adjustکرنا بھی سکھاتی ہے۔پھر اگر ہم اس پر عمل نہ کریں تو یہ ہماری بدقسمتی ہو گی اور ہم اپنے بچوں کو ضائع کرنے والے ہوں گے۔ اس لیے یہ ساری چیزیں ماں باپ دونوں کو مل بیٹھ کر سوچنی چاہئیں اور planکرنا چاہیے اور میں وقتاً فوقتاً اس بارے بتاتا بھی رہتا ہوں۔اس کو سنا اوردیکھا کریں۔ پہلے خلفاء نے جوباتیںبتائی ہیں ان کو بھی دیکھیں اور سنیں۔ یہ چیزیں غور سے سیکھنے والی ہیں، ہر خطبے کو اگر غور سے سنیں تواس میں سبق والی باتیں ہوتی ہیں ۔ ایم ٹی اے کے پروگرام آتے ہیں ان میں بعض باتیں سبق آموز ہوتی ہیں۔ یہ ساری چیزیں دیکھا کریں۔ پھر اصل چیز آپ کا اپنا عمل ہے۔ خود عمل نہیں تو بچوں نے کیا سیکھنا ہے؟ یہ تو صرف بہانہ ہے کہ سکول میں رہتے ہیں۔۳۶۵؍دنوں میں سے۱۸۰؍دن آپ کے پاس رہتے ہیں۔
ایک ناصرہ نے سوال کیا کہ مَیں بحیثیت وقف نو آپ کی سلطان نصیر کیسے بن سکتی ہوں؟
اس پرحضور انورنے فرمایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مشن ہے کہ دنیا میں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کو قائم کرنا،اللہ تعالیٰ کو ایک ثابت کرنا ، اس کے پیغام کو دنیا میں پہنچانا، اسلام کے پیغام کو دنیا میں پہنچانا ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام دنیا کو بتاناکہ آپ آخری نبی ہیں اور آپ کی شریعت آخری شریعت ہےاورقرآن کریم آخری کتاب ہے۔ اسی مشن کو پورا کرنے کے لیے اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعودؑ کو بھیجا اور اسی مشن کو پورا کرنے کے لیے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد خلافت کا سلسلہ جاری ہوا۔ خلیفہ وقت وہی کام کرتا ہے جو مسیح موعود علیہ السلام کے سپرد اللہ تعالیٰ نے کیا تھا۔ خلیفہ وقت ساری دنیا میںجا کر اکیلا تو کام نہیں کر سکتا۔ اس لیے دنیا میں پھیلے ہوئے احمدی یہ کام کریں اورخلیفہ وقت کا ہاتھ بٹائیں ،اس کے مددگار بنیں، اپنے آپ کو نیک بنائیں، اپنی عبادتوں کے معیار بڑھائیںاور اچھی طرح پانچوں نمازیں پڑھا کریں۔پھر احمدی نفل پڑھیں، قرآن کریم کو پڑھیں،اس کا علم حاصل کریںاور اس پہ عمل کرنے کی کوشش کریں،اس کی نیکیوں کو اختیار کریں اور اللہ تعالیٰ نے جن برائیوں سے منع کیا ہےان کو چھوڑیں۔پھر یہ پیغام دنیا کو بھی پہنچائیں،تبلیغ کریں۔اس طرح آپ لوگ خلیفہ وقت کے سلطان نصیر بن جاتے ہیں۔سلطان نصیر کا مطلب ہوتا ہے ’’اعلیٰ قسم کے مددگار‘‘۔ تو مدد کرنے والے بن جاؤ۔ اگر بچے،بڑے ،جوان،مرد ،عورتیں ایسا کریں تو پھر دیکھو کس طرح جماعت احمدیہ کا پیغام ،اسلام کا حقیقی پیغام، دنیا میں پہنچتا ہے۔ تم لوگ ڈنمارک میں کوشش کرو،سویڈن والے سویڈن میں کوشش کریں، ناروے والے ناروے میں کوشش کریں، دوسرے ملکوں کے لوگ دنیا کے دوسرے ملکوں میں کوشش کریں تو پھر ایک انقلاب پیدا ہو سکتا ہے۔
