حضرت مصلح موعود ؓ

قرآن کریم دنیا کے ہر ذہنی تغیر کے لئے کافی ہے (قسط دوم۔ آخری)

(خطبہ جمعہ سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی المصلح الموعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمودہ ۱۵؍ اکتوبر۱۹۴۳ء بمقام ڈلہوزی)

مَاۤ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِهٖ کے تیسرے معنی یہ ہیں کہ نبی اس زبان میں بات کرتا ہے جسے اس زمانہ کے لوگ سمجھ سکتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس وقت کے لوگوں کی جو عقلی،علمی اور ذہنی حالت ہوتی ہے اس کے مطابق نبی کلام کرتا ہے۔ ہر زمانہ میں لوگوں کی علمی اور عقلی حالت بدلتی رہتی ہے۔ باقی نبیوں کے لئے تو اس میں کوئی مشکل نہ تھی کیونکہ ان کا کلام اسی زمانہ کے لئے ہوتا تھا جس میں نبی مبعوث کئے جاتے تھے اور اس زمانہ کے لوگوں کی عقلی اور ذہنی حالت کے مطابق ہوتا تھا۔ لیکن اسلام کے لئے یہ امر مشکل تھا کیونکہ اسلام نے قیامت تک جانا تھا۔ اور اس وقت تک لوگ کئی زبانیں بولنے والے تھے۔ اسی بات کو مدنظر رکھتے ہوئے

رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ قرآن کریم کے سات بطن ہیں(تفسیر الطبری الجزء الاوّل صفحہ ۳۰تا۳۴۔ مطبوعہ مصر۱۹۵۴ء)

عام طور پر لوگوں نے اس حدیث کو پوری طرح نہیں سمجھا۔ اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ مختلف زبانوں کے تغیرات کے مطابق قرآن کریم کی آیات کے معنی کھلتے جائیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ پہلے لوگوں کو قرآن کریم کی کئی آیات کے وہ معنی نظر نہ آئے جو بعد میں تغیر آنے والے زمانہ کے لوگوں کو نظر آئے۔ اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے قرآن کریم کے جو نکات اور معارف نکالے وہ قرآن کریم میں نئی آیات داخل کر کے نہیں نکالے۔ آیات وہی تھیں۔ ہاں آپ پر اس زمانہ کے مطابق ان کا بطن ظاہر ہؤا۔ چونکہ زمانہ کے حالات بدلتے رہتے ہیں اور موجودہ زمانہ مذہب کے متعلق امن اور صلح کا زمانہ تھا اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے قرآن کریم سے امن کے احکام اور صلح کی تعلیم پیش فرمائی۔ یہ دوسرا بطن تھا جو اس زمانہ کے حالات کے مطابق آپ پر کھولا گیا۔

پس رسول کریم ﷺ نے جو یہ فرمایا کہ قرآن کے سات بطن ہیں

اس کے ایک معنی یہ ہیں کہ دنیا میں سات بڑے تغیرات آئیں گے اور ہر تغیر کے زمانہ میں لوگوں کے وقت بدل جائیں گے

اس وقت خداتعالیٰ قرآن کریم کے ایسے معنی کھول دے گا جو لوگوں کے اس وقت کے ذہنوں اور قلوب کو تسکین اور تسلی دینے والے ہوں گے۔ اس زمانہ میں بیسیوں مسائل ایسے ہیں جو ایسے رنگ میں کھلے ہیں کہ پہلے ان کی ضرورت اور اہمیت محسوس نہیں کی جا سکتی تھی۔ مثلاً آیات قرآنی کے نسخ کا مسئلہ ہے۔ پہلے ایسے وقت میں نسخ کا سوال پیدا ہؤا کہ اس وقت کے لوگوں کے نزدیک اس کی کوئی اہمیت نہ تھی کیونکہ ان کے سامنے رسول کریم ﷺ کا عمل تھا۔ پس باوجود نسخ کے عقیدہ کے یہ بات قرآن کریم کی سچائی کے معلوم کرنے پر روک نہ بن سکتی تھی لیکن جب ایسا زمانہ آیا کہ لوگ محمد رسول اللہ ﷺ کے زمانہ سے دور ہوئے اور دنیا کے ذہنی اور علمی تغیر کے مطابق قرآن کریم کی آیات کے معنی نہ کر سکے تو کہنے لگے یہ آیت بھی منسوخ ہے اور وہ آیت بھی منسوخ۔ اس وقت خداتعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو کھڑا کیا اور آپ نے ثابت کیا کہ قرآن کریم کی کوئی آیت منسوخ نہیں ہے اور جن آیات کو منسوخ قرار دیا جاتا تھا ان کے ایسے معنی بیان فرمائے جنہیں لوگوں کی عقلیں بآسانی قبول کر سکتی ہیں اور جو بآسانی ان کے ذہنوں میں آ سکتے ہیں۔ یہ ان آیات کا دوسرا بطن تھا جو خداتعالیٰ نے آپ پر کھولا۔