ایک ناصرہ نے عرض کیا کہ ناصرات نے وعدہ کیا ہوا ہے کہ ہم روزانہ حضور انور کے لیے دعا کریں گی اور سوال کیا کہ کیا حضورکام کا زیادہ بوجھ ہونے کی وجہ سے کبھی تھکتے نہیں؟
اس پر حضور انور نے مسکراتے ہوئے اس بچی کو نصیحت فرمائی کہ وہ خلیفہ وقت کے لیے دعائیں جاری رکھےاور یقین دلایا کہ اللہ تعالیٰ انشاء اللہ اپنے خلیفہ کی مدد فرماتا رہے گا۔
ایک سوال کیا گیا کہ حضرت مسیح موعودؑ نے۱۸۹۰ءمیں مسیح موعود ہونے جبکہ ۱۸۹۱ء میں امام مہدی ہونے کا دعویٰ کیا۔امام مہدی اور مسیح کے چودھویں صدی میں آنے کی پیشگوئی کا ثبوت ہمیں کہاں سے ملتا ہے؟
اس پر حضور انور نے بعض احادیث کی طرف اشارہ فرمایا اور سوال کرنے والی کو احادیث کے مطالعہ کی طرف توجہ دلائی اوراستفسار فرمایا کہ کیا ان کے پاس کتاب حدیقۃالصالحین ہے؟ اس کے آخری چند صفحات میں مسیح موعودکے ظہور کے وقت کے حوالے سے احادیث موجود ہیں۔
حضور انور نے فرمایا کہ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ مسیح موعود کا کب ظہور ہو گا۔ آنحضرتﷺ نےمسیح موعود کے ظہور کا وقت تیرھویں صدی کے اختتام اور چودھویں صدی کے آغاز پرفرمایا ہے۔
حضور انور نے اس حدیث کی مختصر وضاحت فرمائی جس میں ذکر ہے کہ جب سورۃ الجمعہ کی آیت وَاٰخَرِیۡنَ مِنۡہُمۡ لَمَّا یَلۡحَقُوۡا بِہِمۡ نازل ہوئی تو صحابہؓ کے پوچھنے پرکہ آخرین سے کون مراد ہیں آنحضرتﷺنے حضرت سلمان فارسیؓ کے کندھے پر اپنا ہاتھ رکھ کر فرمایا کہ اگر ایمان ثریا پر بھی چلا جائے تو فارسی النسل لوگوں میں سے ایک شخص اسے واپس لے آئے گا۔
حضور انور نے فرمایا کہ اگر تمام احادیث کو ملا کر پڑھا جائے تو معلوم ہوگا کہ چودھویں صدی، مسیح موعود اور امام مہدی کے متعلق پیشگوئیاں سب ایک وقت کی طرف ہی اشارہ کرتی ہیں۔
ایک سوال کیا گیا کہ حضوراپنے خطبات اور خطابات میں جماعت کو نصیحت فرماتے ہیں اور ہماری کمزوریوں کی طرف توجہ دلاتے ہیں ۔اگر کبھی ہم اپنے اجلاسات میں بعض روحانی کمزوریوں یا برائیوں کا ذکر کرتے ہوئے نصیحت کرتی ہیں تو اکثر لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ نصیحت ہے کوئی فیصلہ نہیں اور ہر بات پر عمل کرنا ضروری نہیں اور بعض ایسے بھی ہوتے ہیں جو کہہ دیتے ہیں کہ ہمیں ٹارگٹ کیا جاتا ہے۔ اگر ایسے لوگوں کو علیحدگی میں بٹھا کر نصیحت کریں تب انہیں اچھا نہیں لگتا۔اس بارے میں ہماری راہنمائی فرمائیں۔
اس پر حضور انورنے فرمایا کہ جو تقریر کرنے والا ہے اگر وہ جنرل نصیحت کر رہا ہے، خطبہ دینے والا جنرل نصیحت کر رہا ہے تو یہ اللہ اور اس کے رسولؐ کے حکم کے مطابق ایک عمومی نصیحت ہے۔
محاورہ ہےکہ چور کی داڑھی میں تنکا۔ اب اگر ایک شخص میں یہ کمزوریاں پائی جاتی ہیں تو وہ کہہ دے کہ نہیں! مجھے ہی تم نے ٹارگٹ کیا ہے کیونکہ میرے اندر یہ کمزوریاں پائی جاتی ہیں تو یہ اس کی کم ظرفی یا بیوقوفی ہے جو ایسی باتیں کر رہا ہے۔ حالانکہ نصیحت تو مجموعی طور پر کی جا رہی ہے اور اگر اس میں کمزوریاں ہیں تو اس سے تو سبق سیکھنا چاہیے۔اس کو اللہ کا اور اس بندے کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ اس نے مجھے اس طرف توجہ دلائی تا کہ مَیں صحیح احمدی مسلمان بن جاؤں۔ کئی لوگ مجھے خط لکھتے ہیں کہ آپ جب خطبات دے رہے ہوتے ہیںتو بعض دفعہ تاریخی باتوں میں ہی بہت ساری ایسی باتیں آجاتی ہیں کہ لگتا ہے آپ ہمارے متعلق بات کر رہے ہیںاورہماری اصلاح کی کوشش کر رہے ہیں۔اور جب ہم اپنےجائزے لیتے ہیںتو شرم آتی ہے اور ہم اپنی اصلاح کی کوشش کرتے ہیں۔ تو ایسے لوگ بھی ہیں جو سبق لینے کی کوشش کرتے ہیں لیکن جو ڈھیٹ ہیں جن پہ کسی بات کا اثر ہی نہیں ہونا اور انہوں نے دوسرے پہ الزام دیتے رہنا ہے ان کو آپ جو مرضی کہہ لیں ان پہ اثر ہی نہیں ہو گا۔ان کے لیے پھر دعا ہی کر سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کو عقل اور سمجھ دے اور ان کو یہ سمجھنے کی توفیق دے کہ وہ حقیقی احمدی بن جائیں۔
نصیحت کرنے والا ،تقریر کرنے والا یا اگر کوئی مرد ہے توامام یا مربی جوخطبہ دینے والا ہےاگر وہ تقویٰ سے کام لیتے ہوئے خطبے میں باتیں کر رہا ہے تو پہلے وہ دعا کر کے جائے کہ اللہ تعالیٰ میری زبان میں تاثیر رکھ دے کہ میں جو بھی کہوں اس پہ لوگوں کو عمل کرنے کی توفیق ملے، اس کو غور سے سن سکیں اور اس کا دل پہ اثر ہو اور پھر بعد میں بھی دعا کرے کہ اللہ تعالیٰ ان کے دلوں پہ ان باتوں کا اثر ڈالے اور ہم ایک نیک جماعت بن جائیں۔وہ جماعت بن جائیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہمیں بنانا چاہتے تھے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بےشمار جگہ بعض امور کے متعلق لکھا ہے۔اس زمانے میں بھی بعض باتیں ہو جاتی تھیں جن پر آپؑ نے بڑی ناراضگی کا اظہار فرمایا۔تو یہ کہنا کہ یہ صرف نصیحت ہے درست نہیں۔اب نماز ادا کرنے اور قرآن شریف پڑھنے کا حکم ہے۔لوگ کہہ دیں کہ یہ تو نصیحت کی تھی، ضروری تو نہیں کہ ہم نماز پڑھیں۔ اللہ تعالیٰ تو کہتا ہے کہ میں نے انسان کو عبادت کے لیے ہی پیدا کیا ہے۔ اب عبادت کی طرف توجہ دلاؤ تو کہہ دیتے ہیں کہ یہ ہمارا ذاتی معاملہ ہے۔ اگر انسان کا نمازیں پڑھنا یا نہ پڑھنا اتنا ہی ذاتی معاملہ ہے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کیوں فرمایا کہ میرا دل چاہتا ہے جو عشاء کی نماز پہ نہیں آتے ان کے گھروں کو جا کے آگ لگا دوں؟ کوئی مقصد ہے ورنہ آپ تورحمۃ للعالمین ہیں۔آپ یہ تو نہیں کہہ سکتےکہ جو نمازیں نہیں پڑھتا اس کو میں سزا دوں۔ آپ تو ہر ایک کے لیے رحمت اور شفقت تھے۔یہ چیزیں بتاتی ہیں کہ انسان کو نصیحت کرنا ضروری ہے اور جن کو نصیحت کی جاتی ہے ان کو بھی ذاتیات پہ نہیں آ جانا چاہیے بلکہ ان باتوں پہ غور کرنا اورسمجھنا چاہیے۔
اگر کسی کے ان سے اچھے تعلقات ہیں تو ان کے ذریعہ سمجھائیں۔نہیں تو پھر عہدیداروں کو، لجنہ کے عہدیداروں کو بھی اور مرد عہدیداروں کو بھی ایسے لوگوں سے اچھے تعلقات بنانے چاہئیں،ان سے ذاتی تعلق پید اکریں۔پھران کے گھروں میں جاکر ان کو سمجھائیں کہ ہمارا مقصد کیا ہے،ہم نے اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی ہے اس لیےکی ہے کہ اسلام کی حقیقی تعلیم کو اپنے اوپر بھی لاگو کریں اور دنیا میں بھی رائج کریں۔ اس کے لیے جو کوشش ہے وہ تو ہم نے ہی کرنی ہے۔کسی پہ اچھا اثر پڑتا ہے یا نہیں پڑتا آپ کی نیت نیک ہونی چاہیےاوراللہ تعالیٰ سے دعا بھی مانگیں کہ اللہ !میری نیت تو نیک ہے اگر کسی کے دل میں اس نصیحت کو سن کرکوئی غلط قسم کا خیال آتا ہے تو اللہ تعالیٰ مجھے بھی معاف فرمائے،اس کو بھی معاف فرمائے اور اس کو اور مجھے بھی ان باتوں پہ عمل کرنے کی توفیق دے۔ہم یہی کر سکتے ہیں۔ باقی چھوٹے موٹے شکوے تو بعضوں کو ہوتے ہی ہیں اس لیے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔لجنہ کی عہدیدار بھی نیک نیتی سے نصیحت اورکام کریں اور مرد بھی نیک نیتی سے نصیحت اورکام کریں تو اوّل تو آپ سارے لوگ خود بھی بہترہو جائیں گے ورنہ کم از کم اگلی نسل تو بہتر ہو ہی جائے گی۔انشاء اللہ تعالیٰ۔
ایک سوال کیا گیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کے مطالعہ سے علم ہوتا ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر پر عام روزمرہ کے کاموں میں اہل خانہ کا ہاتھ بٹاتے تھے۔ دیکھا گیا ہے کہ اکثر مرد گھر پر اہل خانہ کی مدد نہیں کرتے۔ اس بارے میں حضور ہماری راہنمائی فرمائیں۔