تو قرآن کریم کے سات بطن سے مراد سات عظیم الشان ذہنی اور عقلی اور علمی تغیرات ہو سکتے ہیں اور اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ ہر ایسے تغیر میں قرآن کریم قائم ہی رہے گا۔ کوئی یہ نہ کہہ سکے گا کہ ہمارے زمانہ کی ضروریات کو قرآن پورا نہیں کرتا۔ باقی الہامی کتابیں ایسی ہیں کہ جن کے متعلق کہہ سکتے ہیں کہ جب زمانہ بدلا اور دنیا میں تغیر آیا تو ان کتب میں جو کلام تھا اس کے وہ معنی نہ نکلے جو اس زمانہ کے ذہنوں کے مطابق ہوتے۔ اس لئے وہ قابلِ عمل نہ رہیں۔ مگرقرآن کریم کے متعلق خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ جوں جوں دنیا میں تغیر آتے جائیں گے اور لوگ قرآن پڑھیں گے تو اس زمانہ کی ضروریات کو پورا کرنے والا مفہوم اس میں سے نکلتا آئے گا اور لوگ تسلیم کریں گے کہ ہاں قرآن کریم ہی اس زمانہ کے لئے بھی کافی ہے۔ اور محمد رسول اللہ ﷺ ہی اس زمانہ کے لئے بھی رسول ہیں۔

پھر اَور تغیر ہو گا جس میں آج جو تفسیریں ہم لکھتے ہیں ان کے متعلق اس وقت کے لوگ کہیں گے یہ کیسی فرسودہ باتیں ہیں۔ تب خداتعالیٰ کا کوئی بندہ کھڑا ہو گا اور قرآن کریم سے ہی بتائے گا کہ قرآن اب بھی اسی طرح قائم ہے جس طرح پہلے زمانوں میں قائم تھا۔ اور قرآن کریم کے ایسے حقائق بیان کرے گا کہ یا تو پہلے مفسروں کی غلطی ثابت ہو جائے گی یا پھر اعتراض کرنے والوں کی غلطی نکل آئے گی۔

پھر رسول کریم ﷺ نے جو یہ فرمایا ہے کہ قرآن کے سات بطن ہیں اس سے ضروری نہیں کہ یہی مراد ہو کہ سات ہی بطن ہیں۔ بلکہ ہو سکتا ہے کہ دس، بیس، پچاس، سو، ہزار، دو ہزار بطن ہوں کیونکہ عربی میں سات کا لفظ تعدد پر دلالت کرتا ہے۔ خصوصاً کثرت پر۔ تو فرمایا قرآن کو ہم نے ایسا نازل کیا ہے کہ یہ ہر زمانہ کے لئے کافی ہو گا۔ اس میں ہر زمانہ کے خیالات پر بحث موجود ہو گی۔ اگر اس زمانہ کے لوگوں کے خیالات غلط ہوں گے تو ان کی تردید کی جائے گی اور اگر صحیح ہوں گے تو تائید کی جائے گی۔ تو قرآن کریم ہر زمانہ کے انکشافات کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

یہ آیت رسول کریم ﷺ کے خاتم النبیین ہونے کا بھی ایک ثبوت ہے۔ اگر کوئی ایسا زمانہ آئے جب قرآن کریم (نعوذ باللہ) دنیا کی اصلاح کے قابل نہ رہے تو یہ رسول کریمﷺ کے خاتم النبیین ہونے کا (نعوذ باللہ) ردّ ہو گا۔ لیکن

جب قرآن کریم ہر زمانہ کے لئے ہوگا تو رسول کریم ﷺ کی صداقت بھی ہر زمانہ میں ثابت ہوتی رہے گی