اس پر حضور انورنے فرمایاکہ ابھی تک اتنی راہنمائی جوتقریروں میں کرتا رہتا ہوں،لجنہ کے جلسوں کی تقریروں میں بھی،اجتماعوں پہ بھی وہ کافی نہیں ہوتی؟ جس مرد نے سننا ہی نہیں ہے اس کو مَیں کیا کہہ سکتا ہوں؟ جو مرد نماز پڑھنے کا اور قرآن پڑھنے کا اللہ اور رسول کا حکم نہیں مانتا، اس نے میری کیا بات ماننی ہے؟
مَیں تو ہمیشہ نصیحتیں کرتا رہتا ہوں اور بتاتا رہتا ہوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کیاکرتے تھے آپؐ کے اسوہ پر چلنا ضروری ہے۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہےکہ اگر تم لوگوں نے ترقی کرنی ہے توآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ پر چلو۔ بہت سارے مرد مدد کرتے ہیں ۔ ابھی میں نے بچوں کی تربیت کے بارے میں کہا ہے کہ دونوں کو اپنے نمونے دکھانے ہوں گے۔گھروں کے ماحول کو خوشگوار رکھیں گے تو نمونے قائم رہیں گے۔اور خوشگوار اسی صورت میں ہو سکتے ہیں کہ جہاں مجبوری ہے وہاں مرد کو عورت کا ہاتھ بٹانا چاہیے اور اگر نہیں بٹاتے تو غلط کرتے ہیں۔
جہاں تک نصیحت کا سوال ہے تونصیحتیں پہلے بھی بےشمار کی جا چکی ہیں،ہوتی بھی رہتی ہیں اور آئندہ بھی ہوتی رہیں گی۔ بہرحال یہ دعا کیا کریں کہ آپ کے مرد ان نصیحتوں پہ عمل کرنے والے ہوں،اللہ تعالیٰ آپ کے خاوندوں کو عقل دے۔ خود بھی دعا کریں اور اپنے حق ادا کریں۔شاید کسی کو شرم آجائے۔سوائے اس کے کہ کوئی بہت ہی بے شرم ہو تو نہیں آئے گی باقی تو آ ہی جائے گی۔
ایک سوال کیا گیا کہ ہم کس طرح لجنہ اماء اللہ ڈنمارک کو پنجوقتہ نمازوں،روزانہ تلاوت قرآن پاک، خدمت دین و خدمت خلق کی طرف توجہ دلائیں کہ کامیابی کی شرح سو فیصد ہو جائے؟
اس پر حضور انورنے فرمایاکہ اگر سو فیصد ہو جائے تو کیا اس کے بعد آپ آرام سے بیٹھ جائیں گے؟پھر اس کو maintainکرنا پڑے گا۔اس کے لیے کوشش کرنی پڑے گی۔ انسان پر اتار چڑھاؤ آتا رہتا ہے۔اسی لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں بھی فرمایا کہ تم نصیحت کرو اور نصیحت کرتے چلے جاؤ۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی یہی حکم تھا۔سارے مسلمان یا صحابہ ؓآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی ایک معیار کے تو نہیں تھے۔ ان میںکمزوریاں بھی ہوتی تھیں لیکن پھر بھی ہمارے لحاظ سے ان کے معیار بہت بلند تھے۔
قرآن شریف نے جو حکم دیے وہ اس لیے دیے کہ کمزوریاں اور اتار چڑھاؤ آتے رہیں گے۔ہمارا کام یہ ہے کہ نصیحت کرتے چلے جانا، کوشش کرتے چلے جانا اور سو فیصد ٹارگٹ کو حاصل کرنے کی کوشش کرنااور ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ سےدعا بھی کرنا ۔ اگرسو فیصد شرح نہیں بھی ہے توکم ازکم نمازیں پڑھنے والے تو سو فیصد ہونے چاہئیںیہ تو مسلمان کاکم از کم معیار ہے۔پھر قرآن شریف پڑھیں گی اس پر عمل کریں گی۔
اصل میں دنیا داری زیادہ ہو گئی ہے۔ہم گھر آ کر کہتے ہیں relaxکرنا ہے اوردو گھنٹے بیٹھ کے ٹی وی کے ڈرامے دیکھتے رہتے ہیں یا اَور ٹی وی کے پروگرام دیکھیں گے یا انٹرنیٹ پہ بیٹھ کے فضول قسم کی باتیں دیکھتے رہتے ہیں۔ہمارے بعض مرد بھی گھر آ کر ایسے کرتے ہیں۔اگر وہ چاہیں تو آدھا پون گھنٹہ دینی علم حاصل کرنے کی کوشش کریں تو ان کے بھی کام آئے گا ،ان کی اولاد کے بھی کام آئے گا اور ان کے اخلاق بھی بہتر ہوں گے۔اور اگرنیکی کی طرف توجہ پیدا ہو گی تو جو پہلی خاتون نے سوال کیا تھا کہ گھر کے کام نہیںکرتے اس طرف بھی توجہ پیدا ہو جائے گی۔ لجنہ اور مردوں دونوں کو مل کر کوشش کرنی چاہیے۔اسی طرح لجنہ کو یہ کوشش کرنی چاہیے کہ وہ اپنےگھر کے مردوںکو اگر وہ نماز نہیں پڑھ رہےتوتوجہ دلاتے رہیں کہ نماز پڑھو۔ان کو تلاوت کی طرف توجہ دلائیں۔ان کے توجہ دلانے سے ان کے بچوں میں لڑکوں اور لڑکیوں میں بھی توجہ پیدا ہو گی۔
پھر ایک عمر تک بچوں کی تربیت پر ماں کا زیادہ اثر ہوتا ہے۔ اس میں اگر ان کو عادت ڈال دیں تو کم از کم آئندہ نسل تو سنبھالی جائے گی۔نمازیں پڑھنے والے بھی ہوں گے،قرآن پڑھنے والے بھی ہوں گے،جماعت کا کام کرنے والے بھی ہوں گے، خدمت خلق کرنے والے بھی ہوں گے۔اس طرف توجہ دلائیں کہ کم از کم اگلی نسلوں کو سنبھالیں۔
short term planنہ کریں ۔ ایک تو short term planہے ،تھوڑے عرصہ کا پلان ،کہ ابھی جو موجودہ لجنہ اورناصرات ہیںان کو کس طرح ٹھیک کرنا ہے۔پھریہ بھی سوچنا چاہیے کہ ان کی اچھی تربیت کر کے ہم نے اگلی نسل کو کس طرح سنبھالنا ہے۔جو ترقی کرنے والی جماعتیں ہوتی ہیں وہ لمبے عرصے کے planبھی بناتی ہیں۔ پھر یہ دیکھیں اگلی نسلوں کی ہم نے کس طرح تربیت کرنی ہے تا کہ وہ دین سے جڑی رہیں اور دین کا علم سیکھیں اور اللہ تعالیٰ کی عبادت گزار بنیں۔ مسلسل کوشش ہے، کوشش کے بغیر کچھ نہیں ہوتا۔ یہ نہیں ہے کہ اب ہم نےسو فیصد achieveکر لیا تو ہم بیٹھ جائیں گے۔ایک مومن کوبیٹھنے کا کوئی نہیں وقت ملتا۔اس کی زندگی تو بس ہر وقت struggle, struggle, struggleہے۔
ایک سوال کیا گیا کہ حضور ہماری راہنمائی فرمائیں کہ عائلی زندگی میں سسرال کا کیا کردار ہونا چاہیے؟ بہوؤں کے فرائض کس حد تک ہیں اور کیا بہوؤں پر سسرال کی خدمت فرض ہے؟