پھر خداتعالیٰ کا عزیز حکیم ہونا بھی انہی معنی کی تائید کرتا ہےنہ کہ ان معنوں کی کہ خداتعالیٰ نے عربوںمیں نبی بھیجا جو انہی کی زبان میں ان سے کلام کرتا تھا۔ کیونکہ عزیز حکیم کا یہ مفہوم نہیں ہو سکتا کہ خداتعالیٰ نے وہی بولی بولنے والا نبی بھیجا جو عرب بولتے تھے کیونکہ وہ عزیز حکیم ہے۔ بے شک یہ حقیقت ہے اور ضروری بات ہے کہ نبی وہ زبان بولے جو اس کی قوم کی زبان ہو مگر یہ کوئی فخر کی بات نہیں ہے۔ مثلاً کسی پشتو بولنے والے کے ساتھ مَیں گفتگو کرنے کے لئے میاں خان میر یا نیک محمد صاحب کو بھیج دوں تو گو یہ کہنا صحیح ہو گا کہ مَیں نے پشتو بولنے والے کے پاس پشتو بولنے والا ہی بھیجا۔ مگر میں اس پر فخر نہیں کر سکتا۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ مَیں خطبہ پڑھوں اور اس میں کہوں لوگو سنو مَیں ایسا سمجھدار انسان ہوں کہ یہاں ایک پٹھان آیا تھا مَیں نے اس سے گفتگو کرنے کے لئے پشتو بولنے والے کو بھیجا۔ اگر مَیں یہ کہوں گا تو سب لوگ ہنس پڑیں گے کہ یہ کون سی بیان کرنے والی بات تھی۔ ہر شخص ایسا ہی کرتا ہے۔ غرض صرف پہلے معنی کرنے اس جگہ درست نہیں کیونکہ وہ معنی خداتعالیٰ کے عزیز حکیم ہونے پر دلالت نہیں کرتے۔ عزیز اور حکیم کے الفاظ بتاتے ہیں کہ اس فعل میں دو باتیں پائی جانی چاہئیں۔ ایک تو حکمت۔ اور جیسا کہ مَیں نے بتایا ہے حکمت یہ ہے کہ ہر زمانہ کے مطابق اس کلام میں مفہوم پایا جائے گا اور دوسری بات ہے غلبہ۔ کیونکہ عزیز کا لفظ بتاتا ہے کہ وہ غالب ہستی ہے اور یہ غلبہ میرے بیان کردہ تیسرے معنوں کے رو سے ہی ظاہرہوتا ہے۔ یعنی خداتعالیٰ ہی غالب حکمت والا ہے کیونکہ وہی دنیا میں تغیرات آنے سے ہزار دو ہزار،چار ہزار سال پہلے جانتا تھا کہ یہ یہ تغیر پیدا ہو گا۔ اس لئے اسی نے اپنی حکمت کے ماتحت ایک ہی دفعہ ایسے الفاظ نازل کر دئیے جن سے ہر تغیر کے مطابق مفہوم نکلتا رہے گا۔ اور وہ الفاظ چار ہزار سال، دس ہزار سال بلکہ قیامت تک کے لئے کافی ہوں گے۔

پس ہر تغیر کے مطابق کلام میں مفہوم پیدا کرنا چونکہ ایک عزیز ہستی کا ہی کام ہو سکتا ہے اور قرآن کریم میں یہ خوبی پائی جاتی ہے۔ اس لئے معلوم ہؤا کہ وہ عزیز و حکیم ہستی کی طرف سے نازل ہؤا ہے۔ اور انسانی کلام نہیں ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ایک معیار ایسا بیان فرمایا ہے جس کے ذریعہ ہم پہلے انبیاء کے کلام کو سمجھ سکتے ہیں۔ اور پہلی نبوتوں کے حالات سمجھ سکتے ہیں۔ اورقرآن کریم کی اس عظیم الشان خوبی کو سمجھ سکتے ہیں کہ

ہر تغیر افکار کے وقت اس میں سے نیا مفہوم نکلے گا جو اس زمانہ کے لوگوں کے قلوب کی تسلی اور روحانیت کی ترقی کا باعث ہو گا

آج ہم نے دیکھا ہے کہ پرانی تفسیریں جن کو پڑھ کر پہلے لوگ سر دُھنتے تھے (اور ان میں اچھی باتیں بھی ہیں) مگر صفحے کے صفحے ان میں ایسے ملتے ہیں کہ جن کو پڑھ کر کہنا پڑتا ہے کہ کیا رطب و یابس بھر دیاگیا ہے۔ آخر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے آ کر وہ آیات جن کے معنی ایسے کئے جاتے تھے جو موجودہ زمانہ میں لوگوں کے لئے ٹھوکر کا باعث بن رہے تھے ان کے ایسے معنی پیش فرمائے جو ہمارے ذہن کے مطابق اور دنیا کے ذہن کے مطابق ہیں۔ اور دنیا کے موجودہ مفاسد کودور کرنے والے ہیں۔ مگر ہم نہیں کہہ سکتے کہ یہ آخری معنی ہیں۔ بے شک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام آخری خلیفہ ہیں۔ مگر دنیا میں ذہنی تغیرات ختم نہیں ہو سکتے۔ آج سے دو ہزار سال بعد ایسا تغیر ہو سکتا ہے کہ خداتعالیٰ کسی ایسے انسان کو کھڑا کرے جو اس تغیر کے مطابق قرآن کریم کی آیات کے معنی پیش کرے۔

پس یہ آیت ایک عظیم الشان مسئلہ پر دلالت کرتی ہے۔ اس کے صرف یہ معنی نہیں ہیں کہ نبی اسی زبان میں بولتے ہیں جس زبان میں ان کی قوم بولتی ہے کیونکہ یہ تو معمولی سی بات ہے۔ اور خداتعالیٰ کے لئے یہ کوئی فخر کی بات نہیں ہے۔ اس لئے لازماً اس آیت کے وہ معنی بھی ہوں گے جن میں خداتعالیٰ کا غلبہ اور حکمت پائی جائے۔ اور وہ معنی وہی ہیں جو مَیں نے بیان کئے ہیں۔ ان میں یہ دونوں باتیں پائی جاتی ہیں مگر ان معنوں کی بھی تردید نہیں کرنی چاہیے جو پہلے لوگ کرتے رہے ہیں ان کو بھی ماننا چاہیے۔ کیونکہ ان میں بھی صداقت پیش کی گئی ہے۔(الفضل ۱۱؍نومبر ۱۹۴۳ء)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button