اس پر حضور انورنے فرمایا کہ ابھی پچھلی [ملاقات]میں ہی کسی نے سوال کیا تھا تو میں نے کہا تھا کہ جب اپنے لڑکا لڑکی کو بیاہ دیتے ہیں تو پھر ماں باپ کو دخل اندازی نہیں کرنی چاہیے۔ ان کو عقل کرنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ تو کہا ہے کہ ماں باپ کی عزت کرو ،خدمت کرو،ان کو اُف نہ کہو۔ لیکن یہ نہیں کہا کہ ماں باپ بہوؤں پہ ظلم کرتے رہیں اور پھر خاوند بھی بجائے ماں باپ کو سمجھانے کےالٹا اپنی بیوی پہ ظلم کر ے۔
اس کا طریقہ یہ ہے کہ جب رشتہ کرنا ہے تو اللہ تعالیٰ سے دعا کر کے رشتہ کرنا چاہیے۔ ماں باپ کو بھی کہو کہ آپ دعا کر لیں، لڑکا بھی دعا کر لے ،لڑکی بھی دعا کر لے اور کہہ دیں کہ اگر رشتہ قائم ہو جاتا ہے تو پھر یہ نہیں ہے کہ کل کو دخل اندازیاں کر کے مجھے رشتہ توڑنے اور چھوڑنے پہ مجبور کریں۔پہلی چیز تودعا ہے اور اس کے لیے استخارہ بھی کرنا چاہیے۔اللہ تعالیٰ سے خیر بھی مانگنی چاہیے کہ جو رشتہ ہے وہ اچھا اور خیر والا رشتہ ہو۔ صرف محبت اور عشق کا رشتہ نہیں ہونا چاہیے بلکہ اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے والا رشتہ بھی ہونا چاہیے۔یہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم صرف کسی کا حسن دیکھ کے، اس کی دولت دیکھ کے،اس کا خاندان دیکھ کے رشتہ نہ کرو بلکہ دین دیکھ کے رشتہ کرو۔
عورتوں اور مردوں کو،لڑکوں اور لڑکیوں کو اگر ماں باپ تربیت کر کے یہ احساس دلا دیں کہ دین دیکھ کر رشتہ کرنا ہے تو ماں باپ کی اپنی بھی اصلاح ہو جائے گی اور لڑکا لڑکی جو رشتہ کر رہے ہیں ان کی بھی اصلاح ہو جائے گی اور وہ دین کو مقدم کرنے والے ہوں گے۔
کھڑے ہو کے عہد دہرا دینا کہ ہم دین کو دنیا پہ مقدم رکھیں گے اس کا کوئی فائدہ نہیں۔اصل چیز تویہ ہے کہ اپنے عمل سے ثابت کرنا ہو گا کہ آپ نے دین کو دنیا پر مقدم کیا ہے کہ نہیں۔اور اس میں شادی شدہ لوگوں کے لیے بھی ایک ہدایت یہ ہے کہ بجائے دنیاوی باتیں دیکھنے کےوہ دین دار لڑکی تلاش کریں اور لڑکی دین دار لڑکے کو تلاش کرے۔
پھر ماں باپ کو بھی جہالت نہیں دکھانی چاہیے۔ان کو بھی برداشت کرنا چاہیے اور بہو کو بھی آ کر بلا وجہ ضدی نہیں ہونا چاہیے اور چھوٹی چھوٹی باتوں پہ ساسوں یا نندوں سے لڑائی نہیں کرنی چاہیے ۔
اوّل تو سوائے اشد مجبوری کے کہ ماں باپ بہت بوڑھے ہیں اور ان کے ساتھ رہنا ضروری ہے، کوئی اَور بچہ ساتھ نہیں ہے تو پھر اکٹھے رہنے میں کوئی ہرج نہیں ۔لیکن عموماً شادی کے بعد لڑکا اور لڑکی کو اپنا علیحدہ گھر لینا چاہیے۔
پھر کہتے ہیں کہ یہاں مہنگائی بڑی ہے،کرائے پہ مکان لینا بڑا مشکل ہے، ہم affordنہیں کر سکتے ،اس لیے ماں باپ کے ساتھ ایک کمرے میںرہتے ہیں ۔ جب رہتے ہیں تو پھر جس طرح پنجابی میں کہتے ہیں کہ برتن قریب پڑے ہوں تو ایک برتن کو اٹھاؤ تو دوسرے سے ٹکرا جاتا ہے اورٹھک کی آواز آتی ہے تو اس طرح ساس اور بہو کی بھی ٹھک ٹھک کی آوازیں آتی رہتی ہیں اور نند اور بھابھی کی بھی ٹھک ٹھک کی آوازیں آتی رہتی ہیں۔ ایسی صورت میں پھر عقل استعمال کرنی چاہیے۔ صرف برتن بن کے نہ رہیں بلکہ ساروں کواخلاق دکھا کر انسان بن کے behaveکرنا چاہیے۔یہ تو تربیت کا اثر ہے ۔
عائلی مسائل اور ان کا حل پر مَیں نے جو مختلف تقریریں کی ہوئی ہیں وہ لجنہ نے compileکر لی تھیں،اس کا انگلش ترجمہ بھی ہو چکا ہے، وہ اپنی لجنہ کو پڑھنے کے لیے دیں، اپنی ساسوں کو پڑھنے کے لیے دیں۔اردو میں ہے۔اوّل تو ساروں کو انگلش آتی ہے۔اگرنہیں آتی تو ڈینش میں ترجمہ کریں۔ اب ہر لجنہ یہ کتاب پڑھے تو آپ ہی آپ کے مسائل حل ہو جائیں گے۔ مَیںتو آپ کواتنی موٹی کتاب ’’عائلی مسائل اور ان کا حل‘‘ دے چکا ہوں۔اس پہ عمل کریں۔
ایک سوال کیا گیا کہ لجنہ اماءاللہ کی ممبرات اپنی ذہنی اور جسمانی صحت کا کس طرح خیال رکھ سکتی ہیں اور اپنی فیملی کو کس طرح motivateکر سکتی ہیں؟
اس پر حضور انور نے فرمایا کہ راتیں چونکہ لمبی ہیں اس لیے دن کا آغاز نماز تہجد سے کرنا چاہیے، پھر کچھ دیر تازہ ہوا میں ورزش کرنی چاہیے، پھر فجر کی نماز اور قرآن کریم کی تلاوت کرنی چاہیے۔ ایسا کرنے سے علم بھی بڑھے کا اورصحت بھی بہتر ہو گی۔
حضور انور نے فرمایا کہ جو باہر کھلی ہوا میں سیر کے لیے جا سکتی ہیں انہیں جانا چاہیے نیز فرمایا کہ مسجد کے احاطے میں لجنہ کے لیےexerciseاور گیمز کھیلنے کے لیے الگ انتظام ہونا چاہیے جہاں ان کے پروگرام منعقد ہوں۔اس سے ان کی ذہنی اور جسمانی صحت بھی بہتر ہو گی۔
حضور انور نے فرمایا کہ انسان کو اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنا چاہیے،اس کے حکموں پر عمل کرنا چاہیے کیونکہ یہ چیز اس کی روحانی حالت کو بہتر کرے گی۔
ایک ممبرلجنہ اماء اللہ نے سوال کیا کہ گورنمنٹ کی طرف سے نقاب پہننے پر پا بندی ہے۔لیکن بعض خواتین مسجد،شادی یا کسی اور تقریب میں شمولیت کےوقت میک اپ (makeup)کرتی ہیں۔اس حوالے سے حضور کیا راہنمائی فرمائیں گے؟
اس پر حضور انور نے فرمایا کہ کیا مسجد آتے وقت میک اپ کرنا لازمی ہے؟ایسے مواقع پر میک اَپ کرنا چھوڑا بھی جاسکتا ہے۔یا پھر اگر اتنا ضروری ہے تو اپنے ساتھ ایک چھوٹا شیشہ رکھ لیں اور وہیںفنکشن پہ lipstickلگا لیا کریں۔
حضور انورنے فرمایا کہ جو مسجد آتی ہیں وہ دینی پروگرام میں شامل ہونے کے لیے آتی ہیں نہ کہ اپنا میک اپ دکھانے۔
ملاقات کے آخر میں حضور انور نے تمام شاملین کو فرمایا السلام علیکم ورحمۃ اللہ۔